اشاعتیں

مارچ 16, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

لوک سبھا چناؤ2014 کے اہم اشو!

ایک اور تازہ سروے میں این ڈی اے کو سب سے بڑے اتحاد کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ زی میڈیااور تعلیم ریسرچ فاؤنڈیشن کے سروے کے مطابق این ڈی اے کو 2014 ء لوک سبھا چناؤ میں 217 سے 231 سیٹیں مل سکتی ہیں وہیں کانگریس کی قیادت والے یوپی اے محاذ کو 120 سے 133 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ تیسرے مورچے کو85 سے 115 سیٹیں ملنے کا امکان جتایا گیا ہے وہیں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نریندر مودی کو سروے میں شامل 6 4فیصدی لوگوں کی پہلی پسند بتایا گیا ہے۔ آنے والے چناؤ میں اگر اشوز کی بات کریں تو زیادہ تر کے لئے اہم چناوی اشو وہی ہیں جو ان کی روزانہ کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں دیش کی جنتا کیلئے اہم اشو ہیں ۔زیادہ تر لوگوں کو شکایت ہے کہ گذشتہ برسوں میں جس تیزی سے مہنگائی بڑھی ہے اس کے مطابق کمائی بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی ہے۔ ہندی بیلٹ کے کئی لڑکوں کا کہنا تھا کہ 5 سال پہلے انہیں جتنی تنخواہ ملتی تھی آج بھی ان کی تنخواہ اتنی ہی ہے اور اس سے بھی کم ہوگئی ہے۔ حالانکہ گھر چلانے کا خرچ تین سے دس گنا بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے عام لوگوں کی مرکزی سرکار کو لیکر ناراضگی کافی بڑھ گئی ہے۔ پورے دیش میں ناراضگی زبردست پھیلی ہوئی

تنازعوں میں پھنسے زی میڈیا کے چینل!

آج کل مشہور نیوز چینل ’زی نیوز‘ تنازعوں میں ہے۔ ایک ساتھ ہی زی نیوز پر دو مقدمے درج ہوئے ہیں۔ ایک مقدمہ ٹیم انڈیا کے کپتان مہندر سنگھ دھونی نے کیا ہے تو دوسرا مقدمہ صنعت کار نوین جندل کے ذریعے چناؤ کمیشن میں چینل کے خلاف شکایت سے متعلق ہے۔ پہلے کپتان مہندر سنگھ دھونی کے معاملے میں بات کرتے ہیں۔ ٹیم انڈیا کے کپتان مہندر سنگھ دھونی نے منگلوار کو مدراس ہائی کورٹ میں دو نیوز چینل پر 100 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا مقدمہ ٹھونکا ہے۔ انہوں نے دو نیوز چینل زی نیوز اور نیوز نیشن کے خلاف ہتک عزت کا کیس دائر کیا ہے۔ آئی پی ایل اسپارٹ فکسنگ معاملے میں ان کا نام گھسیٹنے کو لیکر انہوں نے یہ کارروائی کی۔ اپنی عرضی میں دھونی نے کہاکہ11 فروری 2014ء کو میرے خلاف ان چینلوں نے جھوٹی خبریں دکھائی تھیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ میچ سٹے بازی، اسپارٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ میں میں شامل رہا ہوں۔ ان خبروں سے میری ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے پھر بھی میں صرف100 کروڑ روپے کا مقدمہ کررہا ہوں۔ اس کے بعد جسٹس ایس۔تسلوان نے دھونی کی آئی پی ایل فکسنگ میں مبینہ شمولیت سے متعلق کسی بھی خبر کے ٹیلی کاسٹ پر

بھاجپا کی اندرونی چالبازیاں کہیں آخر میں بھاری نہ پڑجائیں؟

ہم نے ہر چناؤ میں ٹکٹوں کے بٹوارے کو لیکر جھگڑے ہوتے دیکھا ہے اس لئے اگر اس مرتبہ بھی لوک سبھا چناؤ کے ٹکٹوں کے بٹوارے پر ہنگامہ جاری ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہ تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں میں جاری ہے لیکن سب سے زیادہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے کہ دیش میں نریندر مودی کی ہوا بہہ رہی ہے اس لئے سبھی چاہتے ہیں کہ انہیں بھاجپا کا ٹکٹ ملے اور ہنگامے کی سب سے بڑی وجہ ہے باہری امیدوارکو تھونپنا۔ویسے اصولی طور پر آج تک مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ باہری امیدوار کون ہے؟ ہندوستان ایک جمہوری دیش ہے اور کوئی بھی شخص دیش کے کسی کونے سے چناؤ لڑنے کے لئے آزاد ہے۔ آئین میں یہ کہیں نہی لکھا ہوا ہے کہ ہر شخص محض جس ریاست میں پیدا ہوا ہے وہیں سے چناؤ لڑ سکتا ہے؟ ایک شخص دہلی میں پیدا ہوا ہے اور وہ چنئی سے بھوپال اور بھوپال سے جموں سمیت کہیں سے بھی چناؤ لڑ سکتا ہے لیکن پارٹیوں کے ورکروں کو یہ بہانہ مل گیا ہے کہ اگر ہم بھارتیہ جنتا پارٹی میں ٹکٹوں کے بٹوارے کے سبب ناراضگی کی بات کریں تو کچھ جائز ہے اور کچھ بلا وجہ کی بات کرتے ہیں۔ اگر جنرل وی کے سنگھ کی غازی

لوک سبھا کی 72 سیٹوں پر فیصلہ کن رہے گا مسلم ووٹ!

اس چناؤ میں کانگریس سے زیادہ عام آدمی پارٹی مسلمانوں سے رابطہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پارٹی مسلمانوں سے اپنی بات یہاں سے شروع کررہی ہے کہ ان کو ناپسند آنے والے نریندر مودی کو ان کے گھر چنوتی دینے کا کام صرف اور صرف کیجریوال نے کیا ہے۔ عام آدمی دیش کے مسلمانوں کو رجھانے کے لئے نریندر مودی کا ہوا دکھا کر ایک دہشت کا ماحول بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ کام صرف عام آدمی پارٹی نہیں کررہی ہے بلکہ کانگریس۔ سماجوادی پارٹی بھی اس میں پیچھے نہیں ہے۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے تو مودی کا نام لیکر ان پر کرارا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ 2002ء کے گجرات دنگوں کے لئے مودی کو کلین چٹ نہیں دی جاسکتی۔ اس کی بات کرنا ناسمجھی کی نشانی مانا جاسکتا ہے۔ فساد کے دوران انتظامیہ کی واضح اور لاپروائی کے لئے مودی سرکار کی عدلیہ جوابدہی طے ہونی چاہئے۔ دیش بھر سے کل543 لوک سبھا سیٹوں میں سے 72 ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن رول میں ہے۔ حالانکہ مسلم اکثریتی آبادی والی ان سیٹوں پر جیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم ووٹروں کے ووٹ بٹنے کے چلتے ان پارٹیوں کو بھی فائدہ پہنچا ہے جنہیں زیادہ تر مسلم ووٹ عام طور پر پسند نہیں

کاشی میں گونجا نعرہ’ہر ہر مودی، گھر گھر مودی‘

نریندر مودی نے اپنی وارانسی ریلی میں ایڈریس کی شروعات کی تھی کہ سومناتھ سے وشواناتھ کا لمبا سفر انہوں نے طے کیا ہے۔ اس وقت یہ بات کسی کو سمجھ میں نہیں آئی کہ مودی کی نظر بنارس سیٹ پر ہے۔ انہوں نے کاشی کو مرکز میں رکھ کر اترپردیش اور بہار میں کئی ریلیاں کی تھیں۔ اس سے لگا تھا کہ ان کا منصوبہ اور پکا ارادہ ہے کہ چناؤ لڑنا ہے تو شیو کی اس نگری سے۔ بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی کے لئے آر ایس ایس کنبہ آخر کار بنارس کو ہی کیوں مفید مان رہاتھا اس کے پیچھے کئی وجہ ہیں۔ بنارس میں حالانکہ 18 فیصدی مسلمان ووٹر ہے لیکن آر ایس ایس امید ہے کہ باقی82فیصدی ووٹ کا پولارائزیشن ہوجائے گا اور وہ ایک مشت مودی کو ملیں گے۔ دراصل وارانسی بھاجپا کے لئے ہمیشہ ہی ایک اہم اشو رہا ہے لیکن وقتاً فوقتاً اسے خطرے کی گھنٹی میں سنائی دیتی رہی ہے۔ اس چناؤ میں بھی آر ایس ایس کچھ خطرہ دکھائی دے رہا ہے کیونکہ مشن 2014ء فتح کرنے کے لئے وہ وارانسی سمیت پوروانچل کی24 اور بہار کی 9 ، مدھیہ پردیش کی ایک درجن سیٹوں پر اپنی نظر لگائے ہوئے ہیں اور وہ مودی کو یہاں سے لڑ کر پورے خطے میں بھگوا اثر بنانا چاہتی ہے۔نریندر مود

دیویانی پر الزام مسترد امریکی دادا گری کو کرارا جواب!

ہندوستانی خاتون ڈپلومیٹ دیویانی کھوبراگڑی کے خلاف عائد الزامات امریکی عدالت کے ذریعے مسترد کیا جانا خود دیویانی اور بھارت کے لئے خوشی کا بڑا موقعہ ہے۔ امریکی عدالت نے نوکرانی سنگیتا رچرڈ کی جانب سے عائد ویزا دھوکہ دھڑی سے متعلق سبھی الزامات مسترد کردئے ہیں۔ نیویارک کے جنوبی ڈسٹک کی ایک عدالت نے 12 مارچ کو سنائے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ جس وقت دیویانی پر ویزا جعلسازی اور اپنی نوکری کی تنخواہ کو لیکر غلط بیانی کے الزامات لگائے گئے تھے تب انہیں سفارتی سرپرستی حاصل تھی اس فیصلے نے 9 جنوری کو دیویانی کے خلاف سرکاری وکیل کی طرف سے لگائے گئے سبھی الزامات کو مسترد کردیا۔ قابل ذکر ہے دیویانی کو ویزا جعلسازی اور اپنی نوکرانی کو کم تنخواہ دینے کے الزام میں نیویارک میں12 دسمبر2013 کو گرفتار کیا گیا تھا اس وقت نیویارک میں ہندوستانی قونصل خانے میں بطور ڈپٹی قونصلیٹ دیویانی کی گرفتاری اور بعد میں اس سے لی گئی تلاشی پر بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ معاملے کو لیکر چلی سیاسی بات چیت کے بعد دیویانی کو انڈیا امریکی ہیڈ کوارٹرز معاہدے کے تحت8 جنوری2014ء کو پوری سفارتی رعایت دی گئی تھی۔ اس فیصلے سے ی

بھاجپا۔ کانگریس دونوں کیلئے ان صوبیداروں سے نمٹنا کڑی چنوتی ہے!

کچھ سیاستدانوں کا ماننا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نریندر مودی کی قیادت میں بیشک اگلے لوک سبھا چناؤ میں سب سے بڑا دل بن کر ابھرے لیکن سرکار وہ تبھی بنا سکے گی جو دوسرے چھوٹے دل این ڈی اے کا سمرتھن کرنے کو تیار ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ این ڈی اے اپنے بوتے پر 272+ سیٹیں نہیں لاسکتی۔ حالانکہ دیگر تجزیہ کاروں کا دعوی ہے کہ دیش میں مودی کی لہر ہے اور این ڈی اے اپنے بوتے پر بنا لے گی۔ لگتا تو یہ ہی ہے کہ کیندر کی اقتدار کی دوڑ میں شامل دونوں بڑے سیاسی دل بھاجپا اور کانگریس کو آئندہ لوک سبھا چناؤ میں علاقائی صوبیداروں سے کڑی چنوتی ملے گی۔ اگلی سرکار کے قیام کے راستے میں جہاں یہی دل ان کے راستے کی رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں وہیں ان کے سمرتھن سے ہی نئے پردھان منتری کی تاجپوشی ہوسکتی ہے۔ان سب کے بیچ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی بھی دونوں بڑے دلتوں کے لئے ووٹ کٹوا ثابت ہوسکتی ہے۔ اترپردیش اور بہار کی سیاسی تصویر میں پہلے بتاچکا ہوں۔ آج بات کریں گے دیگر ریاستوں کی۔گزشتہ چناؤ کو دیکھیں تو کانگریس کو کیندر کے اقتدار میں پہنچانے میں دکشن کی دو ریاستوں آندھرا پردیش اور تاملناڈو کا بڑا کرداررہا تھا۔توبھا