اشاعتیں

ستمبر 30, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

11 ویں استھی کلش و سرجن یاترا

دنیا میں وہ شخص خوش قسمت ہوتا ہے جس کے وارث اس کی آخری رسوم ادا کریں لیکن دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جوسڑکوں پر مرجاتے ہیں ان کا انتم سنسکار تک کے لئے کوئی وارث نہیں ہوتا اور ہوتا بھی ہے وہ شمشان گھاٹ میں اپنے بزرگوں و ماں باپ کے انتم سنسکار تو کرجاتے ہیں لیکن کسی مجبوری کے چلتے ان کی استھیوں کو گنگا جی میں پرواہت نہیں کرواپاتے اور ان کو شمشان گھاٹ کے استھی اسٹور روم میں چھوڑ کر واپس تک نہیں لوٹتے ایسی ہی ہزاروں استھیاں دہلی۔ دیش کے دوسرے شمشان گھاٹوں میں رکھی تھیں اور ان کی ہو آتماؤں کو شانتی دلانے والا کوئی نہیں تھا لیکن کہتے ہیں کہ بھگوان کسی شخص کو فرشتہ بنا کر دنیا میں بھیج دیتا ہے ان لاوارث ہو آتماؤں کو مکتی دلا سکے۔ بھگوان نے ان کی مکتی کے لئے ایک نیک صفت انسان ویر ارجن پرتاپ کے ایڈیٹر شری انل نریندر جی کو اس نیک کام کیلئے توفیق بخشی۔ وہ 10 سال سے دہلی ۔ دیش ۔ پاکستان کے شمشان گھاٹوں میں رکھی لاوارث استھیوں کو گنگا جی میں پرواہت کرانے کی بے لوث سیوا میں لگے ہیں انہوں نے اس کے لئے ایک تنظیم شری دیواستھان سیوا سمیتی (رجسٹرڈ) بنائی جس کے صدر انل نریندر جی خود ہیں۔ اس کے تحت وہ اس

بیمہ۔ پنشن میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کا فیصلہ

اقتصادی اصلاحات کو لیکر ملک بھر میں جاری وسیع بحث کے درمیان آئی وجے کیلکر کمیٹی کی رپورٹ ہندوستانی معیشت کے امکانی چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سرکاری بڑھتے مسلسل خسارے کوکم کرنے کے لئے قدم اٹھانے کی بھی سفارش کی گئی ہے اس میں خاص کر اجناس، تیل، گیس، سیکٹر میں لوگوں کو دی جارہی سبسڈی کرنے کی بات کہی گئی ہے لیکن غذائیت پر حکومت سبسڈی کم کرنے کے حق میں نہیں کیونکہ معاملہ سیدھے غریب آدمی سے جڑا ہے وہ خط افلاس کی نیچے کی زندگی بسر کررہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں سرکاری سبسڈی کا بیجا استعمال ہورہا ہے اور یہ ضروتمندوں تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ موجودہ حالات میں ایک بات تو صاف ہے کہ ہندوستانی معیشت کو رفتار دینے کے لئے حکومت کو کئی سخت فیصلے لینے پڑے ہیں جس میں رسوئی گیس سلنڈر کی راشننگ اور امیروں یعنی صاحب حیثیت گھرانوں کو سبسڈی سے مستثنیٰ مہنگی قیمت880 روپے میں سلنڈر دینا شامل ہے۔ سرکار کی دلیل تھی کہ ایسا کرنا اس کی مجبوری بن گئی ہے کیونکہ سرکاری خزانہ پر کچلے تیل کے دام بڑھنے سے بھاری مالی بوجھ بڑھ رہا تھا اس لئے سرکاری خسارے میں کمی لانے کے لئے ایف ڈی آئی کو منظوری اور اب اس کے بعد بیمہ او

سونیا گاندھی کے غیر ملکی دوروں پر خرچے1880 کروڑ رپر واویلا

گجرات میں چناوی بگل بج چکا ہے۔اسمبلی چناؤ دو مرحلوں میں ہونے ہیں۔182 سیٹوں کے لئے13 اور 17 دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ گنتی20 دسمبر کو ہوگی۔ چناؤ کے اعلان سے ٹھیک پہلے نریندر مودی نے کانگریس صدر سونیا گاندھی پر زبردست حملہ کیا ہے۔ سونیا کے گجرات دورہ سے پہلے مودی کی سیاسی ترپ چال کی وجہ سے یہاں کے سیاسی ماحول میں طوفان آگیا ہے۔ مودی نے دعوی کیا ہے کہ سونیا گاندھی کے علاج کے لئے غیر ملکی دوروں میں 1800 کروڑ روپے سے زیادہ مرکزی حکومت نے خرچ کئے ہیں۔ ساتھ ہی مودی نے یہ بھی کہہ دیا اگر ان کی معلومات غلط ہوں تو وہ پبلک طور پر سونیا گاندھی سے معافی مانگ لیں گے لیکن وہ اس سوال پر قائم ہیں دیش کو یہ جاننے کا حق ہے کہ سونیا گاندھی کے علاج پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ مودی نے کہا کہ12 جولائی کو ایک اخبار میں شائع رپورٹ کی بنیاد پر انہوں نے یہ دعوی کیا ہے۔ مودی کے مطابق یہ رپورٹ اطلاعات حق قانون کے تحت ہریانہ کے حصار میں ایک نوجوان آر ٹی آئی رضاکار رمیش ورما کی عرضی پر سرکار سے ملی معلومات پرمبنی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک سرکار یا سونیا گاندھی نے اس رپورٹ کی تردید نہیں کی ہے۔ مودی نے مرکز پر برستے

سری پرکاش جیسوال کی پھر پھسلی زبان اس بار برے پھنسے

مرکزی حکومت میں وزیر کوئلہ سری جے پرکاش جیسوال اپنے متنازعہ بیانات کے لئے مشہور ہوچکے ہیں۔ کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالے میں حریفوں کی چوطرفہ مخالفت جھیل رہے جیسوال کی زبان پھر پھسل گئی اور ایک نئے بونڈر میں پھنس گئے۔ اپنی سالگرہ پر سنیچر کو کانپور کے ایک کوی سمیلن میں جیسوال کہہ گئے کہ جیسے جیسے وقت گذرتا ہے بیوی پرانی ہوجاتی ہے،پھر وہ مزہ نہیں رہتا۔ منتری جی کا تبصرہ عورتوں کوبہت ناگوار گزرا۔مایوس عورتوں نے منگلوار کو سڑکوں پر اتر کر جیسوال کے پوسٹر پر سیاہی پوت دی اور’ مردہ باد ‘کے نعرے لگائے۔ سری پرکاش کا پتلا جلانے کے بعد اعلان کیا گیا انہیں کیبنٹ سے باہر نہ نکالا گیا تو ملک گیر تحریک چھیڑی جائے گی۔ ان کا یہ بیان عورت سماج پر حملہ ہے۔ خواتین تنظیموں نے اس پر سخت ناراضؑ ی ظاہر کرتے ہوئے کہا اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے جیسوال کے منہ سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ یہ شادی جیسے مقدس رشتے اور شادی شدہ عورتوں پر ایک طریقے سے چٹکی ہے۔ آکانکشا ناری سیوا سمیتی نے کہا منتری جی بتائیں کہ مزے سے ان کا کیا مقصد ہے؟غور طلب ہے کہ قدوائی نگر میں واقع گرلز کالج میں کوی سمیلن میں سری پرکاش جیسوال بولے ’چاہتے

سی اے جی کوئی منیم نہیں جو صرف حکومت کا اقتصادی چٹھابنائے

آئینی تقاضوں کے ذریعے بھارت کے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل یعنی کیگ جیسے ادارے کا قیام سرکاری کام کاج میں مالی شفافیت اور جوابدہی یقینی کرنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ حال ہی میں کیگ کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کیلئے اس پر کچھ وزرا نے سیدھے حملے کئے ہیں۔ اس پہلو سے سپریم کورٹ کا تازہ تبصرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ عدالت ہذا کو سادھو واد کے اس نے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل یعنی کیگ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے والی ایک مفاد عامہ کی عرضی کو نہ صرف خارج کردیا بلکہ یہ بھی صاف کردیا کہ اس آئینی ادارے کو سرکاری فیصلوں کے جواز اور ان کی اصلیت کی جانچ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ سی اے جی کے کام کاج کو جائز قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے پیر کو کہا تھا کہ سی اے جی کوئی منیم نہیں جو صرف حکومت کے کھاتوں کا اقتصادی دستاویز تیار کرے۔ سی اے جی ایک آئینی ادارہ ہے جس کا فرض وسائل کے صحیح استعمال کو دیکھنا ہے۔ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ سی اے جی کے نتیجوں کو مانے یا پھر اسے نا منظور کردے۔ جسٹس آر ایم لوڈھا و جسٹس اے آر دوے کی ڈویژن بنچ نے یہ ریمارکس کیگ کے اختیار کو چیلنج کرنے والی عرضی کو خ

جنتر منتر پرممتا کے ایک تیر سے کئی نشانے

ملٹی برانڈ خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی کی لڑائی بڑھتی جارہی ہے اور ممتا اب تو سڑکوں پر آگئی۔ترنمول کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی نے اس اشو اور مہنگائی کو لیکر دہلی میں اپنا پہلا دھرنہ دیا۔ جنترمنتر پر منعقدہ ریلی میں انہوں نے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ ممتا کے نئے داؤ سے نہ صرف کانگریس کے لئے بلکہ بھاجپا کے لئے بھی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ چار گھنٹے تک جاری اس دھرنے میں بنگلہ سے آئے نیتا پس منظر میں پیچھے ہی رہے۔ فوکس پر دوسرے نیتا رہے۔ اترپردیش سے چنے گئے واحد ٹی ایم سی کے ممبر اسمبلی شیام سندر شرما، منی پور سے آئی ٹی ایم سی کی لیڈر کم اور ہریانہ سے آئے لیڈروں پر زیادہ توجہ رہی۔ خود ممتا نے کہا کہ وہ دہلی کی لڑائی دہلی کے لوگوں کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ وہ اپنی پارٹی کو قومی شکل دینے میں لگی ہوئی ہیں۔ ممتا کی یہ بات کافی اہم ہے۔ماں ماٹی اور مانش کی لڑائی بنگال تک محدود نہیں رہی۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو بطور ایک قومی لیڈر کی شکل میں پروجیکٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص بات تو یہ تھی کہ سبھی نیتاؤں نے ہندی میں بات کی کیونکہ ہندی لوگوں کو جوڑنا ہے۔ ریلی میں ممتا نے ایک اور داؤ بھی چل

Facebook Password Change

Hey Syed, You recently changed your Facebook password on October 2, 2012 at 3:21pm. As a security precaution, this notification has been sent to all email addresses associated with your account. If you did not change your password, your account may have been the victim of a phishing scam. Please follow the link to regain control over your account: https://www.facebook.com/checkpoint/checkpointme?u=100001267207663&n=ychI5uw1 Your password was changed from the following location: Delhi, DL, IN (IP=59.176.39.214) Thanks, The Facebook Team

کشمیر میں امن و سکون دہشت گرد و ان کے آقاؤں کو برداشت نہیں

جموں و کشمیر میں ایک بار پھر دہشت گردوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور چنے ہوئے عوامی نمائندوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔پچھلے دو ہفتے میں دہشت گردوں نے دو سرپنچوں کو گولی سے اڑاکر ایک بار پھر وادی میں امن و سکون کے ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سال کے دوران مجموعی طور پر آدھا درجن پنچایت کے سرپنچ آتنک وادیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے پچھلے کئی دنوں سے مختلف علاقوں میں پوسٹر و پرچوں کے ذریعے پنچ و سرپنچوں کو استعفیٰ دینے یا پھر انجام بھگتنے کی دھمکی دی ہوئی ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے پچھلے سال بے خوف ہوکر پنچایت چناؤ لڑا تھا اب وہ ڈر کے مارے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں میں 150 سے زیادہ پنچوں اور سرپنچوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔300 سے زیادہ نے اخباروں میں اشتہارات کے ذریعے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دو دہائی سے زیادہ عرصے تک آتنک واد کا شکار رہے دیش کے اس سرحدی صوبے میں پچھلے سال ہوئے پنچایب چناؤ میں جب آتنک وادیوں کی دھمکیوں کونظرانداز کرتے ہوئے قریب80 فیصدی ووٹروں نے ووٹ کیا تو اس ریاست کا ایک بڑا کارنامہ جمہوری جیت مانا گیا

’’دی گریٹ دلی رابری‘‘

راجدھانی کی مجرمانہ تاریخ میں اتنی بڑی لوٹ کی واردات کبھی نہیں ہوئی تھی۔جتنی بڑی لوٹ ڈیفنس کالونی علاقے میں جمعہ کو ہوئی۔ وی آئی پی نمبر پلیٹ لگی ہوئی ہنڈئی کار میں سوار ہوکر آئے مسلح بدمعاشوں نے بینک کی ایک کیش وین لوٹ لی۔ وین میں سوا پانچ کروڑ روپے رکھے تھے۔ کیش وین میں جی پی ایس سسٹم نہیں لگا تھا۔ یہ رقم آئی سی سی آئی بینک کی تھی جسے پریمیر شیلڈ پرائیویٹ لمیٹڈ ایجنسی کا اسٹاف حوض خاص میں واقع بینک کی برانچ سے نکال کر لایا گیا تھا۔ یہ پیسہ بینک کے مختلف اے ٹی ایم میں ڈالا جانا تھا۔ آدھا درجن ہتھیار بند بدمعاش وین کے گارڈ کو گولی مارنے کے بعد اس نقدی وین کو لیکر فرارہوگئے۔لٹیرے اپنی کار موقعہ پر ہی چھوڑ گئے۔ ایمس ٹراما سینٹر میں بھرتی کرائے گئے بندوقچی منی سنگھ کی رات میں موت ہوگئی۔ جمعہ کی دوپہر قریب3 بجے لوٹ مار کی یہ سنسنی خیز واردات ڈی ۔12 ڈیفنس کالونی میں بی آر ٹی کوریڈور کے قریب باسکٹ آؤٹ لیٹ کے سامنے ہوئی ۔ قریب ایک گھنٹے بعد دہلی پولیس کو لوٹی گئی کیش وین ساؤتھ دہلی کے مالویہ نگر علاقے میں لا وارث کھڑی ملی۔ وین سے دونوں گارڈوں کی بندوقیں اور کیش سے بھرے صندوق باندھنے کے لئے

ریٹیل سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہمارا چھوٹا کسان تباہ ہوگا

منموہن سنگھ سرکار خوردہ بازار میں 51 فیصد براہ راست غیر ملکی تجارت کے فائدے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بتا رہی ہے کہ اس سے ہمارے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ میں نے شری انڈیا ایف ڈی آئی واچ کے ڈائریکٹرمسٹر دھرمیندر کمار کا اس موضوع پر ایک آرٹیکل پڑھا جس میں بتایا گیا کہ دنیا کے کچھ ملکوں میں جہاں ایف ڈی آئی لاگو کی جاچکی ہے وہاں کے کسانوں کا کیا تجربہ رہا ہے۔ دعوی کیا جارہا ہے کہ اس سے گھریلو صارفین کو ہی نہیں بلکہ کسانوں کو بھی فائدہ ہونے والا ہے۔ جبکہ ایسے کئی جائزے موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کھیتی میں سرمایہ کاری سے کسانوں کو نقصان ہی ہوا ہے جس سے ان کے سامان کی سپلائی کی سیریز کا حصہ بن کر مناسب دام حاصل کرنے کے لئے کسانوں کو مشقت کرنی پڑتی ہے۔ انہیں زندگی گزر بسر کرنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میکسیکو کے ایک مطالع میں وائلس بریہم ایگریکو ، کینڈل جیسی مطالجاتی تنظیموں نے پایا کے خوراک کی سپلائی کے سلسلے میں تبدیلی سے چھوٹے کسانوں کو عام طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اپنے دیش میں بھی خوردہ سیکٹر میں پہلے سے موجودہ صنعتی گھرانے صرف بڑے کسانوں سے ہی مال خریدتے ہیں چھوٹے کسانوں

سپریم کورٹ کے فیصلے سے سرکار کو راحت پر ذمہ داری سے نجات نہیں

سپریم کورٹ نے سرکار کو بڑی راحت دی ہے۔ یقینی طور سے صدر کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سے حکومت نے راحت کی سانس لی ہوگی۔ عدالت کا کہنا ہے سبھی قدرتی وسائل کی تقسیم کے لئے نیلامی ضروری نہیں ہے۔ عدالت کا حکم صرف ٹو جی اسپیکٹرم تک محدود رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے مانا کے قدرتی وسائل کا بٹوارہ پالیسی ساز معاملہ ہے اور عدالت کو اس میں دخل سے تب تک بچنا چاہئے جب تک اس میں لوٹ یا گھپلے کا اندیشہ نہ ہو۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ٹو جی اسپیکٹرم کے 122 لائسنس منسوخ کرنے کے معاملے میں صدارتی ریفرنس داخل کیا تھا۔ عدالت کے فیصلے سے ایک مشکل تو ضرور ہوگی کہ قدرتی وسائل کو ذاتی مفادات کے حوالے کرنے کی شکل کیا ہو، مفاد عامہ میں اسے طے کرنے کا اختیار صرف انتظامیہ کو ہے۔ اقتصادی اصلاحات کو رفتار دینے والے مجوزہ فیصلوں کے ریفرنس میں بھی اس کی اہمیت ہے۔ حالانکہ صدارتی ریفرنس پر آئینی بنچ کے ظاہر خیالات عدالتی فیصلوں میں رکاوٹ نہیں ہیں لیکن کسے معاملے پر غور کرتے وقت وہ اس سے رائے لے سکتی ہے۔ دراصل سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلے کے سبب پچھلے کچھ مہینوں سے ایسا مانا جانے لگا تھا کہ ع