اشاعتیں

دسمبر 1, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پھر فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی کوشش ہے یہ فرقہ وارانہ تشدد روک تھام بل!

پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس شروع ہوچکا ہے۔ موجودہ لوک سبھا کا آخری کام کاجی اجلاس ہونے کے سبب حکومت اس کا استعمال التوا میں پڑے بلوں کو پاس کروانے میں کرنا چاہے گی۔ خاص طور سے وہ بل جو یوپی اے سرکار کو 2014ء کے عام چناؤ میں سیاسی فائدہ پہنچا سکتے ہیں ان میں متنازعہ انسداد فرقہ وارانہ فساد بل بھی شامل ہے۔حالانکہ کام کی فہرست میں شامل بلوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے محض12 دن کے اس قلیل المدت اجلاس میں کتنا آئین سازیہ کا کام نمٹایا جاسکے گایہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔ آج میں بات کرنا چاہتا ہوں فرقہ وارانہ انسداد بل کی۔ اپوزیشن کی سخت مخالفت کی وجہ سے ٹھنڈے بستے میں چلے گئے اس بل کو مظفر نگر فسادات کے بعد یوپی اے سرکار نے پھر سے جھاڑپونچھ کر باہر نکال لیا ہے۔ بھاجپااپنے ہندوتو ایجنڈے کی لائن پر آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے تو کانگریس نے بھی جواب میں سیکولرازم کے اشو پر جارحانہ طور پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دراصل یہ بل اپنے آپ میں ایک طرفہ تو ہے ہی ہے بلکہ اکثریتی مخالف بھی ہے۔ کل ملاکر یہ ایک ایسا بل ہے جو اگر قانون بنا تو سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچانے کا کام کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس

دہلی اسمبلی انتخابات نے کئی نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں!

جیسا کہ امید تھی ویسا ہی ہوا دہلی اسمبلی چناؤ میں ریکارڈ پولنگ ہوئی اور یہ 66 فیصد سے زیادہ ہوئی۔ پچھلے چناؤ2008ء میں 58.58فیصدی ووٹ پڑے تھے اس بار پانچ ریاستوں میں پولنگ کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ راجستھان میں 75.2فیصد ، مدھیہ پردیش 72.66فیصد، چھتیس گڑھ75 فیصد اور میزورم میں 81.19فیصد اور اب دہلی میں 66 فیصد پولنگ ہوئی ہے۔ اگر ہم دہلی کی بات کریں تو یہاں زیادہ ووٹ پڑنے کی کئی وجوہات دکھائی پڑتی ہیں۔ سب سے پہلے تو چناؤ کمیشن کی انتہائی کوشش مانی جاسکتی ہے۔دہلی چناؤ کمشنر وجے دیو اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے انہوں نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ پولنگ کرنے جارہے ووٹروں کو اکثر دل میں یہ پریشانی ستاتی رہتی ہے کہ شناختی کارڈ نہیں ہے، کیا ہم ووٹ ڈال سکیں گے؟ کئی کے ووٹر فہرست سے نام ہی غائب ہوجاتا تھا۔ بہتوں کو پولنگ بوتھ تک پہنچے پر پتہ چلتا تھا کہ ان کا ووٹ ڈل چکا ہے۔پولنگ بوتھ میں موبائل لیکر جائیں یا نہیں کچھ ایسی دقتیں ووٹروں کواپنا ووٹ ڈالنے سے روکتی تھیں۔ انہیں باتوں کو ذہن میں رکھ کر دہلی چناؤ میں پہلی بار کچھ نئے قدم اٹھائے گئے۔ چناؤ کمیشن نے 70 سیٹوں کے سبھی پولنگ اسٹیشنوں کو

نابالغ کیا اسی وجہ سے صاف چھوٹ جائے کیونکہ وہ نابالغ ہے؟

جب 16 دسمبر 2013ء کو وسنت وہار گینگ ریپ معاملہ ہوا تھا میں نے تبھی اپنے اسی کالم میں لکھا تھا کہ اس قتل کانڈ کے ماسٹر مائنڈ کو اس لئے نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ وہ نابالغ ہے اور اس کی عمر18 سال سے تھوڑی کم تھی۔ اب متاثرہ کے والدین نے اپنی سپریم کورٹ میں داخل عرضی میں اس سوال کواٹھایا ہے۔ عدالت نے پیرکو دہلی گینگ ریپ متاثرہ کے والد کی عرضی پر مرکزی حکومت کو نوٹس بھیج دیا ہے اور سرکار سے پوچھا ہے کہ آخر گھناؤنے جرائم میں شامل ملزمان کا نابالغ ہونا کیسے طے کیا جائے؟ متاثرہ کے والد نے اپنی عرضی میں جیونائل انصاف ایکٹ قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ قانون سنگین جرائم میں ملوث کمسنوں پر عام مقدمہ چلانے سے روکتا ہے۔ دہلی گینگ ریپ کا بنیادی ملزم نابالغ واقعے کے وقت ساڑھے ستارہ سال کا تھا جسے جیونائل انصاف بورڈ نے اپنی زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا دی تھی۔ ایسے میں وہ بڑی سزا سے بچ گیا۔ بہرحال عرضی پر سماعت کے بعد جسٹس بی۔ ایس چوہان کی بنچ نے مرکزی خواتین و اطفال ترقی وزارت کو چارہفتے کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کوکہا ہے۔ اس معاملے میں اہم ملزم کی عمر اس کے گاؤں کے اسکو

تھائی وزیر اعظم کیخلاف تختہ پلٹ تحریک !

پچھلے ایک ہفتے سے ہمارے پڑوسی ملک تھالی لینڈ میں حکومت کے خلاف زبردست تشدد آمیز مظاہرے اور تحریکیں چل رہی ہیں۔ سرکار مخالف مظاہروں نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ 30 ہزار سے زیادہ مظاہرین نے وزیر اعظم چنگلک شیونواترا کے خلاف ’’عوامی تختہ پلٹ‘‘ تحریک چھیڑتے ہوئے ایک پولیس کمپلیکس پر ہی حملہ بول دیا۔ یہاں نوجوان وزیر اعظم شیونواترا میڈیا سے بات کرنے والی تھیں لیکن انہیں کمپلیکس چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مظاہرین نے وزیر اعظم کے دفتر کے آس پاس سکیورٹی گھیرے کو بھی توڑنے کی کوشش کی۔ سنیچرسے جاری پرتشدد مظاہروں میں سرکار کی حمایت میں اترے لوگ اور مخالف مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 5لوگ مارے گئے ۔ اس درمیان حکومت نے ان افواہوں کی تردید کی ہے جن میں دعوی کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم نے ملک چھوڑدیا ہے لیکن وہ کہاں ہیں اس کا پتہ نہیں ہے۔ مشکلات سے گھری تھائی لینڈ کی وزیر اعظم شیو نواترا نے پیر کو اپوزیشن کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبے کو مسترد کردیا۔ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹنے کیلئے دباؤ بنانے میں لگے اپوزیشن کے حمایتیوں کی سکیورٹی فورسز سے جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ایک عدالت نے سرکار گرانے کے لئے بغاوت ک

لو ان ریلیشن نہ تو جرم ہے اور نہ پاپ:سپریم کورٹ

پچھلے کچھ برسوں سے لو ان ریلیشن شپ کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں شادی جیسے روایتی بندھن میں بندھے بغیر ایک ساتھ رہنے لگے ہیں۔آج سے کچھ سال پہلے ایسے رشتوں کو سماج نہ توجائز مانتا تھا اور نہ ہی اچھی نظروں سے دیکھتا تھا لیکن جیسے جیسے مغربی تہذیب کا اثر ہمارے معاشرے پر پڑا نوجوانوں نے یہ سلسلہ شروع کردیا اور آہستہ آہستہ یہ رشتہ بھی قابل قبول ہونے لگا۔ اور باعزت زندگی کے گزر بسر کے لئے تمام قانونی تقاضوں کے باوجود عورتیں کہیں نہ کہیں ایسی پیچیدہ حالت کا سامنا کرتی رہی ہیں جس کے سبب دیش کی عدالتوں کو وقتاً فوقتاً ان کے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سانجھی زندگی یعنی ’لو ان ریلیشن شپ‘ ایک ایسی پوزیشن ہے جس پر دیش کی بڑی عدالت نے سنجیدگی سے سرکار کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ عدالت نے بڑھتے لو ان ریلیشن اور قانون کی موجودگی میں ایسے رشتوں میں رہ رہے لوگوں کی پریشانیوں پر تشویش جتائی ہے۔ جسٹس کے۔ ایس رادھا کرشنن کی سربراہی والی بنچ نے ایک دوررس فیصلے میں بغیر شادی کئے میاں بیوی کی طرح زندگی بسر کرنے والے لڑکی لڑکوں کے رشتوں کو ازدواجی رشتوں کے دائرے میں لائے جانے سے متعلق قانون بنانے کی بات

چناوی جائزوں میں بھاجپا آگے کیا جادوئی نمبر پا سکے گی؟

فیصلے کا وقت آگیا ہے۔ دہلی کے شہری آج بدھوار کے دن یعنی4 دسمبر کو اپنے ممبر اسمبلی اور اپنی سرکار کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالیں گے۔13 دنوں تک چناوی گھمسان اور دعوے اورالزام در الزام کا سلسلہ جاری رہا۔سروے پرسروے ہورہا تھا۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ان سب کے باوجود چناؤ نتیجے کیا ہوں گے یہ تصویر ابھی تک صاف نہیں ہوسکی۔ سٹہ بازار سے لیکر تمام سروے یہ نہیں بتا پائے کے اگلی حکومت کس پارٹی کی بنے گی۔ اشوز میں ہماری رائے میں سب سے اہم رہا مہنگائی کا اشو۔ جس نے بلا شبہ دہلی کے شہریوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔ عام اس مہنگائی کو کرپشن سے سیدھا جوڑتی ہے اور وہ یہ بھی محسوس کررہی ہے کہ حکومت اسے روکنے میں ناکام رہی۔ یہ نظریہ حکمراں کانگریس پارٹی کے خلاف جا سکتا ہے۔ دوسری طرف کانگریس کا ترقی کا نعرہ اور آگے کے کام اس کے حق میں جاسکتے ہیں۔ خاتون حفاظت سے لیکر بجلی ،پانی، ہسپتال، مہنگا علاج کچھ اور ایسے اشو ہیں جن پر دہلی کے ووٹر غور کررہے ہیں۔ بھاجپا کے حق میں مودی فیکٹر کام کر سکتا ہے۔ کچھ ووٹر یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ 15 برسوں سے کانگریس کی حکومت ہے اب اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اروند کیجریوال اور ان کی عام آ

چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور اب راجستھان میں ریکارڈپولنگ!

پہلے چھتیس گڑھ پھر مدھیہ پردیش اور ایتوار کو راجستھان میں ریکارڈ پولنگ ہوئی ہے۔لوگوں میں اپنے حق کے تئیں بڑا جوش وخروش دکھائی دیا۔ راجستھان کی اگلی حکومت کے لئے74 فیصدی سے زیادہ ووٹ پڑے۔ ریاست میں اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر پولنگ پرامن رہی۔ ریاست کے چیف الیکٹرول آفیسر اشوک جین نے بتایا کہ ریاست کی 14 ویں اسمبلی کی تشکیل کے لئے 200 میں سے199 سیٹوں کیلئے 74.38 فیصدی پولنگ ہوئی۔چورو اسمبلی سیٹ سے بسپا امیدوار کی موت ہونے کے سبب وہاں اب 13 دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ چھتیس گڑھ میں بھاری پولنگ ہوئی تو کانگریس خوش ہوگئی۔ بھاری پولنگ ضرور حکمراں رمن سنگھ سرکار کے خلاف ناراضگی ووٹ مانا جارہا ہے اور کانگریس جیت گئی ہے۔ عام طور پر مانا یہ ہی جاتا ہے کہ اگر ووٹ فیصد زیادہ ہوتو وہاں حکمراں سرکار کے خلاف ووٹ جاتا ہے لیکن ایسا ضروری نہیں۔ کبھی کبھی یہ ووٹ ترقی کے نام پر بھی زیادہ پڑ جاتا ہے۔ موجودہ سرکار سے یہ تشفی کی بھی علامت ہوتی ہے لیکن جب یہ ہی ٹرینڈ مدھیہ پردیش میں نظر آیا تو بھاجپا نے اسے اپنی کامیابی سے تشبیہ دے ڈالی کیونکہ تمام سروے یہ ہی دکھا رہے ہیں شیو راج سنگھ چوہان چناؤ جیت رہے

میرا موازنہ ترون تیج پال سے نہ کیا جائے، جسٹس گانگولی

تہلکہ کے مدیر ترون تیج پال جنسی استحصال معاملے میں پھنسے تو اس کی آنچ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈر جج اشوک کمار گانگولی تک پہنچ گئی ہے۔ ہر طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ انہیں جنسی استحصال کے ایک معاملے میں قانونی گھیرے میں لیا جائے۔ یہ سوال کھڑے کئے جارہے ہیں کہ وہ دیش کے سب سے بڑے انصاف کے مندر کے جج رہ چکے ہیں، ایسے میں انہیں کوئی رعایت نہیں ملنی چاہئے۔ ویسے بھی ان دنوں تیج پال کا معاملہ گرمایا ہوا ہے اسی کے چلتے اب جسٹس گانگولی کے معاملے میں بھی لمبی لڑائی جھیلنی پڑ سکتی ہے۔ ایک خاتون وکیل نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ جب قانون کی تربیت میں اپنے دادا کی عمر والے ان جج موصوف کے ساتھ کام کررہی تھی تو ایک دن ہوٹل کے کمرے میں ان جج موصوف نے ان کا جنسی استحصال کیا تھا لیکن اس وقت وہ چپ رہی۔ پچھلے دنوں جب جانباز صحافی ترون تیج پال کے کارنامے کا انکشاف ہوا تو تب ایک غیر سرکاری انجمن میں کام کرنے والی ایک نوجوان خاتون وکیل نے بلاگ میں لکھ کر اس کا خلاصہ کیا تھا کہ پچھلے سال دہلی سمیت پورا دیش نربھیا آبروریزی کانڈ سے کافی ناراض تھا اسی دور میں سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے اس پر بھی جھپٹا مارا

دہلی میں پولنگ سے پہلے تین دنوں میں کئی فیکٹر کام کرسکتے ہیں!

دہلی اسمبلی چناؤ میں پولنگ کیلئے مشکل سے تین چار دن بچے ہیں۔یہ دن انتہائی اہمیت کے حامل ثابت ہوسکتے ہیں، خاص کر2 اور3 دسمبر ۔ اس دن کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ابھی تک موصولہ سروے سے لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی آگے چل رہی ہے۔ پولنگ سے ٹھیک پہلے اے بی پی نیوز سروے کے مطابق بھاجپا کے سی ایم امیدوار ڈاکٹرہرش وردھن دہلی کے وزیر اعلی کے لئے پہلی پسند بن کر ابھرے ہیں۔ انہیں34 فیصدی لوگوں نے پسند کیا ہے۔ دوسرے نمبر پر اروند کیجریوال ہیں انہیں 33 فیصد لوگ چاہتے ہیں۔ وزیر اعلی شیلا دیکشت تیسرے نمبر پر ہیں انہیں26 فیصد لوگ پسند کرتے ہیں۔ سیٹوں کے حساب سے بھاجپا کو40، کانگریس کو21، عام آدمی پارٹی کو7 اور دیگر کو 2 سیٹیں ملنے کے آثار ہیں۔ چناوی اشوز میں مہنگائی سب سے بڑا اشو ہے۔ سٹہ بازار کے مطابق بھاجپا اگلی سرکار بنائے گی۔ بھاجپا پر سب سے کم بھاؤلگا ہے۔ دہلی کے چناؤمہم کے آخری دنوں میں یہ اشو اثر ڈال سکتا ہے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں وزیراعلی دیکشت کا عام آدمی پارٹی سے چناؤ بعداتحاد بارے متنازعہ بیان وزیر اعلی شیلا دیکشت نے چناؤ میں مکمل اکثریت حاصل کرنے میں پیچھے رہنے پر عام آدمی پارٹی سے حمایت لین

پاکستان میں انتہائی اہم عہدوں پر تبدیلیاں!

پڑوسی ملک پاکستان میں ایک ساتھ کئی اہم عہدوں پر تقرریاں ہوئی ہیں۔ نئے فوج کے سربراہ، نئے چیف جسٹس، نئے وزیر دفاع وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب تبدیلیاں پاکستان کے مستقبل کے لئے کیا اشارہ دیتی ہیں؟ نئے فوج کے سربراہ کے انتخاب کے ساتھ چیف جسٹس کی تقرری اور ساتھ ہی کچھ وزرا ء کے محکموں میں ردوبدل کے ساتھ نئے وزیر دفاع کا اعلان حالانکہ ویسا ہی ہے لیکن یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن پڑوسی ہونے کے ناطے بھارت سمیت بین الاقوامی برادری اس تبدیلی کا تجزیہ ضرور کرے گی۔ اس تبدیلی کے ساتھ پاکستان کی پالیسیوں اور نقطہ نظر میں کوئی فرق دیکھنے کو ملے گا؟ ’’دودھ کا جلا مٹھا پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ پاکستانی فوج کو اس کا نیا چیف سونپنے میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس کہاوت کا بخوبی خیال رکھا ہے۔ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوج کی کمان سنبھالنے والے نئے سربراہ راحل شریف اپنے دیش میں ایک چنتک فوجی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایسے موقعے پر ذمہ داری سنبھالی ہے جب پاکستان سنگین چیلنجوں سے گزر رہا ہے۔نواز شریف کے لئے یہ چوتھا موقعہ تھا جب انہوں نے فوج کے سربراہ کا انتخاب کرنا تھا۔ پہلے دو موقعوں پر ا