نودن میں چلے اڑھائی کوس
نو دن میں چلے اڑھائی کوس۔ جی ہاں بالکل یہ کہاوت دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ان کے وزرا پر کھری اترتی ہے۔ دہلی کے سیاسی گلیاروں میں 9 دنوں تک چلی آرہی ہٹ یوگ تو ختم ہوگئی لیکن اس نے اس کہاوت کو پوری طرح صادق کردیا کہ واقعی دہلی سرکار 9 دن میں چلی اڑھائی کوس۔ اس سیاسی ڈرامے میں ہر کوئی اپنی جیت کے دعوے کررہا ہے لیکن سوال وہی ہے کہ اس 9 دن کے دھرنے سے آخر حاصل کیا ہوا؟ جو اپیل ان 9 دنوں کے دھرنے کے بعد حکام سے کی گئی وہ چار مہینے پہلے کیا نہیں ہوسکتی تھی؟ یہ سب پہلے بھی ہوسکتا تھا پرپھر دہلی سرکارکو ایل جی کے صوفے پر پاؤں پسارنے کا موقعہ بھلا کیسے ملتا۔افسران بھی تو اپنی اہمیت سمجھاتے تو بھلا کیسے؟ چلو دیر آید درست آید۔ نہ تو یہ ان سیاسی گلیاروں کا پہلا ایٹیٹیوٹ پلے تھا اور نہ ہی آخری ۔دہلی میں اس وقت اس بات کی بحث ہورہی ہے کہ کام کون کررہا ہے؟ سرکار کام نہیں کررہی جس کی وجہ سے افسر کام نہیں کررہے۔ ایک ہندی اخبار رونامہ ’جاگرن‘ کی رپورٹ کے مطابق مختلف محکموں میں 180 فائلیں وزرا کے پاس منظوری کے لئے پینڈنگ پڑی تھیں جو ان کے ٹیبل میں دھول چاٹ رہی تھیں۔ ان میں ٹرانسپورٹ محکمہ می...