اشاعتیں

جنوری 22, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پنجاب :سہ رخی مقابلہ میں نشہ ایک بڑا اشو

پنجاب اسمبلی کی 117 سیٹوں کیلئے 4 فروری کو ہونے والے چناؤ میں کل1146 امیدوار میدان میں ہیں اور عام آدمی پارٹی نے مقابلہ سہ رخی بنا دیا ہے وہیں کئی چھوٹی پارٹیاں بھی اس مرتبہ مضبوطی سے تال ٹھوک رہی ہیں۔ پنجاب میں ابھی تک آمنے سامنے کا مقابلہ روایتی طور پر کانگریس اور شرومنی اکالی دل ، بھاجپا اتحاد میں ہوتا تھا ریاست کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہے جب اکالی دل بھاجپا محاذ کے علاوہ کوئی مضبوط طاقت میدان میں ہے۔ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ نتیجوں کو اسمبلی سیٹوں کے حساب سے دیکھیں تو بڑھت کی صورت یوں بنتی ہے اکالی ۔بھاجپا 46، کانگریس 36، عام آدمی پارٹی 33، لوک انصاف پارٹی 21 یعنی اکالی ۔بھاجپا ۔کانگریس اور عاپ میں تقریباً برابری کا مقابلہ ہے۔ لوک انصاف پارٹی لدھیانہ میں بسے بندھوؤں کی پارٹی ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں وہ دو اسمبلی چناؤ حلقوں میں سب سے زیادہ آگے رہی تھی۔ ایک اسمبلی حلقہ ایسا تھا جہاں لوک انصاف پارٹی اور عاپ کا سانجھہ ووٹ سب سے زیادہ تھا۔ اس مرتبہ لوک انصاف پارٹی اور عاپ کے درمیان اتحاد ہے یعنی دونوں علاقائی پارٹیاں 36 سیٹوں میں مشترکہ طور پر لیڈ کی بنیاد پر اتری ہیں۔ پنجاب میں عام آدمی

اتراکھنڈ میں 77 فیصد ووٹروں کی مرضی کے بغیر بنتی حکومتیں

پچھلے 17 برسوں میں اتراکھنڈ کو دیش کی سیاسی طور پر کمزور ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ اس دوران یہاں 8 مرتبہ وزیر اعلی بدلے جاچکے ہیں۔ ان وزرائے اعلی میں صرف ایک نارائن دت تیواری ہی اپنی پانچسالہ میعاد پوری کر سکے لیکن ان پانچ برسوں میں بھی ایسے کئی موقعے آئے جب لگا سرکار گرنے والی ہے۔ اتراکھنڈ میں سیاسی عدم استحکام کی شروعات ریاست کے پہلے وزیر اعلی کے ساتھ 2000ء میں جب اتراکھنڈ نئی پہاڑی ریاست بنی تبھی سے ہوگئی تھی۔ سال 2012ء کے چناؤ میں کانگریس اور بھاجپا کو برابر سیٹیں ملی تھیں ۔ اس مرتبہ کے چناؤ میں بھاجپا نے اتراکھنڈ کی سیٹوں کا اعلان کرتے ہی بغاوتی آوازوں کو ابھاردیا ہے۔ یہی رسہ کشی کانگریس میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض کانگریس ورکروں نے دہرہ دون میں پردیش صدر نند کشور اپادھیائے اور وزیر اعلی ہریش راوت کے خلاف جم کر ہنگامہ نعرے بازی اور توڑ پھوڑ کی۔ کانگریس آفس میں یہ سلسلہ دو گھنٹے تک چلتا رہا۔ لگتا یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں چناؤ مودی بنام ہریش راوت ہوگا۔ بھاجپا نریندر مودی کے چہرے پر ہی چناؤ لڑنے جارہی ہے۔ بھاجپا کے پاس وہاں وزیر

پنجاب کے چناؤ میں ان ڈیروں کی خاص اہمیت ہوتی ہے

پنجاب اسمبلی چناؤ میں ہمیشہ سے ہی ڈیروں کی خاص اہمیت رہی ہے۔ پنجاب کی سیاست میں ڈیروں کا بہت اثر ہوتا ہے۔ بیاس ندی کے کنارے چھوٹے سے شہر سے یہ ایسا نظارہ ہے جو آپ کو آسانی سے حیران کر سکتا ہے یہ ہے پنجاب کا سب سے بڑا آشرم ڈیرہ بیاس۔ کئی مربع کلو میٹر میں پھیلا یہ وسیع علاقہ کسی چھاؤنی کی طرح چاروں طرف محفوظ چہاردیواری، زبردست سکیورٹی انتظام، ہریالی اور چوڑی سڑکوں کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں شاندار رہائشی عمارتیں پورے علاقہ کی زینت بڑھاتی ہیں۔ روحانیت ، امن اور ست سنگ کے نام پر چلنے والے پنجاب کے بڑے ڈیروں کا کم و بیش ایسا ہی منظر ہے۔پچھلے400 سال سے جاری پنجاب کی ڈیرہ روایت اب کافی بدل گئی ہے۔ یہاں جگمگاہٹ ہے ، بھیڑ ہے اور ساتھ ہی سیاستدانوں کی قطار بھی ہے۔ موجودہ مذاہب اور ان کی علامتوں اور سسٹم کی مخالفت کر کھڑے ہوئے ان ڈیروں نے اپنی ٹھوس علامت اور روایتوں کو تو بنا ہی لیا ہے اب اقتدار کی ڈور بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان ڈیروں پر مفصل مطالع کرچکے پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر رونکی رام کے مطابق پنجاب میں 9 ہزار سے زیادہ ڈیرے ہیں لیکن ان میں تقریباً 10 ہی ایسے ہیں جن میں شردھالوؤں

کسان کے ووٹ تو چاہئیں لیکن ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں

اترپردیش میں سات مرحلوں میں ہونے جارہے اسمبلی انتخابات میں کسان بھاگیہ ودھاتا کے رول میں ہو سکتے ہیں۔ سیاسی پارٹی وکاس اور جن سروکار کے اشوز کو درکنار کر جیتنے والے امیدواروں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کوئی سوشل انجینئرنگ بنام چناؤ میں اول آنے کے چکر میں ہے تو کوئی پارٹی ذات اور مذہب کی بنیاد پر میدان مارنا چاہتی ہے۔ کسی کو اکثریتی ووٹوں کے سہارے لکھنؤ کے تاج تک پہنچانا ہے تو کوئی اقلیتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے فراق میں ہے۔ کوئی اتحاد کے سہارے تو کچھ ووٹوں کے بٹوارے کے سہارے امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ وکاس ،گڈ گورننگ، تعلیم، مہلا سکیورٹی اور روزگار جیسے برننگ سوال سیاسی پارٹیوں کے چناؤ منشور کی زینت بن رہے ہیں۔ یوپی میں پہلے مرحلہ کی تو پوری سیاست ہی کسانوں پر مرکوز ہے اور اس پر سبھی پارٹیوں کی اتنی توجہ نہیں ہے۔پوروانچل کے پچھڑے پن کی آواز تقریباً ہر اسمبلی سیشن میں اٹھتی رہی ہے لیکن جب گنا کسانوں کی مشکل کی بات ہوتی ہے تو مغربی اترپردیش کے گنا کسانوں پر سیاست گرم ہوجاتی ہے۔ پورب میں گنا بیلٹ کی بدحالی پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ دیوریا، کشی نگر ،گورکھپور، سنت کبیر نگر وغیرہ کے زیا

سپا کانگریس اتحاد سے لڑائی سہ رخی بن گئی ہے

آخر کار ٹوٹتے ٹوٹتے سماجوادی پارٹی و کانگریس کا اتحاد ہوہی گیا ہے۔ دراصل سنیچر کے دن 11 بجے تک اتحاد ہو گا یا نہیں ہوگا کو لیکر شش و پنج کی صورتحال بنی ہوئی تھی اور ایتوار کی صبح 11 بجے تک اتحاد پر فائنل مہر لگ گئی۔ اس درمیان لکھنؤ سے دہلی کے درمیان سپر سسپنس سیاسی تھلر کی طرح پورا معاملہ چلا۔ سپا نے کانگریس کو105 سیٹیں دی ہیں اور وہ خود298 سیٹوں پر چناؤ لڑے گی۔ دراصل اتحاد کرنا ایس پی اور کانگریس دونوں کی مجبوری تھی۔ سپا کیلئے اس لئے ضروری ہوگیا تھا کیونکہ کنبے کے جھگڑے کے بعد یہ خیال بننے لگا تھا کہ وہ مقابلے سے باہر ہوگئی ہے۔ ایسے میں تمام مسلم ووٹ بسپا میں شفٹ ہونے کے امکانات دکھائی دینے لگے۔ اس سے سپا کا بھٹہ بیٹھ جانے کا خطرہ تھا۔ اتحاد سے سماجوادی پارٹی میں مسلمانوں کو یہ سندیش دینے کی کوشش کی ہے کہ ایک قومی پارٹی اس کے ساتھ ہے اور دونوں ملکر بھاجپا کو ہرا سکتی ہیں۔ اس سے مسلم ووٹ اس کی جھولی سے کھسکنے سے بچ گیا ہے؟ یہ ضرور ہے کہ جہاں اتحاد کا امیدوار کمزور ہوگا وہاں مسلم ووٹ بہوجن سماج پارٹی کے پالے میں جاسکتا ہے۔ گٹھ بندھن نہ ہونے پر مسلمان ایک طرفہ بی ایس پی کی طرف جا سکتے

شراب بندی، نشہ بندی کے خلاف بہار کا سخت سندیش

جب بہار کی راجدھانی پٹنہ میں سنیچر کو دوپہر 12.15 منٹ سے ایک بجے تک 3 کروڑ سے زیادہ لوگ ایک دوسرے سے جڑے تو 11400 کلو میٹر لمبی دنیا کی سب سے بڑی انسانی چین تو بن گئی ہے ساتھ ہی بہار نے دنیا کو شراب بندی کیلئے بیحد مضبوط سندیش بھی دیا ہے۔ بہار کی آبادی کے حساب سے ہر چوتھا آدمی شراب اور نشے کے خلاف منعقدہ اس انسانی چین میں شامل ہوا تھا۔ راجدھانی پٹنہ سمیت ریاست کے سبھی اضلاع میں سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان نجی اور سرکاری اسکولوں کے بچے، اساتذہ ، سیاستداں، تاجر سمیت سماج کے سبھی طبقوں کے لوگ نشے سے نجات کا پیغام دینے کیلئے 12.15 بجے سے 1 بجے تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کرکھڑے ہوکر دنیا کی سب سے بڑی انسانی چین کا ریکارڈ بنادیا ہے۔ وزیر اعلی نتیش کمار نے دعوی کیا ہے یہ نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی انسانی چین ہے بلکہ بڑی سماجی تبدیلی کی حمایت میں پہلی بار اتنے لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ اس میں 2 کروڑ لوگ حصہ لیں گے مگر اس سے بھی زیادہ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے لئے تمام عوام کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا شامل ہونا

جوانوں کو گھٹیا کھانا اور ملزمان کی اتنی ٹھاٹ

دہلی ہائی کورٹ نے کنٹرول لائن پر جوانوں کو دیئے جانے والے غذائی سامان کی مبینہ گھٹیا صورتحال پر رپورٹ کی مانگ کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے رائے مانگی ہے۔ بی ایس ایف کے ایک جوان نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرکے کھانے پینے کی کوالٹی کو لیکر سوال اٹھائے تھے۔ چیف جسٹس جی روہنی اور جسٹس سنگیتا ڈھینگرا سہگل نے جوانوں کو دئے جانے والے کھانے کے گھٹیا پن کا نوٹس لیا ہے۔ بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف ، سی آر پی ایف اور سی آئی ایس ایف اور بھارت تبت بارڈرپولیس سے بھی اپنا موقف رکھنے کو کہا ہے۔ بنچ نے بی ایس ایف کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ اس کے سامنے جانچ رپورٹ رکھے اور یہ بتائے کہ انہوں نے بی ایس ایف کے جوان تیج بہادر یادو کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے سلسلے میں کیاقدم اٹھائے ہیں۔ آپ کے پاس جو بھی رپورٹ ہے اسے 27 فروری کو عدالت کے سامنے پیش کریں۔ تیج بہادر یادو کی شکایت کے بعد سے جوانوں کے کھانے سے متعلق شکایتوں کا سیلاب سا آگیا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ جوانوں کی شکایتوں میں کتنا دم ہے یا نہیں لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ بھارت کی جیلوں میں قیدیوں کو بھی سرحد پر تعینات جوانوں سے بہت

مغربی اترپردیش میں جاٹ لینڈ کی اہمیت

اترپردیش میں اسمبلی چناؤ کی شروعات مغربی اترپردیش سے ہوگی۔ یہاں پہلے دو مرحلوں میں 136 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔ انہی سیٹوں سے ریاست میں اقتدار کے قریب پہنچنے والی پارٹی کی کافی حد تک قسمت طے ہوگی۔ 2012ء میں میرٹھ ، مراد آباد ،سہارنپور، بریلی، آگرہ اور علی گڑھ علاقے کی 136 سیٹوں میں سے سب سے زیادہ 58 سیٹیں پانے والی سماجوادی پارٹی کو اکثریت ملی تھی۔ 2012ء میں اس علاقے میں سپا کو 58 ، بسپا کو 39 اور بھاجپا کو 20 اور کانگریس کو8 اور آر ایل ڈی و دیگر کو 10 سیٹیں اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ 2013ء کے مظفر نگر فسادات اور 2014ء میں مودی لہر نے اس پورے علاقے کا تجزیہ ہی بدل دیا تھا۔ ذات پات کے حساب سے اس علاقہ میں سب سے زیادہ 26 فیصدی مسلمان ہیں۔ اس کے بعد دلت 25 فیصد، جاٹھ 17 فیصد ،یادو 7فیصد ووٹر ہیں۔ کچھ سیٹوں پر مسلم ووٹروں کی تعداد30 فیصد سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پورے علاقے میں مسلمان ، دلت ،جاٹھ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں مسلم ووٹوں کی۔ سائیکل سمبل اکھلیش یادو کو ملنے کے بعد سے بھی یہ تصویر صاف نہیں ہے کہ پورا مسلم ووٹ سپا کو ہی ملے گا۔ بگڑے قانون و نظم کے حالا

پنجاب میں سہ رخی مقابلہ میں ہر ووٹ بیش قیمتی ہے

اسمبلی چناؤ میں ہر ایک ووٹ ضروری ہوتا ہے اس بات کو چناؤ لڑنے والے نیتاؤں سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آنے والے اسمبلی چناؤ میں اگر ایک فیصدووٹ بھی سوئنگ ہوا تو کئی درجن اسمبلی سیٹوں کی سیاسی تصویر بدل سکتی ہے۔ اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ اور منی پور میں کئی ایسی سیٹیں ہیں جہاں 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں ہارجیت کا فرق 1 فیصد سے بھی کم تھا۔ ان سیٹوں پر ہار جیت کا فیصلہ 100 یا 1000 میں نہیں بلکہ چند ووٹوں کے فرق سے ہوا تھا۔ پنجاب کی 17 سیٹوں میں سے 12 سیٹیں ایسی تھیں جہاں 2012ء چناؤ میں ہار جیت کا فرق 1 فیصد سے بھی کم تھا۔ پنجاب کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ ان سیٹوں پر ہار جیت کا فرق اتنا کم رہا کہ اس میں سے زیادہ تر ریزرو سیٹیں ہیں۔ پنجاب میں ایک ہی دن یعنی 4 فروری کو ووٹ پڑیں گے۔ اس بار پنجاب کا مقابلہ دلچسپ ہوگیا ہے۔ کانگریس بنام اکالی۔ بھاجپا اتحاد بنام عام آدمی پارٹی سہ رخی مقابلہ ہے۔ کئی سرکردہ بھاجپا لیڈر آپس میں محاذ آرا ہوں گے۔ لمبی اسمبلی سیٹ کا مقابلہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ یہاں پہلی بار وزیر اعلی اور سابق وزیر اعلی آمنے سامنے ہیں۔ یہ وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل کی روایتی سیٹ ہے۔ وہ

مسلح فوجی ٹربونل کا دوررس و تاریخی فیصلہ

ایک طرف جہاں فوج اور پیرا ملٹری فورسز میں امتیاز برتنے کے کئی اشو اچھل رہے ہیں وہیں ایک تاریخی فیصلے نے مسلح افواج ٹربونل لکھنؤ نے ایک فوج کے افسر کے کوٹ مارشل کو منسوخ کرکے تہلکہ مچادیا ہے۔ مسلح فوج ٹربونل نے سیکنڈ لیفٹیننٹ رہے ایس ایس چوہان کا کوٹ مارشل منسوخ ہی نہیں کیا بلکہ 5 کروڑ روپے کا جرمانہ بھی لگادیا ۔ چوہان کو بحال کر سروس کے سبھی فائدے دینے کا بھی حکم دیا۔ جرمانے کی رقم میں سے 4 کروڑ متاثرہ کو بطور معاوضہ دیا جائے گا جبکہ ایک کروڑ روپے فوج کے سینٹرل بہبودی فنڈ میں جمع کئے جائیں گے۔ راجپوت ریجمنٹ سے سیکنڈ لیفٹیننٹ شتروگھن سنگھ چوہان سری نگر میں تعینات تھے۔ 11 اپریل 1990ء کو بٹمالو مسجد کے لنگڑے امام کے یہاں سے سونے کے 147 بسکٹ برآمد کئے گئے تھے۔ کرنل کے آر ایس پوار اور سی او نے چوہان پر دباؤ ڈالا کے وہ انہیں دستاویزوں میں نہ دکھائیں۔ باقی افسر بھی خاموشی اختیار کرگئے۔ تبھی یامی نے معاملہ پارلیمنٹری کمیٹی کو بھیجا۔ فوج کے ہیڈ کوارٹر نے جانچ کرائی اور کوٹ آف انکوائری کے احکامات دے دئے گئے۔ جانچ کے دوران ہی ٹینٹ میں سوتے وقت فوج کے افسروں نے کمبل اڑا کر یامی کو پیٹ کر ادھ مرا