اشاعتیں

ستمبر 30, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پتن کے دورہ ہند پر دنیا کی نگاہیں

روس کے صدر ولادیمیر پتن دو روزہ دورہ پر بھارت آئے۔ بھارت کے ساتھ دنیا کے بڑے دیشوں کی نگاہیں پتن کے اس دورہ پر لگی ہیں۔ روس اور ایران پر امریکی پابندیوں کے سائے کے درمیان ہوئے پتن کے دورہ میں دونوں ملکوں کے آپسی رشتوں کو رفتار دینے اور مسلسل کاروبار کو جاری رکھنے کے طریقوں پر غور ہونا فطری ہے۔ غور طلب ہے کہ بھارت امریکہ کو اعتماد میں لیکر رو س کے ساتھ فوجی و سیاسی رشتوں کو جاری رکھنے پر زور دے رہا ہے۔ اس سال جون میں صوفی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادیمیر پتن کی غیر رسمی ملاقات پھرشنگھائی تعاون کانفرنس کی میٹنگ میں باہمی اشوز پر تبادلہ خیال اور اب ان دونوں کی رہنمائی میں سالانہ میٹنگ، بتاتی ہے کہ دونوں دیش ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں۔ روس برسوں سے بھارت کا دوست رہا ہے اور بھارت کا ہمیشہ روس نے سمرتھن کیا ہے۔ ان سبھی میٹنگوں کی تیاریوں کے بعد مودی اور پتن چوٹی کانفرنس میں اگلی ایک دہائی میں ڈیفنس سے لیکر سائنس تک اور ذراعت سے لیکر برقی سیکٹر میں باہمی اشتراک کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگلی ایک دہائی کا ایجنڈا طے کریں گے۔ پی ایم مودی اور صدر پتن سب سے اہم یہ ہے کہ روس سے ایئ

مایاوتی کے اعلان سے کانگریس کو جھٹکا،بھاجپا کو راحت

10 دن کے اندر بسپا نے اپوزیشن اتحاد اور خاص کر کانگریس کو دوسرا جھٹکا دے کر چناوی حکمت عملی بگاڑ دی ہے۔ بسپا چیف مایاوتی نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اکیلے چناؤ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ بدھ کو لکھنؤ میں میڈیا سے بات میں کہا کہ کانگریس کا رویہ بسپا کی مخالفت میں رہا ہے اس لئے پارٹی راجستھان ،چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش وغیرہ میں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ مل کر چناؤ لڑے گی۔ بسپا چیف نے دگوجے سنگھ پر اتحاد نہ ہونے کا ٹھیکرا پھوڑدیا ہے۔ مایاوتی نے الزام لگایا کہ کانگریس صدر راہل گاندھی و سونیا گاندھی بسپا کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتے ہیں لیکن دگوجے سنگھ ایسا نہیں چاہتے۔ وہ بھاجپا کے ایجنٹ ہیں اور ای ڈی اور سی بی آئی سے ڈرتے ہیں۔ مایاوتی کی ناراضگی کی وجہ دگوجے سنگھ کا وہ ٹی وی انٹرویو ہے جس میں کانگریس نیتا نے یہ کہا تھا کہ ای ڈی و سی بی آئی کے ڈر سے بسپا نے کانگریس سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا کہ مایاوتی نے کانگریس کے تئیں جو بھروسہ ظاہر کیا ہے اس کے لئے پارٹی ان کا احترام کرتی ہے۔ کانگریس صدر اور ان کے درمیان اتفاق رائے بنتا ہے تو تیسری طاقت پیدا نہیں کرسکتی۔اتر

باپو نے لکھا تھا اخباروں پر کنٹرول سب سے زیادہ تباہ کن ہے

آج ہم اپنے پیارے باپوکی 150ویں جینتی منارہے ہیں ۔باپو آج بھی دینا بھر میں ان لاکھوں کروڑوں لو گوں کیلئے امید کی کرن ہیں ۔جو برابری ،عزت اور میل جول اور تفویض سے بھر پور زندگی جینا چاہتے ہیں۔مہاتما گاندھی نے صحیح معنوں میں اصول اور برتاؤ سے جوڑا تھا ۔ان کے مضبوط ارادے تھے انھوں نے اپنی زندگی میں جو عہد کئے مرتے دم تک ان پر قائم رہیں ۔1888میں لندن میں گاندھی جی سوٹ میں دکھائی دےئے تھے 33سال بعد 1921میں مدورئی میں سوٹ چھوڑ کر دھوتی اپنالی اس درمیا ن گاندھی جی نے اپنے ارادوں اور نظریات او ربرتاؤ سے دیش میں بھر میں ستیہ گرہ شروع کیا ۔اس کے ذریعہ اخبارات میں لکھی باتیں آج بھی راہ عمل ہیں ۔مہاتماگاندھی کے اخبار ینگ انڈیا ،ہریجن ،اور نوجیون میں شائع ان کے لکھے گئے ادارتی حصے پیش ہیں ۔۔۔اخبارو ں کو کوئی اور کنٹرو ل کرے تو وہ سب سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے باپو نے لکھا انھوں نے میرے مضامین میں دلچسپی لینے والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ سچائی کی تلاش میں میں نے بہت سے نظریات پیش کئے ہیں ۔اور بہت سی باتیں سیکھی ہیں مجھے سنیا سی کہنا غلط ہے میری زندگی جن اصو لوں سے چلتی ہے وہ عام لوگوں کے ذریعہ اپنائے

آئی ایس آئی کا نیا ہتھیار ،عورتیں ،ہنی ٹریپ

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بھارت میں کتنی سرگرم ہے اس کی ایک مثال حال ہی میں اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤمیں سامنے آئی ہے ۔اے ٹی ایس (انسداد دہشت گردی دستہ )نے ملٹری خفیہ کی خبر گوئی پر آئی ایس آئی کے لئے جاسوسی کررہے بی ایس ایف کے جوان اچوتاانند مشر کو نوئیڈا سے گرفتا رکیا ہے ۔اے ٹی ایس کے انسپکٹر جی ایس پانڈے نے اسپیشل سی جی ایم عدالت کو بتا کہ 24اگست کو اے ٹی ایس کے دروغہ شیلند رگری نے رپورٹ درج کرائی تھی کہ چنڈی گڑھ میں فوجی خفیہ ایجنسی کو اطلاع ملی تھی کہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ بھارت کی سرداری اور یکجہتی کو نقصا ن پہنچانے کے لئے فیس بک پر کاجول شرم نام کا ایک فرضی آڈی بناکر نیم فوجی فورس اور فوج کے افسروں کو ہنی ٹریپ میں پھنسا کر اطلاعات حاصل کررہا ہے ۔جنوری 2016میں ہنی ٹریپ کا شکار ہوئے بی ایس ایف جوان واٹس ایپ کے ذریعہ بھی آئی ایس آئی کی ایک خاتون ایجنٹ کے رابطے میں تھا وہ دہلی کے آر کے پورم میں بی ایس ایف کے کمپوزٹ ہسپتال تعینات تھا۔اے ٹی ایس نے اچوتا نند کو لکھنؤ کورٹ میں پیش کیا اور اسے 5دنوں کی ریمانڈ میں لیکر اے ٹی ایس پوچھ تاچھ کررہی ہے ۔آئی جی اسم ارون نے بتایا ک

اترپردیش کی خونی خاکی

اترپردیش کی پولیس میں خونخوار پن کیوں ہے اور کیوں بھلے لوگ اس سے بات کرنے اور پاس جانے سے گھبراتے ہیں؟ یہ خطرناک سچ ایک بار پھر اجاگر ہوا ہے۔ لکھنؤ کی راجدھانی میں ایک سپاہی کے ذریعے ایک بے قصور شخص وویک تیواری کو گولی سے اڑادیا۔ پولیس کی بربریت کا شکار دو ننھی بیٹیوں کا یہ والد ہمیشہ کے لئے سو گیا۔ پولیس کی اس ظالمانہ حرکت کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔وہ شخص دیر رات قریب پونے دو بجے اپنی ایک خاتون ملازم ساتھی کے ساتھ اپنے آفس سے لوٹ رہا تھا۔ یہ کوئی جرم نہیں تھا۔ اگر اس شخص نے کار نہیں روکی تھی تو بھی اس کی سزا گولی مار دینا نہیں۔اس کا کار کو روکنے کے اور بھی طریقے تھے۔ نمبر پلیٹ کے ذریعے پولیس کارمالک تک پہنچ سکتی تھی لیکن اس کار کی ٹکر سے پولیس کی بائیک گرجانے کے بعد ایک سپاہی نے کار مالک پر سامنے سے جس طرح گولی چلائی وہ پولیسیا روعب و خاکی غنڈہ گردی کی انتہا تھی۔ مانو یہ اس کی بوکھلاہٹ ہی نہ ہو بلکہ سنگین جرم ہوجانے کے بعد سپاہیوں نے جس طرح خود کو بچانے کیلئے جھوٹی کہانی گڑھی وہ تو اور بھی شرمناک ہے۔ سپاہیوں کا الزام تھا کہ کار مالک نے انہیں روندھنے کی کوشش کی۔ ایسے میں اپنی

بالکرشن کی پراپرٹی 70 ہزار کروڑ روپے کیسے پہنچی

یہ ہندوستانی یوگ کی روایت کی نئی کہانی ہے۔ چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہورون نے بھارت میں 2017 کے امیروں کی ایک فہرست جاری کی ہے۔ اس فہرست میں پتنجلی کے سی ای او آچاریہ بال کرشن بھارت کے 8 ویں سب سے امیر آدمی ہیں۔ پچھلے سال یعنی 2016 تک بالکرشن اس فہرست میں 25 ویں نمبر پر ہوا کرتے تھے اس سال (2017) میں ان کی پراپرٹی 173 فیصد بڑھ کر 70 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ ہورون کا کہنا ہے کہ بالکرشن کی پراپرٹی بڑھنے میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے مدد ملی ہے۔ انسٹیٹیوٹ کے مطابق نوٹ بندی کا منظم سیکٹروں پر مثبت اثر پڑا ہے۔اس فہرست میں پہلا نمبر مکیش امبانی کا ہے جن کی کل پراپرٹی 257900 کروڑ رہے جو 58 فیصد بڑھی ہے۔ دوسرے نمبر پر ریلیپ ساندھوی89000 کروڑ پر ہے۔ تیسرے نمبر پر ایل این متل ہے جن کی پراپرٹی 88200 کروڑ ہے 32 فیصدی بڑھی ہے، چوتھے نمبر پر شیو ناڈر 85100 کروڑ (16 فیصدی)، پانچویں نمبر پر ہے عظیم پریم جی 79300 کروڑ (6فیصدی)، چھٹا سائرس پونا والا 71900 کروڑ، ساتواں گوتم اڈانی 70600 کروڑ(66فیصدی) آٹھویں میں ہیں آچاریہ بالکرشن 70 ہزار کروڑ اور 173 فیصدی گروتھ۔ 44سالہ بالکرشن آچاریہ فوربیس میگزین

بھارت کے نئے چیف جسٹس رنجن گوگئی

جسٹس رنجن گوگئی سپریم کورٹ کی 46 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے 3 اکتوبر کو حلف لیں گے۔ ان کا خیر مقدم ہے جسٹس گوگئی کے بارے میں کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ نارتھ ایسٹ انڈیا سے پہلے چیف جسٹس ہوں گے۔ ایسے ہی وہ سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس ہوں گے جن کے والد وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ ان کے والد شرد چندر گوگئی آسام میں کانگریسی لیڈر تھے اور سال1982 میں آسام کے وزیر اعلی رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکیل وکاس سنگھ بتاتے ہیں کہ جسٹس گوگئی کئی زبانوں کے ماہر ہیں لیکن سخت مزاج کے ہیں۔ وہ ڈسپلن کے بہترین جج رہے ہیں۔ انہیں وکیل کے کپڑوں تک کا دھیان رہتا ہے۔ اگر کوئی وکیل پوری طرح ڈریس پہن کر نہیں آتا تو وہ اسے اپنی کورٹ میں بولنے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ کورٹ میں پہنچنے والے افسران کو بھی وہ صحیح ڈھنگ سے کپڑے نہ پہننے پر ڈانٹ لگا چکے ہیں۔ جسٹس گوگئی کو ناانصافی برداشت نہیں ہوتی اس کے خلاف کس حد تک جاسکتے ہیں اس کی مثال دیش دو بار دیکھ چکا ہے۔ پہلی بار تب جب سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج مارکنڈے کاٹجو نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی تاریخ رقم کرتے ہوئے

ایک سرکاری چپڑاسی سے کم کماتے ہیں 87فیصد لوگ

اکثر بڑھتے بے روزگاروں کی تعداد پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ اعدادو شمار بھی بتاتے ہیں کہ دیش کے اقتصادی ڈھانچے میں جو تبدیلی ہوئی ہے اس نے روزگار کے مواقع لگاتار گھٹ رہے ہیں۔ 2013-14 کے بعد ملازمتوں کی تعداد گھٹی ہے۔ نوجوانوں اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں بے روزگاری کی تعداد اس وقت 16فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ منگل کو جاری پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹین ایبل امپلائمنٹ کی رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ 2013 سے 2015 کے دوران نوکریوں کی تعداد 70 لاکھ سے کم ہوئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کا حال ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ٹرینڈ 2015 کے بعد بھی بنا ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گروتھ سے کم نوکریوں میں بھاری کمی آئی ہے۔ 1970-80 کی دہائی میں جی ٹی بی گروتھ ریٹ 3-4 فیصد ہوا کرتی تھی تب ہر سال نوکریاں 2 فیصد بڑھتی تھی۔ 2000 کے بعد جی ٹی بی گروتھ بڑھ کر70 فیصد ہوگئی لیکن نوکریاں ایک فیصد کم ہوگئیں۔ روایتی طور سے بھارت کا مسئلہ بیروزگاری نہیں بلکہ نوکریوں کی کمی رہی ہے یعنی لوگوں کو ان کی اہلیت کے حساب سے کام نہیں ملتا۔ نوجوانوں کو اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں بے روزگاری 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دیش میں ای