اشاعتیں

مارچ 11, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ضمنی چناؤ کا سندیش:متحد اپوزیشن بھاجپا کو ہٹا سکتی ہے

لوک سبھا کی تین سیٹوں کے نتیجے بھاجپا اور اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ یہ چناؤ نتیجہ بھاجپا کے لئے پیغام تو ہے ہی صرف ادھنائک وادی پرچار سے چناؤ نہیں جیتے جاسکتے۔ ذات پات ،سماجی تجزیہ اور نرم گوئی اور ورکروں و عوام کی امیدوں پر کھرا اترنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ اترپردیش میں بھاجپا نے بھلے ہی دو سیٹیں ہاری ہیں لیکن یہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ و نائب وزیر اعلی کیشوپرساد موریہ کی ہار ہے۔ وزیر اعلی یوگی کے لئے تو گورکھپور شخصی ہار ہے۔ گورکھپور سیٹ پچھلے 27 برسوں سے گؤ رکھشک مٹھ کے پاس ہے۔ یہ کہا جاتا ہے یہاں سے یوگی ہار ہی نہیں سکتے۔ آدتیہ ناتھ خود پانچ بار گورکھپور پارلیمانی حلقہ سے چناؤ جیتتے آرہے تھے اور 1991 سے وہاں بھاجپا کا قبضہ رہا ہے۔ نتیجے بتا رہے ہیں کہ بھاجپا کے چناوی انتظامات نے سپا اور بسپا کے لئے اتحاد کو صحیح سے نہیں پرکھ سکے۔ بھاجپا یہ نہیں سمجھ پائی کے اترپردیش کی ان دو بڑی پارٹیوں کے ووٹروں کااکٹھا ہونا بھاجپا کیلئے بڑی چنوتی بن سکتا ہے۔ نتیجوں سے صاف ہے کہ سپا اپنے امیدواروں کے حق میں بسپا کے ووٹوں کو منتقل کروانے میں

سونیا گاندھی کی ڈنر ڈپلومیسی

جمہوری نظام میں جہاں یہ ضروری ہوتا ہے کہ حکمراں فریق مضبوط ہو وہیں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپوزیشن بھی مضبوط ہو نہیں تو حکمراں فریق سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔موجودہ حالت یہی ہے کہ اپوزیشن انتہائی کمزور ہے۔ حکمراں فریق زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے اس نقطہ نظر سے کانگریس پارٹی کی سینئر لیڈر اور یوپی اے کی چیئرمین سونیا گاندھی کی پہل لائق تحسین ہے۔ ویسے سونیا گاندھی کے ذریعے اپنی رہائش گاہ پر دی گئی ڈنر پارٹی نئی نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اتحاد کی مضبوط بنائے رکھنے کیلئے وہ اس طرح کے ڈنر کراتی رہی ہیں لیکن اس بار ڈنر پارٹی دیش میں مودی۔ شاہ کی جوڑی کے وجے رتھ کوروکنے کے لئے اپوزیشن اتحاد کی بنیاد رکھنے کیلئے دی گئی۔ سونیا گاندھی نے کانگریس صدر کا عہدہ بھلے ہی چھوڑدیا ہو لیکن وہ نہ صرف کانگریسی پارلیمانی پارٹی کی بلکہ یوپی اے کی چیئرمین بھی ہیں۔ راہل گاندھی کے کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب سونیا گاندھی کی طرف سے ایک بڑی سیاسی پہل کی گئی ہے۔ ڈنر ڈپلومیسی کے ذریعے سونیا نے یہ پیغام دینے کی بھی کوشش کی کہ بھاجپا کے خلاف اپوزی

سرو شکتی مان شی جن پنگ

چین میں پارلیمانی سیاست میں سب سے بڑی تبدیلی کے تحت ربڑ اسٹمپ پارلیمنٹ نے بھی دوررس و کئی معنوں میں تاریخی آئین ترمیم کو منظور کرکے صدر شی جن پنگ کے دو بار کی میعاد کی ضروریت کو ختم کرکے شی جن پنگ کو تاحیات اقتدار میں بنے رہنے پر مہر لگادی ہے۔ 64 سالہ شی جس مہینے ہی دوسری مرتبہ اپنے پانچ برس کی میعاد کی شروعات کرنے والے ہیں اور حال کی دہائیوں میں سب سے زیادہ طاقتور نیتا ہیں جو حکمراں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور فوج کے چیف ہیں۔ وہ بانی صدر ماؤتسے تنگ کے بعد پہلے چینی لیڈر ہے جو تاحیات اقتدار میں بنے رہیں گے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے اس ترمیم کے پیچھے دیش کو سب سے طاقتور بنانے کی دلیل دی ہے۔ پارٹی کے مطابق شی کے پاس دیش کو اقتصادی، فوجی بڑی طاقت بنانے کا پلان ہے۔ اس عہدے پر رہ کر یوجناؤں کو عملی جامہ پہنا پائیں گے شی جن پنگ سال 2012 میں صدر بنے۔ سال2017 میں وہ دوسری میعاد کے لئے منتخب ہوئے جس کے تحت وہ 2023 تک صدر کے عہدے پر بنے رہ سکتے ہیں۔ کمیونسٹ چین کے بانی ماؤتسے تنگ سے جن پنگ کا موازنہ کیا جارہا ہے۔ اس کے پیچھے پختہ بنیاد ہے ماؤ کی طرح جن پنگ بھی ایک ساتھ صدر ، سی پی سی کے سکری

پی ایم سے لیکر دیوتاؤں پر تبصرہ کرنے والا نریش اگروال

بہت دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں بنے رہنے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے کسی کو بھی پارٹی میں شامل کرسکتی ہے۔ ہم نے اٹل جی ، اڈوانی جی کا دور بھی دیکھا ہے جہاں ایک ووٹ کم رہنے پر اٹل جی نے اقتدار چھوڑدیا تھا۔ اب پارٹی کو اقتدار کی اتنی بھوک ہوگئی ہے کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتی کونسے نیتا پارٹی میں شامل ہورہے ہیں اس کی تاریخ اور برتاؤ کیا رہا ہے؟ میں بات کررہا ہوں اپنے بے تکے، بکواس بیان دینے والے نیتا نریش اگروال کی۔ ہوا کا رخ بھانپ کر سیاسی ڈگر تیارکرنے والے نریش اگروال نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔کانگریس سے سیاسی سفر شروع کرکے لوک تانترک کانگریس، سپا و بسپا میں اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد اب وہ بھاجپا کی پناہ میں آگئے ہیں۔ متنازعہ بیانات سے سرخیوں میں رہنے والے نریش اگروال چند دن پہلے تک پانی پی پی کر بھاجپا و اس کے سینئر لیڈروں کو کوس رہے تھے۔ پی ایم مودی سے لیکر ہندو دیوی دیوتاؤں کو گالی دینے والے کو آخر بھاجپا نے کیوں شامل کیا؟ وزیر اعظم نریندر مودی کے شادی نہ کرنے پر چٹکی لیتے ہوئے نریش اگروال نے کہا تھا انہوں نے شادی تو نہیں کی ، وہ پریوار کا مطلب کیا جانیں گے۔

دیش کا ان داتا خودکشی کرنے پر مجبور

یہ تشفی کی بات ہے کہ دیش کی توجہ ان 40 ہزار کسانوں کی طرف جارہی ہے جو مہاراشٹر کے ناسک شہر سے 160 کلو میٹر پیدل مارچ کرکے ممبئی پہنچتے ہیں اور مہاراشٹر سرکار کو ان کی مانگوں کو ماننے پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ مہاراشٹر کی دیویندر فڑنویس سرکار کو شاید امید نہیں تھی کہ جس کسان طبقہ کی مانگوں کو وہ ہلکے سے لیتے رہے ہیں آج اسی کسان طبقہ نے سرکار کی نیند حرام کرتے ہوئے ممبئی کوچ کیا۔ ناسک ذرعی مصنوعات کی بہت بڑی منڈی ہے۔ ممبئی دیش کی اقتصادی راجدھانی ہے اگر اس کے درمیان کسان دکھی اور ناراض ہے توہمارے سسٹم میں کہیں گڑبڑ ضرور ہے۔ پچھلے سال مدھیہ پردیش کے مندسور، رتلام اور اندور سے لیکر بھوپال تک کسانوں نے مشتعل مظاہرہ کیا تھا۔ اتفاق سے اس تحریک کی قیادت آر ایس ایس کے ہی ایک کسان لیڈر کررہے تھے۔ اس تحریک کی قیادت اس وقت اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے ہاتھ میں ہے اور وہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی والی شاخ ہے اس کے باوجود اسے کانگریس مہاراشٹر نو نرمان سینا اور شیو سینا کی حمایت حاصل ہے۔ مارچ 2017 میں کسانوں نے سرکار سے موٹے طور پر قرض معافی ، فصلوں کے مناسب دام، بجلی کے دام کم کرنے اور سوامی ناتھن کمیشن کی

دہلی میں جاری سیلنگ نے عوام کو سڑک پر لا کھڑا کیا

دہلی میں جاری سیلنگ سے تاجروں کو اپنی روزی روٹی کی پریشانی ستا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے چھوٹے تاجروں کی پریشانیاں بڑھنے لگی ہیں۔ ان کے سامنے سب سے بڑی چنوتی اب خود کا روزگار بن گیا ہے جبکہ کچھ وقت پہلے تک یہ لوگ دوسروں کو روزگار دے رہے تھے۔ سیلنگ کی وجہ سے بہت سے لوگ سڑک پر آگئے ہیں۔ سیلنگ کے خلاف دوکانداروں کا احتجاج بھی تیز ہوگیا ہے۔ اب تو مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ تاجر اور عام شہری پریشان ہیں تو سیاسی پارٹیاں اسے لیکر سیاست میں مصروف ہیں۔ دہلی میں بسی ہوئی ناجائز مارکیٹ اور کالونیاں و دیگر ناجائز تعمیرات کے لئے بھی کافی حدتک یہی سیاسی پارٹیاں ذمہ دار ہیں۔ اقتدار میں جو پارٹی رہتی ہے وہ اپنے ووٹ کی خاطر ناجائزتعمیرات کو روکنے کی جگہ بڑھاوا دیتی ہے۔ اس کے پیچھے کرپشن اور ووٹ بینک کی سیاست وابستہ ہے۔ نیتاؤں اور افسران کی ملی بھگت سے تعمیرات کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سیل بندی کی کارروائی چل رہی ہے تو دوسری طرف آج بھی کئی علاقوں میں بے روک ٹوک ناجائز تعمیرات جاری ہے۔تشویشناک بات یہ ہے کئی نیتاؤں پر ناجائز تعمیرات کے کاروبار

سیتا ہی محفوظ نہیں : مندر بنانے کا کیا مطلب

بچیوں سے آبروریزی روکنے کے لئے جمعرات کو دہلی کے سینٹرل پارک میں بین الاقوامی عالمی مہلا دیوس پر بچوں ، بڑوں اور سرکردہ ہستیوں نے ہاتھ سے ہاتھ ملائے۔ دہلی مہلا کمیشن کی اپیل پر پورے دیش میں بڑھتے آبروریزی کے معاملوں میں سینٹرل پارک میں انسانی چین بنائی گئی۔ مہلا کمیشن نے’ریپ روکو‘ مہم کے تحت بنائی گئی انسانی چین میں شامل ہونے والے لوگ نے بچوں سے آبروریزی کرنے والوں کو چھ ماہ کے اندر پھانسی کی سزا دینے کی مانگ کی۔ ’ریپ روکو‘ تحریک کی حمایت میں دہلی مہلا کمیشن نے ایک دستخطی خط وزیر اعظم کو بھیجنے کی اپیل کی تھی اس پر 35 دن میں تقریباً پانچ لاکھ55 ہزار خط آئے۔ ا س میں لوگوں نے وزیر اعظم سے اپنا درد بتاتے ہوئے سخت قانون بنانے کی اپیل کی تھی تاکہ یہ خواتین اور بچوں کے تئیں لوگوں کا نظریہ بدلے۔ ایک خط میں ایک خاتون نے لکھا ہے کہ دہلی میں عورتوں کے خلاف جرائم مسلسل بڑھ رہے ہیں اور جرائم پیشہ کو کوئی احساس نہیں ہے۔ ہمارے کلچر میں عورتوں کو دیوی کی جگہ دی گئی ہے۔ اس کے باوجود عورتیں جسمانی ،ذہنی جرائم سے مسلسل متاثر ہورہی ہیں۔ ان میں سے کئی معاملوں میں تو کوئی شکایت تک کرنے نہیں جاتی اس کی

نہیں تھمے گی دہلی میں سیلنگ

دہلی کے تاجروں کو سیلنگ سے راحت ملنے کا امکان تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے منگلوار کو راجدھانی کے ماسٹر پلان 2021 میں ترمیم کرنے پر روک لگای ہے۔ ان ترامیم کے ذریعے مرکزی سرکار دہلی کے تاجروں کو سیلنگ سے راحت دینے کی تیاری کررہی تھی۔ اب تمام بازاروں کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں میں چلنے والی کاروباری دوکانوں پر بھی سیلنگ کی تلوار لٹک گئی ہے۔ دہلی میں پچھلے 22 دسمبر سے بازاروں میں سیلنگ کی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر مانیٹرنگ کمیٹی کی رہنمائی میں ڈھائی مہینہ کے اندر 2500 سے زیادہ املاک سیل کی گئی ہیں۔ اس کے احتجاج میں تاجروں کی تحریک، دھرنا ،مظاہرے جاری ہیں۔ راحت کے لئے مرکزی شہری محکمہ کی پہل پر ڈی ڈی اے نے کارروائی شروع کی تھی۔ اسی بنیاد پر ڈی ڈی کے ذریعے راحت کا ایک ڈرافت تیار کیا گیا تھا لیکن منگل کو سپریم کورٹ نے اس ڈرافٹ کے خلاف منفی رویہ ظاہر کیا۔ اس نے ماسٹر پلان 2021 کو لاگو کرنے کی ہدایت دے دی۔ سپریم کورٹ کے رخ کے بعد راجدھانی کے سبھی بڑے بازار سیلنگ کی زد میں آگئے ہیں۔ دراصل دہلی کے تقریباً سبھی بازاروں میں ایسی دوکانیں کم ہی ہیں جہاں پر تعمیراتی قو

کیا گورکھپور ۔پھولپور میں پھر کھلے گا کمل

نارتھ ایسٹ میں جیت کا ڈنکا بجا کرکانگریس و لیفٹ پارٹیوں و اپوزیشن کی لٹیا ڈوبانے کے بعد اب بھاجپا کی نظریں اترپردیش و بہار ضمنی چناؤ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ راجستھان و مدھیہ پردیش ضمنی چناؤ میں بھاجپاکو ملی ہار نے ایک بڑا سوال یہ ضرور کھڑا کردیا ہے کہ کیا بھاجپا حکمراں دونوں ریاستوں میں کانگریس کو اینٹی کمبینسی کا فائدہ ملے گا؟ اترپردیش میں گورکھپور اور پھولپور لوک سبھا ضمنی چناؤ ہورہے ہیں۔ دیش کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی سیاسی زمین پھولپور پارلیمانی حلقہ کے ضمنی چناؤ میں بھاجپا۔ کانگریس اور سپا نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ سبھی جیت کا دعوی بھی کررہی ہیں لیکن کئی وجوہات سے مقابلہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اونٹ کس کرونٹ بیٹھے گا اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے۔ اس سیٹ پر آزادی کے بعد پہلی بار 2014 میں بھاجپا کا پرچم لہرایاتھا۔ اترپردیش کے نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریا نے اس سیٹ سے سپا کے دھرم راج سنگھ پٹیل کو تین لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرایا تھا۔ کیشو کے ودھان پریشد ممبر بننے کے بعد یہاں ضمنی چناؤ ہورہے ہیں۔ بھاجپا نے اس سیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے پورا زور لگادیا ہے۔ بھاجپا کو روک