اشاعتیں

اگست 21, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چوطرفہ دباؤ میں مایاوتی

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 27th August 2011 انل نریندر جیسے جیسے اترپردیش میں اسمبلی انتخابات قریب آتے جارہے ہیں ویسے ویسے مایاوتی کی مشکلیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ چار برس تک تو حالات بہن جی کے قابو میں ہی رہے لیکن پانچویں سال میں حالات ان کے قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ ان پر چوطرفہ دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ راہل گاندھی زمین پر اترکر گاؤں گاؤں گھوم رہے ہیں تو دوسری طرف عدالتوں نے مایاوتی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ایک نئی پریشانی پیدا کردی ہے۔ ان سب کی وجہ سے مرکزی حکومت نے بھی ریاستی حکومت کی گھیرا بندی شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق گھوٹالوں اور مجرمانہ سازشوں کے لئے بدنام ہوچکی قومی دیہی ہیلتھ مشن اسکیم سمیت مرکز کی سبھی اسکیموں کے لئے پچھلے چار برسوں میں بھیجے گئے پیسے کے استعمال کا حساب اترپردیش حکومت سے مانگے جانے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ اس کا آغاز ریاستی حکومت کو این آر ایم ایم اسکیم کے تحت دی جانے والی رقم میں 700 کروڑ سے زیادہ کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مایاوتی کے قریبی مانے جانے والے کچھ صنعت کاروں

غلام فائی کی گرفتاری سے پھربے نقاب ہوا پاکستان

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 27th August 2011 انل نریندر سبھی جانتے تھے کہ امریکہ میں پاکستان لابی بہت زیادہ طاقتور ہے اور پچھلے کئی برسوں میں اسی لابی کے سبب سب کچھ جانتے ہوئے بھی امریکی انتظامیہ پاکستان کی اقتصادی، فوجی، مدد کرتا چلا آرہا ہے۔ لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ اس لابی کے پیچھے کون کون سی طاقتیں کام کررہی ہیں۔ گذشتہ دنوں امریکہ نے اپنے ایک اور شہری کو گرفتار کیا ہے جو دہائیوں سے ایک رضاکار تنظیم کی آڑ میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لئے کام کررہا تھا اور کشمیر پر ہند مخالف پروپگنڈے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہا رہا تھا۔ کشمیری امریکن کونسل نامی اس رضا کار تنظیم کے ڈائریکٹر کی شکل میں غلام نبی فائی آئی ایس آئی سے حوالہ کے ذریعے کروڑوں روپے یومیہ طور پر پاتا تھا اور اس کا استعمال امریکی ممبران پارلیمنٹ کو کشمیر پر بھارت کے خلاف بھڑکانے کیلئے کرتا تھا۔ غلام فائی ایسے دوسرے پاکستانی نژاد امریکی ہیں جنہیں امریکہ نے گرفتار کیا ہے۔ اس سے پہلے آتنکی ڈیویڈ ہیڈلی گرفتار ہوا تھا۔ چونکانے والی بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ فائی

حکومت نے لڑائی کا رخ بدل دیا: انابنام پارلیمنٹ

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 26th August 2011 انل نریندر بدھوار کے روز ٹیم انا کے انشن کے مسئلے پر بلائی گئی سبھی سیاسی پارٹیوں پر مشتمل آل پارٹی میٹنگ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔ اس پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا۔ اشارے تو پہلے ہی مل رہے تھے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی انا کے جن لوکپال بل کو جوں کا توں حمایت نہیں دے سکتی۔ کچھ مسئلوں پراتفاق تھا کچھ پر بالکل نہیں۔اور کچھ پر ہو بھی سکتا ہے۔ ہاں ایک بات پر تمام اپوزیشن میں اتفاق تھا کہ سرکاری لوکپال بل بالکل قابل قبول نہیں اور اسے سرکار کو واپس لے لینا چاہئے۔ بھاجپا سمیت کچھ پارٹیا چاہتی تھیں کہ سرکار اپنے لوکپال بل کو پوری طرح واپس لے اور ایک نیا مجوزہ لوکپال بل پیش کرے جس میں انا کے جن لوکپال بل کے کچھ اہم نکتوں کو بھی شامل کیا جائے۔ لیکن حکومت اور اس کی اتحادی پارٹی لوکپال بل واپس لینے کو تیار نہیں ہوئیں۔ میٹنگ میں این ڈی اے و لیفٹ پارٹیوں کے ساتھ والی9 پارٹیوں کے مورچے نے ایک بار پھر سیدھے طور پر سرکاری لوکپال بل کو مسترد کردیا۔ لیکن خاص بات یہ رہی کہ کسی بھی پارٹی نے پوری طرح س

اناکے جن لوکپال پر بھاجپا کا موقف کیا ہے؟

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 25th August 2011 انل نریندر دیر سویر انا کے جن لوکپال بل پر پارلیمنٹ میں بحث ضرور ہوگی۔ ٹیم انا یہ سمجھ گئی ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی حمایت انہیں ضرور چاہئے اس لئے ٹیم انا نے مختلف پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی پر کام شروع کردیا ہے۔ جن لوکپال بل کی حمایت میں ہزاروں لوگوں نے دہلی سمیت دیش کے مختلف حصوں میں ممبران پارلیمنٹ اور مرکزی وزراء کے گھروں پر مظاہرے کئے ہیں۔ وزیراعظم منموہن سنگھ، وزیر انسانی وسائل ترقی کپل سبل، دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت،بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی و راج ناتھ سنگھ سبھی کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمنٹ میں بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ آج تک بھاجپا نے یہ نہیں بتایا کہ وہ انا کے جن لوکپال بل کے ساتھ ہے یا نہیں؟ آئے دن یہ کہنے سے اب کام نہیں چلے گا کہ سرکاری لوکپال بل میں مختلف خامیاں ہیں۔ آپ جن لوکپال بل کی بات کریں اس میں آپ کو کیا کیا قبول ہے اور کیا نہیں؟ جو نہیں ہے وہ کیوں نہیں ہے؟

ایک اور عرب ڈکٹیٹر کی بدائی

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 25th August 2011 انل نریندر مصر کے تحریر چوک سے شروع ہوئی عوامی آندھی اب لیبیا تک پوری طرح پہنچ چکی ہے۔ تقریباً 42 سال تک لیبیا میں راج کرنے والے کرنل معمر قذافی کاوقت قریب آگیا ہے۔ پیر کو راجدھانی ترپولی کے زیادہ تر حصے پر لیبیائی باغیوں کا قبضہ ہوگیا ہے۔ باغی لڑاکوں نے قذافی کے بیٹے اور ایک طرف ان کے جانشین رہے سیف علی اسلام کو پکڑ لیا ہے۔ سیف اپنے والد کے ساتھ عالمی کرمنل عدالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کا سامنا کررہا ہے۔ نیٹو کی ترپولی اور آس پاس کے علاقوں میں بمباری جاری ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جب تک قذافی حمایتی فوجی خود سپردگی نہیں کردیتے یا اپنے بیرک میں نہیں لوٹ جاتے تب تک بمباری جاری رکھی جائے گی۔قذافی لا پتہ ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ وہ پڑوسی ملک الجزائر فرار ہوگئے ہیں یا ہوسکتا ہے کہ وہ کسی بنکر میں چھپے بیٹھے ہوں۔ قذافی کے اقتدار کی علامت ترپولی کے گرین چوک میں شہریوں کی خوشی منانے کے درمیان عالمی برادری نے لیبیائی لیڈرسے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑدیں۔ امریکی صد

ان اہم مسئلوں پر اختلاف کا جلد حل نکالنا ہوگا

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 24th August 2011 انل نریندر  جیسا کہ میں نے کل قارئین کوبتایا تھا کہ جن لوکپال بل میں کیا ہیں اہم نکتے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ حکومت اور ٹیم انا کے درمیان کن کن مسئلوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جنہیں بلا تاخیر حل کرنا ہوگا۔اس تعطل کو ہر حالت میں توڑنا ہوگا۔ سب سے بڑا اختلاف وزیر اعظم کو لوکپال بل کے دائرے میں لانے پر ہے۔ سرکاری لوکپال بل میں وزیر اعظم کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے۔ جب وہ عہدہ چھوڑیں گے تب کرپشن کے الزامات کی جانچ لوکپال کرسکتا ہے۔ انا کی ٹیم اس کے لئے تیار نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ وزیراعظم کو بھی لوکپال کے دائرے میں آنا چاہئے۔ اس پر وزیر اعظم کو پہل کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے خود کئی بار یہ کہا ہے کہ وزیر اعظم کو اس کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ 20 ستمبر2004 ء دہرہ دون میں آل انڈیا لوک آیکت اور ڈپٹی لوک آیکت کانفرنس میں شامل ہوتے ہے وزیر اعظم نے کہا ’’اس بات پر وسیع طور پر اتفاق رائے ہے کہ براہ راست یا غیر براہ راست طور پر عوام کے چنے نمائندوں کو لوکپال کے دائرے میں لایا ج

کہاں چھپے بیٹھے ہیں راہل گاندھی؟

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 24th August 2011 انل نریندر اس میں کوئی شبہ نہیں کے انا ہزارے ایک بہت ہمت اور پختہ عزم کے انسان ہیں ۔ جو ٹھان لیتے ہیں وہ کر کے ہی ہٹتے ہیں۔ ان کی بھوک ہڑتال کو آج آٹھ د ن ہوچلے ہیں۔ انا کے وزن میں پانچ کلو کی گراوٹ آچکی ہے اور یہ آگے بھی جاری رہ سکتی ہے لیکن ان کا حوصلہ قائم ہے۔ انا نے بتایا کہ 2007 میں انہوں نے پنے کے نزدیک سنت گیانیشور کی سمادھی کے پاس 12 دن تک انشن کر آر ٹی آئی کے خاتمے کی حکومت کی کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔ لیکن یہ چار سال پہلے کی بات ہے۔ عمر کا بھی تقاضہ ہے۔ انا کی صحت کی اب سبھی کو فکر ہونی شرو ع ہوگئی ہے۔ وقت اب نہ تو انا کی ٹیم کے پاس زیادہ ہے اور حکومت کے پاس تو بالکل نہیں۔ اگر انا کی صحت بگڑ گئی تو برا ہوسکتا ہے۔ جسے اس حکومت کے لئے سنبھالنا مشکل پڑ جائے گا۔ مجھے سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ انا اور حکومت کے درمیان آئے اس ڈیڈ لاگ کو آخر کوئی توڑنے کی کوشش کیوں نہیں کررہا؟ غیرمصدقہ ذرائع کا کہنا ہے روحانی پیشوا میوجی مہاراج اور مہاراشٹر حکومت کے ایڈیشنل سکریٹری امیش سارنگی نے

آخر کس جن لوکپال بل کیلئے جنتا سڑکوں پر آئی ہے

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 23rd August 2011 انل نریندر انا ہزارے کو بھوک ہڑتال پر بیٹھے سات دن گذر گئے ہیں۔ ابھی تک ان کی طبیعت ٹھیک ہے لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے ایک خطرہ بھرا وقت آنے والا ہے۔حالانکہ انا نے ایک بار پہلے 18 دن کی بھوک ہڑتال کی تھی لیکن اب وہ 74 سال کے ہوگئے ہیں اور ان کی صحت کو روزمرہ اب خطرہ بڑھے گا۔ اس لئے ان کے مطالبات کا حل جلد ہی نکالنا چاہئے۔ ؔ نے والے تین چار دن کافی اہم ہوسکتے ہیں۔ اگر انا کو کچھ ہوگیا تو حالات بے قابو ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اس لئے سرکار کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ اسے بہت جلد حل نکالنا ہوگا۔ سرکار کو دراصل سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کرے تو کرے کیا۔ ایک طرف نویں کلاس پاس انا ہزارے دوسری طرف سرکار کے اعلی تعلیم یافتہ اور دنیا دیکھے وزرا کی فوج ۔ اگر انا کے سیدھے سادھے جذبات ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ وزیر مسٹر کپل سبل اور مسٹر پی چدمبرم جیسے چالاک اور سمجھ رکھنے والوں کی بھیڑ کو نہیں سمجھ میں آرہا ہے کہ انا کا کیا کریں۔ پوری سرکاری مشینری

join DAILY PRATAP on FACEBOOK

Hello, sign up for facebook on below link, once you join you will recived latest news and views ------------------------------------------------------------------------------- Visit  https://www.facebook.com/pages/Daily-Pratap-Urdu-Newspaper/257067407650404   for news updates of the day. Read and share Daily Pratap on facebook Thanks and Regards, Daily Pratap Team

سونیا گاندھی کی کمی دور کرنے کیلئے راہل گاندھی کی تاجپوشی

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 21st August 2011 انل نریندر برطانیہ کے مقبول ہفت روزہ اخبار 'ایکونومسٹ' نے لکھا ہے کہ راہل گاندھی کی وزیر اعظم کے طور پر تاجپوشی اور جلدی ہوسکتی ہے اس کے مطابق سماجی رضاکار انا ہزارے کی بدعنوانی مخالفت تحریک نے وزیراعظم منموہن سنگھ کی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں اب یہ امکان ہے کہ کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی کو جلد ہی یہ عہدہ سونپ دیا جائے۔ انا ہزارے کی تحریک کے بارے میں اخبار نے لکھا ہے کہ سونیا گاندھی کی بیماری کے سبب حکمران کانگریس پارٹی کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ اس بارے میں شبہ بنا ہوا ہے کہ سونیا گاندھی کب تک وطن واپس لوٹیں گی۔ یہ بھی خیال ہے کہ کانگریس بکھر رہی ہے۔ جن لوک پال تحریک کی چوطرفہ مشکلوں میں گھری یوپی اے سرکار کو ہی نہیں بلکہ کانگریس کو بھی اس نازک سیاسی بحران میں سونیا گاندھی کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ انا کے ستیہ گرہ کے سامنے حکمراں سرکار کے ہر داؤ پیچ ناکام ہونے کے بعد لیڈر شپ کے حکمت عملی سازوں کو لیکر پارٹی کے اندر ہی سنکٹ کے سوال اٹھنے لگے ہیں۔ انا

بھارت ہی نہیں ساری دنیا میں انا کا ڈنکا

تصویر
   Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 21st August 2011 انل نریندر فوج سے ریٹائرڈ ہوئے ایک جوان نے کبھی تصوربھی نہ کیا ہوگا کہ ایک دن وہ سارے دیش میں اس قدر چھا جائیں گے۔انہیں لوگ دوسرا گاندھی کہیں گے۔ جی ہاں میں انا ہزارے کی بات کررہا ہوں۔انا نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن انہیں نہ صرف بھارت کا بچہ بچہ جان جائے گا بلکہ پوری دنیا ان کی طاقت کو سلام کرے گی۔ مشن نیک ہو ،پختہ عزم ہو اور میڈیا کی پوری طاقت لگ جائے تو آدمی ہی مہاتما کا درجہ پا لیتا ہے۔ آج انا ہزارے کی حمایت صرف بھارت میں ہیں نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ، پاکستان تک میں پھیل چکی ہے۔ بدعنوانی انسداد بل ''جن لوکپال '' بل کی حمایت میں انشن کی اجازت نہ دے رہی مرکز کی یوپی اے سرکار ک جھکنے کیلئے مجبور کرنے والے مشہور گاندھی وادی رضاکار انا ہزارے کی دنیا بھر میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکہ کی نامور میگزین ٹائم نے اپنی ویب سائٹ پر اس مسئلے کو کافی ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بدعنوانی کی مخالفت کررہے ایک سماجی رضاکار نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو گھٹنے ک