اشاعتیں

فروری 8, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جنتا کا موڈ اب مکمل اکثریت والی سرکار بنانے کا ہے

اترپردیش ، گجرات، راجستھان ، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، جھاڑ کھنڈاور ہریانہ کے بعد اب دہلی میں ووٹروں نے دل کھول کر ایک ہی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالا ہے ان کا یہ ووٹ ایک مضبوط حکومت کے لئے، اس درمیان مہاراشٹر اور جموں وکشمیر میں ہوئے چنائو وہاں الگ الگ چنائو لڑی اور بھاجپا اور شیوسینا بعد میں اکٹھی ہوگئی۔ اب دونوں مل کر ایک مضبوط سرکار چلا رہے ہیں۔ ادھر جموںو کشمیر کی جنتا نے بھاجپا اور کشمیر کی جنتا نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی( پی ڈی پی) کو کھل کر ووٹ دیا اب نیتائوں نے نہیں الٹے جنتا نے سیاسی پارٹیوں کی نبض پکڑ لی۔یہی وجہ ہے کہ 2013میں ہوئے دہلی اسمبلی چنائو میں بھاجپااتحاد کو 32 عام پارٹی کو 38 سیٹیں دینے والی جنتا نے اس بار مضبوط سرکار کے لئے اروند کیجریوال کی پارٹی کے حق میں زبردست ووٹ ڈالا۔ سال 2012 میں اترپردیش کی عوام نے اکھلیش یادو کی قیادت میں یوپی میں اکثریتی حکومت بنائی اسی سال گجرات میں نریندر مودی کی قیادت میں بھاجپا مسلسل تیسری بار کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد یہ پیغام پورے دیش میں چلا گیا۔ پائیدار سرکار ہو تو ترقی ہوتی ہے ۔ یوپی اے کی اتحادی سرکار کاحشر دیکھا ہے۔ کہ کس طرح اتحادی

بہار کا عجیب وغریب سیاسی بحران

بہار میں ان دنوں ایک عجیب وغریب سیاسی بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ بہار میں حکمراں جنتا دل (یو) میں لیڈر شپ کی تبدیلی کا فیصلہ ہوا ۔ کل 111میں 97 ممبران اسمبلی کی موجودگی میں موجودہ وزیراعلی جتین رام مانجھی کی جگہ پر نتیش کمار کو اتفاق رائے سے اسمبلی پارٹی کا لیڈر چن لیا گیا ہے۔ نمبروں کے حساب جتین رام مانجھی کے پاس کل 14ممبران کی حمایت بچی ہیں لہذا جب اتنی زبردست ممبران کی اکثریت نتیش کے ساتھ ہے تو انہیں ہٹ جانا چاہئے تھا۔ لیکن انہوں نے اسمبلی پارٹی کی اس میٹنگ کو ہی ناجائز مانتے ہوئے پارٹی کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ ان کی دلیل تھی کہ اسمبلی پارٹی کی میٹنگ صرف وزیراعلی ہی بلا سکتا ہے۔ ادھر پٹنہ ہائی کورٹ نے ان کے اس دعوے کر صحیح مانتے ہوئے نتیش کو جے ڈی یو اسمبلی پاری کا لیڈر چنے جانے کے فیصلے پر روک لگادی ہے۔عدالت کے فیصلے کے بعد بہار میں سیاسی موڑ بحران ایک نئے موڑ میں داخل ہوگیا ہے۔ ہائی کورٹ کاکہنا ہے کہ نتیش کمار کو جتنا دل(یو) کے اسمبلی پارٹی کا لیڈر تسلیم کرنے کا اسمبلی اسپیکر کافیصلہ غلط ہے کیونکہ عام طور سے ایک نیا وزیراعلی چننے جیسا ہے دوسری طرف وزیراعلی جتین رام مانجھی

دہلی میں یہ تو سیاسی زلزلہ ہے

پچھلے دہلی اسمبلی چناؤ میں کانگریس کے8 ممبر اسمبلی جیت کر آئے تھے تو لوک سبھاچناؤ کمپین کے دوران مودی کی ریلیوں میں بھاجپا کے اس وقت کے قومی صدر طنز کرکے کہتے تھے کہ ایک انووا کار میں ہی سوار ہوکر اسمبلی جا سکتے ہیں اب بھاجپا کی یہ پوزیشن بن گئی ہے کہ اس کے ممبر اسمبلی آٹو میں ہی جاسکتے ہیں۔ 10 لاکھ کے سوٹ پر100 روپے کا مفلر بھاری پڑ گیا۔ اترپردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو نے دہلی اسمبلی چناؤ میں تاریخی کامیابی پر عام آدمی کے کنوینر اروند کیجریوال کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ لو جہاد، گھر واپسی،چار بچے پیدا کرنے جیسے اشوز کو طول دینے کی وجہ سے بھاجپا کو زبردست ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس طرح دہلی کی عوام نے اس اشوز کو سرے سے مستردکر بھاجپا کو ایک سبق سکھایا ہے اسی طرح اترپردیش کی عوام بھی 2017ء کے اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کو سبق سکھائے گی۔ گلوبل میڈیا نے عام آدمی پارٹی کی جیت کو سیاسی زلزلہ قراردیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی پر طنز کرتے ہوئے انٹرنیشنل میڈیا لکھتا ہے کہ جو اوپر جاتا ہے اسے نیچے آنا ہی پڑتا ہے۔ ’دی نیویارک ٹائمس‘ نے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کی شاندار جیت کے ایک سال سے

سال بھر پہلے جس دن استعفیٰ دیا اسی دن حلف لیں گے کیجریوال

دہلی اسمبلی چناؤ میں کیجریوال کی آندھی کا بھاجپا صحیح سے تجزیہ نہیں کرپائی۔ کہنے کو تو بھاجپائی دبی زبان میں کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں بھاجپا ہاری نہیں ’آپ‘ جیتی ہے۔وہ کہہ رہے ہیں کہ اس چناؤ میں بھی ہمیں32.2 فیصد ووٹ ملے ہیں جو پچھلی بار سے محض ایک فیصد کم ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو پچھلے چناؤ کے مقابلے 2015 میں 24.9 فیصد مزید ملے ہیں۔ یہ ووٹ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کا ہے۔ کانگریس کو 9.7فیصد کم ووٹ ملے۔ کانگریس اور دیگر پارٹیوں و آزاد وغیرہ کا پورا ووٹ کیجریوال کو مل گیا اور یہ ہی کہیں بٹا بھی نہیں اسی وجہ سے ’آپ‘ کو67 سیٹیں ملیں بھاجپا کو محض3 سیٹوں پر تسلی کرنی پڑ رہی ہے۔ چناؤ کمپین کے معاملے میں بھی عام آدمی پارٹی نے دیگر پارٹیوں کو پیچھے چھوڑدیا۔ دہلی کے چیف الیکٹرول آفیسر کے دفتر سے جاری اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ اس بار اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی نے صرف الیکٹرانک میڈیا ،ٹی وی ریڈیو اور (سوشل سائٹ) کے ذریعے سے کمپین کے لئے 22 کروڑ سے زیادہ روپے خرچ کئے جبکہ بھاجپا نے قریب12 کروڑ روپے خرچ کئے اس میں پرنٹ میڈیا، ہورڈنکس اور ریلیوں کا خرچہ شامل نہیں۔ ایک سینئر افسر کے مطابق چناؤ کے

اور اب ایک اور سوئس بینک کے کھاتوں کی فہرست آئی

خفیہ کھاتوں کے لئے مشہور بینک ایچ ایس بی سی کی سوئس برانچ میں مشتبہ کھاتے داروں کی ایک اور فہرست سامنے آگئی ہے۔ ایک انگریزی رونامہ اخبار نے ایک بین الاقوامی تفتیشی نیٹ ورک کے تعاون سے یہ پتہ لگایا ہے کہ اس بینک میں 1195 ہندوستانیوں کی کھاتے ہیں جس میں قریب4 ارب ڈالر یعنی 25 ہزار کروڑ روپے جمع ہیں۔ ان کھاتوں میں دیش کے بڑے صنعتکاروں کے علاوہ سیاسی ہستیاں، ہیرا تاجر اور این آر آئی شامل ہیں۔ بینک کی مانیں تو یہ فہرست چرائی گئی تفصیل کا ایک حصہ ہے اور کھاتے داروں میں سے زیادہ تر کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ کچھ ایسے بھی ہے جنہوں نے اس سے صاف انکار کیا ہے کہ ان کا ایچ ایس بی سی یا کسی دوسرے سوئس بینک میں کوئی کھاتہ نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے بغیر کسی پختہ ثبوت کے گہری جانچ کے بعد ہی دعوے سے کھاتوں کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔ مشکل یہ بھی ہے کہ ابھی یہ دعوے سے نہیں کہا جاسکتا کہ کونسا معاملہ محض یکس چوری کا ہے اور کونسا ناجائز طریقے سے کمائی دولت کا ہے؟ ان میں سے کئی کا کہنا ہے یہ اکاؤنٹ قانون کے تحت کھولے گئے ہیں اور ان میں جمع پیسہ بلیک منی کے زمرے میں نہیں آتا۔ بڑے صنعت کارو

بھاجپا اور کانگریس پر کیجریوال کی جھاڑو پھر گئی!

دہلی کا یہ انوکھا اسمبلی چناؤ ہماری جمہوری تاریخ میں اپنی الگ جگہ بنائے گا۔عام آدمی پارٹی اور اس کے کنوینر اروند کیجریوال کو ہم اس شاندار کامیابی پر مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے تو ایگزٹ پول کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ اکیلے اروند کیجریوال نے پردھان منتری ،مرکزی وزرا ، ممبران پارلیمنٹ اور دوسری ریاستوں کے وزیر اعلی کو بھی پچھاڑ دیا ہے۔ وہ ایک ’جوائنٹ کلر‘ بن کر ابھرے ہیں۔ آج اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی یہ درگتی ہوئی ہے تو اس کیلئے میں دو افراد کو ذمہ دار مانتا ہوں۔ پہلے وزیر اعظم ہیں دوسرے بھاجپا کے پردھان امت شاہ۔ ایک کے بعد ایک غلطیاں انہوں نے کی ہیں۔ جب لوک سبھا چناؤ کے نتیجے آئے تو نریندر مودی اور بھاجپا کی مقبولیت شباب پر تھی کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ لوک سبھا چناؤ کے فوراً بعد دہلی کا چناؤ کروا لیا جانا چاہئے تھا لیکن جوڑ توڑ سے حکومت بنانے کے چکر میں ایک سال گزار دیا اور مودی لہر ختم ہوتی چلی گئی۔ پھر ان دونوں بڑے تجربہ کاروں نے سوچا کہ دہلی میں لوکل لیڈر شپ کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایک ایک کرکے مقامی نیتاؤں کو لائن حاضر کردیا۔ پہلے وجے گوئل کو ٹھکانے لگایا، اس کے بعد

راہل گاندھی کی لیڈر شپ پر ایک بار پھر سوالیہ نشان؟

یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ 100 سال سے زیادہ پرانی پارٹی کانگریس سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ امید کی جاتی تھی کہ عام چناؤ اور چار اسمبلی چناؤ میں ہار کے بعد شاید کانگریس اپنی غلطیوں کا محاسبہ کرکے اپنی پوزیشن بہتر کرے گی۔ اگر ایگزٹ پول کو صحیح مانا جائے تو دہلی اسمبلی چناؤ میں بھی کانگریس کا پتتا صاف ہوگیا ہے۔ کانگریس کے اندر سینئر لیڈر نائب پردھان راہل گاندھی اور ان کے مشیر کار منڈلی کوپچا نہیں پارہے ہیں۔ پچھلے دنوں جینتی نٹراجن کے لیٹر بم نے پارٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈروں کا کہنا ہے کہ تنظیم میں ردوبدل ہونے سے پہلے ہی جینتی نٹراجن جیسے وفادار بغاوت کرسکتے ہیں۔ عہدیداران کی مانیں تو اگلے دو مہینے میں ہائی کمان کے خلاف اور چہرے سامنے آئیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ہائی کمان لچر کارکردگی کے چلتے دوبارہ تنظیم میں جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن یہ لوگ تنظیم میں عہدے کا لالچ رکھتے ہیں۔ پارٹی کے اندر ایسے کئی بڑے نیتا ہیں جو نائب پردھان راہل گاندھی کو پسند نہیں کررہے ہیں۔ پارٹی کے کئی سرکردہ لیڈر راہل گاندھی کو نشانہ بنا کر پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ پہلے چودھری ویرین

مانجھی جب کشتی ڈوبئیں تو اسے کون بچائے؟

راجیش کھنہ کی مشہور فلم ’امر پریم‘ کے ایک گیت جو سطریں بہار کے تازہ سیاسی واقعات پر کھری اترتی ہیں ’مجدھار میں نیا ڈولے تو مانجھی پار لگائے، ماجھی جو ناؤ ڈوبائے اسے کون بچائے‘بہار کے وزیر اعلی جتن رام مانجھی نے خود کے تیوروں پر جنتا دل (یو) میں اٹھے واویلے پر اکثر اس گیت کی پہلی لائن کا حوالہ دیا کہ ’مجدھار میں نیا ڈولے تو مانجھی پار لگائے‘ بہار میں اکتوبر میں اسمبلی چناؤ سے پہلے سنیچر وار کو سیاسی گھمسان کی زمین تیار ہوگئی۔ وزیر اعلی جتن رام مانجھی کو ان کی ہی پارٹی جنتادل (یو) نے عہدے سے ہٹانے کا ریزولیوشن پاس کردیا اور نتیش کمار کو ان کی جگہ اسمبلی پارٹی کا لیڈر چن لیا۔ بہار میں قریب مہینے بھر سے پیش گوئیاں جاری تھیں کہ وزیر اعلی جتن رام مانجھی کو ہٹا کر ایک بار پھر ریاست کی کمان نتیش کمار کو سونپنے کی تیاری جاری ہے۔ ریاست میں تیزی سے بدلتے سیاسی واقعات سے صاف ہے کہ جنتادل یونائیٹڈ کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ پارٹی کے صدر شرد یادو نے پوزیشن کو سنبھالنے کیلئے جس طرح اچانک 7 فروری کو اسمبلی پارٹی کی میٹنگ بلائی اس سے صاف ہوگیا کہ پردے کے پیچھے کتنی اتھل پتھل چل رہی ہے

کیا ٹیم انڈیا میں ورلڈ کپ جیتنے کا دم ہے؟

آئی سی سی ورلڈ کپ شروع ہونے میں کچھ ہی دن بچے ہیں۔ ٹیم انڈیا پچھلی بار کامیاب رہی اور اس بار اسے اپنے تاج کو بچانے کا زبردست چیلنج ہے۔ اپنی دوکان سمیٹنے میں لگے ٹیم انڈیا کے کپتان اور بکھرتے کھلاڑیوں کو جوڑ توڑ کر بنائی گئی ٹیم کا ورلڈ کپ جیتنا بہت مشکل ہے۔بات کرکٹ کی کریں تو ورلڈ کپ کے دوران تو زندگی ٹھہر سی جاتی ہے۔ گلیاں اور یا چوراہے، دوکانیں ہوں یا دفتر، ہوٹل ہوں یا ڈھابے سبھی میں کرکٹ کا بخار چھا جاتا ہے۔ پل پل کا مزہ دینے والے اسی کرکٹ کا مہا کنبھ آج سے 4 دن بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمیں پر شروع ہونے والا ہے۔ اس بار ٹیم انڈیا میں کئی مہان کھلاڑیوں کی کمی کھلے گی۔ سچن تندولکر کے ذریعے کرکٹ سے سنیاس لینے کے باوجود ان کے ریکارڈ دنیا بھر کے کرکٹروں کے لئے چیلنج بنتے رہیں گے۔ سچن کے علاوہ بھی پچھلے ورلڈ کپ کی ونر ٹیم انڈیا کے کئی ستارے اس بار ٹیم انڈیا میں شامل نہیں ہیں۔ وریندر سہواگ، گوتم گمبھیر اور یوراج سنگھ ان میں شامل ہیں۔ یو راج سنگھ تو پچھلی بار مین آف دی ٹورنامنٹ چنے گئے تھے۔ سہواگ نے 8 میچوں میں 380 جس میں بنگلہ دیش کے خلاف175 رنوں کی پاری کھیلی تھی۔ گوتم گمبھیر

★ Mahendra's Favorite Photos

Hi there, Follow my favorite photos on buzzable! Follow my photos Mahendra Don't want to receive emails like this in the future? Click here . myZamana, Inc. 427 N Tatnall St #40705 Wilmington, DE 19801

کرپشن کیخلاف مودی سرکار کا زیرو ٹولارینس

سیاسی آقاؤں کے مفادات کی تکمیل میں اپنے عہدے کے وقار کو داؤ پرلگانے والے کچھ انڈین ایڈ منسٹریٹو سروس کے افسران کی فہرست میں ایک اور نام شامل ہوگیا ہے اور یہ نام ہے مرکزی داخلہ سکریٹری(سابق) انل گوسوامی کا۔ شاردا چٹ فنڈ گھوٹالے کی زد میں آئے ایک شخص متن سنگھ کو مبینہ طور پر سی بی آئی کی گرفتاری سے بچانے کی بھاری قیمت انہیں چکانی پڑی ہے۔ بھلا اس سے زیادہ شرمناک اور کیا ہوسکتا ہے کہ وزارت داخلہ کا سب سے بڑا افسر شاردا چ فنڈ گھوٹالے کے ملزم کی گرفتاری روکنے کی کوشش کرے اور اس سلسلے میں سی بی آئی پر دباؤ بنانے میں پرہیز نہ کرے؟ یہ تو وہ بات ہوگئی کہ باڑھ ہی کھیت کو کھا گئی۔ مودی حکومت نے انہیں ہٹانے میں دیر نہ کرکے یہ ضروری پیغام دینے کی کوشش کی ہے وہ کسی بھی طرح کے کرپشن کو برداشت نہیں کرے گی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اتنی کارروائی بھر سے کرپٹ افسروں کے درمیان کوئی پیغام جائے گا؟ مودی حکومت نے وزارت داخلہ کے سکریٹری کو ہٹا کر ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ پہلا تو یہ کہ وہ ایک پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلوں پر فوری فیصلہ لینے کا ضمیر اور ہمت رکھتی ہے، کارروائیوں کی تعمیل کے ساتھ یہ بات

دہشت گردی کو اجاگر کرتی ہندی فلم ’بے بی‘

پچھلے دنوں میں نے ہندی کی فلم ’بے بی‘ دیکھی ہے مجھے یہ فلم بہت پسند آئی۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے بہت کم ایسی ہندی فلمیں دیکھیں ہوں گی جن میں کھوٹ نکالنا بہت مشکل ہے۔ نیرج پانڈے کی ہدایت میں بنی ہندی فلم ’بے بی‘ ایک ایسی بہترین فلم ہے۔ بات چاہے کہانی کی ہو یا مکالمے کی ہو یا اداکاری کو ہو ، سبھی معاملوں میں فلم بہت اچھی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب گرم دھرم دیش کے دشمنوں کو چن چن کر مارتے تھے پھر دیش پریمی افسر کی شکل میں سنی دیول اور سلمان خاں نے اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگایا۔ اب اکشے کمار کی نئی فلم ’جھانکی ‘ ہے۔ فوجی مشن والی فلموں میں اب پاکستان اور اس کے ذریعے اسپانسر دہشت گردی کو سیدھے نشانے پر لیا گیا ہے۔ ’بے بی‘ فلم پہلے ہی منظر سے اپنی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ کہانی کچھ ایسی 26-11-2008 ممبئی آتنکی حملے کے بعد ایک انڈر کور ایجنٹوں کی چھوٹی سی ٹیم تیار کی جاتی ہے جس کا کام خاص طور سے دیش کے اندر دہشت گردوں کے سلیپر سیل کو ختم کرنا ہے۔ اس آپریشن کا نام ’آپریشن بے بی‘ ہے اس فلم کے اہم اداکار فیروز علی خا (ڈینی) اور ٹیم کا لیڈر ہے ایک جانباز افسر اجے سنگھ راجپور (اکشے کمار) ٹیم ٹیکنیش