اشاعتیں

اکتوبر 28, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

امیّ اگر میں زندہ رہا تو......!

آتنکی حملہ ہو گیا ہے.....دانتے واڑہ میں آئے تھے الیکشن کوریج کے لئے لیکن ..........ایک راستے تھے گذر رہے تھے،فوجی ہمارے ساتھ تھے......اچانک نکسلیوں نے گھیر لیا۔امی اگر میں زندہ بچا تو غنیمت ہے.....امی میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں .......ہو سکتا ہے کہ میں حملے میں مارا جائوں .......حالات صحیح نہیں ہیں،پتہ نہیں کیوں موت کو سامنے دیکھتے ہوئے ڈر نہیں لگ رہا ہے.......بچنا مشکل ہے۔یہاں پر 6,7جوان چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔یہ لفظ دور درشن کے اسسٹینٹ کیمرہ مین مور مکٹ شرما کے ہیں،جو منگوار کو ہوئے نکسلی حملے میں دانتے واڑہ کے جنگلوں میں پھنس گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ یہاں قریب 40منٹ تک فائرنگ ہوتی رہی ایسی خوفناک آوازیں میں نے تو صرف فلموں میں ہی سنی تھیں اور ان آوازوں سے پورا جنگل گونج رہا ہے۔معلوم ہو کہ نکسلی حملہ میں موکٹ کے ساتھی کیمرہ مین اچھوتا نند کی موت ہو گئی تھی۔دونوں ایک ہی بائک پر سوار تھے۔موکٹ نے بتایا کہ پتلا راستہ ہونے کے سبب ہمیں بائک سے جانا پڑا تھا اچانک گولا باری شروع ہوگئی ۔میں سڑک کے کنارے کھڈ میں چلا گیا۔میں نے سوچا اچھوتا نند مارا گیا ہے میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا

روح کانپنے والی بربریت سے ہوا ہاشم پورہ میں قتل عام!

دہلی ہائی کورٹ نے 31سال پہلے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے میرٹھ کے ہاشم پورہ قتل عام کے معاملے میں پی اے سی کے 16سابق جوانوں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔عدالت نے بدھ کو قتل عام کی پولس کے ذریعہ بے قصور لوگوں کی سازش کے تحت قتل اور ٹارگیٹ کلنگ قرار دیتے ہوئے نچلی عدالت کے فیصلے کو پلٹ دیا۔جس میں ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔1987میں ہاشم پورہ میں اقلیتی فرقہ کے 42لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔جسٹس ایس مرلی دھر ،جسٹس ونودگوئل نے کہا اس بات کو نظر انداز نہیں کیا سکتا کہ متوفی  اقلیتی فرقہ کے لوگ تھے۔یہ واردات قانون کی تعمیل کروانے کے لئے بنی فورس میں موجود مذہبی جانب داری کا انکشاف کرتی ہے۔عدالت نے سرکاری وکیل کے ذریعہ جرائم کی وجہ ثابت کر پانے اور بچائو  فریق کی دلیل کو مستر د کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے صاف کہا کہ متاثرین کو سچائی جاننے کا حق ہے۔یہ انصاف کے حق کا اہم جز ہے۔اس معاملے میں پی اے سی نے روح کانپنے والی بربریت سے قتل عام کیا اور متوفین کے رشتہ داروں کو اندھیرے میں رکھا۔31سال لمبے انتظار میں متوفین کے رشتہ داروں کا بھروسہ سسٹم اور سرکار نے کمزور کیا۔22مئی1987کو ان کے رشتہ دار گئے

انڈیا کی آئرن لیڈی اندرا گاندھی!

بدھوار 31اکتوبر کو اندرا گاندھی کی 34ویں برسی تھی ۔یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ سوائے کانگریس پارٹی کے ان کی برسی چنندا اخباروں میں اشتہارات تھے ان اخباروں  نے ان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں شائع کیا ۔ساری توجہ سردار پٹیل کی وسیع مورتی پر لگی رہی یہ وقت بھی ہو سکتا ہے ۔بھاجپا سرکار اندرا جی کو یا د تک کرنا نہیں چاہتی اور انہیں بھلانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔اندرا بھارت کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے پس منظر میں بھی بے حد اہم شخصیت تھیں ۔صرف اس لئے نہیں کہ وہ بھارت کی پہلی ایسی طاقتور خاتون وزیر اعظم تھیں جن کے بلند حوصلے کے آگے پوری دنیا نے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔وہ ان کے بلند حوصلے ہی تھے جن کی بدولت بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کی شکل میں وجود میں آیا ۔بھارت نے ان کی حکومت میں پہلی بار خلا میں جھنڈا اسکوائڈرن لیڈر راکیش شرما کی شکل کی شکل میں تھا ۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے پنجاب میں پھیلی انتہا پسندی کو کچلنے کے لئے سخت فیصلہ لیتے ہوئے مشکل سے مشکل قدم اُٹھانے سے پرہیز نہیں کیا ۔بیشک ان کے فیصلے کے لئے انہیں اپنی جان کی قیمت چکانی پڑی۔وہ اندرا ہی تھیں جنہوں نے بھارت کو نیو کلیائی طاقت کفیل بن

ایودھیا میں رام مندر تعمیر عدالت کی ترجیح نہیں

یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ سپریم کورٹ نے ایودھیا معاملے کی سماعت جنوری تک ٹال دی ہے۔رام بھگتوں کو امید تھی کہ جیسا عدالت نے کہا کہ وہ ایودھیا معاملے کی سماعت روز مرہ کرئے گی اس امید پر عدالت نے پانی پھیر دیا ہے۔جنوری میں سپریم کی نئی بنچ یہ طے کرئے گی کہ اس معاملے کی سماعت کب ہو؟چیف جسٹس کی سربراہی والی پنچ کی طرف سے جس طرح کہا گیا یہ متعلقہ بنچ ہی طے کرئے گی کہ معاملے کی سماعت جنوری ، فروری،اور مارچ یا اپریل میں کب ہوگی۔اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اس تنازع کا جلد حل نکالنے میں سپریم کورٹ کی ترجیحات میں نہیں ہے۔کیا اس بات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ایودھیا پر الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائے ہوئے سات سال گزر چکے ہیں پھر بھی معاملے پر سماعت جلد سے جلد ہونی چاہئے اس میں جلد انصاف کی کوئی صورت نہیں بن رہی ہے۔صاف ہے کہ ایودھیا معاملہ عدالت کو فورا جلدی یومیہ سماعت کے لائق نہیں لگا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ایودھیا معاملے پر عام چنائو سے پہلے فیصلہ آنے کا امکان ختم ہوگیا لگتا ہے۔اس معاملے میں یہ فیصلہ مایوس کن ہے سپریم کورٹ کے پاس معاملہ سات برسوں سے زیادہ عرصے تک لٹکا ہوا ہے۔ا

سرکار بینکوں کیساتھ ٹوئٹنی۔20 کھیلنا بند کرے

آہستہ آہستہ یہ واضح ہوجارہا ہے کہ بھارت سرکار اور ریزرو بینک کے درمیان رشتے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ریزرو بینک بھی سی بی آئی کی طرح سرکاری چنگل سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ریزرو بینک کی پالیسیوں اور کام کاج کے طریقوں کی تنقید کھل کر شروع ہوگئی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے بینکوں کی مختاری کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار بینکوں کے ساتھ ٹوئٹنی۔ 20 میچ کھیلنا بند کردے ورنہ اس کے تباہ کن نتائج ہوسکتے ہیں۔ سی بی آئی میں جس وقت مرکزی سرکار کی مداخلت کو لیکر زلزلہ آیا ٹھیک اسی وقت بینکوں کی مختاری پر آچاریہ کی صلاح اہم ترین مانی جارہی ہے۔ بینکوں اور وزرا کے گٹھ جوڑ کی اکثر شکایتیں آتی رہتی ہیں۔ بڑھتے این پی اے اور بینکوں کا پیسہ لیکر بیرون ملک بھاگے مالی مجرموں کے ساتھ نیتاؤں افسروں کے رشتے پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ ایسے میں بینکوں کے لئے آزادی کی مانگ اٹھا کر آچاریہ نے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر بینک اپنے مطابق کام کریں تو حالات تبھی بہتر ہوسکتے ہیں ورنہ تباہ کن نتائج کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اے ڈی شراف میموریل لیکچر میں آچاریہ نے کہا جو مرکزی سرکار س

سری لنکا میں اس وقت دو وزیر اعظم ہیں

پڑوسی دیش سری لنکا کی سیاسی صورتحال دھماکہ خیز بن گئی ہے۔ وہاں اقتدار کی لڑائی سے نہ صرف سری لنکا ہی بلکہ پورے خطہ میں حالات خراب ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس وقت وہاں دو دو وزیر اعظم ہیں۔صدر میتری پالا سری سینا نے جمعہ کو رنل وکرم سنگھے کو برخاست کر مہندر راج پکشے کو وزیراعظم کا حلف دلادیا۔ ایتوار کو صدر نے دیش کے سامنے اپنے فیصلہ کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کی وہیں راج پکش نے دیش میں جلد پارلیمانی چناؤ کرانے کی بات کہی ہے۔ راجپکش کو چین کا حمایتی مانا جاتا ہے۔ صدر شی جن پنگ تو انہیں مبارکباد بھی دے چکے ہیں۔ سری لنکا کے صدر کے فیصلہ کو جھٹکا دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے اسپیکر جے سوریہ نے رنل وکرم سنگھے کو دیش کے وزیر اعظم کی شکل میں منظوری دے کر بحران کھڑا کردیا ہے۔ اس طرح اس وقت سری لنکا کے دو وزیر اعظم ہیں۔ اسپیکر جے سوریہ نے کہا کہ وکرم سنگھے کو جمہوریت مضبوط کرنے اور گڈ گورننس کے لئے مینڈیڈ ملا ہے۔ اسپیکر کے موقف سے برخاست وزیر اعظم وکرم سنگھے کے دعوی کو طاقت ملی ہے۔ صدر میتری پالا سری سینا کے ذریعے وزیر اعظم رنل وکرم سنگھے کو عہدہ سے ہٹانے ،پارلیمنٹ کو آنے والی16 نومبر تک ملتوی رکھنے او

کورٹ ایسے فیصلے نہ دے جو لاگو نہ ہوسکیں: امت شاہ

بھاجپا کے قومی صدر امت شاہ سنیچر کو کیرل کے کنور میں تھے انہوں نے سبریمالا مندر میں ہر عمر کی عورتوں کے داخلہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو ایسے فیصلے نہیں لینے چاہئیں جن پرعمل نہ ہوسکے۔ عدالت کوفیصلہ لیتے وقت لوگوں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ امت شاہ نے تشدد پر مبنی مظاہروں میں شامل ہونے کے الزام میں اندھادھند بھکتوں کی گرفتاریوں پر کیرل سرکارپر تلخ نکتہ چینی کی۔ ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے حکم کی آڑ میں کیرل کی کمیونسٹ سرکار مندروں اور ہندوؤں کی روایت کو تباہ کرنے کی سازش رچ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کیرل میں ان دنوں آستھا اور حکمرانی کے درمیان لڑائی چل رہی ہے۔ بھاجپا اور سنگھ پریوار سے جڑے لوگوں سمیت ایپا بنے دو ہزار سے زیادہ بھکتوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ سبھی عمر کی عورتوں کو مندر میں داخلہ کی اجازت دئے جانے پر سپریم کورٹ کے حکم کی تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو ایسے فیصلہ نہیں دینے چاہئیں جو لوگوں کی مذہبی عقیدت کے خلاف ہوں اور جنہیں لاگو نہ کیا جاسکے۔ کنور کی ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے امت شاہ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ جیسے جلیکٹو ،مسجدو

میٹ تاجر معین قریشی کا کیا ہے سی بی آئی سے لنک

دیش کی سب سے بڑی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی میں جو دنگل جاری ہے اس کے تار کہیں نہ کہیں میٹ کاروباری معین قریشی سے جڑتے ہیں آخر کون ہے یہ معین قریشی؟ جانے مانے دون اسکول اور سینٹ اسٹیفن کالج میں پڑھے لکھے اترپردیش کے رام پور کے باشندے معین قریشی حالانکہ دہلی میں برسوں سے سرگرم تھے لیکن ایک خاص حلقہ کے باہر ان کا نام تب سرخیوں میں آیا جب سال2014 میں محکمہ انکم نے ان کے چھترپور گھر، رامپور اور دوسری پراپرٹیز پر چھاپہ مارے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان جگہوں پر حکام کو نہ صرف کروڑوں روپے نقد ملے بلکہ قریشی اور دوسرے اہم لوگوں کی بات چیت کے ٹیپ بھی برآمد ہوئے جو شاید میٹ ایکسپورٹ اور مبینہ حوالہ آپریٹر نے خود ہی ریکارڈ کئے تھے۔ پالیسی ۔ پیرالیسس اور گھوٹالوں کے کئی طرح کے الزام جھیل رہی یوپی اے 2 سرکار کو ایک خفیہ غیر ملکی ایجنسی نے دوبئی سے ایک غیر ملکی بینک میں کروڑوں روپے کی منی ٹرانسفر کی اطلاع دی تھی ساتھ میں یہ بھی آگاہ کیا کہ پیسہ بھیجنے والا یہ شخص ایک ہندوستانی ہے۔ اکبر پور کی اسی چناوی ریلی میں نریندر مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹی وی چینل نے بتایا کہ مرکزی سرکار کے چار وزیر اس میٹ ایکسپورٹ

چلا گیا دہلی کا شیر۔۔۔!

سابق وزیر اعلی مدن لال کھورانہ دہلی کے شیر کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ وہ دہلی بھاجپا کے ایک محض ایسے نیتا رہے جس کے سبب بھاجپا کو اقتدار نصیب ہوا۔ سال1993 میں کھورانہ جی کے وزیر اعلی بننے کے بعد ہوئے انتخابات میں بھاجپا اقتدار میں واپسی نہیں کرپائی۔ سال 1993 کے اسمبلی انتخابات میں بھاجپا نے مدن لال کھورانہ کی قیادت میں بھاری کامیابی حاصل کی تھی اور وزیر اعلی بنے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک وقت کھورانہ جی دیش کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤسے بھی زیادہ مقبول تھے۔ جین حوالہ کانڈ معاملہ میں ان کے خلاف چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد انہوں نے خود ہی استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ اس وقت کے وزیر رہے صاحب سنگھ ورما کو وزیر اعلی بنایا گیا۔ حالانکہ اڈوانی جی کے ساتھ ان کا نام حوالہ کانڈ معاملہ میں ان کا نام بھی آیا تھا لیکن ان کو پھر سے سی ایم کی گدی نصیب نہیں ہو پائی۔بھاجپا قیادت نے ان سے ناانصافی کی اور چاہتے ہوئے بھی انہیں دوبارہ اس عہدے پر نہیں بٹھایا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہلی میں قائم کرنے والے مدن لال کھورانہ کی زندگی دہلی سے ہی وابستہ تھی اور وہ مرکز میں وزیر بنے ہوں یا راجستھان کے گورنر دہل

دہلی میں غیر محفوظ بزرگ

دہلی کے پشچم وہار میں دو بزرگ بہنوں کا واقعہ سنگین ہے۔ یہ واقعہ قومی راجدھانی میں اکیلے رہنے والے بزرگوں کی سلامتی کو لیکر تشویش کا موضوع ہے۔ اس علاقہ میں پچھلے ماہ بھی گھر میں ایک بزرگ ماں اور بیٹی کو قتل کردیا گیا تھا۔ پشچم وہار علاقہ میں اب دو سگی بزرگ بہنوں کو گھر میں گھس کر بے رحمانہ طور پر قتل کردیا گیا۔ واردات کے بعد ملزم قیمتی زیورا ت اور نقدی لوٹ کر فرار ہوگئے۔ پولیس کے مطابق دونوں غیر شادی شدہ بہنیں آشا پاٹھک(70 سال) اور اوشا پاٹھک (75 سال) پچھلے 35 سالوں سے فلیٹ نمبر 97 ،سیکنڈ فلور، آنند ون سوسائٹی اسپورٹس کمپلیکس کے پاس پشچم وہار میں رہتی تھیں۔ اوشا ہاپوڑ کالج میں میوزک ٹیچر جبکہ آشا کرشی بھون میں انڈین کونسل آف ایگریکلچرریسرچ میں لائبریرین رہ چکی تھیں۔ اس بے رحمانہ قتل کا معاملہ سلجھاتے ہوئے پولیس نے محض 24 گھنٹے کے اندر چار بدمعاشوں کو گرفتار کیا جبکہ دو دیگر اہم ملزم اس تحریر کے لکھنے تک فرار تھے۔ دوہرے قتل کا اہم سازشی ایک پلمبر تھا۔ پکڑے گئے بدمعاشوں کے نام اکھلیش یادو24 سال، سلمان شاہ 19 سال، دیپک سینی عرف ببلو 22 سال، راجو یادو 34 سال بتائے جاتے ہیں۔ سبھی ملزمان