اشاعتیں

اگست 26, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

گجرات فسادات پر لائق خیر مقدم فیصلہ، انصاف کی جیت

27 فروری 2002 کو ہوئے گودھرا کانڈ کے ایک دن بعد یعنی28 فروری کو وشو ہندو پریشد نے گجرات بند کا اعلان کیاتھا۔ اس کے دوران احمد آباد کے نرودہ پاٹیہ علاقے میں بھارتی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور مشتعل بھیڑ نے وہاں اقلیتی فرقے پر حملہ بول دیا جس کے نتیجے میں تشدد میں 97 لوگ مارے گئے جبکہ33 دیگر لوگ زخمی ہوئے۔ تقریباً ساڑھے دس سال بعد اس قتل عام کے لئے عدالت نے 32 لوگوں کو قصوروار و سزا سنائی ہے جبکہ29 لوگوں کو بری کردیا گیا۔ احمد آباد کی اسپیشل عدالت نے بدھوار کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان لوگوں کو مجرمانہ سازش اور قتل کے معاملے میں قصوروار ٹھہرایا تھا۔ قصوروار پائے جانے والے لوگوں میں گجرات کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور وی ایچ پی کے سابق لیڈر بابو بجرنگی شامل ہیں۔ گجرات میں پہلی بار کسی سابق وزیر کو سزا سنائی گئی ہے۔ اس معاملے میں 70 لوگوں کو ملزم بنایا گیا تھا جن کے خلاف 325 سے زیادہ لوگوں نے گواہی دی تھی۔ ان میں چشم دید گواہ ، پولیس ملازم ، ڈاکٹر، فورنسک ماہرین اور اس معاملے میں اسٹنگ آپریشن کرنے والے ایک صحافی شامل تھے۔ وزیراعلی نریندر مودی کے قریبی مانے جانے والی مایا کوڈنانی کو مجرمان

کیا پاک جوڈیشیری فوج کا کھیل کھیل رہی ہے؟

پاکستان میں زرداری حکومت اور وہاں کی سپریم کورٹ میں لڑائی جاری ہے۔ پیر کو پاکستان کے نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف عدالت میں پیش ہوئے۔ اشرف کو 18 ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔ اشرف نے پیر کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے معاملوں کو پھر سے کھولنے کے لئے سوئس انتظامیہ کو خط لکھنے کے لئے مزید مہلت مانگی ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق61 سالہ پرویز اشرف نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ سوئس انتظامیہ کو خط لکھنے کے لئے انہیں چار سے چھ ہفتے کا وقت درکار ہے۔ اشرف کے جانشین رہے یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے اسی معاملے میں عدالت کے ایک حکم پر تعمیل نہ کرنے کے لئے توہین عدالت کا قصوروار پایا تھا اور انہیں نااہل قراردیا تھا۔ عدلیہ و انتظامیہ میں لڑائی کی تاریخ پاکستان میں لمبی ہے۔ پاکستان میں ججوں کو برخاست کرنے یا استعفیٰ دینے پر مجبور کئے جانے یا انہیں نظربند کرنے کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے لیکن اب گھڑی کی سوئی الٹی سمت میں گھومتی دکھائی پڑ رہی ہے۔ اب سپریم کورٹ منتخب وزیر اعظم کو برخاست کررہا ہے۔ گیلانی کے بعد اب اشرف پر بھی سپریم کورٹ کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان کا بھی حشر گیلانی جیسا ہے ہو ۔

منموہن سنگھ پر استعفیٰ دینے کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے

کیا پردھان منتری منموہن سنگھ اپنے عہدے سے ہٹنے والے ہیں؟رپورٹیں تو کچھ ایسی ہی آرہی ہیں۔جیسے جیسے سرکار مخالف ہوا تیز ہوتی جارہی ہے اور پارلیمنٹ کا کام کاج ٹھپ پڑا ہوا ہے اس سے ڈاکٹرمنموہن سنگھ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور ان کے استعفے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ پردھان منتری ان دنوں بیحد دباؤ محسوس کررہے ہیں۔ بھاجپا نے پارلیمنٹ کے اندر ان کے استعفے کا دباؤ بنایا ہوا ہے تو سڑکوں پر انا ہزارے ،اروندکیجریوال اور بابا رام دیو کے حمایتیوں نے منموہن سنگھ اور ان کی سرکار کے خلاف آندولن چھیڑ رکھا ہے۔ جنتا میں منموہن سنگھ اور اس سرکار کی مقبولیت دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور یہ ہی فکر کانگریسیوں کو کھائے جارہی ہے کہ زیادہ تر کانگریسی ارکان پارلیمنٹ اب پردھان منتری منموہن سنگھ کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ کانگریس کے لوگوں میں یہ چرچا عام ہے کہ منموہن سنگھ اتنے بدنام ہوچکے ہیں کہ جنتا میں ان کی مقبولیت زیرو ہوچکی ہے۔سوشل نیٹ ورکوں کے علاوہ گلے چوراہوں، بسوں، میٹروں و چائے پان اور نائی کی دوکانوں پر سرکار کو لیکر جو چرچائیں ہورہی ہیں وہ سب پردھان منتری کو ہی مل رہی ہیں جن سے وہ بیحد دباؤ میں ہیں۔ سرک

رام دیو کے ٹرسٹوں کا رجسٹریشن رد ہوگا اور ودیشی جائیداد ضبط

بابا رام دیو پر سرکاری شکنجہ کستا جارہا ہے۔حال ہی میں دہلی میں بابا رام دیو کے مظاہرے کے دوران شروعاتی دنوں میں ضرور لگا تھا کہ شاید اندر خانے بابا کی سرکار سے کوئی ڈیل ہوگئی ہے کیونکہ بابا سونیا کو ماتا کہہ رہے تھے اور راہل کو بھائی۔ پر مظاہرے کے آخری دنوں میں بابا سخت ہوگئے اور انہوں نے کانگریس پر ہلہ بول دیا۔ اب مرکزی سرکار نے اپنی ساری ایجنسیوں کو رام دیو کے کاروبار میں خامیاں نکالنے کے لئے لگادیا ہے۔ بابا رام دیو دان کے نام پر کاروبار کررہے ہیں ایسا کہنا ہے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا۔ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ یوگ گورو کا پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ کاروبار کررہا ہے۔ میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ بابا رام دیو کے ٹرسٹ کو چیری ٹیبل تنظیم کے طور پر رجسٹریشن رد کرنے کی تیاری کررہا ہے۔اس کے علاوہ ٹرسٹ کو دی جانے والی سبھی چھوٹ بھی واپس لینے کی تیاری میں ہے۔ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے مطابق بابا رام دیو کا یہ پتنجلی یوگ پیٹھ تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ ساتھ ہی ٹرسٹ کمائی کرنے میں جٹا ہے۔ انکم ٹیکس محکمے نے پتنجلی یوگ پیٹھ کا رجسٹریشن رد کرنے سے پہلے 100 سوالوں کی لسٹ بھیجی ہ

دونوں کانگریس بھاجپا آر پار کی لڑائی کے موڈ میں

کوئلے کے اشو پر اب بھاجپا اور کانگریس کے درمیان جنگ مزید تیز ہوگئی ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے اب ایک دوسرے پر ہلہ بول دیا ہے۔ پچھلے چھ دنوں سے پارلیمنٹ ٹھپ پڑی ہے۔ دونوں پارٹیوں میں تلخی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ان کے نیتا اب کھل کر ایک دوسرے پر تلخ رائے زنی کررہے ہیں۔ منگل کی صبح کانگریس پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے ایک بار پھر جارحانہ تیور دکھاتے ہوئے اپنے ممبران سے کہا کوئلہ معاملے میں سرکار کو کچھ بھی چھپانا نہیں ہے اور نہ ہی سرکار نے کوئی غلط کام کیا ہے ایسے میں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ بھاجپا سیاسی سازش کے تحت دیش کو گمراہ کرنے میں لگی ہے کیونکہ بلیک میلنگ بھاجپا کی روزی روٹی بن گئی ہے۔ ادھر لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج نے بھی جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے۔ وہ ابھی تک اس معاملے میں یوپی اے سرکار اور وزیر اعظم کو کٹہرے میں کھڑا کررہی تھیں لیکن وزیر اعظم کی تقریر کے بعد ان کے لہجے سرکار کے خلاف اور تلخ ہوگئے ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے کانگریس لیڈر شپ کو بھی لپیٹ لیا ہے انہوں نے اپنے خاص طرز انداز میں کہا کہ کوئلہ الاٹمنٹ کے کھیل میں جو پیس

گتیکا کی موت : یہاں تو ہر موت کے پیچھے ایک کہانی ہے

پچھلے کئی دنوں سے گتیکا شرما اور گوپال کانڈا کا کیس اخباروں کی سرخیاں بنا ہوا ہے۔ گتیکا خودکشی معاملے میں شاید کچھ نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے معاملے سامنے آچکے ہیں جن میں لڑکیوں کا قتل یا خودکشی جیسے معاملوں کی گتھی کے پہلو سامنے آئے۔ آخر ایسے معاملوں میں قصور کس کا ہے، ان لڑکیوں کا جو ترقی کرنے کے لئے ایسے جعل میں پھنس جاتی ہیں جس سے نکلنا کئی بار ناممکن ہوجاتا ہے یا پھر وہ ذمہ دار ہیں جو اپنی خواہشات کی قیمت وصولنا جانتی ہیں۔ گتیکا سے پہلے حال ہی میں ہمارے سامنے انورادھا بالی عرف فضا کا معاملہ آیا۔ مشتبہ حالات میں ابھی حال ہی میں اس کی موت ہوگئی۔ پولیس یہ پتہ نہیں لگا پائی کے فضا کی موت خودکشی ہے یا قتل یا پھر شراب کی زیادہ مقدار لینے سے اس کی موت ہوئی ہے۔ہریانہ کے سابق نائب وزیر اعلی چندر موہن عرف چاند کے ساتھ محبت کی یہ کہانی ایک مہینے بھی نہ چلی اور فضا اور چندر موہن کی شادی ٹوٹ گئی۔ اب سامنے رہ گئی موت کی ایک اور کہانی مدھیہ پردیش کی آر ٹی آئی رضاکار شہیلا مسعود کی موت کی کہانی بھی سیاسی داؤ پیچ کی طرف گھوم رہی ہے۔ کہتے ہیں مدھیہ پردیش کے بی جے پی کے ایک طاقتور لیڈر دھور

چیف جسٹس کپاڑیہ کے دو بیان

ہندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس ۔ایچ کپاڑیہ نے حال ہی میں دو بیان ایسے دئے ہیں جن کا مطلب نکالنا آسان نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے جسٹس کپاڑیہ نے اس خطرے کے تئیں سرکار کو آگاہ کیا تھا کہ جوڈیشیل اصلاحات کے نام پر عدلیہ کی آزادی سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس کے تبصرے کو سیدھے سیدھے اس عدالتی پیمانے و جوابدہی بل سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے جو لوک سبھا میں پاس ہوچکا ہے اور اب اس پر راجیہ سبھا کی مہر لگنی باقی ہے۔ اس کی ایک متنازعہ شق میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی جج کسی بھی آئینی اور جوڈیشیری ادارے یا افسر کے خلاف کھلی عدالت میں معاملے کی سماعت کے دوران غیر مناسب رائے زنی نہیں کرے گا۔ پچھلے کچھ برسوں میں کئی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جس میں سپریم کورٹ سے لیکر ہائی کورٹ تک نے سیدھے سیدھے سرکاری کام کاج کے طریقے پر تلخ ریمارکس دئے ہیں۔ تلخی کا یہ میعار یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے اگر حالت نہیں سنبھلتی تو سرکار کو گدی کیوں نہیں چھوڑدینا چاہئے۔ اب چیف جسٹس کپاڑیہ نے تازہ بیان دیا ہے کہ جج صاحبان کو ملک کی حکومت نہیں چلانا چاہئے اور نہ ہی پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ ججوں کو سونے

اوبامہ پھر صدر چنے گئے تو امریکہ میں خانہ جنگی کا امکان

امریکہ میں پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ ابھی وسکونس شہر کے گورودوارے میں کوئی گولہ باری کے تنازعے سے دیش پوری طرح سنبھلا نہیں تھا کہ اب جمعہ کو اس طرح کی ایک اور واردات سامنے آگئی۔ ایک بار پھر ایسے ہی ایک دہشت گرد نے نیویارک کے مشہور سیاحتی مقام امپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے پاس اندھا دھند گولیاں برسا کر اپنے ایک سابق ساتھی کو موت کی نیند سلا دیا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں بندوقچی جیفری جونسن مارا گیا۔ اس واقعہ میں8 لوگ بری طرح زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق بندوقچی ایک فیشن ڈیزائنر تھا۔ ادھر صدر براک اوبامہ اور ان کے امکانی سیاسی حریف ریپبلکن پارٹی کے امیدوار رومٹ رومنی کے درمیان وائٹ ہاؤس کی دوڑ سانپ سیڑھی کی طرح جاری ہے۔یہ اطلاع پیرکو شروع ہوئی ریپبلکن پارٹی کی کانفرنس سے پہلے ایک جاری سروے میں سامنے آئی۔ اس کانفرنس میں ریپبلکن پارٹی اپنے صدارتی امیدوار کا اعلان کرنے والی ہے۔ جب تک آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں ہوں گے پارٹی نے اپنا امیدوار اعلان کردیا ہوگا۔ سی این این او آر سی انٹرنیشنل سروے میں دعوی کیا گیا ہے اوبامہ نے 49 فیصد امکانی ووٹروں کو اپنی طرف راغب کیا ہے جبکہ رومنی نے 47فیصد ووٹروں ک

بھارتیہ کھیلوں کا سپر سنڈے

ایتوار یعنی سنڈے ہندوستانی کھیل کے لئے ایک اچھا دن رہا۔ یہ کہا جائے کہ سپر سنڈے رہا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ کرکٹ کی بات کریں تو سب سے بڑا کارنامہ ہماری انڈر 19 کرکٹ ٹیم کا رہا۔ کپتان انمکت چند(ناٹ آؤٹ 111) کی شاندار سنچری سے بھارتیہ انڈر19 ٹیم میں فائنل میں گذشتہ چمپئن آسٹریلیا کو 6 وکٹ سے ہرا کر تیسری ورلڈ کپ ٹرافی اپنے نام کی۔ بھارت نے اس سے پہلے محمد کیف اور وراٹ کوہلی کی رہنمائی میں 2000 اور2008 میں انڈر19 ورلڈ کپ خطاب اپنی جھولی میں ڈالا تھا۔ انمکت چند کے 111 رن کی شاندار ناٹ آؤٹ پاری اور وکٹ کیپر سمت پٹیل (ناٹ آؤٹ) کے ساتھ ان کی130 رن کی ناٹ آؤٹ سانجھے داری سے بھارت نے اچھال پچ پر 226 رن کا یہ نشانہ 14 گیند باقی رہتے ہوئے حاصل کرلیا۔ آسٹریلیا اس سے پہلے کبھی فائنل میچ نہیں ہارا تھا۔ انڈر19 ٹیم کی جیت سے یہ بات کنفرم ہوجاتی ہے کہ اگر سینئر ٹیم کامیاب ہوتی ہے تو وہ کوئی تکا نہیں ہوتا۔ بی سی سی آئی اور متعلقہ تنظیم بھی اس بات کے لئے مبارکباد کی مستحق ہیں جنہوں نے ان نوجوان کھلاڑیوں کو آگے بڑھنے کا موقعہ ملا۔ اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ بھارت میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ موقعہ اور سہولیات ملنی

پرموشن میں ریزرویشن دینے کی تجویز پر اٹارنی جنرل کا انتباہ

درج فہرست ذاتوں و شیڈول قبائل برادریوں کو ترقی میں ریزرویشن دینے سے متعلق بل لانے کا وعدہ کرکے منموہن سنگھ سرکار کے سامنے اب نیا پیچ پھنسادیا ہے۔ مرکز کو اس کے ہی سینئر آئینی افسر اٹارنی جنرل جی ای واہنوتی نے صلاح دی ہے کہ سرکاری نوکریوں میں ترقی میں ریزرویشن دینے کی تجویز قانونی طور پر جائز نہیں ہے۔ انہوں نے سرکار کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر کوئی بھی قانون لاتے وقت سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے۔اس طرح کے قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جبکہ اس مدعے پر سپریم کورٹ اترپردیش کی جانب سے ترقی میں ریزرویشن دینے کے قانون کو منسوخ کرچکی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے ایک باقاعدہ ترمیم کرکے ایس سی ؍ایس ٹی کو ترقی میں ریزرویشن کا بھروسہ سیاسی پارٹیوں کو دلایا تھا۔ واہنوتی نے سرکار کو آگاہ کرتے ہوئے نصیحت دی ہے کہ ترمیم کے لئے مجوزہ قدم مضبوط ہونے چاہئیں کیونکہ شہری اختیارات کی خلاف ورزی کی بنیادپر لوگ کورٹ میں اسے چنوتی دیں گے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیادپر سرکار کو اس مسئلے کے سبھی پہلوؤں سے واقف کراتے ہوئے اس میں ترقیوں کی بھی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ سرکار کو اٹارنی جنرل کی ص

ناجائز طریقے سے آکر بنے بنگلہ دیشی درانداز گھر جمائی

بیشک آگ ابھی آسام میں مگر اس کی جڑیں قومی راجدھانی خطہ دہلی تک پھیل گئی ہیں۔ یہاں بھی ذرا سی چنگاری کبھی بھی آگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ میں ان ناجائز بنگلہ دیشیوں کی بات کررہا ہوں ۔ آج تک یہ صحیح اندازہ کسی نے نہیں لگایا کہ ان ناجائز بنگلہ دیشیوں کی دیش میں صحیح تعداد کتنی ہے؟ انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ اینالیسس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دیش میں دو کروڑ سے زائد غیر قانونی بنگلہ دیشی شہری موجود ہیں۔ دیش میں رہنے والے اور ہندوستانی شہریوں مساوی سہولیات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ ناجائز بنگلہ دیشی پرواسیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہنے پر دہلی کی ایک عدالت نے مرکزی حکومت کو حال ہی میں جم کر جھاڑ پلائی۔ عدالت نے دو بنگلہ دیشی شہریوں کو ڈکیتی و قتل کے معاملے میں عمر قید اور 10 سال کی قید کی سزا سناتے ہوئے سخت ریمارکس دئے۔ ایڈیشنل سیشن جج کامنی لا نے کہا ’’ہمارا دیش ان سبھی مجرمانہ عناصر کے لئے سورگ بن گیا ہے جو اپنے راستے میں آنے والے کسی شخص کے ساتھ انتہائی کٹرتا اور بربریت سے پیش آتے ہیں۔ انہوں نے کہا جب دیش کے اصلی شہری انتہائی غریبی کا سامنا کررہے ہیں تو سرکارکو بھارت میں غیر قانونی

بینک ہڑتال سے آخر نقصان کس کو ہوگا؟

سرکاری سیکٹر کے بینکوں کی دوروزہ ملک گیر ہڑتال سے دیش بھر میں بینکوں میں لین دین بری طرح متاثر ہوا۔ بیشک پرائیویٹ بینکوں کے ملازمین ہڑتال میں شامل نہ ہونے سے کچھ حد تک صارفین کو پیسہ لینے یا جمع کرنے میں کوئی دقت نہیں آئی اور کچھ نے تو اے ٹی ایم سے کام چلایا۔ لیکن نجی سیکٹر یا پبلک سیکٹر کے اقتصادی لین دین پر اس کا اثر پڑا اور کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوا۔ بینکوں میں کام کاج ٹھپ رہنے سے نقدی کی منتقلی، چیک کلیرینگ ،غیر ملکی کرنسی لین دین سمیت تمام بینکنگ سروس ٹھپ رہیں۔ وقت پر چیک کلیر نہ ہونے سے بڑی تعداد میں سودوں کی ادائیگی رک گئی۔ نقدی کا لین دین رک جانے سے شیئر بازاروں میں بھی سستی رہی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہڑتال کا دائرہ کافی وسیع رہا۔ اس کے ذریعے سرکاری سیکٹر 24 اور کچھ پرائیویٹ بینکوں کے 10 لاکھ ملازمین نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اقتصادی سیکٹر میں 1 یا2 دن کی دیری بھی ہزاروں کروڑ روپے کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس ہڑتال کا اثر اتنا ہی محدود نہیں ہوگا۔ پچھلا ہفتہ کافی چھٹیوں والا تھا۔ یوم آزادی کے ایک دن بعد سنیچر اور ایتوار آگیا اور پیر کو عید کی چھٹی ہوگئی یعنی 15 اگست کے بعد