اشاعتیں

مئی 5, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پنجرے میں بند سرکاری طوطا سی بی آئی

بدھوار کو دو بڑے فیصلوں کا دن تھا پہلا کرناٹک میں جنتا جناردن کو مینڈیٹ دینا تھا اور دوسرا دیش کی بڑی عدالت سپریم کورٹ کے فیصلہ کا دن تھا۔ صبح کرناٹک نتائج نے کانگریس کو جہاں خوشی فراہم کی اور وہ پھولی نہ سمائی لیکن دوپہر ڈھلتے ڈھلتے سپریم کورٹ نے اس کی امیدوں پر پانی پھیردیا اور سورج ڈھل گیا۔ کوئلہ گھوٹالے کی سماعت کررہی تین نفری بنچ نے سی بی آئی کے ساتھ ساتھ سرکار کو جم کر لتاڑ لگائی۔ عدالت نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہا کہ سرکار نے سی بی آئی کی جانچ رپورٹ میں اس حد تک چھیڑ چھاڑ کی ہے کہ اس کا بنیادی مقصد ہی بدل گیا۔ کوئلہ گھوٹالے کی جانچ میں چھیڑ چھاڑ میں عدالت نے جیسی لتاڑ لگائی اس سے اس کی رہی سہی ساکھ مٹی میں مل گئی۔ ایسا اسلئے بھی ہوا کیونکہ بڑی عدالت نے سی بی آئی کی رپورٹ میں تبدیلی کرنے کے لئے کوئلہ وزارت کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے دفتر کے جوائنٹ سکریٹری کو بھی نشانے پر لیا۔سپریم کورٹ کی طرح سے دیش کو بھی اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ آخر ان دونوں حکام کو سی بی آئی رپورٹ دیکھنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیونکہ یہ پہلے سے صاف ہے کہ ان دونوں حکام نے یہ جانچ رپورٹ دیکھی ہی نہیں بلکہ اسے

پارلیمنٹ میں ’وندے ماترم ‘کی کھلی توہین

جمہوریت کا مندر مانے جانے والی پارلیمنٹ میں مریادائیں لانگنے کا ایک اور معاملہ بدھ کو ہمیں دیکھنے کو ملا۔ بہوجن سماج پارٹی کے ایک ایم پی اے قومی گیت ’وندے ماترم‘ کی ہی توہین کرڈالی۔ اترپردیش کے سمبھل سے چنے گئے ممبر پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق ہاؤس کے دوران ایوان میں بجنے والے وندے ماترم کی دھن کے درمیان اٹھ کر باہر چلے گئے۔ اپنے اس عمل کو صحیح مانتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا مذہب اسلام خدا کے علاوہ کسی اورکی عبادت کی اجازت نہیں دیتا اس لئے مستقبل میں بھی ایسی صورت بننے پر ایسا ہی کریں گے جو ایوان میں انہوں نے بدھوار کو کیا۔ حالانکہ برق کے برتاؤ کی لوک سبھا اسپیکر میرا کمار نے تلخ نکتہ چینی کرتے ہوئے انہیں سختی سے خبردار کیا اور کہا کہ مستقبل میں ایسا کبھی نہیں ہونا چاہئے۔ بھاجپا نے قومی گیت کی توہین پر برق کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ممبران کے اپنی سیٹ پر پہنچتے ہی روایت کے مطابق ہاؤس ختم ہونے کے لئے وندے ماترم کی دھن بجنے لگی۔ تمام ممبران ایوان میں قومی گیت کے تئیں احترام میں کھڑے ہوگئے۔ اس بیچ اچانک ممبر پارلیمنٹ شفیق الرحمان برق باہر نکل کر جانے لگے ان کی بغل میں

کرناٹک میں کانگریس جیتی نہیں بھارتیہ جنتا پارٹی ہاری ہے

7 سال کے بنواس کے بعد اپنے پرانے جنوبی گڑھ میں کانگریس کی واپسی ہوئی ہے۔ قومی سطح پر گھوٹالوں کے الزامات سے گھری کانگریس نے24 ممبری اسمبلی کے چناؤ میں شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 121 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے جو اکثریت کے نمبر 113 سے آگے بڑھ گئی ہے۔وہیں مقامی سطح پر کرپشن کے اشوسے گھری اور اپنے پانچ سال کے عہد میں تین وزراء اعلی بدلنے والی بھاجپا کو محض30 سیٹوں پر جیت ملی ہے۔ 2008ء کے چناؤ میں پارٹی کو110 سیٹیں ملی تھیں۔ اسی طرح جنتا دل ایس کی کارکردگی میں کوئی خاص بہتری نہیں دکھائی دی،اسے بھی40 سیٹیں ملیں۔ گذشتہ چناؤمیں اسے28 سیٹیں ملیں تھی۔ ادھر سابق وزیر اعلی بی ایس یدی یروپا کی پارٹی کے جی پی کو کل 6 سیٹیں ملیں لیکن اس کا کارنامہ یہ ضروررہا کے اس نے کرناٹک میں بھاجپا کی پہلی سرکار کا بنٹا دھار کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہماری رائے میں کانگریس جیتی نہیں بلکہ بھاجپا ہاری ہے۔ ساؤتھ انڈیا میں بھاجپا کا ایک واحد قلعہ اگر ڈھے گیا تو اس کے لئے اس کی اپنی کارگذاری ہی ذمہ دار ہے۔اچھا انتظامیہ اور بہتر ساکھ کا رونا رونے والی بھاجپا کی کرناٹک سرکار کرپشن اور بدانتظامی کی علامت بن گئی

پڑوس میں چناؤ: نواز شریف فی الحال سب سے آگے

پاکستان میں11 مئی کو عام چناؤ ہونے جارہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے بیچ ہورہے چناؤ میں کون جیتے گا یہ کہنا کافی مشکل ہے۔ قومی اسمبلی کیلئے کل سیٹیں 342 ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے لئے کل2721 سیٹوں میں عورتوں کے لئے 60 سیٹیں اور اقلیتوں کیلئے 10 سیٹیں محفوظ ہیں۔ سیاسی طور سے سب سے طاقتور پنجاب صوبہ ہے۔ یہاں پر 148 سیٹیں ہیں۔ یہاں سے 55 فیصدی ممبر چنے جائیں گے۔ روایتی طور سے نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے لیکن اس بار عمران خاں کو بھی کچھ حلقوں میں کامیابی ملنے کی امید ہے۔ اس طرح صوبہ پنجاب میں سہ رخی مقابلہ ہونے کی امید ہے۔ اقتدار مخالف لہر ، دہشت گرد حملوں کا خطرہ اور لیڈر شپ نہ ہونے کے سبب پی پی پی کو سب سے زیادہ خمیازہ اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس کے بعد صوبہ سند ہے جہاں 61 سیٹیں ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کا کاروباری مرکز کراچی اور صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں کافی اثر ہے۔ خان عبدالغفار خاں سرحدی گاندھی کی اپنی عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سخت مقابلہ ہے۔ اس کے بعد خیبرپختون خواہ صوبے میں 35 سیٹیں ہیں۔ یہاں عمران خاں اور نواز شریف کی پارٹی کے ب

سرکار حکمت عملی مات و بے شرمی سے بھلے ہی بچا لے پر کب تک؟

کانگریس کے ترجمان و وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دیش کا آئین کہتا ہے جب تک شخص کا قصور ثابت نہیں ہوتا تب تک اسے بے قصور مانا جانا چاہئے۔ اس لئے جانچ رپورٹ آنے تک وزیر قانون اشونی کمار اور ریل منتری پون کمار بنسل اپنے عہدے پر بنے رہیں گے۔ کانگریس کو یہ کہہ کر کچھ دنوں کی مہلت مل جائے گی لیکن دونوں وزرا کو دیر سویر استعفیٰ دینا ہی پڑے گا۔ بلکہ قانونی کارروائی سے بھی مقابلہ آرا ہونا پڑسکتا ہے کیونکہ کوئلہ گھوٹالے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ہم اشونی کمار کے بارے میں کوئی رائے زنی نہیں کرسکتے لیکن جہاں تک ریل منتری پون کماربنسل کا سوال ہے وہ کیوں نہیں دیں گے استعفیٰ؟ ممکن ہے یوپی اے سرکار کو کرناٹک چناؤ میں کامیابی طاقت دے دے لیکن پون بنسل کو بچانے کابہانہ نہیں مل سکتا۔ ریلوے بورڈ میں ملائی دار عہدہ حاصل کرنے کے لئے بھانجے کو دی گئی رشوت کو وزیر موصوف کیسے جھٹلائیں گے؟ ریلوے بورڈ کے ممبر مہیش کمار1975ء ریلوے میں ہیں اور ان کے اس لمبے تجربے کی طرح بنگلورو کی ریل ٹھیکیدار کمپنی منجوناتھ کابھی بڑا تجربہ ہے۔اتنے تجربے کار لوگ کروڑ روپے کی رقم کا د

چینی فوج پیچھے ہٹی پر کس قیمت پر؟

مشرقی لداخ کے دولت بیگ اولڈی علاقے میں چینی فوج نے15 اپریل کو19 کلو میٹر اندربھارت کی سرحد میں گھس کر اپنے تمبو گاڑھ لئے تھے اس کے جواب میں ہندوستانی فوج نے بھی چینی فوج کے خیموں کے سامنے اپنے تمبو گاڑھ لئے تھے۔ اس طرح20 دنوں تک آمنے سامنے فوجیں کھڑی رہیں۔ رشتوں میں کشیدگی بڑھنے لگی تھی ۔ پھر بھارت سرکار نے اعلان کردیا کہ چینی فوجیوں نے اپنے تمبو اکھاڑ لئے ہیں اور وہ جتنا آگے بڑھے تھے وہ پیچھے لوٹ گئے جہاں کبھی وہ تعینات تھے۔ وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اسے سرکار کی بڑی ڈپلومیٹک جیت قراردیتے ہوئے کہا کہ ان کا دورہ پروگرام کے مطابق ہوگا۔ آہستہ آہستہ اصلیت سامنے آنے لگی ہے۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے50 فوجی واپس لوٹ گئے۔لیکن جو بات ہے عوام کو نہیں بتائی گئی وہ یہ تھی کہ سودے بازی کی گئی اور اسکی ایک شرط یہ تھی کہ اگر چینی فوجی 19 کلو میٹر پیچھے ہٹیں گے تو بھارتیہ فوج بھی پیچھے ہٹے گی۔ 14 سال پہلے کارگل میں اپنی سرزمین کو خالی کرانے کیلئے جان کی بازی لگانے والی ہندوستانی فوج کے لئے ڈی بی او سیکٹر میں پیچھے ہٹنے کی جیت حقیقی طور سے شرمناک ہارہے۔ بھارتیہ فوج کو لداخ سیکٹر میں اپنی ہی زم

اپنے عیبوں کو چھپانے کیلئے یہ سرکار کسی بھی حد تک جاسکتی ہے

جس ڈھنگ سے سی بی آئی نے ریلوے وزیر پون کمار بنسل کے بھانجے کو گرفتار کیاہے اور ان کے ذریعے گھوٹالے کا پردہ فاش کیا ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سی بی آئی آہستہ آہستہ سرکاری چنگل سے نکل رہی ہے یا یوں کہیں کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا سپریم کورٹ کے سخت رویئے سے گھبرا گئے ہیں اور عدالت نے جو انہیں کوئلہ گھوٹالے میں ڈانٹ لگائی اس کا اثر ہونے لگا ہے یا پھر انہیںیہ ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں اگلی تاریخ میں سپریم کورٹ ان کو ہی کٹہرے میں نہ کھڑا کردے اور سیدھی کارروائی کرڈالے؟ وجہ جو بھی ہو ریل منتری کے بھانجے کا پردہ فاش کرکے سی بی آئی نے یہ دکھانے کی کوشش ضرور کی ہے کہ وہ اب سرکار کے اشاروں پر نہیں چلتی اورمنصفانہ جانچ کرے گی۔ کوئلہ گھوٹالے پر سپریم کورٹ میں ایک اہم حلف نامہ داخل کرنے سے ایک دن پہلے سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا نے زور دیکر کہا کہ اس معاملے میں ایجنسی کی جانچ منصفانہ اور صحیح راہ پرچل رہی ہے اور کسی بھی ملزم یا مشتبہ کو بخشا نہیں جائے گا۔ اب سرکار کو اس بات کی تشویش جتائی جارہی ہے اگر سی بی آئی اپنی پر اتر آئی تو کئی دبے معاملے اٹھ سکتے ہیں۔ سی بی آئی کے ڈائریکٹر رن

مکیش انبانی کو سرکاری سکیورٹی دینے پرسپریم کورٹ ناراض

عام آدمی کی سلامتی کو بھگوان بھروسے رکھتے ہوئے بھارت کے سب سے امیر شخص مکیش انبانی کو سکیورٹی مہیا کرانے پر سپریم کورٹ نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مرکزی سرکار سے جواب طلب کیا ہے۔جسٹس جی ایس سنگھوی کی بنچ نے بدھوار کو کہا کہ اگر سکیورٹی کافی ہوتی تو دہلی میں پانچ سال کی بچی سے بدفعلی نہ ہوتی۔ امیر لوگ تو پرائیویٹ سکیورٹی رکھ سکتے ہیں پھر بھی انہیں سرکاری سکیورٹی دی جارہی ہے۔ پچھلے مہینے وزارت داخلہ نے انبانی کو زیڈ سکیورٹی مہیا کرائی تھی۔ بنچ نے مکیش انبانی کے نام کا ذکر کئے بغیر کہا کہ ہم نے اخباروں میں پڑھا کہ وزارت داخلہ نے ایک شخص کو سی آئی ایس ایف سکیورٹی مہیا کرائی ہے۔ بنچ نے کہا کہ سرکار ایسے لوگوں کو کیسے سکیورٹی مہیا کراسکتی ہے؟ اگر انہیں کسی طرح کی دھمکی کا اندیشہ تھا تو وہ پرائیویٹ ملازمین رکھ سکتے تھے۔ بنچ نے کہا پہلے پنجاب میں بزنس مین کو سکیورٹی دینے کی روایت تھی لیکن یہ اب ممبئی پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ بنچ نے کہا ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کس شخص کو ایکس وائی زیڈ زمرے کی سکیورٹی مہیا کرائی گئی۔ ہمیں صرف عام آدمی کی سلامتی کی فکر ہے۔ بڑی عدالت اترپردیش کے ایک با

چین کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمت اور قوت ارادی ضروری

کچھ دن پہلے ہی چین کی نئی حکومت نے ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی سمت میں پانچ نکاتی فارمولے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اور چین کو باہمی رشتوں کو آگے بڑھانے کے لئے ڈپلومیٹک کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ چین کی اس پہل کا ہندوستان نے خیر مقدم کیا تھا اور امید کی تھی کے برسوں سے لٹکے مسئلے اب مل بیٹھ کر سلجھائے جائیں گے لیکن جیسا ہمیشہ ہوتا آرہا ہے چین کے قول اور فعل میں کافی فرق ہے۔ بھارت کوزیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑا اور چین نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا۔ لداخ کے دولت بیگ اولڈی سیکٹر میں چین بھارت کی سرحد میں19 کلو میٹر تک گھس آیاتھااور اس نے نہ صرف اپنے تمبو گاڑھ لئے تھے ۔ اب تازہ اطلاعات ملی ہیں کہ چین نے اپنے فوجی واپس بلا لئے ہیں۔ذرائع کے مطابق بھارت۔ تبت پولیس کے جوانوں کے ذریعے اپنی مستعدی دکھانے کی وجہ سے چینی فوجیوں نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے ہیں۔خیال رہے چینی فوجیوں نے جو ٹینٹ لگائے وہ کنٹرول لائن کے 19 کلو میٹر دوری پر تھے۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق چین کے ذریعے ہندوستان کی سرحد میں قبضہ کرنے کی وجہ بھارت 750 مربع کلو میٹر کے خطے سے اپنی پکڑ گنوا سکتا ہے کیونکہ ایسا

بلا تاخیر رام سیتو کو قومی وراثت قرار دیجئے

بھگوان رام کے بنائے رام سیتو کو توڑ کر سیتو سمندرم پروجیکٹ کی تعمیل کے لئے جہاں مرکزی سرکار اڑی ہوئی ہے وہیں محترمہ جے للتا کی انا ڈی ایم کے سرکار نے مرکز کے اس اہمیت کے حامل پروجیکٹ کی پوری طرح مخالفت کی ہے۔اس نے عدالت میں کہا ہے کہ رام سیتو کو قومی وراثت قرار دیا جائے۔ کیونکہ مرکزی پروجیکٹ سمیت متبادل راستوں کو ماحولیاتی ماہرین آر کے پچوری کے کمیٹی پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔ مرکزی حکومت نے پچوری کمیٹی کومسترد کرتے ہوئے عدالت نے فروری میں کہا تھا کہ 829 کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد اس پروجیکٹ کو بند نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ میں تاملناڈو سرکار کی جانب سے داخل حلف نامے میں کہا گیا ہے پچوری کمیٹی متبادل راستہ الائنمنٹ 4 اے اور6 اے کو رپورٹ میں مسترد کرچکی ہے۔ رپورٹ میں کمیٹی نے صاف کیا ہے کہ سیتو سمندرم پروجیکٹ کا متبادل راستہ قابل قبول نہیں ہے اور یہ عوامی مفاد میں بھی نہیں ہے۔ سیتو سمندرم پروجیکٹ کی ہمیشہ سے مخالف رہی جے للتا سرکار نے کہا اس پروجیکٹ کو بیچ میں ہی چھوڑدیا جانا چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت اگست تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔ مرکزی جہاز رانی وزارت کی جانب سے دائر ح

کون تھا سربجیت اس کی کہانی اسی کی زبانی

لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں آئی ایس آئی کے ذریعے قتل کی سازش رچی تھی اور بدنصیب شکار سربجیت سنگھ کو آخر کار وطن کی مٹی نصیب ہوئی۔ زندہ تو وہ نہیں لوٹ سکا لیکن تابوت میں ضرور لوٹا۔ سربجیت سنگھ کو پاکستان نے اذیتیں دیکر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت مارا۔ بھارت میں ہوئے سربجیت کے پوسٹ مارٹم سے پتہ لگا کہ قاتلوں کا ارادہ سربجیت سنگھ کو موت کی نیند سلانا تھا۔ امرتسر کے قریب ہسپتال میں 6 ڈاکٹروں کی ٹیم نے پوسٹ مارٹم کیا جس میں انکشاف ہوا اس کے جسم میں گوردہ اور دل نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں نکال لی گئی ہوں گی۔ سربجیت پر حملہ26 تاریخ کو نہیں بلکہ20 دن پہلے ہوا تھا۔ سربجیت کے جسم پر کئی زخموں کے نشان پائے گئے جو اشارہ کرتے ہیں جیل میں اس پر حملہ کرنے والے لوگ یقینی طور پر دو سے زیادہ تھے۔ اس کے جسم کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایک اکیلا شخص اس جیسے ہٹے کٹے شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یقینی طور پر زیادہ لوگوں نے اس پر حملہ کیا۔ ڈاکٹر نے بتایا سربجیت کے جسم پر زخم 6-7 دن پرانے تھے۔ سربجیت کی کھوپڑی دو حصوں میں ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس کے جبڑے کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ سربجیت کی