اشاعتیں

اپریل 6, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کیا چناؤ ووٹ فار چینج ہوگا: کم سے کم دہلی سے توایسا لگتا ہے!

دہلی میں لوک سبھا سیٹوں پر جمعرات کو ہوئی پولنگ کے لئے صبح سے ہی ووٹروں میں زبردست جوش نظر آیا۔عالم یہ تھا کہ بہت سے پولنگ مرکزوں پر صبح سے ہی ووٹر پہنچ گئے تھے جن میں سب سے پہلے ووٹ ڈالنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ پچھلے2009 کے لوک سبھا چناؤ میں پولنگ52 فیصدی ہوئی تھی اور کانگریس ساتوں سیٹوں پر کامیاب رہی تھی اور بھاجپا ہار گئی تھی لیکن 2013 کے اسمبلی چناؤ میں پولنگ65فیصدی ہونے پر کانگریس دوڑ سے باہر ہوکر 70 میں سے8 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ اس کے چلتے بڑھی پولنگ فیصد کو لیکر 2014 لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا بہت خوش ہے۔دہلی میں 64 فیصدی پولنگ ہوئی ہے۔ دہلی کے سٹہ بازار میں 6 سیٹوں پر بی جے پی امیدوار کے حمایتی مانے جارہے ہیں۔ سٹے کے ریٹ میں محض نئی دہلی سیٹ پر کانگریس کے اجے ماکن ، بی جے پی کی امیدوار میناکشی لیکھی سے آگے ہیں ۔ دراصل اجے ماکن نہ صرف ایک مضبوط امیدوار ہیں بلکہ انہوں نے علاقے میں کام بھی کیا ہے اور اپنے وٹروں سے جڑے رہے ہیں۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آیا بی جے پی نے نئی دہلی جیسی وقاری سیٹ جس پر اٹل جی لڑا کرتے تھے اور اس کے بعد اڈوانی جی لڑے اس وجہ سے یہ دیش کی اہم سیٹ مانی جاتی ہے ، اس پ

جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ میں پرامن چناؤ کرانا سب سے بڑی چنوتی ہے!

لوک سبھا چناؤ کے پہلے مرحلے کے تحت جھارکھنڈ کے چار لوک سبھا حلقوں میں 10 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گییہ علاقے ہیں کوڈرما، چترا، پلامو اور لوہر دگا۔ ادھر چھتیس گڑھ کی بستر سیٹ پر بھی 10 اپریل کو ووٹ پڑیں گے۔ یہ سبھی علاقے نکسل متاثر ہیں۔جنگل، پہاڑوں سے گھرے ان علاقوں میں پرامن چناؤ کرانا چناؤ کمیشن اور انتظامیہ کے لئے سب سے بڑی چنوتی ہے۔ پہلے بات کرتے ہیں جھارکھنڈ کی سیٹوں کی۔ابھی لوہردگا پر بھاجپا ،پلامو پر جھارکھنڈ مکتی مورچہ، چترا پر آزاد اور کوڈرما پر جھارکھنڈ وکاس مورچہ کا قبضہ ہے۔ چاروں سیٹوں پر اس قدر سمی کرن بدلے ہوئے ہیں پلامومیں اس بار جھارکھنڈ مکتی مورچہ نہیں لڑ رہا ہے۔پچھلی بار جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ٹکٹ پر چن کر سانسد بنے کامیشور بیٹھا اس بار ترنمول کانگریس کے امیدوار ہیں۔ جارکھنڈ مکتی مورچہ نے یہاں یوپی اے کے اپنے سہیوگی راشٹریہ جنتادل کے امیدوار کو سمرتھن دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کوڈرما علاقے سے اس بار بھاجپا کے پردیش ادھیکش روندر رائے لڑ رہے ہیں۔ جارکھنڈ وکاس مورچہ کے بابو لال مرانڈی نے یہاں سے خود لڑنے کے بجائے پرنب ورما کو اتارا ہے۔کانگریس کے روایتی امیدوار تلک دھاری سن

مظفر نگر کے دنگوں کی ٹیس کیا سیاسی گل کھلاتی ہے؟

گڑ اور شکر کی مٹھاس پروسنے والی مظفر نگر پارلیمانی سیٹ کی ستمبر2013ء میں ایکاایک بین الاقوامی فلک پر دنگا متاثر علاقے کی شکل میں پہچان بن گئی ہے۔کسان سیاست کا یہ اہم علاقہ فرقہ وارانہ بھائی چارے کے لئے مانا جاتا تھا پر ستمبر میں ایسے بھیانک فرقہ وارانہ دنگے ہوئے کے ان کی دہشت اور تناؤ کی وجہ سے 700 سے زیادہ خاندانوں کے لئے گاؤں کی مٹی بیگانی ہوگئی۔ اس پارلیمانی علاقے کے اہم شائے راہوں کی بری حالت دکھاتی ہے یہاں بربادی کی داستاں۔ اس بار سارے دیش کی نظر اس مظفر نگر پارلیمانی سیٹ پر ٹکی ہوئی ہے۔ چناؤ کے اس عظیم جنگ کے اکھاڑے میں بھاجپا، کانگریس، سپا اور بسپا کے امیدوار ووٹروں کا رخ اپنے حق میں کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ وہ ووٹروں کو علاقے کے پچھڑے پن کو دور کرنے کے سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ بھاجپا نے سنجیو بالیان کو امیدوار بنایا ہے ، بسپا نے2009ء میں ہاتھی پر سوار ہوکر سنسد میں پہنچے قادر رانا کو پھر موقعہ دیا ہے۔ کانگریس نے یہاں راشٹریہ لوکدل سے گٹھ بندھن کے بوتے پنکج اگروال پر داؤ لگایا ہے جبکہ سپا نے وریندر گوجر کو چناؤ اکھاڑے میں سائیکل کی سواری کا موقعہ دیا ہے۔ہربار ا

کانگریس کو بھروسہ ہے سونیا اس مرتبہ بھی پارٹی کو بچا لیں گی!

پچھلے ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے کانگریس صدر سونیاگاندھی نے اچھا وقت بھی دیکھا ہے اور خراب بھی لیکن خراب وقت میں ورکروں کا حوصلہ نہ ٹوٹنے دینے اور برے دور سے پارٹی کو نکالنے میں ان کی مہارت پر کانگریس میں کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہے۔لیکن اس مرتبہ سونیا گاندھی کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ کانگریس میں جس طرح کی مایوسی کا ماحول اس وقت ہے ایسا پہلے شاید کبھی رہا ہو۔ چناوی سروے 16 ویں لوک سبھا میں کانگریس کو اس کی پارلیمانی تاریخ کی اب تک کی سب سے کم سیٹیں ملنے کی قیاس آرائی کررہے ہیں۔ راہل گاندھی کو پارٹی کا نائب پردھان بنانے کے بعد سے سونیا گاندھی نے خود کو زیادہ وقت تک پردے کے پیچھے سے اپنا رول نبھانے تک محدود رکھا ہے۔ انہوں نے راہل گاندھی کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ فیصلے کرنے کی آزادی بھی دے دی ہے لیکن ساتھ ہی ان پر آنچ نہ آئے اس کے لئے وہ کافی چوکس ہیں۔ ممبئی کی آدرش سوسائٹی میں سابق وزیر اعلی اشوک چوہان کو بچانے کی کوششوں کی تنقید کے باوجود انہیں لوک سبھا کا ٹکٹ دئے جانے کے لئے جب راہل سے سوال پوچھے جانے لگے تو وہ ذمہ داری لینے کے لئے سامنے آئیں۔ لوک سبھا چناؤ میں پارٹی کے کمزور امکانات ک

میرا کمار، سشما سوراج، کملناتھ، جوتر آدتیہ سندھیا کی کامیابی یقینی؟

دلت سیاست کے جانے مانے ستون رہے سابق نائب وزیر اعظم بابو جگجیون رام کے پارلیمانی حلقے ساسا رام سے ان کی صاحبزادے اور لوک سبھا اسپیکر محترمہ میرا کمار ایک بار پھر میدان میں ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے میرا کمار کا مقابلہ جنتادل (یو) سے پارٹی بدل کر آئے چھیدی پاسوان سے ہے۔ اتنا ہی نہیں نریندر مودی سے بھی۔ بھاجپا کا ووٹ بینک مانے جانے والے سورن ووٹر اگر پاسوان کو ووٹ دے دیتے ہیں تو صرف نریندر مودی کو دیش کی کمان سونپنے کے لئے دیں گے۔ جنتادل (یو) نے سابق آئی ایس افسر کے ۔ پی رمیا کو میدان میں اتارا ہے۔ بہار میں کانگریس 10 سیٹوں پر چناؤ لڑ رہی ہے اور ساسا رام ان کی سب سے مضبوط سیٹمانی جارہی ہے۔ میرا کمار کے کھاتے میں ان کے والد سورگیہ جگجیون رام کی وراثت شوہر منجل کمار کی کشواہا برادری ہے۔ قومی سیاست میں بڑا قد مقامی سیاست اور داؤ پیچ سے دوری نہر، سڑک اور ساسا رام اسٹیشن پر ٹرینیں رکوانے جیسے ترقی کے کام اور ریاست آر جے ڈی کے اتحاد سے مسلم اور یادو ووٹروں کی یکمشت حمایتی جیسی باتیں میرا کمار کا پلڑا بھاری کررہی ہیں۔ بھاجپا حمایتی اپنے حق میں دو باتیں گناتے ہیں مودی کی لہر اور لہر ہی چھی

بھاجپا گھوشنا پتر میں دونوں نگیٹیواور پوزیٹیوباتیں ہیں!

کافی جدوجہد کے بعد پہلے مرحلے کا چناؤ شروع ہونے کے قریب تین گھنٹے کی دیری کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے آخر کار اپنا گھوشنا پتر جاری کردیا۔گھوشنا پتروں کو اب شاید ہی کوئی ووٹر سنجیدگی سے لیتا ہو۔ اہم سوال یہ ہے کہ گھوشنا پتر میں جو وعدے کئے جاتے ہیں ان میں سے پورے کتنے ہوتے ہیں؟ ’وعدے ہیں وعدوں کا کیا‘ ایک ہندی فلم کے اس ہٹ گیت سے چناوی گھوشنا پتروں کو لیکر عام آدمی کی مایوسی کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے چناوی وعدوں پر عام آدمی میں ایسی غیر یقینی گھر کرتی جارہی ہے جو ان کے اعتماد تک کو سنکٹ میں ڈال رہا ہے۔ بہرحال بھارتیہ جنتا پارٹی کے گھوشنا پتر میں دونوں باتیں ہیں نگیٹیو بھی اور پوزیٹیو بھی۔ پہلے بات کرتے ہیں نگیٹیو بھی۔ گھوشنا پتر میں کئی ایسے مدعے ہیں جو کانگریس کے مدعوں سے ملتے جلتے ہیں صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔تبھی تو کانگریسی نیتا اسے کٹ پیسٹ جاب کہہ رہے ہیں۔مینو فیسٹو میں نہ تو کوئی ٹائم ٹیبل ہی دیا گیا ہے اور نہ ہی ٹارگیٹ۔ مثال کے طور پر یہ کہیں نہیں کہا گیا کے ہم بھرشٹاچار ، مہنگائی وغیرہ جیسے اہم مدعوں کو اتنے وقت میں ختم کردیں گے۔ اس گھوشنا پتر میں نریندر

آسام۔ کیرل و کرناٹک کا چناوی تجزیہ

آج کے اس مضمون میں بات کروں گا کچھ ریاستوں کی۔ آسام میں 16 ویں لوک سبھا چناؤ کے لئے ووٹنگ کی شروعات 7 اپریل کو ہوگئی ہے۔اتفاق ہے کہ ان چناؤ میں پہلا ووٹ وہیں پڑے گا جہاں دیش میں سب سے پہلے سورج نکلتا ہے یعنی نارتھ ایسٹ میں۔ جہاں آسام کی پانچ اور تریپورہ کی ایک سیٹ پر ووٹ پڑیں گے کل ملاکرپورے نارتھ ایسٹ میں لوک سبھا کی25 سیٹیں ہیں جس میں اکیلے آسام میں 14 سیٹیں آتی ہیں۔2009 ء میں کانگریس کو 7، بھاجپا۔ آسام گن پریشد گٹھ بندھن کو 5، بوڈو پیپلز فرنٹ کو1 اور آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو 1 سیٹ ملی تھی۔ سیون سسٹر کے نام سے جانے جانیوالی 7 ریاستوں سکم،اروناچل پردیش، ناگالینڈ، منی پور، تریپورہ، میزورم، میگھالیہ اور آسام کو جوڑ کر بننے والے اس علاقے کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں سے لے دے کر 2000 کے لگ بھگ بولیاں اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیشیوں کی گھس پیٹھ کا سوال یہاں اس بار بھی اہم مدعا بنا ہوا ہے۔ بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی نے بھی ناجائز طور سے گھسے بنگلہ دیشیوں کے مدعے کو زور شور سے اٹھایا ہے۔ آسام میں کانگریس کی سرکار ہے اور ترن گگوئی مکھیہ منتری ہی

فرقہ پرستی بنام سیکولرزم کی بحث میں غائب ہوئے اصل اہم اشو!

جامع مسجد کے شاہی امام کا فتویٰ ویب پورٹل ،کوبرا پوسٹ کا اسٹنگ آپریشن، عمران مسعود کا متنازعہ بیان اور امت شاہ کی دھمکی سبھی پہلے مرحلے کی پولنگ سے ٹھیک پہلے پولارائزیشن کی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان سب کی شروعات کانگریس امیدوار عمران مسعود نے کی جب انہوں نے سہارنپور حلقے میں ایک ریلی میں کہہ دیا کہ یہ گجرات نہیں یہ سہارنپور ہے جہاں44 فیصدی مسلمان ہیں اور یہاں اگر مودی آئے تو ان کی بوٹی بوٹی کاٹ دی جائے گی۔ کانگریس سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی اور مسعود کو جیل تک جانا پڑا۔ اس کا جواب سنیچر کو امت شاہ اور راجستھان کی وزیر اعلی وسندرا راجے سندھیا نے دیا۔ امت شاہ نے مظفر نگر کے قصبے شاملی میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا جس طرح سے مظفر نگر فسادات میں اکھلیش سرکار نے ایک طرفہ کارروائی کرکے ہندوؤں کی بے عزتی کی ہے اس کا بدلہ لینا چاہئے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کے مرکز میں مودی کی سرکار آئی تو ایک دن میں ہی اکھلیش سرکار گر جائے گی۔ ادھر وسندرا نے ایک ریلی میں کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ مودی کو کاٹ دیں گے چناؤ کے بعد دیکھیں گے کون کسے کاٹے گا۔ اب بات کرتے ہیں کوبرا پوسٹ کے ا

پٹتے اروند کیجریوال نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے!

بیچارے اروند کیجریوال نہ گھر(دہلی) کے رہے نہ گھاٹ (کاشی) کے رہے۔ بیچ میں ہی لٹک گئے۔ آئے دن کیجریوال پٹتے رہتے ہیں۔ پچھلے جمعہ کو جامعہ کے باشندے عبدالواحد نے حملہ کردیا۔ ساؤتھ دہلی کے پارلیمانی سیٹ کے لئے روڈ شو کے دوران اس نے کیجریوال کو گھونسا جڑدیا۔ پولیس کو دئے بیان میں واحد نے خود کو ’’آپ‘‘ پارٹی کا ورکر بتایا۔ اس کا کہنا ہے وہ مظفر نگر فسادات پرکیجریوال کی خاموشی اور ملاقات کا وقت نہ ملنے سے خفا تھا۔ کیجریوال جمعہ کو قریب 10 بجے ساؤتھ دہلی کے گوبند پوری میٹرو اسٹیشن سے روڈ شو پر نکلے تھے۔ تھوڑی دور آگے بڑھے اور اپنے حمایتیوں سے ہاتھ ملا رہے تھے تبھی واحد گاڑی پر چڑھ گیا اور اس نے ان کی پیٹھ پر گھونسا مارا اور تھپڑ مارنے کی بھی کوشش کی۔کیجریوال کا رد عمل تھاکچھ لوگ وزیر اعظم بننے کے لئے کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ یعنی یہ حملہ نریندر مودی نے کروایا؟ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں جب اروندکیجریوال حملہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان پر حملے ہوچکے ہیں۔28 مارچ کو ہریانہ میں واقع چرخی دادری میں ایک شخص نے ان پر حملہ کردیا تھا۔ کیجریوال وقت رہتے خود کو جھوکا کر بچ گئے۔ حملہ کرنے والے نے خود کو سم

امیٹھی میں بیٹا، بہو اور وشواس میں جنگ!

دیش کی ہائی پروفائل سیٹوں میں سے ایک امیٹھی کی سیٹ ہے۔80 کی دہائی میں کانگریس نیتا سنجے گاندھی کے آنے کے بعد سے کچھ ایک موقعوں کو چھوڑدیا جائے تو امیٹھی پارلیمانی علاقہ نہرو۔ گاندھی پریوار کا گڑھ رہا ہے۔گاندھی پریوار نے ہمیشہ سیدھی لڑائی میں یہاں بڑی جیت درج کی ہے۔اپوزیشن پارٹی کے امیدوار کبھی بھی گاندھی پریوار کو یہاں سے چنوتی نہیں دے پائے۔امیٹھی کے کل12 چناؤ (دو ضمنی انتخابات سمیت) میں 9 بار نہرو ۔گاندھی پریوار کے امیدوار رہے جبکہ تین بار پریوار کے قریبی کیپٹن ستیش شرما میدان میں اترے۔ امیٹھی سے راہل گاندھی بہت مضبوط امیدوار ہیں۔ کانگریس نائب صدر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کانگریس کے پی ایم امیدوار بھی ہیں۔ کانگریس کا بہت حد تک دارومدار راہل گاندھی پر منحصر ہے۔اس بار امیٹھی کا رن گاندھی پریوار کے بیٹے راہل ، ٹی وی سیریل کی بہواسمرتی ایرانی اور عام آدمی پارٹی کے کمار وشواس کے ساتھ ہی بسپا کے بیچ ہونا طے سا لگتا ہے اگر امیٹھی کی راہل گاندھی کے کام اور پریوار سے ہے تو بھاجپا کی اسمرتی ایرانی بھی ساس بھی کبھی بہو تھی کی تلسی کے روپ میں گھر گھر پہچان رکھتی ہیں۔ وشواس کی کویتاؤں سے بھی لوگ و

ہریانہ میں تکونے مقابلے میں کانگریس کو ہڈا کا ہی سہارا!

ہریانہ میں ہورہے لوک سبھا چناؤ صوبے کے کئی دگجوں کے لئے موت و زیست کی لڑائی کا سوال بن گیا ہے۔ ایک جانب ہریانہ کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا کی ساکھ داؤ پر ہے تو وسری جانب سورگیہ چودھری دیوی لال کے بیٹے سابق وزیر اعلی اوم پرکاش چوٹالہ کی زیر قیادت والی انڈین نیشنل لوک دل کی زندگی داؤ پر ہے۔ ہریانہ میں مرکزی سرکار اور راہل گاندھی کے بجائے بھوپندر سنگھ ہڈا کے کام کی بنیاد پر ووٹ مانگا جارہاہے لیکن مرکزی سرکار کی نیتیوں کی وجہ سے اینٹی انکمبینسی فیکٹر کا اثر ہریانہ میں بھی دکھنا فطری ہے۔ کانگریس مان کر چل رہی ہے کہ دوسری ریاستوں کی طرح اس کے ہریانہ کے بھی سبھی سانسد (کل9) واپسی کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ 10 پارلیمانی حلقوں والے ہریانہ میں کانگریس تین چار امیدواروں سے آس لگا رہی ہے۔ہریانہ لوک سبھا چناؤ اس لئے بھی اہم ہیں کیونکہ صوبے میں اسی سال اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ اس لئے عام چناؤ بھوپندر سنگھ ہڈا کے لئے سیمی فائنل جیسا ہے۔ گذشتہ عام چناؤ کے وقت ہڈا کی لہر تھی اور کانگریس یہاں کی 10 لوک سبھاسیٹوں میں سے9 جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ راجیہ میں اوم پرکاش چوٹالہ اور ان کے بیٹے اجے چوٹالہ کو