اشاعتیں

مارچ 2, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

لوک سبھا چناؤ دنگل: این ڈی اے بنام یوپی اے محاذ!

لوک سبھا چناؤ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیاں چناؤ سے پہلے اتحاد کو قطعی شکل دینے میں لگ گئی ہیں۔ فی الحال جو سیاسی حالات دکھائی دے رہے ہیں اس میں تین یا چار محاذ بننے کا امکان نظر آرہا ہے۔پہلا محاذ کانگریس کی رہنمائی والا یوپی اے ہے ، دوسرا بھاجپا کی رہنمائی والا این ڈی اے ہے اور تیسرا ممکنہ تیسرا مورچہ اور چوتھا ہے عام آدمی پارٹی۔کانگریس کی رہنمائی والے یوپی اے کی اگر بات کریں تو یہ محاذ پچھلے 10 سال سے اقتدار میں ہے لیکن مسلسل کرپشن اور گھوٹالوں اور مہنگائی ، بے روزگاری ، بگڑتا قانون و نظم کے الزامات اور کمزور پڑتی کانگریس کی اس مرتبہ پوزیشن بہت ڈانواڈول ہے۔ ڈوبتے جہاز کی حالت میں آیا یوپی اے محاذ سے کئی اتحادی پارٹیاں بھاگ چکی ہیں اور کئی پارٹیاں بھاگنے کی تیاری میں لگی ہیں۔ ان میں ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے خاص ہیں۔ بہار میں لالو نے کانگریس کو اپنی شرطوں پر تال میل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ آندھرا پردیش میں ٹی آر ایس اور اترپردیش میں راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اتحاد کی تیاری چل رہی ہے۔ کانگریس پارٹی اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کرنے اور چناؤ کمپین میں بھی بھاجپا سے پیچھے چل رہ

اور اب شیلس رائس کا نیا گھوٹالہ!

اپنے دوسرے عہد کے دوران ایک کے بعد ایک گھوٹالوں کے سامنے آنے سے ہلکان ہورہی یوپی اے سرکار کی مشکلیں جاتے جاتے کم نہیں ہورہی ہیں۔ اپنے دیش میں ڈیفنس سازو سامان خرید میں کمیشن لینے کے الزام کا سب سے بڑا معاملہ بوفورس کا رہا۔ اس وقت راجیوگاندھی کی قیادت والی کانگریس سرکار کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔اس تنازعے سے سبق لیتے ہوئے یہ قاعدہ بنایا گیا تھا کہ ہتھیاروں اور دیگر ڈیفنس سودوں میں بچولیوں کو کسی بھی سطح پر شامل نہیں کیا جائے گا۔ کوئی کمپنی بھارت میں دفاعی سازو سامان کی خرید میں کسی کو کمیشن ادا کرے تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس پابندی کے باوجود کمیشن دینے کا سلسلہ بنا رہا۔ اگستا ویسٹ لینڈ سے وی وی آئی پی ہیلی کاپٹروں کی خرید میں اس طرح کی حقیقت سامنے آنے کے بعد حکومت نے سخت کارروائی کرتے ہوئے جنوری میں وہ سودہ منسوخ کردیا۔ اب اسی طرح کا ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے۔ اے ایم ایل یعنی ہندوستان اروناٹکس لمیٹڈ نے برطانوی کمپنی شیلس رائس سے جہازوں کے انجن کی سپلائی کے لئے 10 ہزار کروڑ روپے کا سودا کیا تھا لیکن رشوت کا معاملہ سامنے آنے پر وزارت دفاع نے اس کمپنی سے سبھی موجودہ اور مستقبل میں

لو بج گیالوک سبھا دنگل کا بگل!

لوک سبھا 2014 کا چناوی عمل شروع ہوگیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں چناؤ کی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ویسے تو لیڈروں کے دورے اور تابڑ توڑ ہورہی ریلیوں اور بڑھتی سیاسی الزام تراشیوں کو دیکھ کر پچھلے کچھ دنوں سے دیش میں چناوی ماحول بننے کا احساس ہوچکا تھا۔لیکن اب چناؤ کمیشن نے باقاعدہ طور پر لوک سبھا چناؤ کا اعلان کردیا ہے۔ جمہوریت کے اس مہا سمر کا بگل بج چکا ہے۔ پہلی بار چناؤ 9 مرحلوں میں ہونے جارہے ہیں۔16 ویں لوک سبھا کے لئے چناؤ 7 اپریل سے شروع ہوکر 12 مئی یعنی ڈیڑھ مہینے چلیں گے۔ ووٹوں کی گنتی 16 مئی کو ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی آندھرا پردیش ،اڑیسہ، سکم کے اسمبلی چناؤ بھی ہوں گے۔ یہ پہلی بار ہے کہ دیش کا کوئی عام چناؤ 9 مرحلوں میں کرایا جارہا ہے جبکہ2009 ء میں لوک سبھا چناؤ5 مرحلوں میں کرائے گئے تھے حالانکہ پچھلی مرتبہ چناؤ عمل پورا ہونے میں 75 دن لگے تھے وہیں اس بار یہ چناوی عمل 72دنوں میں پورا ہوجائے گا۔ اتنے ٹکڑوں میں ووٹنگ کرائے جانے کو لیکر چیف الیکشن کمشنر وی ایس سمپت کی دلیل یہ ہے کہ ووٹنگ کی تاریخوں کی سفارش مانسون تہواروں اور امتحانات کو دیکھتے ہوئے اور سیاسی

سپریم کورٹ کے فتوے پر نپا تلا تبصرہ!

سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ مسلم عالم دین کے ذریعے جاری فتویٰ لوگوں پر تھونپا نہیں جاسکتا۔ یہ بات سپریم کورٹ نے مسلم فرقے کے ذریعے چلائی جارہی شرعی عدالتوں میں مداخلت کرنے کے تئیں اپنی بے چینی ظاہر کرتے ہوئے حال ہی میں کہا کہ سرکار کو ایسے شخص کو تحفظ دینا چاہئے جنہیں اس طرح کی ہدایتوں کی تعمیل نہ ہونے کے سبب پریشان کیا جاتا ہے۔عدالت نے شرعی عدالتوں کو ختم کرنے، فتوؤں پر روک لگانے کی مانگ والی عرضی پر فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ جسٹس سی۔ پرساد اور جسٹس پی ۔سی گھوش کی بنچ نے کہا عوام کی بھلائی کے لئے کچھ فتوے جاری کئے جاسکتے ہیں۔ کچھ مذہبی اور سیاسی اسباب ہوسکتے ہیں اور عدالت اس پر نہیں جانا چاہتی۔ غور طلب ہے عالمی لوین یدان نے 2005ء میں سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی جس میں شرعی عدالتوں اور فتوؤں پر روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے تبصر ے سے فتوے کے بارے میں غلط فہمیاں تو دور ہوتی ہیں مگر ان کے قانونی جواز کو لیکر بھی حالات واضح ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ اگر کوئی فتویٰ جاری کردیا گیا تو اس پر پابند ہونا ہوگا جب بھی کوئی

چناؤ سے ٹھیک پہلے پھر ریزرویشن پر نہ ٹکنے والا فیصلہ!

جاٹ فرقے کو ریزرویشن ملے یا نہیں یا الگ اشو ہے سوال دیگر ہے کہ اگر یہ فرقہ طے کسوٹیوں پر پسماندہ ہے تو اسے اس کا حق ضرور ملنا چاہئے۔ مگر سوال یہاں یہ ہے کیا یوپی اے سرکار نے جاٹوں کو مرکزی سطح پر دیگر پسماندہ ذاتوں کے زمرے میں رکھنے کا فیصلہ ان تقاضوں پر کیا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کیا یہ فیصلہ عدالت میں ٹک پائے گا؟ منموہن سنگھ کی کیبنٹ نے ایس سی ایس ٹی ترمیم بل پر آرڈیننس لاکر ضرور لوک سبھا چناؤ سے پہلے ایک بڑا سیاسی داؤ چلنے کی کوشش کی ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے جاٹوں کو پسماندہ طبقے کی مرکزی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس سے اس فرقے کے لوگوں کو مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے اور ملازمتوں میں ریزرویشن کا فائدہ ملے گا۔ اس بارے میں مرکزی وزیر منیش تیواری نے صاف کیا کہ سرکار کے اس فیصلے کے بعد راجستھان، یوپی ، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، بہار، ہریانہ، ہماچل، گجرات اور دہلی کے جاٹ فرقے کے لوگوں کو فائدہ ملے گا۔ دراصل مظفر نگر فسادات کے بعد جاٹ فرقے میں پیدا ناراضگی کوروکنے کے لئے مرکزی سرکار نے چناؤ سے عین پہلے یہ فیصلہ لیا ہے ۔ عام چناؤ قریب آتے دیکھ حکومت نے قومی پسماندہ کمی

ساکھ چمکانے بگاڑنے میں بڑھتی سوشل میڈیا کی اہمیت!

ایک زمانہ تھا جب زیادہ تر بھارت کی عوام انٹر نیٹ کا استعمال کرنا بھی نہیں جانتی تھی لیکن پچھلی ایک دہائی نے انٹرنیٹ اب ہر گھر میں کم سے کم ہندوستان کے بڑے شہروں میں استعمال ہورہا ہے۔دیہاتی سرزمین میں بھی انٹرنیٹ پہنچ گیا ہے۔ پرچار کمپین کا انٹرنیٹ ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس سے چاہے وہ فیس بک ہو ،ٹوئٹر ہو یا پھر دیگر نیٹ ورکنگ سائٹس ہوں۔ کمپنیاں اپنی مارکٹنگ کا فورا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ایسے میں دیش کی بڑی سیاسی پارٹیاں ولیڈر سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنے لگے ہیں۔ سوشل سائٹ پر اسمبلی چناؤ کے وقت سے ہی پارٹیوں سے لیکر اکیلے نیتاؤں تک کمپین کو تقویت ملی ہے۔ اب لوک سبھا چناؤ کا اعلان ہو گیا ہے۔یقیناًسوشل میڈیا اور بلاگنگ بھی اس چناؤ میں اہم کردار نبھا رہے ہیں یا نبھانے والے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا چناؤ سے جڑی پل پل کی خبریں لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار نبھا رہا ہے۔ اشو کا باقاعدہ تجزیہ ہوتا ہے ، لوگ اپنے نظریئے لکھتے ہیں اور افواہیں پھیلانے تک کام ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا میں پانی، بجلی جیسے اشو کے ساتھ ساتھ کئی ایسے اشو بھی زیر بحث ہوتے ہیں جو پورے دیش کی سیاست کو متاثر کرتے ہیں۔ ج

راہل کے ڈریم بلوں پر صدر کا عدم اتفاق!

ہم کانگریس پارٹی کی ہڑبڑاہٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ لوک سبھا چناؤ سے پہلے اپنی کمان سے سارے تیر چلانا چاہتی ہے کیونکہ انہیں جو رپورٹ مل رہی ہے وہ حوصلہ افزا نہیں لگتی۔ لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کو مایوسی ملنے والی ہے۔ جاتے جاتے اس یوپی اے سرکار نے دونوں ہاتھوں سے ریوڑیاں بانٹنا شروع کردی ہیں۔ سوغات کی جھڑی لگادی ہے۔جو کچھ بھی وہ دے سکتی تھی اس نے دے دیا۔ ممکن ہے کسی بھی وقت چناوی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے اور اسی کے ساتھ چناؤ ضابطے لگ جائیں گے۔ یوپی اے سرکار نے مرکزی ملازمین کا مہنگائی بھتہ موجودہ90 فیصد سے بڑھا کر100 فیصد کردیا ہے۔ امپلائز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن کی ملازمین پنشن اسکیم۔95 کے تحت کم از کم پنشن رقم1000 روپے کردی ہے۔ لوک سبھا چناؤ لڑنے والے امیدواروں کے چناوی خرچ کی حد بھی بڑھا کر70 لاکھ روپے کردی ہے لیکن پارٹی نائب صدر راہل گاندھی کے ڈریم بلوں میں رکاوٹ آگئی ہے۔ ان کے پسندیدہ 7 بلوں کو آرڈیننس کے ذریعے لاگو کرنے کا سارامنصوبہ صدر محترم پرنب دا نے ناکام کردیا ہے۔ کیبنٹ نے ایتوار کو ان بلوں کو آرڈیننس کے ذریعے قانون بنانے کے پلان کو ڈراپ کردیا ہے۔ یہ اس لئے ڈراپ یا من

یوکرین میں فوجی مداخلت کو لیکر روس اور امریکہ آمنے سامنے!

یوکرین اشو پر روس اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی پوری دنیا کے لئے تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے۔ یوکرین نے سنیچر کو الزام لگایا کہ روس اس کے دائرہ اختیار کے علاقے میں اپنے ہزاروں فوجی بھیج رہا ہے۔ یوکرینی وزیر دفاع ایگور تینومخ نے نئی سرکار کی پہلی کیبنٹ میں کہا کہ روس کو مسلح فورسز نے 30 مسلح ملازمین اور 6 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو کریمیا بھیجا ہے۔ان کو کریمیا میں روس حمایتی ملیشیا کی مدد کیلئے بھیجا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ روس نے جمعہ کو اپنے فوجی بغیر کسی وارننگ کے یا یوکرین کی اجازت کے بغیر بھیجنا شروع کردیا تھا۔ ادھر روس اور یوکرین کے درمیان ڈیڈ لاگ اس وقت بڑھ گیا جب ماسکو حمایتی یوکرینی لیڈر کریمیا علاقے میں فوج اور پولیس پر کنٹرول کا دعوی کیااور روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے امن قائم رکھنے میں مدد مانگی۔ واضح رہے کہ سارا جھگڑا یوکرین کے چانو کووچ جو روس حمایتی ہیں زبردستی 22 فروری کو معزول کردئے گئے۔ پارلیمنٹ نے ایک مغربی حمایتی سرکار کو معمور کردیا جس کا ایک مقصد روسی اثر والے علاقے سے ہٹ کر یوکرین کو یوروپی فیڈریشن کے قریب لانا ہے۔ صدر چانوکووچ نے روس کے ساتھ رشتوں کو ترج

36 برسوں میں ڈیڑھ لاکھ کروڑ کا امپائر کھڑا کرنے والے سبرت رائے!

سہارا گروپ کے چیف سبرت رائے سہارا کی زندگی کی کہانی کسی بلاک بسٹر فلمی اسٹوری سے کم نہیں۔ گورکھپور سے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے والا یہ 30 سالہ نوجوان 1978 ء میں ہزار ڈیڑھ ہزار روپے سے کاروبار کی ابتدا کر 36 برسوں میں ڈیڑھ لاکھ کروڑ سے اوپر کا بزنس امپائر کھڑا کردیتا ہے۔یہ بزنس ٹائیکون کوئی اور نہیں سرمایہ کاروں کا 20 ہزار کروڑ کی ادائیگی نہ کرنے کا ملزم سہارا انڈیا پریوار کے چیئرمین سبرت رائے سہارا ہیں۔ فائننس، ریل اسٹریٹ، میڈیا، ہیلتھ کیئر، انٹرٹینمنٹ، کنزیومر گڈس، ٹورازم سمیت کئی سیکٹروں میں سرمایہ لگانے والے سبرت رائے کا بزنس آج بیرونی ممالک تک پھیل چکا ہے۔65 سالہ سبرت رائے نے 1978ء میں سہارا گروپ بنایا اور کاروبار کا آغاز گورکھپور سے ہی کیا تھا۔ اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے گروپ کا آغاز سہارا بینکنگ سے کرکے بڑی تعداد میں بچت کھاتہ داروں کو جوڑا اور یہیں سے ان کی کہانی میں موڑ آیا۔ گورکھپور سے شروع ہوا سہارا کا سفر آج اربوں روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سیاست ،بالی ووڈ، اسپورٹس میں اپنی چمک اور پیسہ بکھیر کر سہارا شری کے دبدبے کو ثابت کرتے رہے ہیں۔ چٹ فنڈ سے لی

کیا اس بار اترپردیش میں لوک سبھا چناؤ میں کمل کھلے گا؟

لوک سبھا چناؤ میں دہلی کی گدی تک پہنچے کے لئے راستہ اترپردیش سے جاتا ہے اس لئے کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 80 سیٹوں والی اس ریاست میں سبھی نے اپنی اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ سبھی پارٹیاں زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنا چاہتی ہیں۔ لیکن مظفر نگر فرقہ وارانہ فساد نے سیاسی پارٹیوں کا حساب کچھ حد تک بگاڑ دیا ہے۔ پشچمی اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کو سائیکل کے پچھڑنے کا ڈر ہے تو وہیں راشٹریہ لوک دل کا غیر مسلم سمی کرن ٹوٹنے سے پارٹی کو جھٹکا لگا ہے۔ بھاجپااور بسپا خود کو فائدے میں مانتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کا ووٹ کاٹو کھیل کس حدتک سمی کرن بگاڑ سکتا ہے یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے۔ بھاجپا کو مشن272+ کا نشانہ حاصل کرنے کے لئے یوپی میں زیادہ سے زیادہ سیٹ جیتنا پارٹی کے لئے بیحد ضروری ہے۔ پارٹی کی طرف سے پی ایم امیدوار نریندر مودی اور یوپی میں بھاجپا پربھاری امت شاہ کئی سبھائیں کر ماحول اپنے حق میں کرنے کے لئے دن رات ایک کررہے ہیں۔ یوپی میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہار جیت کے فیصلے میں مسلم ووٹراہم کردار نبھاتے ہیں اس لئے دنگے سے مکت پردیش کی بات کر مسلمانوں کا بھروسہ جیتنے میں جٹے ہیں۔ بھروسے کی بات کریں تو ا

چناؤ سروے بین کرنا صحیح نہیں اس میں سدھار کی ضرورت ہے!

چناؤ میں مختلف پارٹیوں کی ممکنہ نوعیت دکھانے والے اوپینین پول کی معتربیت پر ایک بار پھرسوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ایک نیوز چینل کے اسٹنگ آپریشن میں اوپینین پول کرنے والی ایجنسیوں کا جیسا چہرہ سامنے آیا ہے اس سے ایسے پولوں کی معتبریت اور معنونیت دونوں پر ہی سوال اٹھنے فطری ہیں۔ اسٹنگ میں جن ایجنسیوں کے کرتا دھرتا پولوں کے نتیجوں میں پول کرانے والی پارٹی کی مرضی کے مطابق نتیجوں میں ہیر پھیر کرنے کے لئے آسانی سے تیار دکھتی ہیں اور بدلے میں نقد رقم کو قبول کرنے کے لئے بھی تیار رہتی ہیں۔ اس سے پولوں سے عوام کا یقین اٹھ جائے گا۔ اسٹنگ میں سی۔ ووٹر کی سینئر افسر کو اس بات کے لئے راضی ہوتے دکھایا گیا ہے کہ من مطابق بھگتان ملنے پر اس کی ایجنسی مانگ کے مطابق آنکڑے پیش کرسکتی ہے۔ اس میں انہوں نے ایجنسی کے منیجنگ ڈائریکٹر کی مرضی بھی بتائی ہے۔اس اسٹنگ سے سودے بازی کے ساتھ ہی آنکڑوں کی ہیرا پھیری کے طریقوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ پوچھا گیا کہ اگر سروے میں کسی پارٹی کو 10 سیٹیں ہی مل رہی ہوں تو اسے زیادہ کیسے دکھایا جاسکتا ہے۔ جواب تھا یہ مان کر چلا جاتا ہے کہ 3 سے5 فیصدی متوقعہ ووٹوں کی غلطی ہوسکتی ہے۔ اگ