اشاعتیں

اگست 28, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بابا رام دیو کو گھیرنے میں لگی سرکار

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 4th September 2011 انل نریندر بابا رام دیو اور انا ہزارے کی تحریک سے خار کھائی کانگریس پارٹی اور یوپی اے حکومت اب ان سے دشمنی نکال رہی ہے۔ جب سے یہ تحریک شروع ہوئی ہے حکومت ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئی ہے۔ بابا رام دیو کو سرکار اب خود غیر ملکی کرنسی ایکٹ (فیما) میں پھنسانے میں بے چین ہے۔ انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بابا رام دیو اور ان کے ٹرسٹ کے خلاف فیما قانون کی خلاف ورزی کرنے کا معاملہ درج کیا ہے۔ انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بابا رام دیو کی کمپنیوں پر بیرونی ممالک سے ہونے والے پیسے کے لین دین میں قواعد کو نظر انداز کرنے کے الزام میںیہ مقدمہ درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ اسکاٹ لینڈ میں بابا کو عطیہ میں ملے مبینہ جزیرے کے معاملے کی بھی پڑتال کی جارہی ہے۔ انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور جانچ ایجنسیاں یہ دیکھنے کی کوشش کررہی ہیں کہ اس جزیرے کو حاصل کرنے میں بابا اور ان کی کمپنی کہیں قواعد کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ ایسے میں جلد ہی اس معاملے میں بابا کے ساتھی آچاریہ بال کرشن اور یوگ گورو کے سینئر منتظمین سے پوچھ تاچھ کرنے کے

سیاسی آقاؤ کے اشارے پر نوٹس بھیجا گیا، اروند کیجریوال

انا ہزارے کی تحریک سے غصے سے بھری منموہن سنگھ سرکار نے اب ان لوگوں کو نشان زد کرکے نشانے پر لینا شروع کردیا ہے جنہوں نے اس کی مٹی پلید کرنے میں سرگرم کردار نبھایا تھا۔ میڈیا پر لگام لگانے کیلئے مخصوص گروپ بنانے کی بھی خبر ہے۔ انا کے اسٹیج سے سرکار کو برا بھلا کہنے والے فلم اداکار اوم پوری ، کیرن بیدی پر پہلے ہی ہتک عزت کا مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کے خلاف متنازعہ تبصرے کو لیکر پارلیمنٹ میں تحریک استحقاق کی خلاف ورزی کے معاملے کا سامنا کررہی کیرن بیدی کا ٹیم انا اب کھل کر ساتھ دے رہی ہے۔ اروند کیجریوال نے کہا پوری ٹیم متحد ہوکر کیرن بیدی کے ساتھ ہے۔ اس طرح کے قدم سے جنتا کے درمیان یہ تاثر جائے گا کہ ممبران پارلیمنٹ ان سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا جب نوٹس ملے گا تو وہ اس پر جواب دیں گی۔ ٹیم انا کے ایک اور اہم ساتھی سابق مرکزی وزیر قانون شانتی بھوشن سی ڈی معاملے میں پھنستے نظر آرہے ہیں۔ دہلی پولیس نے سی ڈی معاملے میں عدالت میں داخل اپنی کلوزر رپورٹ میں جانکاری دی ہے کے سی ڈی میں سپا چیف ملائم سنگھ یادو اور شانتی بھوشن کی بات چیت کا ٹیپ اصلی ہے۔ اس میں کسی طرح کی چھیڑ

اگلا ایجنڈا چناؤ اصلاحات کا ہونا چاہئے

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 3rd September 2011 انل نریندر  لوکپال کے اشو پر انا ہزارے نے پہلی لڑائی جیت لی ہے۔ اب ٹیم انا کا اگلا ایجنڈا چناؤ اصلاحات کا ہوگا۔ اس کے اشارے وہ خود دے چکے ہیں۔ رام لیلا میدان میں انا نے کہا تھا کہ دیش کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ چناوی عمل میں وسیع اصلاحات کی جائیں۔ ورنہ جو نیتا ایک ایک چناؤ میں 10-10 کروڑ روپے خرچ کرڈالتے ہیں ، ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ سیاست میں سادھو سنت بنے رہیں۔ انا نے دو اشو دئے ہیں۔ پہلا ’’رائٹ ٹو رجیکٹ‘‘ دوسرا ہے ’’رائٹ ٹو ری کال‘‘یعنی چناہوا نمائندہ عوام کے حساب سے کام نہ کرے تو اسے بیچ میں ہی واپس بلانے کا حق ووٹروں کے پاس ضروری ہونا چاہئے۔ میں نے بہت عرصے پہلے یہ بات اسی کالم میں سپرد قلم کی تھی۔ جرمنی میں یہ سسٹم نافذ ہے اور موجودہ حکومت اسی کے تحت بنی ہے۔ رائٹ ٹو جیکٹ کا دباؤ سارے ممبران پارلیمنٹ پر ضرور بنے گا۔ ابھی تو یہ ہورہا ہے کہ ایک بار وہ چناؤ جیت کر آجائیں تو انہیں اگلے پانچ سال تک جنتا کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ صرف پارلیمنٹ معطل

15 ستمبر سے دہلی میں سٹی زن چارٹر نافذ ہونے والا ہے

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 3rd September 2011 انل نریندر دیش بھر میں کرپشن کے خلاف تحریک چلانے والے گاندھی وادی سماجی کارکن انا ہزارے کی تحریک رنگ لانے لگی ہے۔ دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت کی حکومت نے دہلی میں سٹی زن چارٹر کو15 ستمبر سے نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس طرح دہلی پہلی ریاست ہوگی جہاں یہ لاگو ہوگا۔ اگر یہ سٹی زن چارٹر صحیح طور پر نافذ ہوتا ہے تو دہلی والوں کو روز مرہ کے درپیش مسائلمیں کمی ضرور آئے گی۔چھوٹے چھوٹے کام پراہم کاموں میں جو کرپشن چلتا ہے اس پر لگام ضرور لگے گی۔ دہلی والوں کو راشن کارڈ ،جیون مرن سرٹیفکیٹ، محکمہ محصول سے وابستہ سرٹیفکیٹ طے وقت پر ملیں گے۔ متعلقہ محکموں کو طے شدہ وقت پر یہ کام کرنا ہوگا۔ ایسا نہ کئے جانے پر افسروں پر جرمانہ ہوسکتا ہے۔وزیراعلی شیلا دیکشت کا کہنا ہے 15 ستمبر سے اس قانون کو سختی سے لاگو کیا جارہا ہے۔ دہلی حکومت نے 28 مارچ کو دہلی سٹی زن بل 2011ء (Right of Citizens to time-bound delivery of services Act 2011) وقت پر شہریوں کو خدمات کی فراہمی کا قانون2011ء کا حق

کھیل تنظیموں پر لگام والے بل کا یہی حشر ہونا تھا

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 2nd September 2011 انل نریندر جب بات سیاستدانوں پر لگام کسنے کی ہو تو بھلا بات کیسے بن سکتی ہے؟ جی ہاں منگل کے روز وزیر اعظم کی موجودگی میں ہوئی کیبنٹ کی میٹنگ میں قومی کھیل ڈیولپمنٹ بل کا جو حال ہوا اس سے تو یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنی سرگرمیوں پر یہ کھیل مٹھادھیش کسی بھی طرح کی روک لگانے کی مخالفت جم کر کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ کیبنٹ میٹنگ کا چیئرمین کون ہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہوگا جب وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی ہی کیبنٹ میں ایک سیاسی چیلنج ملا ہو۔ وزیر کھیل اجے ماکن نے ماہ فروری میں اعلان کیا تھا کہ بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) سمیت تمام کھیل فیڈریشنوں کو ایک نئے ضابطے کے تحت لانے کیلئے وزیر ایک بل لائے گی۔ منگل کے روز کیبنٹ میں اجے ماکن نے یہ بل رکھا تھا۔ اس میں یہ تجویز بھی تھی کہ بی سی سی آئی بھی آر ٹی آئی قانون کے دائرے میں آئے تاکہ اس میں زیادہ شفافیت دکھائی پڑے۔ وزارت نے کھیل فیڈریشنوں کے وابستہ عہدیداران کے لئے زیادہ تر عمر اور میعار کے کنٹرول کے بھی قواعدرکھے۔ د

انا کیلئے عوامی ہجوم کیوں اترا یہ سمجھناچاہئے

تصویر
  Published On 31st August 2011 انل نریندر انا ہزارے کی تحریک سے کئی سبق ملتے ہیں۔ یہ ایک عجب تحریک تھی جس نے سارے دیش کو ایک بار ہلا کر رکھ دیا۔ سارے طبقوں ،مذاہب، فرقوں سبھی کو ملادیا۔ برسوں کے بعد مڈل کلاس کے لوگ سڑکوں پر اترے۔ اپنی گاڑیوں سے اترپر رام لیلا میدان میں صفائی کررہے ، کھانا کھلا رہے ، ان لوگوں نے شاید اس سے پہلے کبھی بھی یہ سب نہیں کیا ہوگا۔ وہ مڈل کلاس جو ووٹ نہیں دیتا وہ12 دن تک رام لیلا میدان میں انا کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا۔ اس تحریک میں دیش کا ہر طبقہ شامل تھا۔ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ موم بتی مارچ کرنے والے لوگ وہ ہیں جوکبھی ووٹ ڈالنے بھی نہیں جاتے۔ مگر یہ سب کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ دیش کا یہ ہی طبقہ انتخابات میں آپ کو نظرانداز محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح چناؤ ذات پات اور علاقائیت جیسے مسئلوں پر جیتے جاتے ہیں وہاں دیش کا یہ شہری طبقہ اپنے آپ کو اقلیت میں محسوس کرتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی تعداد مٹھی بھر ہے اور وہ چناؤ میں اپنا کوئی کردار ہی نہیں مانتے۔ مگر اب انہیں لگ رہا ہے کہ کم سے کم ہمارا کردار اس قانون کو بنانے میں تو ہے جو کرپ

انا کی تحریک! سنسد میں نوجوان برگیڈچھائی رہی

تصویر
  Published On 31st August 2011 انل نریندر سنیچر کو لوک سبھا میں جب انا کی تین شرطوں پر بحث چل رہی تھی تو ایک بات خاص طور پر سامنے آئی۔ وہ یہ تھی کہ دونوں کانگریس اور بھاجپا نے اپنی نوجوان پیڑھی کو آگے کرکے انہیں بولنے کا اور اپنی بات رکھنے کا موقعہ دیا۔ وہ اتنی اہم بحث میں اپنا ہنر دکھا سکیں۔ کانگریس کے نوجوان ممبر پارلیمنٹ سندیپ دیکشت اپنی والدہ محترمہ شیلا دیکشت کی چھایا سے بھی باہر نکل آئے۔ انہوں نے اپنے دم خم پر آگے بڑھنے کا جو فیصلہ کیا وہ لائق تحسین ہے۔ سندیپ دیکشت نے نہ صرف اپنی پارٹی میں اپنا قد بڑھایا ہے بلکہ اپوزیشن نے بھی کئی بار ان کی دلیلوں سے اتفاق ظاہر کیا۔ جب انا کو گرفتار کیا گیا تھا تو سندیپ پہلے ممبر پارلیمنٹ تھے جنہوں نے کھلے طور پر کہا تھا یہ غلط ہوا ہے۔ پہلے دن سے ہی وہ صلاح صفائی میں لگ گئے تھے۔ جب ایتوار کو ولاس راؤ دیشمکھ وزیر اعظم کا خط لیکر رام لیلا میدان پہنچے تو ان کے ساتھ پارٹی اور حکومت نے سندیپ دیکشت کو بھیج کر یہ واضح کردیا کہ اب ان پر کتنا بھروسہ ہے۔ سندیپ دیکشت کے تئیں سب کی نظروں میں عزت بڑھی ہے اور یہ ان کے

انا ہزارے کی تحریک اور میڈیا کا کردار

تصویر
  Published On 30th August 2011 انل نریندر سنیچر کے روز لوکپال بل پر ٹیم انا کی تین شرطوں پر پارلیمنٹ میں ہوئی بحث میں میڈیا کے کردار پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔اس کے کردار کو لیکر اکثر ناراضگی جتانے والے جنتادل متحدہ کے شرد یادو اور آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادوسنیچر کو بھی اپنی بات کہنے سے نہیں چوکے۔ ان دونوں نے ایک آواز سے ایک دوسرے کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے کہا کہ انا کی پوری تحریک میڈیا کی دین ہے۔ زمین سے جڑے جدوجہد کرنے والے سماجوادی نیتا شرد یادو نے انا کے تین مطالبات پر لوک سبھا میں ہوئی بحث کے دوران نہ صرف اتفاق رائے ظاہر کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ انا ہزارے ایماندارانہ تحریک چلانے والے ایک سرکردہ شخصیت ہیں۔ میں ان کی عزت کرتا ہوں لیکن ان سے شکایت بھی ہے ۔ انہوں نے ان 12 دنوں میں کبھی بھی مہاتما پھولے کو یادنہیں کیا۔ شرد یادو کا کہنا تھا کہ انا کو ان کے آس پاس کے لوگ اور میڈیا گمراہ کررہا ہے۔ ان کی اس مہم کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے الیکٹرانک میڈیا ہوا دے رہا ہے۔ یہ حالت ہوگئی ہے کہ ڈبہ(ٹی وی) رات بھر بجتا رہتا ہے۔ پورے دیش میں کہیں باڑھ سیلاب تو کہیں غریبی

جنتا کی انا کے تئیں وفاداری اور حمایت میں کوئی کمی نہیں آئی

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 28th August 2011 انل نریندر یوپی اے سرکار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ انا کو مل رہی وسیع عوامی حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سرکار کو اتنا اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ کروڑوں نوجوانوں کے جذبات کی قدر نہ کرے۔ ایسا کرنا بھاری بھول ہوگی۔ جنتا کے انا کے تئیں جوش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کچھ حمایتی تو 16 اگست سے ہی رام لیلا میدان میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم یہاں تب تک ڈٹے رہیں گے جب تک انا انشن ختم نہیں کرتے۔’آ‘سے امرود اور انار پڑھنے والے بڑیاں بازار میں واقع نیتا جی سبھاش چندر بوس جونیئر ہائی سکول کے بچے پچھلے ہفتے سے ’آ‘ سے انا پڑ رہے ہیں۔ان کی اس لگن پر انا کا مطلب کیا ہے ، کا جواب ٹیچر دے رہے ہیں۔بدعنوانی سے لڑنے والا عدم تشدد کا جانباز ہندوستانی بری فوج کے چیف جنرل وی کے سنگھ جیسی شخصیت کا یہ کہنا کہ ہم ایک دلچسپ اور عدم تشدد کے دور سے گذر رہے ہیں اور اس لئے ہم جمہوریت اورجنتا کی طاقت کو گواہ بنا رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جنتا اپنے ڈھنگ سے اپنی پریشانی بیان کررہی ہے۔ پیپلی

بارہویں دن بھی نہ ٹوٹاانا کا انشن

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 28th August 2011 انل نریندر گاندھی وادی انا ہزارے کا انشن 12ویں دن اس وقت تک جاری تھا جب یہ سطور قلم بند ہورہی تھیں۔ حکومت اور ٹیم انا میں کچھ نکتوں پر اتفاق رائے بنتا دکھائی دینے کے آثار شروع ہو گئے تھے،جس سے امید بندھی ہے کہ انا ہزارے اپنا نشن کسی بھی وقت توڑ سکتے ہیں۔اس سے پہلے انا کی مانگ پر سرکار نے لوک سبھا میں جن لوکپال کے مسئلے پرپہلے تو قاعدہ 184 کے تحت بحث کرانا منظور کرلیا تھا لیکن ٹھیک بحث شروع ہونے سے پہلے سرکار پلٹ گئی اور بحث کو قاعدہ193 کے تحت کرانے کا فیصلہ کرکے معاملے کو مزید الجھا دیا۔ قاعدہ 193 میں کوئی ووٹنگ نہیں ہوتی اور رہی سہی کثر یووراج راہل گاندھی کی تقریر اور موقف نے پوری کردی۔ نتیجہ یہ ہوا انا کا انشن 11 ویں دن بھی نہیں ٹوٹ سکا ۔ اب سنیچر کو بحث شروع ہوگئی۔انا ٹیم اب اس بات پر بھی اڑی ہے کہ انا ہزارے اپنا انشن تبھی چھوڑیں گے جب ان کی تینوں مانگوں پر اتفاق رائے بنے۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں نے ہی تینوں مطالبات کو مان لیا ہے اور سرکار بھی م