اشاعتیں

ستمبر 24, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سنہا نے پانی میں کنکڑ پھینکے۔ اپوزیشن کے سرسے ملایا سر

بی جے پی کے رہنما یشونت سنہا نے اپنی پارٹی اور حکومت کو معیشت پر ایک مضمون بم پھینکنے کی طرف سے دفاعی پوزیشن میں لایا ہے. نہ صرف اس نے، انہوں نے حزب اختلاف کو مودی حکومت پر حملے کو تیز کرنے کا موقع دیا ہے. حزب اختلاف کی جماعتوں اور وزیر اعظم کے مخالفین نے ان کی بدعنوانی کا اظہار کیا ہے. وہ بہت سارے سوشل میڈیا پر بھی رعایت کی جا رہی ہیں. سنہا کا آرٹیکل ایک ایسے وقت میں شائع کیا گیا ہے جب ملک کی معیشت اسلحہ پر ہے اور حزب اختلاف خاص طور پر مرکزی حکومت کی اہمیت رکھتا ہے. سنہا کا خیال ہے کہ ہندوستانی معیشت نے فتنہ کیا ہے اور مالی بدانتظامی، رساو اور جی ایس ایس کے غریب اعدام میں حقیقی اقتصادی ترقی کی شرح 3.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے. انہوں نے کہا ہے کہ اب تک مالیاتی وزیر کے لبرلائزیشن کو سب سے زیادہ خوش قسمت فنانس کے وزیر سے، خام تیل کی قیمت اس وقت میں گر گئی. اس کا فائدہ اٹھانا، غیر اعدام دار اثاثوں (این پی اے) منصوبوں کو کنٹرول اور روک دیا جا سکتا ہے منصوبوں کو مکمل کیا جا سکتا ہے. سرکاری اعداد و شمار میں جی ڈی پی کی موجودہ شرح 5.7 فیصد ہے، لیکن حقیقت میں یہ 3.7 فیصد ہے. مودی حکومت نے 2015 می

چھوٹی لڑکی سے دنیا کی سب سے طاقتور خاتون انجیلا مرکل

انجیلا مرکل چوتھی مرتبہ جرمنی کی کمان سنبھالنے کوتیار ہیں۔ برلن کے پاس چھوٹے سے گاؤں میں پلی بڑھی مرکل آج دنیا کی سب سے طاقتور خواتین میں سے ایک ہیں۔ سیاسی کیریئر میں اتھل پتھل کے درمیان ان کا قد بڑھتا ہی گیا۔ کبھی جس خاتون کو چھوٹی لڑکی کہہ کر نظرانداز کیاگیا۔ آج وہی دنیا کی سب سے طاقتور خاتون مانی جاتی ہیں۔ بیشک جرمنی کے عام چناؤ کے نتیجے ایک معنی میں اندازے کے مطابق ہی آئے ہیں، تو ایک حدتک چونکانے والے بھی کہے جاسکتے ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کی پارٹی سی ڈی یو (کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی) اور ان کی اتحادی پارٹی سی ایس یو (کرسچن سوشل یونین) کے اتحاد کی جیت یا بڑھت طے مانی جارہی تھی، نتیجہ بھی ویسا ہی آگیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مرکل کی مقبولیت برقرار ہے لیکن غور طلب ہے کہ سی ڈی یو اور سی ایس یو اتحادکو 33 فیصد ہی ووٹ مل پائے جو کہ دہائیوں میں اس کا سب سے کم ووٹ فیصد ہے۔ مرکل کی پارٹی اور ان کی اتحادی جماعت کو 32.8 فیصد ووٹ ملے اور جرمنی کی بڑی پارٹی (اپوزیشن) یعنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کو محض 20.7 ووٹ ملے ہیں۔ یہ اس لئے اہم ہے کہ دونوں کے ووٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ حکمرا

آتنکوادیوں کو زمین کے ڈھائی فٹ نیچے گاڑھ دیں گے

جموں و کشمیر میں جموں سمانگ کے چناب ویلی خطے میں دہشت گردوں کے قدم ایک بار پھر تیزی سے بڑھنے لگے ہیں۔ بانیہال کے ایس ایس بی کیمپ پر ہوا آتنکی حملہ اسی کڑی کا حملہ بتایا جارہا ہے۔ ادھر فوج نے جموں و کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے اوری میں پچھلے سال ہوئے حملہ کو دوہرانے کی سازش کو ناکام کرتے ہوئے ایتوار کو تین دہشت گردوں کو مار گرایا۔ مڈ بھیڑ کے دوران ایک فوجی اور تین شہری زخمی ہوگئے۔ ادھر بارہمولہ کے سوپور علاقہ میں ہوئے دستی بم حملہ میں تین سیکورٹی فورس کے جوان زخمی ہوگئے۔ دہشت گردوں نے پچھلے برس کی طرح اری میں ایک فوجی کیمپ پر حملہ کو انجام دینے کی سازش رچی تھی۔ ایک بڑی سازش کو ناکام کردیا گیا۔ پچھلے برس ایک فوجی اڈے پر فدائی حملے کی طرح دہشت گردوں نے اس بار بھی سازش رچی تھی، لیکن پولیس اور فوج کے ہاتھ یہ خبر پہلے ہی لگ گئی تھی۔ فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جارحانہ رخ اپنا رکھا ہے۔ اس سختی سے ہی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو منہ توڑ جواب دیا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال اب تک جموں و کشمیر میں 144 دہشت گرد مارے جاچکے ہیں۔یہ تعداد اس دہائی میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سے پہلے 2016 میں 150 آتنکی مار

ایک اور قلم کا سپاہی شہید ہوا

ایک اور صحافی قتل کردیا گیا ہے۔ سینئر صحافی کے جے سنگھ (69) و ان کی ماں گورچرن کور (92) کا ان کے موہالی میں واقع مکان میں قتل کردیا گیا۔ کے جے سنگھ کے پیٹ و گلے پر چاقوں سے حملہ کیا گیا جبکہ ان کی ماں کو گلا دبا کر مارا گیا۔ دونوں کی لاشیں الگ الگ کمروں میں پڑی ملیں۔ قاتل کے جے سنگھ کی 20 سال پرانی ہرے رنگ کی فورڈ آئیکان کار اور ایل ای ڈی بھی لے گئے۔ چنڈی گڑھ میں انڈین ایکسپریس، دی ٹریبون اور ٹائمس آف انڈیا کے سابق نیوز ایڈیٹر کا قتل پروفیشنل قاتلوں نے کیا ہوسکتا ہے۔ جناب سنگھ کے جسم پر 14-16 چاقو مارے جانے کے نشان تھے۔ ایک نشان تو ان کے دل کے قریب تھا۔ ان کے داہنے ہاتھ کی انگلیاں بھی کٹی ہوئی تھیں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے کئی صحافیوں کے قتل کے معاملے سامنے آئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق جانچ کو بھٹکانے کے لئے لٹیرے گھر سے ٹی وی اور کار لے گئے ہیں کیونکہ گھر کا قیمتی سامان گھر میں ہی پڑا ہے۔ یہاں تک کہ کے جے سنگھ کے گلے میں سونے کی چین اور ماں گورچرن کور کا سارا سونا بھی ویسے ہی پڑا تھا۔ کے جے سنگھ نے گھر میں ہی اسٹوڈیو بنا رکھا تھا۔ ان کا لیپ ٹاپ اور کیمرہ بھی لٹیرے نہیں لے کر گئے۔ یہ حادث

وہ لڑائی جب چین پر بھارت بھاری پڑا!

جب ڈوکلام میں چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے تھیں تو چینی میڈیا بار بار بھارت کو یاد دلاتا تھا کہ 1962 میں چین کے سامنے بھارتیہ فوجیوں کی کیا گت ہوئی تھی۔ چین کے سرکاری میڈیا نے کبھی بھی پانچ سال بعد 1967 میں ناتھولا میں ہوئے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا جس میں اسے بھارت نے دھول چٹائی تھی۔ 1962 کی لڑائی کے بعد بھارت اور چین نے ایک دوسرے کے یہاں سے اپنے سفیر واپس بلا لئے تھے۔ دونوں راجدھانیوں میں ایک چھوٹا مشن ہی کام کررہا تھا۔ اچانک اپنی عادت سے مجبور چین نے الزام لگایا کہ بھارتیہ مشن میں کام کررہے دو ملازم بھارت کے لئے جاسوسی کررہے ہیں۔ انہوں نے ان دونوں کو فوراً اپنے یہاں سے نکال دیا۔ چین یہیں پر نہیں رکا۔ وہاں کی پولیس اور سیکورٹی فورس نے بھارت کے سفارتخانے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس کے اندر اور باہر جانے والے لوگوں پر روک لگادی۔ بھارت نے بھی چین کے ساتھ وہی سلوک کیا۔ یہ کارروائی 3 جولائی 1967 کو شروع ہوئی اور اگست میں جاکر دونوں ملک ایک دوسرے کے سفارتخانوں کی گھیرابندی توڑنے کے لئے راضی ہوئے۔انہی دنوں چین نے شکایت کی کہ بھارتیہ فوجی ان کی بھیڑوں کے ریوڑ کو ہانک کر بھارت میں ل

آخر بی ایچ یو طالبات کا قصور کیا تھا

بنارس ہندو یونیورسٹی میں سنیچر کی رات طالبعلم و طالبات پر جو پولیس کا لاٹھی چارج ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر ٹھیک وقت پر اس سے نمٹ لیا جاتا تو یہ حالات نہیں بنتے۔ واردات کی شروعات اس وقت ہوئی جب یونیورسٹی کمپلیکس میں طالبات سے بڑھتے چھیڑ خانی کے واقعات کے خلاف یونیورسٹی کے طلبا جمعرات سے ہی احتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔ اس احتجاجی مظاہرے کی شروعات اس وقت ہوئی جب آرٹ فیکلٹی کی ایک طالبہ اپنے ہوسٹل لوٹ رہی تھی۔ موٹر سائیکل پر سوار تین لوگوں نے مبینہ طور پر اس سے چھیڑ چھاڑ کی۔ شکایت کنندہ کے مطابق جب اس نے ان کی کوششوں کی مذاحمت کی تو تینوں لوگوں نے اس کے ساتھ گالی گلوچ شروع کردی اور بھاگ گئے۔ طالبہ نے الزام لگایا کہ موقعہ واردات سے تقریباً 100 میٹر دور موجود سیکورٹی گارڈوں نے ان لوگوں کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس نے اپنے سینئر طلبا ساتھیوں کو اس بارے میں بتانے کی جگہ وارڈن کو واقعہ کی جانکاری دی۔ وارڈن نے اس پر اس سے الٹا پوچھا کہ وہ اتنی دیر سے ہوسٹل کیوں لوٹ رہی تھی۔ وارڈن کے جواب نے طالبہ کے ساتھیوں کو ناراض کردیا۔ وہ جمعرات کو کمپلیکس کے مین گیٹ پر دھرنے پر بیٹھ گئی۔ احتجاجی

کروڑوں لوگوں کی لائف لائن ان ندیوں کو بچاؤ

کروڑوں لوگوں کی لائف لائن و روزی روٹی و سیاحتی کشش کی جگہ رہیں بھارت کی ندیاں آج اپنے سنہرے ماضی کی چھایہ بن کر رہ گئی ہیں۔ لگاتار سوکھتے جانے سے اس کے پاٹ سکڑنے لگے ہیں۔ آلودگی نے انہیں میلا کردیا ہے اور کہیں کہیں ندیوں کا پانی پینے تو کیا نہانے کے لائق بھی نہیں رہ گیا ہے۔ ایسے میں یہ خوشی اور تشفی کی بات ہے کہ آخر کسی نے تو ندیوں میں نئی روح ڈالنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ دنیا کی مشہور ایشا فاؤنڈیشن کی بانی ،یوگ راج، جانے مانے مصنف اور مقرر ست گورو جگی واسودیو نے یہ ملک گیر مہم چھیڑی ہے، پدم وبھوشن سے نوازے ست گورو جگی واسو دیو گاندھی جینتی (2 اکتوبر) کو دہلی میں ندی ریلی سے ختم ہونے والے 30 دنوں کی اس مہم کے دوران کنیا کماری سے ہمالیہ تک دیش کی 16 ریاستوں کا سفر خود گاڑی چلا کر طے کرتے ہوئے دیش کی جنتا کو اس بات کے لئے بیدار کررہے ہیں کہ اگر وقت رہتے ہم نے قدم نہیں اٹھایا تو اگلی پیڑھی پینے کے پانی تک کو ترس جائے گی۔ دراصل ہم اپنی ندیوں کو پہلے ہی اتنا نقصان پہنچا چکے ہیں کہ اگلی پیڑھی کو نقصان پہنچانے کیلئے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ یہ کام کسی ایک کے بس میں نہیں ہے، اس لئے مرکزی سرکار سے ہم

کھسکتی معیشت : تین برس میں کم از کم سطح پر پہنچی

مسلسل پانچ سہ ماہیوں سے ترقی شرح میں جاری گراوٹ سے سرکار کا فکر مند ہونا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کاخاص زور اقتدار میں آنے کے بعد سے ترقی پر رہا ہے۔ معیشت کے محاذ سے آرہی مایوس کن خبروں و معیشت کی سستی کو لیکر اپوزیشن ہی نہیں بلکہ سرکار کے حمایتی اسے گھیرنے میں لگے ہیں۔ بھاجپا ایم پی ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر فوری طور پر کچھ نہیں کیا گیا تو بینک برباد ہوسکتے ہیں، فیکٹریاں بند ہوسکتی ہیں اور معیشت مندی کا شکار ہوسکتی ہے۔ میک ان انڈیا اور اسکل انڈیا جیسی اہم اسکیموں کو اسی تصور سے شروع کیا گیاتھا کہ ان سے ترقی کو رفتار ملے گی اور روزگار پیدا ہوں گے۔ دو سہ ماہی پہلے تک بھارت نے نہ صرف چین کو پچھاڑ رکھا تھا بلکہ دنیا کی سب سے تیز رفتار والی معیشت بھی بن گیا تھا۔ مگر اس برس کی پہلی سہ ماہی میں معاشی ترقی میں نہ صرف گراوٹ آئی ہے بلکہ یہ مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد 5.7 فیصدی کے ساتھ سب سے نچلے سطح پر بھی ہے۔ مثلاً وزیر اعظم کوشل وکاس پروگرام کو ہی لے لیں تو اس کے تحت 30 لاکھ لوگوں کو یا تو رجسٹرڈ کیا گیا یا انہیں ٹریننگ دی گئی مگر اس م

اور اب شنکر آچاریوں کی لڑائی عدالت میں

آدی شنکر آچاریہ کے ذریعے قائم چار پیٹھوں میں سے ایک اتراکھنڈ کی جیوتش پیٹھ کے شنکر آچاریہ کے عہدے کا معاملہ قریب پچھلے 28 سال سے عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ شنکر آچاریہ بشنو دیو آنند کی موت کے بعد 1989 میں تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔ 8 اپریل 1989 کو جیوتش پیٹھ کے سینئر سنت کرشنا بود آشرم کی وسعت کی بنیاد سوامی سروپانند سرسوتی نے خود کو شنکر آچاریہ اعلان کردیا۔ وہیں شات آنند نے 15 اپریل کو سوامی باسو دیو آنند کو شنکر آچاریہ کا عہدہ دے دیا۔ واسو دیو عدالت میں چلے گئے۔ ضلع عدالت میں تین سال پہلے سماعت شروع ہوئی۔ عدالت نے 5 مئی 2015ء کو سوامی سروپ آنند کے حق میں فیصلہ سنایا۔ واسو دیو آنند ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ چلے گئے۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو جلدتنازعہ نپٹانے کو کہا۔ اسی درمیان سروپ آنند نے بھی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر معاملے کا نپٹارہ جلد کرنے کی مانگ کی۔ جمعہ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ان دونوں کو ہی شنکرآچاریہ ماننے سے انکار کردیا اور حکم دے دیا کہ تین مہینے میں جیوتش پیٹھ کا نیا شنکر آچاریہ چنیں۔ سروپ آنند اب اس فیصلے کے بعد صرف دوارکا پیٹھ کے شنکرآچاریہ رہیں گے۔ جسٹس سدھیر اگروال