اشاعتیں

مارچ 4, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چندرابابونائیڈوو نریندر مودی کی دوستی ٹوٹی

تیلگودیشم پارٹی اور بھاجپا کے رشتے ان دنوں خراب چل رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب نریندر مودی اور چندرا بابو نائیڈو ایک ساتھ ہاتھ ملاتے اور مسکراتے ہوئے تصویریں دکھائی پڑتی تھیں لیکن اب وہ پرانی بات ہوگئی ہے۔ ٹی ڈی پی نیتا چندرابابو نائیڈو کے ذریعے مرکز سے اپنے دو وزیر ہٹانے کے بعد بھاجپا کے وزرا نے آندھرا کوٹے سے کیبنٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دونوں میں دراڑ کی وجہ ہے ریاست کو اسپیشل درجہ۔ ٹی ڈی پی طویل عرصہ سے آندھرا پردیش کے لئے اس درجہ کی مانگ کررہی ہے اور مرکزی سرکار کی طرف سے اب یہ تقریباً صاف ہوگیا ہے کہ آندھرا کو یہ خصوصی درجہ نہیں ملے گا۔ بھاجپا کا کہنا ہے کہ وہ آندھرا پردیش کی ترقی کے لئے عہد بندہ ے اور ریاستی حکومت کی ہر ممکن مدد کی جائے گی لیکن بے جواز مانگوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پہلے چندرابابو نائیڈو نے اسمبلی میں کہا تھا کہ کانگریس کا وعدہ ہے کہ وہ اگر 2019 میں اقتدار میں آتی ہے تو آندھرا پردیش کو خصوصی درجہ دے گی، پھر بھاجپا سرکار ایسا کیوں نہیں کررہی ہے؟نائیڈو کی شکایت ہے کہ بھاجپا لیڈر شپ میں ریاست کو خصوصی درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر ان کا کہنا تھا کہ سبھی

کانگریس میں بڑھتا عدم اعتمادی کا بحران

کچھ دن ہوئے جب راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ضمنی انتخابات میں ملی کامیابی کو دیش کی سب سے پرانی جماعت کانگریس کے پنرجنم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ پارٹی کے نئے مقرر صدر راہل گاندھی کو اس جیت کا سہرہ دینے والوں کی کمی نہیں تھی۔ لیکن دیش کے تین نارتھ ایسٹ اسٹیٹ کے نتائج نے سنیچر وار کو پارٹی کے سارے جوش پر پانی پھیر دیا۔ کبھی پورے نارتھ ایسٹ کو کانگریس کا گڑھ مانا جاتا تھا جہاں کی عوام صرف گاندھی خاندان کا نام دیکھ کر ہی ووٹ ڈالا کرتی تھی۔ اب پارٹی صرف دو ریاستوں منی پور۔ میگھالیہ میں سمٹ کر رہ گئی تھی اب وہ وہاں حکمراں نہ ہوکر سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ نارتھ ایسٹ کا اسکاٹ لینڈ کہلانے والے میگھالیہ میں بھاجپا نے ایتوار کو محض تین گھنٹے میں بازی پلٹتے ہوئے کانگریس کے ہاتھ سے اقتدار چھین لیا۔دس سال سے سرکار چلا رہی کانگریس 21 سیٹیں جیت کر بڑی پارٹی کے طور پر تو ابھری ہے مگر اقتدار سے باہر ہوگئی ہے۔ نتائج کے بعد بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آنے کے بعد کانگریس نے رات میں ہی گورنر سے ملاقات کر سرکار بنانے کا دعوی پیش کیا تھا۔ اس درمیان بھاجپا کے کئی سرکردہ لیڈر بھی رات میں شیلانگ پہنچ گئے اور

مورتیوں کو توڑنے کا سلسلہ قابل مذمت

مورتیاں محبت کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ کچھ آستھا اور عقیدت کے چلتے بنتی ہیں،کچھ کے پیچھے آئیڈیا لوجی بھی ہوتی ہے۔ مورتیوں کے بنائے جانے کے تئیں کئی وجہ ہوسکتی ہیں لیکن انہیں توڑنے کے پیچھے وجہ ایک ہی ہوتی ہے رقابت۔ تریپورہ چناؤ کے نتیجے آنے کے بعد جس طرح سے روسی سامراجی انقلاب کے ہیرو ولادیمیر اور لینن وپیریار کی مورتی تاملناڈو میں توڑنا، و کولکتہ میں جن سنگھ کے بانی شاما پرساد مکھرجی کے مجسمے کو توڑنے کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اس سے تو ہمیں افغانستان میں طالبان کی کرتوت یادآتی ہے جس نے بامیان صوبے میں صدیوں سے کھڑی مہاتما بدھ کی اس مورتی کو ڈھا دیاتھا۔ اس عالمی وراثت کو کن آرٹسٹوں نے بنایا ان کا کوئی نام نہیں جانتا لیکن وہ آستھا کی علامت تھی۔ ہمیں وہ منظر بھی یاد ہے جب عراق میں امریکی حملہ کے بعد صدام حسین کی ایک چوراہے پر لگی مورتی توڑی گئی تھی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے جو لوگ اقتدار حاصل ہوتے ہی مورتیوں اور یادگاروں کو توڑنے کا کام کرتے ہیں وہ کوئی نیک کام نہیں کررہے۔ خیال رہے کہ تاریخ شاید ہی انہیں کبھی اچھی نظر سے دیکھے۔ تاریخ کسی بھی حکمراں کو اس کے کام کاج کے لئے یاد رکھتی ہے۔

فوجی افسر سے جرائم پیشہ جیسا برتاؤ نہ ہو

شکر ہے سپریم کورٹ نے شوپیاں گولی سانحہ کے معاملہ میں 10 گڑھوال رائفلس کے میجر آدتیہ کمار کے خلاف کسی طرح کی جانچ پر روک لگا رکھی ہے۔ بڑی عدالت نے پیر کو دو ٹوک کہا کہ میجر آدتیہ ایک فوجی افسر ہیں ان کے ساتھ جرائم پیشہ جیسا برتاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پہلے جموں و کشمیر حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایف آئی آر میں میجر آدتیہ ناتھ کو اب تک ملزم نہیں بنایا گیا ہے۔ اسے ایک طرح سے ریاستی حکومت کا پلٹی کھانا مانا جارہا ہے۔ وہیں مرکزی حکومت نے شوپیاں میں فوج کی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ جموں و کشمیر میں 27 جنوری کو فوج کی ایک ٹیم پر بھیڑ نے پتھر بازی اور حملہ کیا تھا اس سے بچنے کے لئے فوج نے فائرننگ کی تھی جس میں تین لوگوں کی جان چلی گئی تھی ۔ اس معاملہ میں جموں وکشمیر پولیس نے فوج کے افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ فوج کی جس ٹیم پر حملہ ہوا تھا اس کی رہنمائی آدتیہ کمار کررہے تھے۔ ایف آئی آر میں ان کا ہی نام ہے۔ میجر آدتیہ کمار کے والد لیفٹیننٹ کرنل کرنویر سنگھ نے کورٹ میں عرضی دائر کر ایف آئی آر منسوخ کرنے کی مانگ کی تھی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی تین نفری بنچ کے سامنے جم

سری لنکا میں بودھ بنام مسلمان لڑائی

بھارتیہ کرکٹ ٹیم کے دورہ کے دوران سری لنکا میں ایمرجنسی لگادی گئی ہے۔ وہاں کے صدر میتری پالا سری سینا نے منگل کو فرقہ وارانہ فساد شروع ہونے کے بعد دیش میں 10 دنوں کے لئے ایمرجنسی کا اعلان کردیا ہے۔ یہ فساد مسلم اور بودھ فرقہ کے درمیان ہوا ہے۔ پیر کی رات سری لنکا کے کینڈی ضلع میں بھیڑ سڑکوں پر نکل آئی اور ایک مسجد سمیت مسلم فرقہ کے کئی گھروں اور دوکانوں کو جلادیا۔ ایک شخص کی موت ہوگئی۔ اس تشدد کو تیزی سے پورے دیش میں پھیلنے کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے ایمرجنسی کا اعلان کردیا گیا۔ پچھلے سال نومبر میں بھی ایک علاقہ گال میں ایسے ہی فرقہ وارانہ کشیدگی کے حالات بنے تھے۔ کینڈی سے ملی اطلاعات کے مطابق بودھ دھرم کے ماننے والے سنہالی لوگوں نے مسلمانوں کی دوکانوں پر حملہ کئے اور انہیں آگ کے حوالہ کردیا۔ ایک جلی ہوئی عمارت سے ایک مسلم شخص کی لاش برآمد ہونے کے بعد سری لنکا میں پولیس کو بدلے کی کارروائی کا اندیشہ ہے۔ ہفتہ بھر پہلے ٹریفک ریڈ لائٹ پر ہوئے جھگڑے کے بعد کچھ مسلمانوں نے ایک بودھ لڑکے کی پٹائی کی تھی تبھی سے وہاں کشیدگی بنی ہوئی ہے۔ 2012 سے ہی سری لنکا میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی صورتحال ب

جنتا کے پیسوں کی لوٹ برداشت نہیں ہے

بینکوں میں گھوٹالوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہیرا تاجر نیرو مودی ، گیتانجلی جیمس کے مالک میہول چوکسی سے متعلق گھوٹالہ معاملہ میں1300 کروڑ روپے کے مزید گھوٹالہ کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے بعد بینک کو لگی قرض کی رقم بڑھ کر 12600 کروڑ روپے ہوگئی ہے۔ ادھر بدھوار کو کولکتہ میں سی بی آئی نے کمپیوٹر کے مالک آر پی انفو سسٹم اور اس کے ڈائریکٹروں پر بینکوں کے ساتھ گٹھ جوڑکر کے مبینہ طور سے 515.15 کروڑ روپے کی دھوکہ دھڑی کا معاملہ درج کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پی این بی گھوٹالہ پر پہلی رائے زنی کرتے ہوئے جمعہ کو کہا تھا کہ جنتا کے پیسے کی لوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ مالی دھاندلیاں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مالیاتی اداروں کے انتظام اور نگرانی ایجنسیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پوری ایمانداری سے اپنا کام کریں تاکہ اس طرح کے گھپلہ روکے جاسکیں۔ وزارت مالیات کا سبھی پبلک سیکٹر کے بینکوں کو 50 کروڑ روپے سے زیادہ رقم ڈکارنے والے کھاتوں کی فہرست بنا کر سی بی آئی کو سونپنے کی ہدایت کا مطلب ہے کہ سرکار نے بینکوں کے ڈوبے ہوئے یا ڈوبائے ہوئے قرض کی وصولی کے لئ

وجود بچانے کیلئے ببوا نے کی بوا کی حمایت

جب دشمن کی طاقت مسلسل بڑھ رہی ہو اور سوال خود کے وجود پر کھڑا ہوجائے تو دشمنوں کو آپسی تلخی بھلا کر قریب آنا ہی پڑتا ہے۔ ایسی ہی حالت سے لڑ رہی سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی دونوں کو احساس ہوگیا ہے ایک اور ایک گیارہ ہوکر وہ بھاجپا پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان 22 سال سے سیاسی دشمنی چلی آرہی ہے۔ بتا دیں کہ اس سے پہلے 1993 میں سپا ۔بی ایس پی ایک ساتھ چناؤ لڑ چکے ہیں تب مقصد رام لہر کو روکنا تھا۔ تب ایس پی۔ بسپا کے اتحاد نے سرکار بنائی تھی اور بھاجپا نمبروں میں پچھڑ گئی تھی۔ گیسٹ ہاؤس کانڈ کے بعد اتحاد ٹوٹا تو دونوں پارٹیاں کبھی ساتھ نہیں آئیں۔ حالانکہ اکھلیش یادو کئی بار کھلے اسٹیج پر اتحاد کرنے کی تجویز دے چکے ہیں لیکن بہن جی نے انکار ہی کیا۔ غور طلب ہے کہ پچھلے اسمبلی چناؤ میں سپا کو 28فیصد اور بی ایس پی کو22 فیصد ووٹ ملے تھے۔ دونوں کے اتحاد کو جوڑ لیں تو یہ 50 فیصد ووٹ ہوجاتا ہے ایسی صورت میں بھاجپا کے لئے ضمنی چناؤ میں سپا کے امیدواروں کو ہرانا بیحد مشکل ہوجائے گا۔ گورکھپور اور پھولپور سیٹیں یوگی آدتیہ ناتھ اور کیشو پرساد موریہ کے استعفیٰ کے بعد خالی ہوئی ہی

تریپورہ کی ہار لیفٹ کے تابوت میں کیل

تریپورہ کی ہارکے بعد لیفٹ پارٹیوں کے لئے اپنے سیاسی وجود کو بچانے کو لیکربحران کھڑا ہوگیا ہے۔ ان کے لئے یہ ہار تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل سیتا رام یچوری نے بنگال چناؤ کی طرز پر تریپورہ میں بھی کانگریس کے ساتھ مل کر چناوی سمر میں اترنے کی تجویز رکھی تھی لیکن پارٹی کے پولٹ بیورو نے تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ مغربی بنگال چناؤ کی حالت ہوجائے گی جہاں پارٹی کی حیثیت تیسرے و چوتھے نمبر پر ہوگئی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے لیفٹ پارٹیوں کی طرز پر ہی کراری مات دی تھی۔ لیفٹ فرنٹ کی اتحادی پارٹیو ں کو ریاست کے پنچایت و شہری کارپوریشنوں کے چناؤ میں تیسرے و چوتھے مقام پر تشفی کرنی پڑی تھی۔ تریپورہ کی 20 سال کمان سنبھالنے والے منک سرکار کو لگتا ہے کہ پرانی بنی کامیابیوں پر ہار کے اشو بھاری پڑے۔ انتہا پسندی کی آگ سے جھلس رہی ریاست میں امن بحال کرنا ان کی بڑی کامیابی تھی لیکن اس کے ساتھ لوگوں کی توقعات بھی بڑھ رہی تھیں جسے پورا کرنے میں سرکار کامیاب نہیں رہی۔ سرکاری ملازم ناراض تھے کیونکہ ابھی تک فورتھ پے کمیشن کے تحت تن

امیروں اور غریبوں میں بڑھتی خلیج

بینکوں سے قرضہ لیکر بیرون ملک بھاگ جانا اور خود کو دیوالیہ اعلان کرنے والے بڑے گھرانوں کے مقابلہ دیش کے چھوٹے صنعتکاروں اور غریبوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ مرکزی وزیر دیہی ترقی سیکریٹری امرجیت سنگھ نے بینکوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی پرفارمینس کی بنیاد پر غریبوں کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ان پر داؤ لگائیں تو بہتر ہوگا۔ خود مالیاتی گروپ بنا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش میں لگے غریب قرض چکانے کا زیادہ مادہ رکھتے ہیں۔ وزیر نے کہا کہ خواتین خود ہیلپ گروپ کا مظاہرہ شانداررہا ہے۔ انہیں غربت سے آزاد کرنے میں بینکوں کا رول اہم ہے۔ سنگھ نے کہا کہ نارتھ اور مشرقی ریاستوں میں خواتین خود ہیلپ گروپوں کو بینکوں کا پورا تعاون نہیں مل رہا ہے۔ ویسے پچھلی تین دہائیوں سے سرکاریں بدلتی رہی ہیں لیکن امیروں کی خوشحالی اور غریبوں کی بدحالی بڑھنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ اس عام تصور پرآک فیم اینڈیا کی تازہ رپورٹ میں اعدادو شمار کی مہر لگادی ہے۔ ادارہ کی طرف سے حال ہی میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق اس دیش کے جی ڈی پی کے 15 فیصد کے برابر سرمایہ صرف ارب پتیوں کے بٹوے میں ہے۔ رپورٹ میں دیش کی اس اقتصاد

سائی بابا نے توڑیں دھرموں کے بیچ کی دیواریں

مورخوں کے مانیں تو سائی خود کون تھے، کس دھرم میں پیدا ہوئے تھے اس کی کوئی ٹھوس جانکاری نہیں ملتی ہے۔ سائی بابا پر لکھے گئے کچھ پرانے گرنتھوں کی بنیاد پر مانا جاتا ہے کہ شرڈی کے سائی بابا کا جنم 1838 سے1842 تک کے درمیان ہوا تھا۔ایک فقیر کی زندگی جیا کرتے تھے سائی۔ سائی نام انہیں تب ملا جب وہ کم عمر میں شرڈی آگئے تھے۔ شرڈی میں ہی وہ ایک پرانی مسجد میں رہنے لگے تھے۔ مسجد میں رہنے کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں مسلمان مانتے تھے لیکن خود سائی نے اس مسجد کو دوارکا سائی نام دیا تھا اس وجہ سے بہت سے لوگ انہیں ہندو دھرم کا مانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ سائی نے کبھی خود کو کسی ایک مذہب سے نہیں باندھا۔ سائی کے بھکتوں میں کون کس مذہب کا ہے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن سائی بابا کو ماننے والے ہر دھرم کے ہیں۔ یہ بھکت اپنی اپنی عقیدتوں کے مطابق سائی کی بھکتی کرتے ہیں۔ سائی بابا کے بھکتوں میں شرڈی کے مندر کے درشن کی خاص وجہ بھی ہے۔ سائی 18 سال کی عمر میں شرڈی آگئے تھے اور 15 اکتوبر 1918 کو چرسمادھی میں لین ہونے تک وہیں رہے۔ ان کے دہ تیاگنے کے محض چار سال بعد 1922 میں اس پوتر مندر کو سائی کی سمادھی کے اوپر بنایا گی

کارتی گرفتار ۔چدمبرم نشانہ پر

آئی این ایکس کمپنی کو قانونی حد سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دلانے کے معاملہ میں سابق وزیر مالیات پی چدمبرم کے ارد گرد شکنجہ کسنا شروع ہوگیا ہے۔ اس معاملہ میں سی بی آئی نے ان کے بیٹے کارتی چدمبرم کو گرفتار کرلیا ہے۔ منی لانڈرنگ کے مبینہ ملزم سی بی آئی پچھلے کافی عرصہ سے کارتی چدمبرم پر جس طرح سے شکنجہ کس رہی تھی اسے دیکھتے ہوئے گرفتاری بہت حیرت انگیز بھلے ہی نہ ہو لیکن اس کے وقت کی ضرور اہمیت ہے۔ سی بی آئی کا کہنا ہے آئی این ایکس میڈیا معاملہ میں کارتی کے خلاف اس کے پاس پختہ ثبوت موجود ہیں۔ کیونکہ یہ معاملہ پی چدمبرم کے وزیر مالیات رہنے کے دور کا ہے اور اسی دور کے ایئر سیل ۔ میکسز سودے بازی میں کارتی کی مبینہ شمولیت کے ثبوت کے بارے میں سی بی آئی بتا رہی ہے ایسے میں دیر سویر سابق وزیر کو بھی اگر شکنجے میں کس لیا جائے تو تعجب نہ ہوگا۔ حالانکہ سی بی آئی کی ایف آئی آر میں ان کا نام نہیں ہے ۔ بیشک کارتی چدمبرم کی گرفتاری قانونی خانہ پوری کے تحت کی گئی ہو لیکن حکومت نے انہیں گرفتار کروا کر پارلیمنٹ کے نئے سیشن میں اپوزیشن کو ڈیفنس کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ سرکار کو یہ اچھی طرح پ

فائرننگ میں دولہے کی موت

خوشی کے موقعہ پر ہوائی فائرننگ کا رواج کبھی کبھی خطرناک ثابت ہوجاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ چاہے شادی کا موقعہ ہو یا سالگرہ کا، وجے جلوس ہو ، کچھ لوگ اپنی بندوقوں سے ہوائی فائرننگ کرکے خوشی مناتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا کرنا بہت خطرناک بھی ہوجاتا ہے۔ گذشتہ بدھوار کودہلی کے دلشاد گارڈن میں گھوڑ چھڑی رسم کے دوران بارات میں ایک رشتہ دار نے گولی چلادی۔وہ ہوا میں گولی چلا رہا تھا لیکن جب گھوڑے پر چڑھا دولہا زمین پر آگرا تب اسے احساس ہوا کہ اس کی گولی دولہے کو لگ گئی ہے، دولہا کی گھوڑے سے گرتے ہی موت ہوگئی۔ اس کو حادثہ کہیں یا اتفاقی واردات۔ سماج کے سامنے یہ سنگین سوال ضرور کھڑا ہوتا ہے کہ ہم خوشی اس طرح کیوں مناتے ہیں جو کسی کے لئے جان لیوا بن جائے؟ کیا بغیر گولی چلائے خوشی کا اظہار نہیں کیا جاسکتا؟ اس معاملہ میں مانڈ نائک ایک لڑکے کو پولیس نے حراست میں لیکر پوچھ تاچھ شروع کردی ہے۔ رشتہ داروں کے الزامات کے بعد پولیس نے لڑکے کو حراست میں لے لیا ہے۔ حالانکہ اصل ملزم عادل ابھی بھی فرار ہے۔ رشتہ داروں کا الزام ہے دولہا دیپک کمار کو گولی مارنے کے پیچھے مانڈو کا ہاتھ ہے۔ اس کے اشارے پر ہی عادل نے گولی