اشاعتیں

دسمبر 9, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نہیں رہے بھارت کے انمول رتن پنڈت روی شنکر

بھارتیہ شاستری سنگیت کومغربی ممالک سمیت پوری دنیا میں مقبولیت دلانے والے مہان ستاروادک اور کمپوزر پنڈت روی شنکر نہیں رہے۔ ستار کے اس سرتاج کا امریکہ کے شہر سینڈڈیگو میں ہندوستانی وقت کے مطابق صبح6 بجے دیہانت ہوگیا۔ وہ92 برس کے تھے۔ پنڈت روی شنکر کے سازوں کے جادو کا اثر یہ تھا کہ دی ویلز جارج ہیری سن اور یہودی مینوہن جیسی سرکردہ شخصیات بھی ان سے زبردست متاثر تھیں۔ مغربی ممالک میں ہر گھر میں پہچان بنا چکے پہلے ہندوستانی تھے پنڈت روی شنکر ایک مکمل میوزک ماہر تھے اس لئے انہوں نے سنگیت کو کسی شیلی دھارا یا جغرافیائی حد کے اندر باندھ کر نہیں رکھا۔ سیکھا اور رچا۔ تاعمر مختلف شیلیوں کے انداز سے ملاتے ہوئے اپنے ستار کو زندہ رکھا۔ عالمی سنگیت میں بھارت کے وقار کو بنائے رکھا۔ یوں تو پنڈت روی شنکر نے میہر گھرانے کے استاد الاؤالدین خاں سے باقاعدہ ہندوستانی شاستری سنگیت میں ستار کی تعلیم لی تھی۔ مگر جلد ہی انہوں نے لوک سنگیت اور پاشچتے سنگیت وغیرہ کو جوڑ کر نئے تجربے کئے۔ اس میں انہیں آل انڈیا ریڈیو کی نوکری کرتے وقت زیادہ آسانی ہوئی۔ حالانکہ ان کے سنگیت کا سفر اپنے بھائی اور مشہور ڈانسر ادے شنک

اور اب آئی سی یو میں گھس کر گولیاں داغیں

گوڑ گاؤں میں ایک ہسپتال میں ہوئی فائرنگ نے چونکادیا ہے۔ ایسے پہلے شاید کبھی ہوا ہے کہ ہسپتال کے آئی سی یو میں گھس کر مریضوں پر گولیاں چلائی گئی ہوں؟ مگر ایسا ہوا ہے گوڑ گاؤں کے سن رائس ہسپتال میں۔ باپ بیٹے آئی سی یو میں بھرتی تھے اس سے پہلے دونوں گروپوں میں مار پیٹ ہوئی۔ مارپیٹ میں ستبیر نامی شخص شدید طور سے زخمی ہوگیا۔ ستبیر کا بیٹا جوگیندر عرف جانی اسے گاؤں کے ہی ہسپتال میں لے گیا۔ اس کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اسے آئی سی یو میں منتقل کیا جارہا تھا کہ اسی وقت دوسرے گروپ کے 8-9 لوگوں نے باپ بیٹے پر تابڑ توڑ پانچ گولیاں برسا دیں۔ پولیس کے مطابق جوگیند کے سر اور پیر میں گولیاں لگی ہیں اور ستبیر کے کندھے میں۔ مارپیٹ کے دوران اس کے سر میں شدید چوٹیں آئیں ہیں۔ ڈی سی پی نے بتایا کھانڈسا گاؤں میں ڈیڑھ سال پہلے جوگیندر اور منوج میں پراپرٹی کو لیکر جھگڑا شروع ہوا تھا۔ اس میں منوج کی شکایت پر جوگیندر اور اس کے چچیرے بھائی کے خلاف اقدام قتل کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ منگل کو سماعت کے دوران دوسرے گروپ کے لوگوں نے ان پر جان لیوا حملہ کردیا۔ زخمی باپ بیٹے اب می

ہر فتویٰ سب پر نافذ نہیں:اسلامی دانشور

بازو پر ٹیٹو ہے تو نماز جائز نہیں ہے۔مسلم خاتون استقبالیہ میں نہیں بیٹھ سکتیں، موبائل فون پر مقدس قرآن پاک کی آیتیں لوڈ نہیں کی جاسکتیں۔ یہ کچھ ایسی فتوے ہیں جن کو لیکر حالیہ دنوں میں کئی سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ جسم پر گدوائے جانے والے ٹیٹو کو مسلمانوں کے لئے مفتی کرام نے غیر شرعی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ٹیٹو بنوانے سے جسم کی کھال پر خاص سیاہی آجاتی ہے جس پر وضو کا پانی بھی اثر نہیں کرتا۔درالعلوم کے فتوے کے محکمے سے ایک شخص نے یہ سوال پوچھا تھا کیا وہ ٹیٹو گدوا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے ایک دوسرے فتوے میں مسلم خواتین کو استقبالیہ دفتر میں مقرر کئے جانے کے خلاف ایک فتوی جاری کرتے ہوئے اسے غیرشرعی اور ناجائز قراردیا ہے۔ پاکستان میں واقع ایک کمپنی نے دیوبند سے پوچھا تھا کیا وہ ایک مسلم عورت کو استقبالیہ ملازم مقرر کرسکتی ہے۔ اس کے جواب میں 29 نومبر کو فتویٰ ملا جس میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کسی ادارے یا کسی مفتی کی طرف سے جاری کیا گیا فتوی کیا سبھی مسلمانوں پر نافذ ہوگا؟ دیش کے بڑے مسلم عالموں کی مانیں تو ہر فتوی سبھی پر نافذ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ حوالہ اور حالاتِ خاص پر

اور اب آئی سی یو میں گھس کر گولیاں داغیں

گوڑ گاؤں میں ایک ہسپتال میں ہوئی فائرنگ نے چونکادیا ہے۔ ایسے پہلے شاید کبھی ہوا ہے کہ ہسپتال کے آئی سی یو میں گھس کر مریضوں پر گولیاں چلائی گئی ہوں؟ مگر ایسا ہوا ہے گوڑ گاؤں کے سن رائس ہسپتال میں۔ باپ بیٹے آئی سی یو میں بھرتی تھے اس سے پہلے دونوں گروپوں میں مار پیٹ ہوئی۔ مارپیٹ میں ستبیر نامی شخص شدید طور سے زخمی ہوگیا۔ ستبیر کا بیٹا جوگیندر عرف جانی اسے گاؤں کے ہی ہسپتال میں لے گیا۔ اس کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اسے آئی سی یو میں منتقل کیا جارہا تھا کہ اسی وقت دوسرے گروپ کے 8-9 لوگوں نے باپ بیٹے پر تابڑ توڑ پانچ گولیاں برسا دیں۔ پولیس کے مطابق جوگیند کے سر اور پیر میں گولیاں لگی ہیں اور ستبیر کے کندھے میں۔ مارپیٹ کے دوران اس کے سر میں شدید چوٹیں آئیں ہیں۔ ڈی سی پی نے بتایا کھانڈسا گاؤں میں ڈیڑھ سال پہلے جوگیندر اور منوج میں پراپرٹی کو لیکر جھگڑا شروع ہوا تھا۔ اس میں منوج کی شکایت پر جوگیندر اور اس کے چچیرے بھائی کے خلاف اقدام قتل کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ منگل کو سماعت کے دوران دوسرے گروپ کے لوگوں نے ان پر جان لیوا حملہ کردیا۔ زخمی باپ بیٹے اب می

کیا لابنگ کے نام پررشوت یا دلالی دی گئی ہے؟

خوردہ کاروبار میں سرمایہ کاری کے اپنے فیصلے پر پارلیمانی اکثریت کا انتظام کرنے کے لئے یوپی اے حکومت نے کیسی کیسی ترکیبیں اپنائیں اور کچھ پارٹیوں میں ووٹنگ نے وقت کس طرح سے پینترے بدلے۔ اس کی بحث ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور تنازعے نے طول پکڑ لیا ہے۔ خبر ہے کہ امریکہ کی بڑی کمپنی والمارٹ نے خوردہ کاروبار میں سرمایہ کاری کی اجازت کی خاطر لابنگ کی مد میں پچھلے چار برسوں میں 250 لاکھ ڈالر یعنی قریب سوا سو کروڑ روپے خرچ کئے۔ غور طلب ہے کہ یہ کسی کا الزام نہیں بلکہ یہ حقیقت خود والمارٹ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے جو اس نے امریکی سینیٹ کو سونپی ہے۔ 300 ارب ڈالر سے زائد کے ہندوستانی خوردہ بازار پر نظر رکھنے والی والمارٹ نے اپنے حق میں گول بندی کرنے کے لئے سواسو کروڑ روپے پھونک دئے۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی بھی طرح بھارت کا بازار اس کے لئے کھول دیا جائے۔ بیشک یہ اپنے کاروباری مفادات کی تکمیل کے لئے خرچ کی گئی رقم ہے اور امریکہ میں اس طرح کی لابنگ کو اجازت حاصل ہے۔ مگر بھارت میں والمارٹ کی بے تابی اور طور طریقے مشتبہ لگے ہیں۔ لابنگ اور کمیشن ایجنٹ شپ بھارت کو پوری طرح ممنوع ہے۔ یہاں اس کا مطلب سید

اور اب سرکاری نوکریوں میں ترقی کا پینچ پھنسا

سرکاری ملازمتوں میں ترقی میں بھی ایس سی ایس ٹی کو ریزرویشن کا اشو سرکار کے لئے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ جہاں بہوجن سماج پارٹی نے دو تین دنوں کے اندر اس کے لئے آئینی (ترمیمی) بل پارلیمنٹ میں پیش نہ کرانے پر سرکار کے خلاف کسی حد تک جانے کی دھمکی دے ڈالی ہے وہیں سماجوادی پارٹی اس بل کو کسی بھی قیمت پر پاس نہ ہونے دینے کی بات کہہ رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کی وجہ سے ترقی میں ریزرویشن سے متعلق بل کو حکومت راجیہ سبھا میں پیش نہیں کرپائی۔ وزیر مملکت پرسنل نارائن سوامی نے اس پر بحث شروع کرنے کی کوشش کی لیکن سپا کی زور دار مخالفت کے سبب کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ سرکاری نوکریوں میں درجہ فہرست ذاتوں و قبائلی طبقات کو ترقی پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہونا کوئی غیر متوقعہ بات نہیں ہے۔ اس کے پورے آثار تھے یہ بھی صاف تھا کہ جہاں بہوجن سماج پارٹی اس بل کو ہر حال میں پاس کروانا چاہے گی وہیں سماجوادی پارٹی ایسا نہ ہونے دینے کے لئے پورا زور لگادے گی۔ آخر کار ایسا ہی ہوا اور اسکے چلتے پارلیمنٹ ہنگامے کا شکار ہوگئی۔ لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر زور زبردستی کی سیاست کی جائے یا ووٹ بینک کی سیاست کے حساب سے ف

کرناٹک میں بری پھنسی بھاجپا ادھر کنواں تو ادھر کھائی

جنوبی ہندوستان میں بھاجپا کو پہلی بار اقتدار دلانے والے دبنگ لیڈر بی ایس یدی یروپا کے آخر کار پارٹی سے بغاوت کر نئی پارٹی کے اعلان کے بعد کرناٹک میں بھاجپا سرکار پر عدم استحکام کے بادل منڈرانے لگے ہیں۔ آج ایک بار پھر کرناٹک میں بھاجپا کو اپنے کو دوراہے پر کھڑا پا رہی ہے۔ آج جب پورے دیش میں ممکنہ سیاسی تصویر کی بات ہورہی ہے اور بھاجپا مرکز میں اقتدار میں آنے کا خواب لے رہی ہے ایسے وقت میں کرناٹک میں اس کی سرکار کے مستقبل کو لیکر قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ایتوار کو یدی یروپا کی کرناٹک جنتا پارٹی کی ریلی میں بھاجپا کے 13 ممبران کے شامل ہونے کے بعد کھلبلی مچ گئی ہے۔ 224 نفری اسمبلی میں بھاجپا سے118 ممبر ہیں جبکہ کانگریس کے71 ، جنتا دل (ایس ) کے 26 اور 7 آزاد ممبران ہیں۔ بھاجپا سے 13 ممبران کے نکل جانے کے بعد ان کی تعداد105 رہ جائے گی۔ یہ اکثریت کے نمبر سے کافی کم ہے۔ کرناٹک میں بھاجپا کی مشکل یہ ہے کہ باغی اپنے اوپر کارروائی کرنے کی پارٹی لیڈر شپ کو کھلی چنوتی دے رہے ہیں ،وہیں پارٹی کو یہ بھی پتہ ہے کہ اگر ڈسپلن شکنی کا ڈنڈاچلایا گیا تو سرکار کا گرنا طے ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر کے مط

زی گروپ پر بھاری پڑتے نوین جندل

زی نیوز بنام نوین جندل معاملے میں جندل بھاری پڑتے نظر آرہے ہیں۔ جہاں سدھیر چودھری اور سمیر اہلووالیہ تہاڑ جیل میں بند ہیں اور دو بار ان کی ضمانت مسترد ہوچکی ہے وہیں مالک سبھاش چندرا اور ان کے بیٹے پنیت گوئنکا کو تھوڑی مشقت کے بعد راحت مل گئی ہے۔ دہلی کی میٹرو پولیٹن عدالت نے والد و بیٹے کو انترم راحت دیتے ہوئے ان کی گرفتاری پر14 دسمبر تک روک لگادی ہے۔ عدالت نے سبھاش چندرا اور زی انٹرٹینمنٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر گوئنکا کو جانچ میں شامل ہونے اور تعاون کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جانچ کرنے والی دہلی پولیس کو بھی عدالت نے ہدایت دی کہ وہ14 دسمبر کو ایک تازہ رپورٹ دائر کرے۔ عدالت نے چندرا اور گوئنکا کو بھی ہدایت دی کے وہ پولیس کے پاس اپنا پاسپورٹ جمع کرادے۔ ایڈیشنل سیشن جج راج رانی مترا نے کہا میں نے بڑی توجہ سے بحث سنی ہے اور میرے سامنے رکھے گئے دستاویزات کا بھی مطالع کرتے ہوئے معاملے کے حالات اور سنجیدگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بچاؤ وکیل اس بارے میں کوئی نتیجہ نہیں پہنچا ہے۔ عرضی گذاروں کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ ضروری ہے یا نہیں۔جس طرح سے یہ معاملہ ابھی تک چلا ہے اس میں

ابھی لمبی ہے ایف ڈی آئی کی راہ!

والمارٹ نے امریکی سینیٹ کو دی گئی اپنی رپورٹ میں قبول کیا ہے کہ اس نے بھارت میں سرمایہ کاری اور دیگر لابنگ سرگرمیوں پر اس نے2008 ء سے 2.5 کروڑ ڈالر یعنی (تقریباً125 کروڑ روپے) خرچ کئے ہیں۔ اس میں بھارت میں ایف ڈی آئی پر بحث سے متعلق اشو بھی شامل ہے۔ سہ ماہی کے دوران والمارٹ نے امریکی سینیٹ اور امریکی ایوان نمائندگان، امریکی ٹریڈ انجمن اور امریکی محکمہ خارجہ کے سامنے اپنے معاملے میں لابنگ کی ہے۔ امریکہ میں کمپنیوں کو کسی معاملے میں محکموں یا ایجنسیوں کے سامنے لابنگ کی اجازت تو ہے لیکن لابنگ پر ہوئے خرچ کی رپورٹ سہ ماہی کی بنیاد پر سینیٹ میں دینی ہوتی ہے۔ ادھر جیسی امید تھی امریکہ نے ایف ڈی آئی کو منظوری دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ۔ اس نے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اشتراک مزید مضبوط ہوگا۔ موصولہ اشاروں سے لگتا ہے کہ دہلی میں سب سے پہلے والمارٹ اپنے اسٹور کھولے گی۔ دہلی سرکار نے سب سے پہلے ایف ڈی آئی کے لئے اپنا ماڈل ایکٹ تیار کرلیا ہے۔ دہلی کیبنٹ کی منظوری ملتے ہیں اس ماڈل ایکٹ کو مرکزی سرکار کو بھیج دیا جائے گا۔ مرکز کی ہری جھنڈی ملتے ہیں دہلی غیر ملکی خوردہ اسٹ

مصر کے تحریر چوک سے شروع ’انقلاب ‘اب بھی جاری ہے

ایک کامیاب انقلاب کے بعد جمہوریت کے قیام اور آئین بنانے کی ڈگر کافی مشکل ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے پڑوسی ملک نیپال کا حال دیکھا ہے۔ نیپال میں اب تک اس مسئلے کا حل نہیں نکل سکا جس سے دیش کے تحریر چوک سے عرب دنیا میں انقلاب شروع ہوا ، اسی ملک کا اتنے دن گزرنے کے بعد بھی برا حال ہے۔ میں مصر کی بات کررہا ہوں۔ ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو معذول کرنے والی مصری عوام ایک مرتبہ پھر تحریر چوک پر اتر آئی ہے اور اس بار نشانے پر ہیں موجودہ صدر محمد مورسی۔ اس کی وجہ ہے ان کا ایک متنازعہ اعلان۔22 نومبر کو مورسی نے ایک آئینی فرمان جاری کیا۔ اس کے مطابق ان کے کام کاج کو قانونی طور پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ مطلب یہ ہے وہ جو فیصلہ کریں گے کوئی بھی اس میں دخل نہیں دے پائے گا۔ حالانکہ انہوں نے مصر کا نیا آئین بنا رہی آئینی اسمبلی کی سکیورٹی کے سلسلے میں یہ سسٹم بنانے کی بات کہی ہے۔ اس کے علاوہ حسنی مبارک کے وقت میں جن لوگوں پر مظاہرین میں شامل لوگوں پر ظلم ڈھانے کا الزام تھا ان کے خلاف پھر سے مقدمہ چلانے کی بات کہی گئی ہے۔ مورسی کا کہنا ہے کہ یہ اعلان تب تک نافذالعمل رہے گا جب تک دیش کے نئے آئین پر ریفرنڈم نہیں ہوجاتا

چدمبرم ہوسکتے ہیں کانگریس کے 2014 میں پی ایم امیدوار؟

کانگریس آئے دن بھاجپا کے امکانی وزیر اعظم پر تو سوال جواب کرتی ہی رہتی ہے لیکن عوام کو کانگریس یہ بھی تو بتائے کہ2014ء کے چناؤ میں اس کا وزیر اعظم امیدوار کون ہوگا؟ابھی تک تو ہمیں یہ ہی خیال تھا کہ یووراج راہل گاندھی کانگریس کے امکانی وزیر اعظم ہیں لیکن اس دوڑ میں وزیر خزانہ پی چدمبرم کہاں سے ٹپک پڑے؟ اس کڑی میں نیا باب تب جڑگیا جب برطانوی میگزین’ دی اکنامسٹ‘ نے لکھ دیا کہ اگر کانگریس تیسرے مرتبہ اقتدار میں آئی تو وزیر خزانہ پی چدمبرم وزیر اعظم کے لئے امیدوار ہوں گے۔ میگزین کے مطابق اگلا لوک سبھا چناؤ معیشت کے اشو پر مرکوز ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کے امکانی امیدوار نریندر مودی کو ایک اچھا اقتصادیاتی منیجر مانا جاتا ہے ایسے میں کانگریس کی جانب سے چدمبرم کو وزیر امیدوار بنایا جاسکتا ہے۔کانگریس کی ترجمان رینوکا چودھری نے اس پر فوری رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا کانگریس پارٹی وزیر اعظم کے عہدے کے لئے امیدوار اعلان کرتی۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی لیڈر کو وزیر اعظم بنانے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ میگزین کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم منموہن سنگھ 2014 ء تک 80 برس کو پا

ملائم سنگھ یادو نے مانگی حمایت کی قیمت

بیشک منموہن سنگھ سرکار نے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی مدد سے دونوں ایوانوں میں ایف ڈی آئی پر اکثریتی نمبر حاصل کر لئے ہوں لیکن اس کی سرکار اور کانگریس کو مستقبل میں قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ اترپردیش کی سیاست پر تازہ حالات کا کیا اثر پڑتا ہے۔ بہن جی نے جہاں 10 سال پرانی بات عام کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہو کہ کانگریس ہو یا بی جے پی دونوں میں سے کوئی کم نہیں وہیں مایا کے کٹر مخالف ملائم سنگھ کو بھی کرارا جھٹکا دینے کی کوشش کی۔ اترپردیش کے اقتدار سے مایا کو بے دخل کرنے والے ملائم سنگھ مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ لوک سبھا چناؤ جلد ہوجائیں۔ اسمبلی چناؤ میں جو اکثریت سپا کو ملی تھی وہ لوک سبھا میں بھی ملے۔ زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیت کر وہ دہلی پر راج کریں۔ اس کے لئے انہوں نے تیاری بھی کرلی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ اسمبلی چناؤ کے وقت جو ماحول سپا کے حق میں بنا تھا وہ گھٹ رہا ہے۔ جو فائدہ سپا کو ابھی مل سکتا ہے وہ شاید2014ء میں نہ ملے۔ مایا کے سرکار کے ساتھ کھڑا ہونے سے سپا کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرنی پڑ سکتی ہے۔ سبھی جانتے ہیں سپا چیف ملائم سنگھ یادو سیاست