اشاعتیں

نومبر 10, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ضمنی چناو ¿ میں سرکردہ نیتاو ¿ں کی یوپی میں اگنی پریکشا!

اترپردیش کی 9 سیٹوں پر ہونے جا رہے ضمنی چناو¿ میں حکمراں اور اپوزیشن کے سرکردہ لیڈروں کی اگنی پریکشا ہے ۔کانگریس کے میدان سے باہر ہونے سے تو اب چناو¿ بھاجپا بنام سپا کے درمیان مانا جارہا ہے ۔حالانکہ بسپا تکونی لڑائی میںبنی ہوئی ہے بھاجپا کی طرف سے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلسل تین دنوں تک زبردست کمپین چلائی ۔ہر سیٹ پر ماحول بنانے کی کوشش کی ۔اکھلیش یادو بھی سیاسی رخ کو بھانپ رہے ہیں ۔سیاسی واقف کاروں کے مطابق ضمنی چناو¿ میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور سپا چیف اکھلیش یادو اور مایاوتی کی ساکھ داو¿ پر لگی ہے۔حالانکہ 2027 کا یوپی اسمبلی چناو¿ ابھی دور ہے لیکن اس ضمنی چناو¿ کو اسمبلی چناو¿ کا سیمی فائنل ماناجارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سبھی پارٹیوں نے اسے جیتنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ۔امبیڈکر نگر کی کٹیری اسمبلی کے ضمنی چناو¿ کے لئے بھاجپا نے سابق ممبر اسمبلی دھمراج نشاد کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔سپا نے لال جی ورما کی اہلیہ شوبھا وتی کو ٹکٹ دیاہے ۔وہیں بسپا نے امت ورما کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔بھاجپا کے لئے یہ سیٹ جل شکتی منتری مندیو سنگھ کو انچارج بنا کر ا...

بھاجپا اور اجیت پوار میں بڑھتی دوری !

مہاراشٹر میں اتحاد میں ہوتے ہوئے بھی بھاجپا اور این سی پی (اجیت پوار) میں کئی مسئلوں پر دوری برقرار ہے ۔امیدوار طے کرنے سے لے کر چناو¿ کمپین تک میں دونوں اپنی اپنی لائن پر الگ الگ کام کررہے ہیں ۔اتحاد میں اجتماعی چناو¿ کمپین اور کمپینروں کو لے کر موٹے طور پر رضامندی تو ہے لیکن کئی مسئلوں پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔مثال کے طور پر اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو لے کر اٹھے تنازعہ کو لے لیجئے ۔این سی پی اجیت پوار نے بھاجپا لیڈر شپ کو صاف کر دیا ہے کہ ان کے امیدواروں کے چناو¿ حلقوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کی ریلیاں نا کروائی جائیں ۔یوگی آتیہ ناتھ کے متنازعہ بیان کٹیں گے بٹیں گے کو لے کر اقلیتی فرقہ میں تلخ رد عمل دیکھتے ہوئے اجیت پوار نہیں چاہتے کہ ان کو ملنے والی حمایت میں کوئی کمی آئے۔اجیت پوار نے بھاجپا کے احتجاج کے باوجود نواب ملک کو امیدوار بنایا ہے۔اب جبکہ پارٹی کے دو گروپ ہیں تب بھی دونوں کی مسلم فرقہ میں اچھی خاصی پکڑ ہے جبکہ نوا ب ملک کی بیٹی ثناءملک بھی چناو¿ لڑر ہی ہیں ۔بتا دیں بھاجپا نیتاو¿ں نے کھلے عام نواب ملک کو امیدوار بنانے کی مخالفت کی تھی ۔انہوں نے یہاں...

میں کاروبار نہیں ،بالا دستی کے خلاف ہوں!

لوک سبھا چناﺅ میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس ایم پی راہل گاندھی نے حال ہی میں بھارت کے کئی بڑے اخباروں میں ایک آرٹیکل لکھا تھا جو تنازعوں میں آ گیا ہے جہاں کچھ لوگ اس پر نکتہ چینی کر رہے ہیں ۔وہیں ایسے لوگو ں کی بھی کمی نہیں کے آرٹیکل میں غلط حقائق پیش کئے گئے ہیں جبکہ کئی لوگ اس آرٹیکل کی تعریف بھی کر ہے ہیں ۔آخر اس آرٹیکل میں راہل گاندھی نے کیا لکھا تھا ؟انہوںنے کہا کے وہ کاروباریوں کے نہیں بلکہ بالا دستی کے خلاف ہیں انہوںنے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے کے یہ دعویٰ بھی کیا قاعدے ضابطے کے تحت کام کرنے والے کچھ کاروباری گروپوں کو مرکزی حکومت کے ایک سینئر وزیر ،وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی سرکار کے پروگراموں کی تعریف کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں ۔ان کے اس دعویٰ پر سرکار کی جانب سے کوئی ردعمل جاری نہیں ہوا ہے ۔بھاجپا نے پی ایم مودی کے خلاف بے بنیاد الزام لگانے کے لئے بدھوار کو راہل گاندھی کی نکتہ چینی کی تھی اور ان پر نتیجے پر پہنچنے سے پہلے حقائق کی جانچ کرنے کی صلاح دی تھی ۔راہل گاندھی نے اپنے بیان کا ویڈیو جاری کر کہا تھا کے بھاجپا کے لوگ مجھے کاروباری مخالف بتانے کی کوشش کر رہے ہ...

اصلی کون نقلی کون ہے یہ نتیجے طے کریں گے

مہاراشٹر اسمبلی چناﺅ مہم آہستہ آہستہ شباب پر پہنچ رہی ہے ۔20 نومبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور نتیجے 23 نومبر کو پتہ چلیں گے کے سرکار مہایوتی منانے جا رہی ہے یا مہا وکاد ادھاڑی جیتے گی ۔اور مہایوتی اتحاد جیت کے لئے پوری طاقت چناﺅ مہم میں چھونک دی ہے جہاں دونوں اتحادوں کے درمیان کانٹے کے لڑائی ہے وہیں کئی چھوٹی لڑائیاں اتحاد کے اندر بھی لڑی جا رہی ہیں جیسے اصلی شیو سینا کونسی ہے اور اصلی این سی پی کونسی ہے ؟اسمبلی چناﺅ نتائج دونوں اتحاد کی ہار جیت کے ساتھ یہ بھی طے کریں گے کی شیوسینا کا کونسا گروپ ممبئی میں زیادہ اثر دار ہے ۔بتا دیں کے ممبئی غیر منقسم شیو سینا کا گڑھ رہی ہے ابھی ممبئی میں اسمبلی 36 سیٹیں ہیں سال 2019 میں بھاجپا اور شیوسینا نے ایک ساتھ چناﺅ لڑا تھا ان چناﺅ میں دونوں نے 30 سیٹیں جیتیں تھیں ان چناﺅ میں صورت حال الگ ہے شیو سینا (شندے)مہا یوتی میں شامل ہیں جبکہ شیو سینا (یو بی ٹی) ایم وی اے کا حصہ ہے ۔ایم وی اے کی اتحادی پارٹیوں میں ممبئی کی سیٹ کو لیکر کافی ٹکراﺅ تھا ۔سال 2019 میں کانگریس نے 36 میں سے 30 سیٹ پر چناﺅ لڑا تھا ۔اس بار اس کے حصہ میں صرف 11 سیٹیں آئی وہیں شیو سینا ...

کیاصدر رہتے بھی جیل کا خطرہ بنا رہے گا؟

امریکہ میں صدارتی چناﺅ کے نتیجے آ چکے ہیں کئی ہفتوں کی چناﺅ مہم اور سخت مقابلے کے بعد پارٹی کے لیڈر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کے صدارتی چناﺅ کے بعد ایوان صدر پہنچنے والے ایسے پہلے صدر ہوں گے جن کے خلاف کئی جرائم کے مقدموں میں فیصلہ آنا باقی ہے اس کے چلتے نہ گذیں حالات پیدا ہو گئے ہیں ۔جب ٹرمپ وائٹ ہاﺅس میں جائیں گے تو ان کے سامنے 4 چنوتیاں ہوں گی اس میں ہر پوزیشن کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ۔اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ڈونالڈ ٹرمپ کی نیویارک میں سنگین معاملوں میں قصوروار قرار دئے چکے ہیں یہ معاملہ کاروباری ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے سے وابستہ ہے ماہ مئی میںنیویارک کی ایک جیوری نے ٹرمپ کو قصور پایا تھا یہ معاملہ پارن فلم اسٹار کو چپ چاپ پیسے دینے سے جڑا تھا جیوری کے مطابق ٹرمپ اس پیسہ ادائیگی میں جڑے تھے جج جوان یرمین نے ٹرمپ کی سزا کو ستمبر سے 26 نومبر تک ٹال دیا تھا یعنی چناﺅ کے بعد تک وہیں بکلین کی سابق وکیل جولیا ریڈل مین نے کہا کے ٹرمپ کے چناﺅ جیتنے کے بہ وجود جج اپنے اختیار کے مطابق سزا کو لاگو کرنے سے آگے بڑھا سکتے ہیں ۔قانونی واقف کار مانتے ہیں کے ایسے امتحانات بے حد کم ہیں کی ٹرمپ کو پہل...

سپریم کورٹ کے فیصلے کا کیا اثر ہوگا؟

جو یہ امید کر رہے تھے کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کو لیکر طویل عرصے سے چلے آ رہے تنازعہ پر ہاں یا نہ میں صاف جواب مل جائیگا۔انہیں سپریم کورٹ کے جمعہ کو آئے فیصلے سے تھوڑی راحت بھی ملی ہوگی اور تھوڑی مایوسی بھی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے ان اہمیت اس معنیٰ میں یہ ہے کے اس معاملے کو دیکھنے سمجھنے کے طریقوں میں رہی خامیوں پر روشنی ڈالتا اور انہیں دور کرتا ہے سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے جمعہ کو 1967 کے اپنے فیصلے کو پلٹ دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے سینٹرل یونیورسٹی کواقلیتی ادارہ کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔7 ججو کی آئینی بینچ کے اکثریتی فیصلے میں ایس عزیز باشا بنام مرکزی حکومت معاملے کو پلٹا ہے ۔حالانکہ اے ایم یو کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہوگا یا نہیں اس کا فیصلہ بڑی عدالت کی ایک ریگولر بنچ کرے گی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ جسٹس سنجیو کھنہ ،سوریہ کانت،جے بی پاردیوالا سمیت 7 ججوں کی بنچ میں شامل تھے ۔اس قانونی تنازعہ کی پیچیدگی کو اس پہلو سے سمجھا جا سکتا ہے کی یہ آدھی سدی سے بھی زیادہ پرانا معاملہ ہے اس کی شروعات 1967 میں عزیز باشا شیخ سے آئے س...