اشاعتیں

مئی 27, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

متحدہ اپوزیشن کی آنچ سے مرجھانے لگا ہے کمل

جب کرناٹک کے ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی تب بھاجپا صدر اور چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ وزیر اعظم نریندر مودی مہاراشٹر۔ اترپردیش سمیت لوک سبھا کی چار اور مختلف اسمبلیوں کی 10 سیٹوں پر ضمنی چناؤ کی حکمت عملی بنا رہے تھے۔ بی جے پی کے لئے ضمنی چناؤ اس لئے بھی اہمیت رکھتے تھے کہ لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی چناؤ کے معاملہ میں اس کا حال کا ریکارڈ کوئی تشفی بخش نہیں رہا۔ پارٹی لگاتار 6 لوک سبھا سیٹوں پر ضمنی چناؤ ہار چکی تھی۔ یہ وہی سیٹیں تھیں جو 2014 میں اسے ملی تھیں۔ ان میں یوگی آدتیہ ناتھ کی طرف سے خالی کی گئی لوک سبھا سیٹ گورکھپور میں ملی غیر متوقع ہار بھی شامل ہے۔ مسلسل ملی ہار کے بعد 2014 میں 282 لوک سبھا سیٹیں جیتنے والی بی جے پی سیٹوں کی تعداد بھی کم ہوتی گئی ہے۔ لوک سبھا کی چار سیٹوں اسمبلی کی10 سیٹوں کے نتیجے بتا رہے ہیں کہ بھاجپا کے لئے ضمنی چناؤ جیتنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بی جے پی چار سال میں 27 ضمنی چناؤ میں پانچ سیٹیں ہیں جیت سکی ہے۔ اس کے مقابلہ 9 گنوائی ہیں۔ اس کے مقابلہ 4 لوک سبھا اور 10 اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ کے نتیجوں سے مرکز اور آدھے سے زیادہ ریاستوں میں اپنی طاقت کے سات

پرنب مکھرجی کے دورہ ناگپور کو بے وجہ طول دیا جارہا ہے

سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے ذریعے 7 جون کو آر ایس ایس کے پروگرام میں شامل ہونے کا معاملہ طول پکڑ گیا ہے۔ پرنب دادا ناگپور میں آر ایس ایس کے سنگھ ایجوکیشن ونگ سوم برس پروگرام میں شامل ہوں گے اور سنگھ کے 708 رضاکاروں کو خطاب کریں گے۔ سنگھ کے اکھل بھارتیہ پبلسٹی چیف ارون کمارنے بتایا کہ پرنب مکھرجی نے پروگرام میں پہنچنے کی منظوری دے دی ہے۔ پرنب مکھرجی 7 جون کو ہونے والے اختتامی اجلاس کے مہمان خصوصی ہوں گے۔ سنگھ ناگپور ہیڈ کوارٹر میں ہر سال ہونے والے اس پروگرام میں اہم ہستیوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ پرنب مکھرجی کا یہ دو دن کا دورہ ناگپور ہوگا۔ کانگریس کے سابق ایم پی سندیپ دیکشت نے اسے اٹپٹا قرار دیتے ہوئے پرنب دا کے اس فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں۔ دیکشت نے کہا کانگریس میں رہتے ہوئے پرنب مکھرجی ہمیشہ آر ایس ایس نظریات کے خلاف رہے ہیں تو آخر وہ اس تنظیم کے پروگرام میں کیوں شامل ہورہے ہیں۔ پرنب دا کے سنگھ کے بارے میں تقریباً وہی خیالات رہے ہیں جو کانگریس کے ہیں۔ آر ایس ایس ایک فاسسٹ تنظیم ہے اور آر ایس ایس کی بنیادی آئیڈیالوجی ہی کانگریس کے خلاف ہے۔ سندیپ دیکشت کے اس تبصرے پر بی جے پی نے اس

سازش یا اتفاق : کیسے خراب ہوگئیں ای وی ایم مشینیں

اترپردیش کے کیرانا اور نور پور اسمبلی سمیت دیش کی کل 14 سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ ای وی ایم مشینوں کی خرابی کی شکایتوں کے درمیان ختم ہوگئے لیکن مشینوں کے خراب ہونے سے چناؤ کا مزہ کرکرہ ضرورہ وگیا۔ سرکار یا عوامی نمائندوں کو چنے کی کارروائی بالکل شفاف اور غیر جانبدار ہونی چاہئے یہی ہماری جمہوریت کی بنیاد بھی ہے۔ پولنگ کے دوران ای وی ایم مشینیں یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خراب ہونے کی شکایتیں جس پیمانے پر سامنے آئی ہیں وہ حیران پریشان کرنے والی ہیں۔ ا س سے چناؤکی غیر جانبداری متاثر ہوتی ہے یا نہیں یہ چناؤ انتظامیہ کی ناکامی ضرور ہے۔ ای وی ایم کی سب سے زیادہ شکایتیں اترپردیش اور مہاراشٹر سے سامنے آئی ہیں۔ کیرانا لوک سبھا سیٹ پر راشٹریہ لوک دل کے امیدوار نے تو کئی جگہوں پر ای وی ایم کے خراب ہونے کی تحریری شکایت الیکشن کمیشن سے کی ہے۔ وہیں اپوزیشن کے تمام نیتاؤں نے ای وی ایم کی خراب کو چناؤ کو بیجا ڈھنگ سے متاثر کرنے کی کوشش تک بتادیا۔ اترپردیش کے شاملی ضلع کے کیرانا لوک سبھا اور نور پور اسمبلی سیٹ کے لئے ہوئے ضمنی چناؤ میں پیر کی صبح کو پولنگ کے دوران تقریباً 150 ای وی ایم میں خرابی کے

کیا کرناٹک کا چار ریاستوں کے اسمبلی چناؤ پر اثر ہوگا

کیا کرناٹک کے چناؤ نتیجوں کا اثر دور تک جائے گا ، یہ سوال سیاسی گلیاروں میں پوچھا جارہا ہے۔ اس سال کے آخر میں ہونے والے چارریاستوں کے ضمنی چناؤ پر بھی ان کا اثر پڑے گا۔ ان میں سے تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں تو بھاجپا کی سرکاریں ہیں اور یہاں بھاجپا کانگریس کا سیدھا مقابلہ ہے۔ چاروں ریاستوں کے چناؤ زیادہ ٹکراؤ والے ہوں گے۔ یہ چناؤ ایک طرح سے لوک سبھا چناؤ سے پہلے ہوں گے۔ ایسے میں چناوی درجہ حرارت بیحد اوپر ہوگا۔ چناؤ میں جے ڈی ایس کے مضبوطی سے ابھرنے کے بعد قومی سطح کی سیاست میں علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لیکر لڑنا ہوگا۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ تینوں ہی ریاستوں میں بھاجپا کی حکومتیں ہیں۔ کرناٹک کا مستقبل طے ہونے کے بعد بھاجپا کے قومی صدر امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کا اب زیادہ فوکس راجستھان پر اس لئے ہوگا کیونکہ اقتدار مخالف ماحول مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ کے مقابلے راجستھان میں زیادہ ہے۔ حالانکہ ایم پی اور چھتیس گڑھ میں بھی اسی سال چناؤ ہونا ہے لیکن ان دونوں ریاستوں میں بھاجپا لگاتار تین بار سے اقتدار میں ہے۔ راجستھان میں حال ہی میں ہوئے دو لوک سبھا

آرکبشپ کے خط سے مچا سیاسی واویلا

دہلی کے پادری آرکبشپ انل کاؤپی کا سبھی گرجا گھروں کو لکھا خط سامنے آنے کے بعد ہائے توبہ مچنا فطری ہی تھا۔ مانا جارہا ہے کہ درپردہ طور سے انہوں نے سال2019 میں نریندر مودی کی سرکار نہ بنے اس کے لئے لوگوں سے دعا کرنے کی اپیل کی ہے۔ آرکبشپ انل کاؤپی نے آخری لکھا کیا تھا جو اتنا ہنگامہ ہوگیا؟ انہوں نے کچھ یوں لکھا: ہم لوگ شورش پسند سیاسی ماحول کے گواہ ہیں۔ اس وقت دیش کے جو سیاسی حالات ہیں اس میں جمہوری اصولوں اور دیش کے سیکولر زم کی پہچان کے لئے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ سیاستدانوں کے لئے پرارتھنا کرنا ہماری مقدس روایت رہی ہے۔ لوک سبھا چناؤ قریب ہیں جس کے سبب یہ بھی اہم ہوجاتا ہے 2019 میں نئی سرکار بنے گی ایسے میں ہمیں اپنے دیش کے لئے پرارتھنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے اگلے سال ہونے والے لوک سبھا چناؤ کے لئے پرارتھنا کے ساتھ ہی ہر جمعہ کو ایک دن کھانا نہ کھائیں تاکہ دیش میں امن ، جمہوریت ،برابری ، آزادی اور بھائی چارہ بنا رہے۔ 13 مئی کو مدر مریم نے درشن دئے تھے۔ اس لئے یہ مہینہ عیسائی مذہب کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ آرکبشپ نے اس خط کو چرچ میں منعقدہ پریئر میٹنگ میں پڑھنے کی بھی اپیل کی ہے جس س

گلوبل وارمنگ کا اثر

ویسے تو راجدھانی دہلی سمیت نارتھ انڈیا کی جنتا گرمی سے واقف ہے لیکن اس سال گرمی کچھ زیادہ اور کچھ پہلے ہی شروع ہوگئی ہے۔ دہلی میں پچھلے چھ مہینوں سے گرم ہوائیں چل رہی ہیں۔ پالم علاقہ میں زیادہ تر درجہ حرارت 45 ڈگری سیلسیس تک پہنچ چکا ہے۔ اس برس یہ دہلی میں درج کیاگیا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔ اتنی گرمی کے چلتے ہوا میں تپش کی کم از کم سطح گھٹ کر 10 فیصدی تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے پہلے 22 مئی کو پالم میں زیادہ درجہ حرارت 46 ڈگری رہا۔ دہلی میں چلچلاتی دھوپ سے آدمی سے لیکر جانور ،پرندوں ،چرندوں تک کا برا حال ہے۔ تازہ معاملہ میں جانور اور پرندوں کی حفاظت کررہی انجمن وائڈ لائٹ ایس او ایس نے جمعہ کی شام کو وزیر اعظم کے دفتر کمپلیکس میں گرمی سے بیہوش پڑی دو چیلوں کو بچایا۔ پی ایم او سے اطلاع ملنے پر ایس او ایس کی ٹیم موقعہ پر پہنچی۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے سابق وزیر اعظم کی رہائشگاہ سے بھی ایک چیل بیہوش پڑی ملی تھی۔ اگلے اس مہینے میں اس ادارہ نے دہلی میں 30 سے زیادہ پرندوں کو بچایا ہے۔ جو گرمی سے بیہوش ہوکر گرے ملے تھے۔ پچھلے چھ دنوں سے دہلی سمیت پنجاب، ہریانہ، اترپردیش جیسی ریاستوں میں بھی درجہ

مودی سرکار کے چار سال

اب جب مرکز کی اقتدار میں نریندر مودی سرکار کے چار سال پورے ہوگئے ہیں اب اس کا تجزیہ کرنا فطری ہی ہے اس دوران اس نے کیا حاصل کیا۔ اس سے لوگوں کی توقعات کتنی پوری ہوئیں اور کون کون سی چنوتیاں ہیں جن کا بچے ایک سال میں اسے سامنا کرنا ہے۔ مودی سرکار جیسے زبردست اکثریت سے اقتدار میں آئی تھی اس کے چلتے اس سے جنتا کی امیدیں بھی بہت بڑھ گئی تھیں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جنتا کی توقعات کو بڑھانے میں خود مودی سرکار ذمہ داری ہے۔ اچھے دن کے نعرہ سے جنتا کو لگنے لگا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اپوزیشن نے بھی اس کو ہوا دی اور سوال پوچھنے لگے کیا آپ کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے آگئے ہیں؟ کیونکہ توقعات کی کوئی حد نہیں ہوتی اور کئی بار اہل ہوتے ہوئے بھی عوامی توقعات پر کھرا اترنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی چار سال کے کارناموں پرایک رائے نہیں ہے۔ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کے بے اثر سے جنتا میں ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔ اتار چڑھاؤ کے باوجود جی ڈی پی کی ترقی شرح 7.2 فیصد کے قریب بنے رہنا مودی سرکار کا کارنامہ مانا جاسکتا ہے۔ دیش میں غیرملکی ذخیرے میں بھی پچھلے چار برسوں میں 35 فیصد ا

ایک اسٹیج، 17 پارٹیاں۔۔۔2019 کی مورچہ بندی

کرناٹک میں ایچ ڈی کمار سوامی نے پہلے دو امتحان تو پاس کرلئے ہیں۔ پہلا تھا اکثریت ثابت کرنے کے امتحان سے پہلے کانگریس اور جے ڈی ایس کے لئے اسمبلی اسپیکر کا چناؤ جیتنا۔ بھاجپا کے اس سے ہٹ جانے سے کانگریس کے راجیش کمار بلا مقابلہ اسمبلی اسپیکر بن گئے ہیں۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلی اور بھاجپا نیتا بی ایس یدی یرپا نے کہا کہ ہم نے اسپیکر کے عہدہ کے لئے اپنے امیدوار کا نام واپس لے لیا کیونکہ ہم چاہتے ہیں چناؤ اسپیکر کی عہدے کے وقار کو بنائے رکھنے کے لئے اتفاق رائے سے ہی ہو۔ چناؤ سے پہلے سمجھا جارہا تھا کہ یہ کرناٹک کے سیاسی ڈرامہ میں ایک اور واویلا لے کر آئے گا کیونکہ بھاجپا نے بھی کانگریس کے امیدوار کے خلاف اپنا امیدوار اتاردیا تھا۔ اس چناؤ میں بھاجپا نے اپنے سینئر لیڈر ایس سریش کمار کو امیدوار بنایا تھا لیکن آخری لمحہ میں انہوں نے شاید ہارکو دیکھتے ہوئے اپنی امیدواری واپس لے لی۔ دوسری بڑی طاقت آزمائی تھی ایوان میں کمار سوامی کو اعتماد میں لینا۔ یہ بھی انہوں نے آسانی سے حاصل کرلیا۔ اعتماد کے حق میں 117 ووٹ پڑے جبکہ اکثریت کے لئے کم از کم تعداد کی شرط113 تھی ظاہرہے یہ معمولی اکثریت والی سر

والدین کے 750 کروڑ روپے پرائیویٹ اسکولوں کی جیب میں

پرائیویٹ اسکولوں کے ذریعے بے تحاشہ فیس اضافہ سے دہلی میں والدین آج ہی نہیں پہلے سے پریشان ہیں۔ منمانی فیس بڑھانے دہلی سرکار اور عدالتیں دونوں سخت ہیں۔ دہلی سرکار نے 7 دنوں کے اندر 575 پرائیویٹ اسکولوں کو بڑھی فیس واپس دینے کا حکم دیا ہے۔ اسکولوں کو یہ فیس 9 فیصدی سود کے ساتھ والدین کو دینی پڑے گی۔ دہلی سرکار نے ان اسکولوں کی فہرست محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ پر ڈال دی ہے۔ مقررہ میعاد کے اندر بڑھی فیس نہیں لوٹانے کی صورت میں سخت وارننگ بھی دی ہے۔ دہلی سرکار کے محکمہ تعلیم نے ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ حکم دیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں چھٹے پے کمیشن کے نام پر والدین سے زیادہ فیس وصولی لیکن انہوں نے یہ پیسہ ٹیچروں کو نہیں دیا۔ اس کے بعد معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا۔ اس بارے میں سماعت ہونے اور عدالت کے حکم کے بعد سرکار کے محکمہ تعلیم نے یہ فرمان جاری کیا ہے۔ پہلے فیس نہیں لوٹانے والوں میں راجدھانی کے کل 1169 اسکول تھے لیکن عدالت کے حکم کے بعد کچھ اسکولوں نے بڑھی ہوئی فیس واپس کردی ہے اور کچھ نے والدین کو پیسہ بھی لوٹایا ہے۔ اب بھی 575 اسکولوں نے بڑھی فیس نہیں لوٹائی۔ جسٹس انل دی

کھلاڑی تو بہت ملیں گے نہیں ملے گا تو دوسرا ڈی ولیئرس

مہاراشٹر کرکٹ میں اب 360 ڈگری کے شارٹ نظرنہیں آئیں گے۔ 14 سال تک اپنے بلے سے کرکٹ شائقین کو لوٹ پوٹ کرنے والے ساؤتھ افریقہ کے بلے باز اے وی ڈی ولیئرس نے سبھی کھیلوں سے سنیاس لینے کا اعلان کرکے دنیا بھر میں اپنے پرستاروں کو چونکا و مایوس کردیا ہے۔ اے وی کے اس بڑے فیصلے سے نہ صرف فینز بلکہ کرکٹ امپائر بھی حیران ہیں۔یہ سنتے ہی سوشل میڈیا پر مانو ماتم سا چھا گیا۔ فینز کا کہنا ہے کہ کھلاڑی تو آتے جاتے رہیں گے لیکن کرکٹ میں اب دوسرے اے وی ڈی ولیئرس نہیں دیکھا جاسکتا۔ کھلاڑی تو بہت ملیں گے لیکن دوسرا ڈی ولیئرس نہیں مل پائے گا۔ اے وی کے ذریعے بہترین کٹ ، زور دار فل شارٹ اور اسپنروں پر حملہ کرتے ہوئے خوشی کی طرح ان کا بلہ بولتا تھا۔ یہ حملہ کو ناکام کرنے کے لئے کافی تھا۔ وہ گیند بازوں کے لئے ایک مسکراتے ہوئے خطرناک کھلاڑی تھے۔ وہ پل اسکپ شارٹ کھیلتے تھے جو سری لنکا کے تلک رتنے، دلشان کی وجہ سے مشہور ہوا۔ ان کا ریورس سوئپ کافی اثر دار تھا۔ وہ ڈیل اسٹین جیسے تیز گیند باز پر بھی ریورس سوئپ کھیل سکتے تھے۔ آف اسٹمپ کے باہر کھیلنا اور اسکوائر کے پیچھے کی گیند کو چپکے سے کھیلنا اور بہت سے دیگر شار