اشاعتیں

اپریل 13, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

لوک سبھا چناؤ میں بیٹی کا بیٹی سے مقابلہ تو بھائی کا بھائی سے!

لوک سبھا چناؤ کے پانچویں مرحلے میں 24 اپریل کو 117 سیٹوں پر ووٹ پڑیں گے۔ان میں کئی لڑکے ،لڑکیاں ،بھائی بھائی میدان میں آمنے سامنے ہوں گے۔ پہلے بات کرتے ہیں لڑکیوں کی۔ پونم مہاجن کوممبئی نارتھ سینٹرل سیٹ سے امیدوار بنا کر بھاجپا نے بیٹی کے مقابلے بیٹی اتارنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ پونم مہاجن بھاجپا کے سورگیہ لیڈر پرمود مہاجن کی بیٹی ہے جو سورگیہ اداکار اور کانگریس لیڈر سنیل دت کی بیٹی اور موجودہ ایم پی پریہ دت کے خلاف میدان میں ہے۔ پونم سے پہلے بھاجپا ممبئی نارتھ سینٹرل لوک سبھا سیٹ پر پریہ دت کو چنوتی دینے کے لئے کسی چمک دمک والے شخص کی تلاش میں تھی۔ اس کے لئے ہیما مالنی، ونود کھنہ،انوپم کھیر جیسے اداکاروں سے رابطہ قائم کیا تھا لیکن کوئی پریہ دت کے خلاف اترنے کو تیار نہیں ہوا۔ تب پارٹی نے پونم مہاجن کے نام پر اپنی مہر لگادی۔ پریہ اس سیٹ سے دوبار کامیاب ہوچکی ہیں۔ پونم کا مقابلہ پریہ دت کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار فیروز پالکی والااور سپا کے ابو فرحان سے ہے۔ اس لوک سبھا سیٹ کے تحت 6 اسمبلی سیٹوں میں سے پانچ پر کانگریس این سی پی اتحاد اور ایک پر بھاجپا شیو سینا قابض ہے۔ 2009 ک

امریکی مشہور ترین ایجنسی’گیلپ پول‘ کا سروے!

لوک سبھا چناؤ میں نتیجے ویسے تو پورے دیش کے لئے اہمیت کے حامل ثابت ہوں گے لیکن مرکز میں اگلی حکومت کس پارٹی یا محاذ کی بنتی ہے اسے 6بڑی ریاستوں کو طے کرنا ہے۔ پچھلے چناؤ میں ان 6 ریاستوں نے فیصلہ کن کردار نبھایا تھا اور یوپی اے اقتدار قابض ہوئی تھی۔ اس بار بھی ان ریاستوں میں جس اتحاد کی کارکردگی بہتر ہوگی وہی مرکز کے اقتدار پر قابض ہوگا۔ان ریاستوں میں اترپردیش، مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور راجستھان شامل ہیں۔ ان 6 ریاستوں میں کل 264 سیٹیں ہیں لیکن یوپی اے و این ڈی اے کے لئے مرکز میں سرکار بنانے کے لئے ان ریاستوں میں کم سے کم پانچ میں شاندار جیت ضروری ہے۔ اگر یوپی اے یا این ڈی اے دیش کی دیگر ریاستوں میں اچھی جیت حاصل کرتا ہے اور ان ریاستوں میں وہ پچھڑتا ہے تو سرکار بنانا شاید ممکن نہ ہوپائے۔قریب قریب سبھی چناؤ میں ان ریاستوں کے نتائج اثر انداز ہوتے ہیں۔ پچھلے عام چناؤ میں مندرجہ بالا ریاستوں میں سے پانچ میں یوپی اے کی کارکردگی شاندار رہی تھی۔ ان میں یوپی، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش شامل تھے۔ یوپی میں کانگریس کو22، مہاراشٹر میں کانگریس کواتحادی این سی پی سمیت25 ، آندھرا میں ریک

بھگوڑے کیجریوال کا اصل مقصد مودی کے بڑھتے قدموں کو روکنا ہے!

آج ہم بات کریں گے دہلی کے بھگوڑے سابق وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کی۔49 دن کے یہ بادشاہ اب فرماتے ہیں کہ میں نے دہلی کے وزیر اعلی کا عہدہ چھوڑ کر غلطی کی ہے۔ انہوں نے آخر کار اپنی غلطی کو مان لیا ہے دہلی کی سرکار ایک جھٹکے میں چھوڑناان کی بھول تھی یہ بات انہیں پہلے کرنی چاہئے تھی اور عوام کے مسائل دور کرنے چاہئے تھے اور لوگوں کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتانا چاہئے تھا۔ یہ بھی مانا ان کے فیصلے کی وجہ سے بہت سے لوگ پارٹی سے دور ہوئے ہیں۔انہوں نے دعوی کیا استعفیٰ دینے کا فیصلہ اجتماعی طور پر لیاگیا تھا۔یہ پارٹی کی سیاسی معاملوں کی کمیٹی نے لیا تھا۔ کیجریوال کے ساتھی اور عام آدمی پارٹی کے سینئر مشیر کار ممبر پرشانت بھوشن نے دعوی کیا ہے کہ کیجریوال کا استعفیٰ دینا اور سرکار چھوڑنے کا کبھی بھی پارٹی کی قومی ورکنگ کمیٹی میں فیصلہ نہیں ہوا تھا۔یہ معاملہ تو یہاں تک پہنچا ہی نہیں۔ یہ کیجریوال کا نجی فیصلہ تھا جو بعد میں انہوں نے پارٹی پر تھونپ دیا۔ یہ غلط فیصلہ تھا لیکن ہمارا400 سیٹوں پر چناؤ لڑنا پارٹی کا فیصلہ ہے۔ تنظیم کے نام پرچند بڑے شہروں تک سمٹی عام آدمی پارٹی نے

اتراکھنڈ میں نریندر مودی لہراور ہریش راوت سرکار میں کانٹے کی ٹکر!

اتراکھنڈ کے سرحدی علاقے کی بیداری کہیں یا پھر فوجی اکثریتی خطے کی فطری یا قدرتی ، سیاسی طور سے یہ ریاست کے عوام الناس نے تقریباً ہر چناؤ میں خود کو قومی دھارا سے جوڑے رکھا۔ سال1957ء سے پہلے چناؤ سے لیکر 2009ء میں 15 ویں لوک سبھا میں یہاں کے ووٹروں نے انہی پارٹیوں پر بھروسہ جتایا جو اکثریت یا اقلیت کے قریب رہی ہیں۔حال میں اتراکھنڈ میں لوک سبھا کی پانچ سیٹیں ہیں۔ ٹہری ،پوڑی گڑوال، الموڑا، نینی تال اور ہری دوارشامل ہیں۔ان سیٹوں پر دیش کی سیاست میں کانگریس کی ہی بالادستی رہی اور اس کو ایکطرفہ کامیابی ملی۔ ایمرجنسی کے بعد 1977 ء میں چھٹی لوک سبھا چناؤ میں مرکز میں اقتدار میں تبدیلی ہوئی تو اتراکھنڈ کی سبھی سیٹوں پر جنتا پارٹی کا قبضہ ہوگیا ۔ تب سے لیکر اب تک اتراکھنڈ میں کانگریس کا ہی دبدبہ رہا ہے۔1998ء میں بھاجپا نے کانگریس کا پوری طرح صفایا کیا۔ اگلے سال1999ء میں این ڈی اے کی سرکار بنی تو بھاجپا کو چار اور کانگریس کو ایک سیٹ ملی۔ ہری دوار کی اہم سیٹ پر تصویر اب صاف ہوگئی ہے۔ اس بار یہاں مودی لہر اور ہریش راوت سرکار کے درمیان جنگ ہے۔اس سیٹ پر وزیر اعلی ہریش راوت کی بیوی رینوکا راوت چنا

پانچویں مرحلے کی 121 سیٹیں مودی کے مشن 272+ کیلئے کافی اہم!

عام چناؤ کے پانچویں مرحلے میں121 سیٹوں پر آج یعنی 17 اپریل کو ہونے والا چناؤ سبھی بڑی پارٹیوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ این ڈی ٹی وی کے ایک تازہ سروے جو اس نے ہنس ریسرچ گروپ سے کرایا، بھاجپا کے لئے اچھی خبر لے کر آیا ہے۔دیش میں اس وقت نریندر مودی کی لہر چل رہی ہے جس کے چلتے این ڈی اے کو لوک سبھا میں 230 سے 275 سیٹیں تک مل سکتی ہیں۔سب سے بڑے اوپینین پول میں لوک سبھا کی کل 543 سیٹوں میں سے یوپی اے کو111 سے 128 سیٹیں ملنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس پول کے ماہرین کا دعوی ہے اکیلے بھاجپا کے کھاتے میں 196 سے226 سیٹیں اور کانگریس کو 92 سے106 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ دونوں بھاجپا اور کانگریس نے آج ہونے والی پولنگ کے لئے پوری طاقت جھونک دی تھی۔ اب تک ہوئے چناؤ کی بہ نسبت زیادہ سیٹیں (120) اس مرحلے میں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ان میں کرناٹک ، مہاراشٹر، راجستھان، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، اترپردیش وغیرہ سیٹوں پر آج ووٹ پڑیں گے۔ اترپردیش کی چاروں بڑی پارٹیوں نے اب مغربی اترپردیش کی 11 لوک سبھا سیٹوں پر اپنی پوری طاقت لگائی۔ پچھلے چناؤ میں سب سے زیادہ 4 سیٹیں سپا نے جیتی تھیں۔ اس کے بعد کانگریس اور بھاجپااور

شندے، پوار، آزاد و پائلٹ کی ساکھ داؤں پر لگی!

مہاراشٹر میں 17 اپریل کو ہونے والی پولنگ این ڈی اے کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 17 کومہاراشٹر کے مراٹھا چھترپ شرد پوار کے گڑھ میں چناؤ ہونے ہیں اور بھاجپا و این ڈی اے کے لئے اس خطے میں کامیابی آسان نہیں ہے۔ حکمت عملی کے تحت ہی اپنے نئے دوستوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ بھاجپا نے لاتور شعلہ پور میں نریندر مودی کی ریلی کا انعقاد کیا۔ لیکن یہ علاقہ بھاجپا ۔شیو سینا کے لئے آسان نہیں ہے۔ مغربی مہاراشٹر کی شعلہ پور لوک سبھا سیٹ سے مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے چناؤ لڑتے آئے ہیں جبکہ سانگلی وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان کا آبائی علاقہ ہے۔ ویسے تو پورا مغربی مہاراشٹر شرد پوار کے اثر والا علاقہ مانا جاتا ہے۔ 3.25 کروڑ ووٹر مہاراشٹر کی 19 لوک سبھا سیٹوں کے لئے 358 امیدواروں کا فیصلہ کریں گے۔ اس لئے امیدوار پورے دم خم سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس مرحلے میں مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے ،سابق وزیر اعلی اشوک چوہان، سینئر بھاجپا لیڈر گوپی ناتھ منڈے کی قسمت کا فیصلہ ہونا اسی مرحلے میں مراٹھ واڑہ زون کی ہنگولی نانڈیر ،بیڑ، پرمنی، عثمان آباد اور لاتور، مغربی مہاراشٹر کی پنے، بارہمتی، سنگروروغیرہ وغیرہ شام

ورون گاندھی اپنی تقریروں میں مودی کا ذکر تک نہیں کررہے!

امیٹھی سے لگا سلطانپور لوک سبھا چناؤ حلقہ بھی اس بار وی آئی پی اسٹیٹس کا حامل بن چکا ہے کیونکہ گاندھی پریوار کے ہی نوجوان ورون گاندھی کو بھاجپا نے میدان میں اتارا ہے۔ پچھلی بار محض40 ہزار ووٹ پانے والے بھاجپا کے ورکروں کا جوش ساتویں آسمان پر ہے۔ دلچسپ اور چونکانے والی بات تو یہ ہے سلطانپور میں نہ تو کوئی نریندر مودی کی بات کررہا ہے نہ ہی بھاجپا کی کوئی لہر۔ صرف ورون کی لہر چل رہی ہے۔روزانہ 15سے20 چناوی ریلیاں کرنے والے ورون خود بھی اپنی ریلیوں میں نہ اٹل، اڈوانی اور نہ ہی مودی کا کوئی ذکرکرتے ہیں ۔ وہ اپنی تقریر کی شروعات میں گاؤں والوں سے کہتے ہیں کہ گاؤں کی طرف سے کوئی ایک مالہ پہنادے کیونکہ وہ تو یہیں کے ہیں۔اس کے بعد وہ سیدھی تقریر شروع کرتے ہیں کہتے ہیں یہ چناؤ اس لئے اہم ہے کیونکہ ہم نے عظم کیا ہے کہ سلطانپور میں نئے دور کا آغاز کرنا ہے۔ ذات پات کو نہیں مانتا میں ایسی سیاست کرنا چاہتا ہوں جہاں دھرم اور ذات پات کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔ مجھے پتہ ہے کہ یہاں کے لوگ محنتی ہیں ،ضمیر والے ہیں پھر بھی یہ علاقہ پسماندہ ہے ،وجہ ہے علاقے کو ابھی تک صحیح لیڈر شپ نہیں مل سکی۔ تالیوں کے درمی

لوک سبھا دنگل!چدمبرم کے بیٹےاور دگوجے کے بھائی میدان میں

آج ہم بات کریں گے کانگریس کی دوہستیوں کی ایک کا بیٹا چناؤ میدان میں ہے اور دوسرے کا بھائی۔ میں بات کررہا ہوں یوپی اے سرکار کے وزیر خزانہ پی چدمبرم کے بیٹے کارتی چدمبرم کی اور کانگریس کے سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ کے بھائی لکشمن سنگھ کی۔ ٹیکساس اور کمبیرج جیسے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائے 42 سالہ کارتی پی چدمبرم کو اپنے والد کی روایتی سیٹ شیوکنگا میں سہ رخی مقابلہ کے سامنا کرناپڑرہاہے کارتی اس دور میں سیاسی دنگل میں اترے ہے جب ساؤتھ میں بڑی ریاست تامل ناڈو اکیلے چناؤ میں اترناپڑا ہے حالانکہ سفید شرٹ اور سفید دھوتی میں اپنے والد کے ساتھ چناؤ کمپین لگے کارتی کے چہرے پر کسی طرح کی خوداعتمادی کی کمی نہیں دکھائی دیتی ان کا مقابلہ انا ڈی ایم کے کے امیدوار پی آر سیتھلی ناتھن سے ہے وہ پسماندہ فرقے میں مقبول لیڈر ہے سیتھلی کے حق میں بڑی بات یہ ہے کہ 6اسمبلیوں میں 4 اسمبلیوں انا ڈی ایم کا قبضہ ہے بھاجپا کے ایم راجہ بھی مقابلے میں ہے وہ 1999میں دوسرے نمبر پر رہے تھے وہی ڈی ایم کے کے نے بھی ا پنے امیدوار ایس پی دورئی راج کو میدان میں اتارا ہے کارتی تامل ناڈو کی سیاست میں سرگرم ضرور ہے لیکن ان کی پ

مغربی بنگال میں ممتابنام لیفٹ بنام بھاجپا دنگل

تیسرے مورچے کی تشکیل کے لئے سرگرم ہورہی لیفٹ پارٹیوں کو سب سے زیادہ مشکل اپنے گڑھ مغربی بنگال میں ہورہی ہے۔ ترنمول کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی کے جارحانہ تیوروں کی وجہ سے لیفٹ پارٹیوں کی چل نہیں پارہی ہے۔ تمام کوششوں کے باوجود ترنمول کانگریس اور اس کی سربراہ ممتا بنرجی کی گھیرا بندی کرنے میں ناکام لگ رہی ہے۔ اندیشہ تو یہاں تک ہے کہ لیفٹ پارٹیوں کے لئے 2009 کے اپنی عام کارکردگی کے چلتے کامیابی کو دوہراپانا مشکل ہورہا ہے۔ مغربی بنگال میں پچھلے چناؤ میں 19سیٹیں جیتنے والی ترنمول کانگریس کی اس مرتبہ سیٹیں بننے کا دعوی سروے نے کیا ہے اس سے لیفٹ پارٹیاں کچھ مایوس ہے دبی زبان وہ بھی ان کے ٹی وی چینلوں کے سروں پر کی سچائی کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسر پچھلے دو دہائی سال کے عہد میں حکومت ریاست کی ترقی کی تصویر نہیں بدل پائی۔ لیکن لیفٹ پارٹیوں کو محسوس ہورہا ہے کہ ان کے کیڈر کو منظم طریقے سے توڑا جارہا ہے۔ جس کا نقصان انہیں چناؤ میں اٹھانا پڑے گا یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں لیفٹ فرنٹ کے ایک نمائندہ وفد نے چناؤ کمیشن سے ممتا بنرجی سے شکایت کی کہ دوسری طرف لیفٹ پارٹیوں کے تئیں جو لوگوں میں ناراضگی

جونیئر رمن سنگھ یعنی ابھیشیک سمیت 50 سیٹوں پر نیتاؤں کے بیٹے بیٹیاں!

16 ویں لوک سبھا چناؤ میں کم سے کم 50 پارلیمانی سیٹیں ایسی ہیں جس پر راشٹرپتی پرنب مکھرجی کے بیٹے ابھیجیت سے لیکر راہل اور ورون گاندھی سمیت مختلف دلوں کے راج نیتاؤں کے بیٹے اور بیٹیاں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔زیادہ تر برسر اقتدار کانگریس کے ہیں۔ممبر پارلیمنٹ ابھیجیت مکھرجی اپنی موجودہ زنگیر پور (پشچمی بنگال) سے کانگریس کے ٹکٹ پر لڑ رہے ہیں۔ فائننس منسٹر پی چدمبرم کے بیٹے کیرتی تاملناڈو کی ریوگنگا سیٹ سے پہلی بار چناؤ میں اترے ہیں۔ بھاجپا نیتا اور سابق فائننس منسٹر یشونت سنہا کے بیٹے جینت جارکھنڈ کی ہزاری باغ سیٹ سے چناؤ لڑرہے ہیں۔یوپی اے سرکار نے سابق وزیر مرلی دیوڑا کے بیٹے ملن دیوڑا ،کیرل کے راجیپال شیلا دیکشت کے بیٹے سندیپ دیکشت، ہریانہ کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا کے بیٹے دپیندر ، آسام کے وزیر اعلی ترون گگوئی کے بیٹے گورو، راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے کے بیٹے دشینت، سابق مرکزی وزیر سنیل دت کی بیٹی پریہ دت، مرحوم نیتا پرمود مہاجن کی بیٹی پونم، اترپردیش کے سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ کے بیٹے راجویر سنگھ اور دہلی کے سابق وزیر اعلی صاحب سنگھ ورما کے بیٹے پرویش ورما کو ملا کر کل50

لالو کی بیٹی میسا پھنسی چاچا ۔ تاؤ سے مقابلے میں!

ہزاروں سے پہلے کبھی گنگا کنارے کی اس دھرتی پر آچاریہ وشنو گپت(چانکیہ) نے کہا تھا کہ راجنیتی میں کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ اپنا ہوتا ہے محض لکشیہ۔پاٹلی پتر لوک سبھا حلقہ میں چانکیہ کا یہ سوتر عمل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس چناوی حلقے میں ایک طرف کبھی لالو پرساد یادو کی راجنیتی کے تین قریبی ایک دوسرے سے بھڑ رہے ہیں تو دوسری طرف 80 کی دہائی کے پچھڑوں کے آدھار کے لئے بنی بھومی ہاروں کی اگوائی والی رنویر سینا کے سنستھاپک برہم دیو مکھیا کی وراثت اپنے وجود کے لئے میدان میں کود پڑی ہے۔کبھی لالو کے ساتھی اور گورو دونوں کہے جانے والے ڈاکٹر رنجن پرساد یادو جنتادل (یو) سے امیدوار ہیں تو تین دہائی تک لالو کے داہنے ہاتھ مانے جانے والے رام کرپال یادو بھاجپا کا کمل تھامے میدان میں ہیں اور ان تاؤ چاچا کے سامنے لالو پرساد یادو کی بڑی بیٹی میسا بھارتی راشٹریہ جنتادل امیدوار کے طور پر ہیں۔ ویسے اور بھی امیدوار میدان میں تو ہیں پر چرچا ان تینوں کے علاوہ رنویر سینا کے سنستھاپک برہم دیو مکھیا کے بیٹے اندر بھوشن کی بھی ہے۔ میسا بھارتی کو بیشک سیاست ماتا پتا سے وراثت میں ملی ہو پر جس پاٹلی پتر لوک سبھا سیٹ سے وہ پہلی