اشاعتیں

مئی 25, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مودی نے ثابت کیا کہ وہ جو کہتے ہیں کرتے بھی ہیں!

ملک سے باہرجمع ہندوستانیوں کی کالی کمائی واپس لانا ہوگی۔ مودی حکومت نے اپنی سرکار کے پہلے فیصلے کے تحت جس طرح سے کالی کمائی کی جانچ و نگرانی کے لئے خصوصی جانچ ٹیم بنانے کی تجویز کو اپنی منظوری فراہم کی اس سے نہ صرف ان کے ارادوں کی جھلک ملتی ہے بلکہ مسائل کے حل کے تئیں ان کی سنجیدگی کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ دیش کے مفاد سے جڑے اثر دار فیصلے کیسے لئے جاتے ہیں اس کی بانگی مودی سرکار نے کرسی سنبھالنے کے 24 گھنٹے کے اندر دکھا دی۔ حکومت نے اپنا پہلا فیصلہ دیش سے لیکر غیر ملکی بینکوں تک چھپائی گئی بلیک منی کی تلاش اور اس پر روک کے لئے اسپیشل ٹاسک فورس کی شکل میں پہلا قدم اٹھایا ہے۔ آزادی کی قریب 7 دہائی میں یہ پہلا موقعہ ہے جب دیش کو اندر سے کھوکھلا کررہی کالی کمائی کے لئے کوئی اثر دار پہل کی گئی ہو۔ اس فیصلے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کس طرح سرکار بدلتے ہی ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ کالی کمائی کے کاروبار پر نکیل کسنے کے لئے سپریم کورٹ نے اس ٹیم کا فیصلہ 2011 ء میں لیا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ اس وقت منموہن سرکار اس معاملے میں آنا کانی کررہی تھی۔ مانا جارہا تھا کہ سرکار سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپن

وزیر اعظم نریندر مودی سے دہلی کے شہریوں کی توقعات!

اب لگتا ہے کہ دہلی اسمبلی چناؤ جلد ہونے کے امکانات ہیں لیکن دوبارہ چناؤ سے بچنے کے لئے ضروری ہے ایک اکثریتی سرکار بنے۔ اس کے لئے ’آپ‘ پارٹی میں تقسیم ہونا ضروری ہے۔ ایک تہائی ممبر اسمبلی اگر پارٹی چھوڑدیں اور بھاجپا کی حمایت کردیں تبھی جاکر دہلی میں چناؤ ٹل سکتا ہے۔ ممکن ہے دہلی کو مکمل درجہ دلانے کی پہل کر بھاجپا اسمبلی چناؤ جیتنے کی تیاری کررہی ہے اس لئے راجدھانی کے ممبران پارلیمنٹ کو نئی مرکزی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی سے پہلی مانگ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کی ہوسکتی ہے۔ حالانکہ پارٹی مرکز کے سامنے دہلی سے وابستہ دیگر ایشو بھی اٹھائے گی۔ دہلی کے شہریوں کو وزیر اعظم سے پانچ خاص توقعات ہیں۔ دہلی ایک ایسی ریاست ہے جس کے ماتحت نہ تو ڈی ڈی اے(زمین ) ہے اورنہ پولیس (سکیورٹی) اور نہ ہی کارپوریشنیں۔ مکمل ریاست کا درجہ نہ ہونے کی وجہ سے دہلی کی ریاستی سرکار کو تمام فیصلوں کے لئے مرکزی سرکار کی نہ صرف اجازت لینی ہوتی ہے بلکہ مرکز سے ملنے والے پیسے میں بھی دہلی کو زیادہ حصہ نہیں ملتا۔ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ ملنے سے سرکار میں ترقیاتی اسکیمیں بنانے اور دیگر فیصلوں میں آسانی ہ

نواز شریف کو آتنک واد پر نریندر مودی کی کھری کھری!

وزیر اعظم نریندر مودی نے منگلوار کو عہدہ سنبھالتے ہی سارک ممالک کے سربراہ مملکت سے ملاقاتوں کا دور شروع کردیا اور اس کے لئے وہ حیدر آباد ہاؤس گئے۔صبح سوا نو بجے سے ماریش اور سارک ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں شروع ہوئیں ۔ ان میں سب سے پہلے نریندر مودی صاحب نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 12:10 منٹ سے شروع ہوئی ۔ اس ملاقات میں پاک وزیر اعظم کے ساتھ 14 نکاتی ایک نمائندہ وفد بھی آیا تھا اس میں نواز شریف کے صاحبزادے بھی تھے۔ وہ ایک بڑے بزنس مین ہیں۔ یہ پہلے ہی سے طے تھا کہ نئی حکومت کی حلف برداری تقریب میں نواز شریف کی جب ہندوستانی وزیر اعظم سے ملاقات ہوگی وہ محض دو سربراہوں کے درمیان عام بات نہیں ہوگی۔نریندر مودی نے نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات میں دہشت گردی کو لیکر دو ٹوک بات کی اور مقررہ وقت سے زیادہ چلی بات چیت میں انہوں نے پاک وزیر اعظم سے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستانہ رشتے چاہتے ہیں لیکن ان کو آگے بڑھانا ہے تو پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ہندوستان مخالف دہشت گردی اور تشدد کو ختم کرے۔نواز شریف کے ساتھ مودی کی ملاقات کے لئے35 منٹ کا وقت طے تھا لیکن

داؤ پر لگا18 گورنروں کا مستقبل؟

بھرپور اکثریت کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکز میں اقتدار پر قابض ہونے سے ایک سوال جو اٹھے گا وہ ہوگا کانگریس یوپی اے سرکار کے ذریعے مقرر کئے گئے18 سے زیادہ گورنروں کے مستقبل کا۔ ان پر اب ہٹنے کی تلوار ضرور لٹک گئی ہے۔ کچھ ماہرین اورتبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ مودی سرکار کے لئے ان کو ہٹانا آسان نہیں ہوگا۔ اگلے چھ سے آٹھ مہینے میں جن گورنروں کی میعاد پوری ہونے جارہی ہے ان میں کملا بینیوال، ایم کے نارائنن (مغربی بنگال) جے بی پٹنائک (آسام) شیو راج پاٹل (پنجاب) اور ارملا سنگھ (ہماچل پردیش) خاص ہیں۔ ریاست میں لوک آیکت کی تقرری کے اشو پر گجرات میں مودی سرکار کے ساتھ کملا بینی وال کا جھگڑا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دہلی کی سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت کی تقرری اسی سال مارچ میں کیرل کے گورنر کے طور پر ہوئی تھی۔ جموں و کشمیر کے گورنر این این ووہرا کی میعاد اپریل2012ء میں بڑھا دی گئی۔ سابق داخلہ سکریٹری وی کے دگل کو دسمبر 2013ء میں منی پور کا گورنر مقرر کیا گیا۔ نئی این ڈی اے سرکار کے جائزے کے دائرے میں دیگر جو گورنر آسکتے ہیں ان میں بی ایل جوشی(اترپردیش)دوسری میعاد سنبھال رہے ہیں۔ وی وی وانچو( گ

میں نریندر دامودر داس مودی ایشور کی شپتھ لیتا ہوں۔۔۔

میں نریندر دامودر داس مودی ایشور کی شپتھ لیتا ہوں کہ آئین سازیہ کے ذریعے قائم ہندوستان کے آئین کے تئیں سچی عقیدت اور وفاداری رکھوں گا۔ کچھ ان سطور کے ساتھ ہی پیر کے روز شام 6 بجے راشٹرپتی بھون کے احاطے میں منعقدہ حلف برداری تقریب میں تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے درمیان دیش کے15 ویں وزیر اعظم کی شکل میں مودی نے حلف لیا۔ جس شان سے نریندر مودی چناؤ جیت کر آئے اسی انداز میں ان کا راج تلک بھی ہوا۔ پاکستان کے وزیر اعظم سمیت 7 پڑوسی ملکوں کے سربراہ یا نمائندوں کے درمیان مودی نے پوری دھوم دھام کے ساتھ حلف تو لیا لیکن اپنی کیبنٹ کے چہروں سے بہت نہیں چونکایا۔ ان کی کیبنٹ چھوٹی ہے لیکن غیر سیاسی نہیں۔ ذات ،فرقہ تجزیئے کو ذہن میں رکھتے ہوئے آدی واسی ، دلت، پسماندہ، اقلیتیں سبھی کو نمائندگی ملی ہے۔ کانگریس سے بھاجپا میں آئے دو لیڈروں کو بھی مودی نے اپنی ٹیم میں جگہ دے کر تال میل کا اشارہ دیا ہے۔ چناوی ریاستوں کے لئے بساط بچھاتے ہوئے کل 45 وزرا کو حلف دلوایا۔ سرکار 83 وزیر بنا سکتی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ کام کے وعدے پر اقتدار میں آئے مودی نے اپنے طریقہ کار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یوپی اے حکومت کے بھا

نریندر مودی کوہندوستان کی تصویر ہی نہیں تقدیر بھی بدلنی ہوگی!

تبدیلی کی لہر پر سوار ہوکر نریندر مودی ایسے وقت میں ہندوستان کے وزیر اعظم بنے ہیں جب تمام دیش واسی پریشان ہیں ،فکر مند ہیں۔ مارچ میں جاری ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ 70 فیصد ہندوستانی ملک کی سمت سے غیر مطمئن ہیں۔ وہ مہنگائی، بے روزگاری اور سرکار کے کام کاج کو لیکر فکر مند ہیں۔ مودی اور بھاجپا کو ووٹ دینے والے کروڑوں عوام چاہتے ہیں دیش کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹے اور امید کی کرن کی شکل میں آئے وزیر اعظم نریندر مودی ان کو ان مسائل سے نجات دلوادیں۔ اس کے لئے معیشت کو چست درست کرنا ضروری ہے۔ امید ہے کہ مودی نے اپنی چناوی تقریروں میں بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن جیسے برننگ اشوز کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کانگریس پارٹی کی ہار کی اہم وجہ رہی بڑھتی مہنگائی، ڈگمگاتی معیشت اور اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے متعلق گھوٹالے۔ لیکن رائے دہندگان کانگریس صدر سونیا گاندھی اور ان کے صاحبزادے راہل گاندھی کی گھسی پٹی لچر سیاست سے اکتا گئے تھے۔ اس چناؤ میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے کروڑوں نوجوانوں کے لئے وراثت یا کسی سیاسی خاندان کے تئیں وفاداری سے زیادہ اہم پرفارمینس تھی۔ لوگوں نے اس چناؤ میں کنبہ پ

ہار کے بعد کانگریس میں نشانے پر راہل اور ان کی ٹیم!

لوک سبھا چناؤ میں کراری شکست کے بعد کانگریس میں شروع ہوا الزام تراشیوں کا دور تیز ہوگیا۔ پارٹی کے نائب پردھان راہل گاندھی کو لیکر پارٹی کے اندر اور باہر اختلافی زبانی جنگ تیز ہوتی جارہی ہے۔ ہار کے لئے ٹیم راہل کے بہانے خود ان پر درپردہ حملے ہو رہے ہیں۔ کانگریس کے لیڈروں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ قیادت والے عہدے انہیں لوگوں کو دئے جائیں جنہیں زمین پر کام کرنے کا تجربہ ہو۔ ان لیڈروں نے ٹیم راہل پر درپردہ حملہ کرتے ہوئے کہا کانگریس کو اگر پھر سے کھڑا ہونا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کا محاسبہ کرنا چاہئے۔کانگریس لیڈر ملنددیوڑا کا کہنا تھا کہ راہل کے مشیر ہوا کا رخ نہیں بھانپ پائے۔ جن لوگوں کو چناؤ کا تجربہ نہیں تھا وہی اہم کردار نبھا رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے تئیں گہری وفاداری کی وجہ سے یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں۔ سونیا سے مل کر آئیں پریہ دت کا بھی کہنا تھا کہ پارٹی عام لوگوں سے کٹ گئی تھی۔ دیوڑا کا مزید کہنا تھا زمینی سچائی کو سمجھنے کے لئے زمین پر کام کرنا اور چناوی لڑائی میں تعلیم لینا ضروری ہے۔ پارٹی میں اگر کسی کو لیڈر شپ کا عہدہ دے دیا جائے تو یہ ہی اس کی بنیاد ہونی چاہئے۔ پارٹی

ان آتنکیوں کے بلند حوصلے کا کرارا جواب دینا ہوگا!

وزیر اعظم بننے کے بعد شری نریندر مودی کو ایک بندو پر خاص طور سے توجہ دینی ہوگی وہ ہے آتنک واد اورپرتشدد سیاست آتنک واد۔ پہلے زمرے میں تو یہ جہادی گٹ آتے ہیں جنہیں پاکستان پورا سمرتھن دے رہا ہے۔ چاہے وہ بھارت کے اندر ہوں یا باہر۔ دوسرے زمرے میں نکسلی آتے ہیں جو الگ الگ وجوہات سے موت کا ٹانڈو مچائے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی اور بھاجپا سرکار کے اقتدار میں آنے سے پاکستان دہشت میں ہے ، پر دیش کے اندر ان جہادی آتنکیوں کا حوصلہ آسمان پر ہے۔ دراصل گذشتہ دس سالوں سے ان کا سامنا ایک کمزورفیصلہ نہ لے سکنے والی یوپی اے سرکار سے ہوا اور انہیں یقین ہوگیا کہ کچھ ٹھوس کرنا تو دور رہا یہ سرکار تو ووٹ بینک کے چکر میں ہماری مدد ہی کرتی ہے۔ اسی کمزور نیتی کا نتیجہ ہے کہ بھوپال کی عدالت میں پیشی کے بعد سیمی کے آتنکیوں نے جس طرح دیش کے ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف قابل اعتراض نعرے بازی کی وہ ان کے بلند حوصلے کو ظاہر کرتا ہے۔یہ واقعہ تب ہوا جب ممنوعہ سیمی کے گرفتار آتنکیوں کو عدالت میں پیش کرنے کے بعدجیل کی گاڑی کی طرف لے جایا جارہا تھا۔ تبھی کھانڈوا جیل سے فرار آتنکی ابو فی

مودی کے خوف سے20 سال بعدسب سے بڑے مخالف لالو سے ہاتھ ملایا!

سیاست میں نہ تو کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔ مستقل ہوتا ہے تو وہ ہے خود کامفاد۔ سیاست میں خاص کر بھارت کی میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔نریندر مودی کی بڑھتی طاقت کے خوف سے قریب دو دہائی تک ایک دوسرے کے زبردست مخالف رہے لالو پرساد یادو اور نتیش کمار نے ہاتھ ملا لیا ہے۔لالو پرساد یادو کے راج کے خلاف ہی نتیش کمار نے جنتادل (یو)نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مورچہ بنایا تھا اور راشٹریہ جنتادل کے کوشاسن کو مدعا بنا کر لالو پرساد یادو کو بے دخل کیا تھا۔ کسی وقت میں لالو اور نتیش دونوں جنتادل میں ساتھ تھے اس کے بعد دونوں مخالف خیموں میں چلے گئے اور اب قریب20 سال بعد پھر دونوں ساتھ ہوگئے ہیں۔لالو کے سمرتھن سے نتیش کے جانشین بہار کے نئے مکھیہ منتری جتن رام مانجھی نے ودھان سبھا میں وشواس مت جیت لیا ہے۔مانا تو یہ جارہا ہے کہ لوک سبھا چناؤ کے بعداپنی سیاسی زمین بچانے کے لئے دونوں دلوں کے پاس بیحد محدود متبادل بچے تھے۔ایسے میں بھاجپا کو روکنے اور اپنے اپنے کنبوں کو محفوظ رکھنے کے لئے دونوں کے پاس ساتھ آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ دونوں دلوں کے ساتھ آنے کی چرچا تو چناؤ بعد ہی شروع ہو