اشاعتیں

اگست 14, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سپا کی اندرونی رسہ کشی کہیں پارٹی کو نہ لے ڈوبے

اترپردیش اسمبلی چناؤ جیسے جیسے قریب آرہے ہیں حکمراں سماجوادی پارٹی کی اندرونی رسہ کشی کھل کر سامنے آتی جارہی ہے۔ ایک طرف ہے وزیر اعلی اکھلیش یادو تو دوسری طرف ان کے چاچا شیو پال یادو اور بیچ میں ہیں پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو۔ دراصل اکھلیش یادو سمجھتے ہیں کہ 2017 کا اسمبلی چناؤ سپا تبھی جیت سکتی ہے جب وہ ایک اچھی سرکار و انتظامیہ دیں اور ریاست کی ترقی کریں جو نظر بھی آئے لیکن ان کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ان کے اپنے ہی کنبے والے ہیں۔ ملائم سنگھ کچھ بھی کہتے رہے ہیں کبھی کچھ شاید ان کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا بول رہے ہیں؟ سپاچیف نے ایک بار پھر یوپی کے وزیر اعلی اور اپنے بیٹے اکھلیش یادو کی موجودگی میں حکومت اور پارٹی کی شارے عام نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکھلیش سرکار کے کئی وزیر کرپٹ ہیں وہ پارٹی کے لئے بوجھ بن چکے ہیں اور پارٹی کے بھی کئی لیڈر سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ یہ سب وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں سپا کے صدر ملائم سنگھ یادو کے بھائی اور پارٹی کے ریاستی یونٹ کے صدر شیوپال سنگھ یادو نے ناجائز شراب کا کاروبار اور سپائیوں کے ذریعے زمین قبضہ نہ روکنے پر استعفے کی

بڑھتے ڈرگ مسئلے کی زد میں پورا دیش

پنجاب ہی نہیں دیش کے مختلف حصوں میں نشیلی چیزوں کے استعمال و سپلائی کا مسئلہ ایک سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ حال ہی میں فلم ’’اڑتا پنجاب ‘‘ میں دکھایا گیاہے کہ کس طرح پنجاب کا نوجوان طبقہ اس لت میں پھنس چکا ہے لیکن یہ مسئلہ صرف پنجاب کا ہی نہیں بلکہ دہلی ،ممبئی جیسے بڑے میٹرو شہروں میں بھی سنگین بن گیا ہے۔ حال ہی میں نشیلی اشیاء کنٹرول بیورو (این سی بی) کی احمد آباد زونل یونٹ نے بڑودہ۔ ممبئی میں الگ الگ چھاپوں میں قریب60 کروڑ روپے کی نشیلی دوائیں ضبط کی ہیں۔ این سی بی کے ڈائریکٹر (احمد آباد) ہری اوم گاندھی نے بتایا کہ پچھلے ہفتے بڑودہ میں ڈالفن فارما اور ممبئی کے اندھیری میں واقع کی سے فارما کے کارخانوں پر چھاپہ ماری کی گئی۔ گاندھی نے بتایا کہ ہم نے مختلف نشیلی دواؤں کی 9 لاکھ گولیاں برآمد کی ہیں۔ ان کی قیمت بین الاقوامی بازار میں 50 کروڑ روپے ہے۔ ان دواؤں کو ناجائز طور پر رکھنے کے معاملے میں کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو گرفتار کیا تھا۔ اس خطرناک صورتحال کو جاگی مرکزی سرکار نے اب ریاستوں کو نئے سرے سے ڈرگس کے خلاف ایک جارحانہ اور ایک منظم کمپین چلانے کی پیشکش کی ہے۔ اس لحاظ سے انہ

پاکستان نے جب بلوچستان پر زبردستی قبضہ کیا

وزیر اعظم نریندر مودی نے بلوچستان میں فوج کے دم پر انسانی حقوق کو دبانے کا اشو اٹھا کر نہ صرف پاکستان کی جموں و کشمیر میں بڑھتی سرگرمیوں کا سخت جواب ہی دیا بلکہ پاکستان کی کمزور نبض کو بھی چھیڑ دیا ہے۔ پلٹ وار سے تلملایا پاکستان اب بلوچستان کو لیکر ساری دنیا کے سامنے صفائی پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ ایسے میں ہم قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان کا اشو ہے کیا؟ بلوچستان پاکستان کے ساؤتھ ویسٹ سمت میں بسا ہوا ہے۔ بلوچستان کی مغربی سرحدیں ایران اور افغانستان سے لگتی ہیں اس کے ساؤتھ میں عرب ساگر ہے۔ حدودربہ کے حساب سے یہ پاکستان کا آدھا ہے حالانکہ پاکستان کی کل آبادی کے محض3.6 فیصد لوگ ہی اس خطے میں رہتے ہیں۔ قدرتی وسائل سے بھرپور ہونے کے باوجود یہاں لوگوں کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بلوچستان کی گنتی پاکستان کے سب سے پسماندہ اور غریب علاقوں میں ہوتی ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھروں میں پانی ، بجلی تک نہیں ہے۔ بھارت۔ پاک بٹوارے سے پہلے انگریزی حکومت کے دوران بلوچستان چار ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جنہیں کلات، لاسبیلا اور کھارن اور مکان کے نام سے جانا جاتا تھا۔

عوام کی خوشحالی کی قیمت پر دہشت گردی

کشمیر میں آگ لگانے کے چکر میں خود پاکستان دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔ خود پاکستان معیشت پر ہونے والے نقصان کو لیکر ملک کے اندر کئی سروے جاری ہیں۔ پاکستان بزنس ریویو میں بعنوان ’’ دہشت گردی کے پاکستان کی اقتصادی ترقی پر اثرات‘‘ سے شائع ایک تحقیقاتی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دہشت گردی پاکستان کو گھن کی طرح کھا رہی ہے۔ بدقسمتی تو اس بات کی ہے کہ پاکستانی حکومت اور فوج عوام کی خوشحالی کو بلی پر چڑھا کر دہشت گردی کو شے دینے سے باز نہیں آرہا ہے۔ 1990ء میں ایک پاکستانی کی خریداری کی بنیاد پر سالانہ اوسط آمدنی 3 ہزار ڈالر تھی اس وقت بھارت کی فی شخص سالانہ آمدنی محض1850 ڈالر ہی تھی لیکن اس کے بعد پاکستان بھارت کے خلاف دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں اس قدر مشغول ہوا کہ اس کی معیشت چوپٹ ہوکر رہ گئی۔ 2009ء کے آتے آتے بھارت۔ پاکستان کی فی شخص آمدنی یکسا ہوگئی۔ تازہ حالت یہ ہے کہ جہاں ایک شخص کی خرید صلاحیت کی بنیاد پر بھارت کی فی شخص آمدنی 5630 ڈالر سالانہ ہوگئی ہے وہیں پاکستان 5090 ڈالر پر پیچھے چھوٹ گیا ہے۔اسی طرح خط افلاس کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا معاملہ ہے۔ 1990ء میں پاکستان کی صرف

مودی نے پاکستان کو اسی کی زبان میں دیا کرارا جواب

ہر سال یوم آزادی پر لال قلعہ کی سفیل سے قوم کے نام وزیر اعظم کا خطاب عموماًرسمی ہوتا ہے لیکن یہ محض ایک خانہ پوری بھر نہیں ہوتا یہ دیش کے لوگوں سے وزیر اعظم کی ایک بات چیت بھی ہوتی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد کے برسوں کا محاسبہ بھی ہوتا ہے اور کارناموں کا تجزیہ بھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پچھلے خطاب کو یاد کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کسی حد تک لیک کو توڑا تھا جب صاف صفائی اور عورتوں کو امپاورمنٹ پر خاص زور دیا تھا مگر اس بار اپنی حکومت کے کاموں کی قصیدہ خانی کرنے میں انہوں نے ذرا بھی قباحت نہیں دکھائی۔کیا اس کی وجہ کچھ ریاستوں میں آنے والے چناؤ ہیں؟ جو ہو البتہ اس بار آزادبھارت کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے پاکستان کا نام لیکر خود حملہ بولا۔ انہوں نے جس طرح دہشت گردی پر پاکستان کوسیدھا پیغام دینے کے ساتھ اس کے قبضے والے کشمیر (پی او کے) اور بلوچستان کا ذکر کیا وہ خارجہ پالیسی میں وسیع تبدیلی کی علامت ہے۔ انہوں نے اپنی زبان میں دہشت گردی کو شہ دینے کی کوششوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کے قبضے والے کشمیر کے ساتھ گلگت اور بلوچستان کا بھی ذکر کیا۔ یہ تذکرہ دراصل پچھلے کچھ د

ورکنگ حاملہ خواتین کو میٹرنٹی چھٹی کی سہولت

نریندر مودی حکومت نے خواتین کے لئے ایک لائق تحسین قدم اٹھا یا ہے۔ اب ورکنگ خواتین کے لئے میٹرنٹی چھٹی کو 12 ہفتے سے بڑھا کر 26 ہفتے کرنے کی سہولت والے اہم بل کو راجیہ سبھا میں منظوری مل گئی ہے۔ سرکاری اور منظم سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کو 26 ہفتے ہی میٹرنٹی چھٹی کرنے والے زچگی سہولت (ترمیمی بلی2016 ) کو بدھوار کو راجیہ سبھا نے اتفاق رائے سے منظوری دے دی تھی۔ اس سے تقریباً18 لاکھ عورتوں کو فائدہ ملے گا لیکن سروگیٹ مدرس (کرائے کی ماؤں) کو یہ سہولت نہیں ملے گی۔ خاص بات یہ رہی ہے کہ اس بل کو راجیہ سبھا نے زوردار طریقے پر خیر مقدم کیاتو وہیں کئی ممبران نے اسی بہانے میٹرنٹی چھٹی پر بھی سرکار کو غور کرنے کو کہا۔ ایوان میں تقریباً دو گھنٹے تک چلی بحث کا جواب دیتے ہوئے لیبر و روزگار منتری بندارو دتاترے نے کہا کہ منظم سیکٹر میں خواتین کو سب سے زیادہ میٹرنٹی چھٹی دینے والا بھارت تیسرا دیش بن جائے گا۔حاملہ مہلاؤں کو کینڈا میں 50 ہفتے اور ناروے میں44 ہفتے کی چھٹی دی جاتی ہے اس کے علاوہ حاملہ خواتین کو 3500 روپے بھی دئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میٹرنٹی چھٹی بڑھانے سے ماں اور بچے دونوں کو بہت

دیش مفاد میں نہیں سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت میں ٹکراؤ

ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی تقرری اور تبادلہ کو لیکر عدلیہ اور مرکزی حکومت کے درمیان ٹکراؤ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے چیف جسٹس ٹی۔ ایس۔ ٹھاکر اس معاملے پر مرکز سے آر پار کی لڑائی لڑنے کی تیاری میں ہیں۔جسٹس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ جوڈیشیری سسٹم چرمرا گایا ہے لیکن مرکزی حکومت فائلیں دبا کر بیٹھی ہوئی ہے اگر مرکز کا یہی رویہ رہا تو انہیں حکم پاس کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سیدھا سوال کیا کہ آخر فائلیں کہاں اٹکی ہوئی ہیں اور حکومت کو کالیجیم کے فیصلے پر یقین کیوں نہیں ہے؟ چیف جسٹس مرکز سے ناراض ہیں ان کے اس ریمارکس سے صاف جھلکتا ہے ۔ غور طلب ہے کہ دیش میں جج صاحبان کی کمی اور التوا میں پڑے مقدموں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نچلی عدالت سے لیکر عدالت عظمیٰ تک قریب ساڑھے تین کروڑ سے زائد مقدمے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ پانچ نفری کالیجیم کے سربراہ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ میں ججوں کی تقرری اور تبادلہ کے لئے 75 نام بھیجے گئے ہیں۔ ہائی کورٹ میں 43 فیصد ججوں کی کمی ہے۔ حکومت نے کالیجیم کی طرف سے پیش کردہ ناموں پر حامی کیوں

سڑک حادثوں کے معاملے میں اتنا غیرحساس کیوں بن گئے ہیں

دہلی میں آئے دن سڑک حادثوں میں سڑک پر چلتے بے قصور راہ گیروں کی موت ہوتی رہتی ہے۔ سڑک پر زخمی پڑے شخص کی کوئی مدد نہیں کرتا اور وہ تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتا ہے۔ راجدھانی دہلی میں انسانیت کو شرمسار کرنے والی واردات کچھ دن پہلے ہوئی۔ وہ بھی پارلیمنٹ ہاؤس سے محض دو کلو میٹر دور۔ بتایا جاتا ہے کہ نئی دہلی کے رام مندر مارگ تھانہ علاقہ میں سڑک پار کررہے آئس کریم بیچنے والے کو تیز رفتار کار نے ٹکر ماری اور کافی دور تک وہ گھسیٹتا رہاجب لوگوں نے کارکے ڈرائیور کو گھیرلیا تواس نے زخمی کو آر ایم ایل ہسپتال میں علاج کرانے کا وعدہ کر گاڑی میں بٹھا لیا اور پھر آگے سڑک پر اتار تڑپتا چھوڑ فرار ہوگیا۔ آخر میں آئس کریم والے کی موت ہوگئی۔ سڑک حادثہ ہو یا پھر راستے میں کسی خاتون کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہو عام طور پر دہلی کے شہری مدد کے لئے سامنے نہیں آتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ پولیس کارروائی اور کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے سے ڈرتے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ لوگوں نے اپنا دائرہ اتنا کم کرلیا ہے کہ سماج میں ان کے سامنے کیا ہورہا ہے اس سے نہ تو انہیں کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی وہ اس سے مطلب رکھتے ہیں

جموں و کشمیر میں تو جموں۔ لداخ اور پی او کے بھی آتے ہیں

ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب بھی ہم کشمیر کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف کشمیر وادی کی ہی بات کیوں کرتے ہیں۔ جموں و کشمیر میں وادی کے علاوہ جموں، لداخ اور پاک مقبوضہ کشمیر بھی تو شامل ہے۔ کشمیر مسئلہ پر راجیہ سبھا میں بحث کے دوران اپوزیشن کے لیڈر غلام نبی آزاد نے وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے پوری سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ غلام نبی کے الزامات سے بیک فٹ پر نظر آرہی سرکار کی طرف سے مورچہ سنبھالا جموں وکشمیر سے بھاجپا کے ایم پی شمشیر سنگھ منہاس نے۔ انہوں نے اس پوری بحث پر یہ کہتے ہوئے سوال کھڑا کردیا کہ جب جموں و کشمیر کی بات کی جاتی ہے تو جموں اور لداخ کے لوگوں کو کیوں بھلا دیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہاکہ کشمیرسے زیادہ آبادی جموں اور لداخ میں رہتی ہے، ان کی پربحث کیوں نہیں ہوتی؟ان کے مفادات کی بات کیوں نہیں ہوتی؟ ریاست کے 55 فیصدی لوگ جموں خطہ میں بستے ہیں ان میں سے7 لاکھ نوجوان بھی بے روزگار بیٹھے ہیں کیا وہ بندوق نہیں اٹھا سکتے یا وہ بھی آزادی کا نعرہ نہیں لگا سکتے؟ وہ لوگ آج بھی اپنے دیش کے ساتھ کھڑے ہیں منہاس اس بات پر بھی سوال کھڑا کیا جس پر غلام نبی نے کہا کہ کش

مسلم خواتین اب قاضی بھی بنیں گی

مسلم خواتین کے حقوق کیلئے تحریک چلا رہی تنظیم آل انڈیا مسلم مہلا آندولن اب مہلا قاضی تیار کررہی ہے۔ یہ قاضی نہ صرف عورتوں کے مفادات کا خیال رکھیں گی بلکہ نکاح پڑھوانے اور طلاق جیسے امور میں بھی مدد کریں گی۔ ہندوستان میں پہلی بار 30 خاتون قاضیوں کے پہلے بیج کی ٹریننگ 2015 میں شروع ہوئی تھی۔ اس برس کے آخر تک یہ ختم ہوجائے گی۔ ممبئی کے تعلیمی ادارے دارالعلوم نسواں ٹریننگ دے رہا ہے۔ ادارہ کی ٹرسٹی ذکیہ سومن کہتی ہیں کہ یہ عورتوں کے حق کی ٹریننگ دینے والا رجسٹرڈ ادارہ ہے جہاں زیادہ تر خواتین ہی عورت کے حقوق کے بارے میں واقف کراتی ہے۔ بتاتی ہے کہ کیا ہے ٹریننگ میں قرآن، حدیث سمیت ہندوستانی آئین اور آئی پی سی میں ہندوستانی حقوق کو لیکر جو کچھ بھی لکھا ہے اس کی معلومات سے ان خواتین کو واقف کرایا جاتا ہے۔ ٹریننگ میں کتابی علم کے ساتھ ساتھ ہی خواتین سے متعلق مسائل کی باقاعدہ معلومات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ ٹریننگ کے دوران وقتاً فوقتاً امتحانات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت قاضی کی تربیت ٹریننگ لے رہی عورتوں میں زیادہ تر نے 12 ویں کلاس سے گریجویٹ تک کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔ کچھ ایسی خواتین بھی ہیں