بہو کے زیور رکھنا ٹارچر نہیں !

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سیکورٹی کے نظریے سے زیورات کو اپنے پاس رکھنا آئی پی سی کی دفعہ 498کے تحت جہیز کیلئے ٹارچر نہیں ہو سکتا ہے ۔جسٹس اندرا بنر جی اور جسٹس مہیشوری کی بنچ نے پنجاپ ہریانہ ہائی کورٹ کے ایک حکم کے خلاف اپیل پر سماعت کر تے ہوئے یہ قانونی رائے دی ہے۔ ہائی کورٹ نے امریکہ واپس جانے کی اجازت کیلئے عورت کے دیور کے ذریعے عرضی داخل کردی تھی ۔برسلین کی خاتون انو پریا شرما کی شادی ہندو رواج سے 20جنوری 2019کو میرن نتن شرما کے ساتھ ہوئی تھی نتن کے چھوٹے بھائی کا نام دیپک شرما ہے شادی کے بعد انو پریا اپنے شوہر کے ساتھ اکیلے ہی سفر کر امریکہ جانا پڑا نتن امریکہ میں 2009سے نوکر ی کر رہا تھا وہیں میاں بیوی میں کسی بات کو لیکر جھگڑا ہو گیا ۔انو پریا کا الزام تھا کہ اس کی ساس اور سسرال کے دوسرے لوگ اس پر زیا دتیاں کر رہے تھے ۔16اگست 2019کو انوپریا امریکہ سے واپس آئی اور اس نے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف متعدد دفعات میں ایف آئی آ ر درج کرا دی ساتھ ہی امریکہ کی ریا ست ٹکساس میں کام کررہے اپنے دیور دیپک شرما کو بھی ملزم بنا یا ۔ ہائی کورٹ نے امریکہ واپس جانے کیلئے دیپک کی عر ضی خارج کر دی اس اپیل میں مختصر سوال یہ تھا کہ کیا اپیل کنند ہ دیپک شرما کے جائز پاسپورٹ ،ویزا اور دیگر ضروری سفری دستاویزات کے بیرن ملک دورہ کرنے کی شخصی آزادی سے اس کے بنیا دی حق سے محروم کیا جا سکتاہے؟ وہ بھی صر ف اس لئے کہ اسے اس کی بھائی کی بیوی کے ذریعے ایک معاملے میں ملزم بنا یا گیا ہے جس میں اپیل کنندہ کے بھائی ماں ،پاپ کے خلاف بھی شکایت درج کرائی گئی ہے۔ وہ تب جب شکایت کسی بھی مجرمانہ واقعہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے سپریم کورٹ نے پایا کہ دیپک شرما کے خلاف اتنا الزام تھا اس نے اپنے اور اس کی ماں نے انو پریا کے زیور اپنے پاس رکھے تھے ۔عدالت نے یہ بھی پایا کہ انو پریا نے یہ الزام بھی نہیں لگایا تھا کہ اس کے زیور زبردستی لئے تھے اور ان کا بے جا استعمال کیا یا مانگنے پر بھی واپس نہیں کئے ۔دفعہ 498aکے تحت زیوروں کو حفاظت سے رکھنے کیلئے پریشان کر نا نہیں مانا جا سکتا۔اس طرح بنچ نے دیپک شرما پر نچلی عدالت کے ذریعے لگائی گئی یہ شرط واپس لے لی کہ عدالت کی اجا زت کے بغیر وہ دیش نہیں چھوڑ سکتا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟