اشاعتیں

جولائی 31, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آنندی بین کے استعفیٰ سے اٹھے سوال

گجرات کی وزیراعلی آنندی بین پٹیل نے بدھوار کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جو گورنر او پی کوہلی نے منظور بھی کرلیا ہے۔ گجرات بھاجپا اسمبلی پارٹی کی میٹنگ میں ان کے جانشین کا انتخاب ہونے کا امکان ہے۔ آنندی بین نے استعفیٰ کیوں دیا ہے یہ سوال سیاسی گلیاروں میں پوچھا جارہا ہے۔ اس کی وجہ ان کی عمر75 سال ہونا بتایا جاتا ہے۔ وہ 21 نومبر کو پارٹی کے ذریعے مقرر عمر حد میں داخل ہورہی ہیں یا پھرسیاسی حالات اور دلتوں کی ناراضگی اور پٹیلوں میں بھاری غصہ رہا؟ دلت ناراضگی کا اثر بھاجپا کو اترپردیش اور پنجاب میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے جہاں چناؤ گجرات اسمبلی سے پہلے ہونا ہیں۔ دراصل جب نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اپنے جانشین کے طور پر آنندی بین کو سب سے موضوع مانا تھا لیکن پہلے پارٹی دار آندولن اور بعد میں گؤ رکشا کے دلتوں پر مبینہ مظالم سے جیسے ردعمل سامنے آئے ہیں اس سے یہ پیغام گیا ہے کہ وہ حالات سنبھالنے میں اہل نہیں ہیں، اسی سے مبینہ طور پر بھاجپا لیڈرشپ بھی چناؤسے پہلے ان کے بدلے کسی اور کو ذمہ داری دینے کے حق میں تھی۔ ویسے آنندی بین خیمے کے مطابق تو ریاست کے وزیر اور افسر

سرکاری بنگلے خالی کریں لیڈر صاحبان

سپریم کورٹ نے پیر کے روز ایک اور تاریخی اور دور اندیش اثر ڈالنے والا فیصلہ لیا ہے۔ عدالت نے ہذا نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریاستوں کے سابق وزرائے اعلی کو سرکاری مکان میں جمے رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اترپردیش سرکار کے ذریعے بنائے گئے اس قاعدے کو بھی منسوخ کردیا جس میں ریاست کے سابق وزرائے اعلی کو تاعمر سرکاری مکان دینے کی سہولت دی گئی تھی۔ اس فہرست میں کلیان سنگھ، نارائن دت تیواری اور رام نریش یادو بھی شامل ہیں۔ بڑی عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی ادارے یا ٹرسٹ کو اگر ٹوکن کرایہ یعنی (ایک روپیہ) سرکاری پراپرٹی دی گئی ہو تو اسے بھی انصاف پر مبنی نہیں مانا جاسکتا۔ صدر ، نائب صدر، وزیر اعظم کو ہی عہد کے بعد بھی سرکاری رہائش دینے کی سہولت ہے۔ جسٹس انل آر دوے اور جسٹس این ۔وی رمن اور جسٹس بھانومتی کی بنچ نے یوپی سرکار کے سابق وزیر اعلی رہائش الاٹمنٹ قاعدہ1997 کو قانون کے مطابق غلط بتایا ہے۔ عدالت نے ان سبھی کو نہ صرف دو ماہ کے اندر سرکاری مکان خالی کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ جتنے وقت تک ان لوگوں نے ناجائز طریقے سے سرکاری رہائشگاہ پر قبضہ بنائے رکھا تھا اس کا کرایہ بھی وصولہ جائے

ہائی وے پر وحشی واردات ودرندگی

قومی شاہراہ 91 پر بلند شہر کے قریب کارسوار خاندان کو یرغمال بنا کر ماں بیٹی کے ساتھ اجتماعی بدفعلی کے واقعہ کو کیا کہا جائے؟ شرمناک، مذمت یا درندگی یا رقابت، درندگی کی حد، رونگٹے کھڑے کرنے والی یہ واردات جنگل راج نہیں، بلکہ بربریت آمیز جنگل راج جیسے حالات پیدا کرتی ہے۔ حیرت میں ڈالنے والی یہ واردات اترپردیش میں لاء اینڈ آرڈر کے شرمناک صورتحال کو بیان کرتی ہے۔ یہ واردات بتاتی ہے کہ صوبے میں درندے کرتنے بے خوف ہیں کہ وہ غمزہ خاندان کے ساتھ بربریت کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ جس خاندان کے ساتھ یہ واردات ہوئی وہ اپنے رشتے دار کی تیرہویں میں شامل ہونے کے لئے شاہجہان پور جا رہا تھا لیکن بلندشہرضلع ہیڈ کوارٹر سے محض کچھ کلو میٹر دوری پر ہی کچھ بدمعاشوں نے لوہے کا ایک ٹکڑا پھینک کر ان کی گاڑی کو روک لیا اور پھر مردوں کو یرغمال بنا کر ماں بیٹی کے ساتھ بربریت کی یہ واردات انجام دی۔ یہ واردات اس ریاست کی ہے جہاں کچھ مہینوں بعد اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں۔ یہ معاملہ لاپرواہی سے زیادہ لاپرواہ پولیس مشینری اور جان بوجھ کر بے سمت سرکار کا ہے۔ اترپردیش میں تقریباً ہر مہینے ہونے والے ریپ کی وارداتیں یہ ظاہر

بارش نہ ہو تو مصیبت ہو توتباہی

عجیب مسئلہ ہے بارش نہ ہو تو مصیبت اور ہو تو مصیبت۔ مسلسل خوشک سالی سے پریشان دیش بارش کے لئے نگاہ لگائے ہوئے تھے، لیکن بارش ہوئی بھی توشہروں سے لیکر دور دراز گاؤں میں ہائے توبہ مچ گئی۔ بہار ، آسام جیسی ریاستی سیلاب سے عموماً متاثر ہونے والے علاقے تو پریشان ہیں وہیں جو ہمارے پلانروں کی ترجیحات میں شاید ہی کبھی آ پائیں۔ تمام طرح کی اسکیموں کے مرکز میں رہنے والے ، ترقی کی آہٹ سے چمکتے شہروں میں بھی ہائے توبہ مچی ہوئی ہے۔ ممبئی ، چنئی، بنگلورو بارش سے بے حال ہیں تو گوڑ گاؤں و دہلی بھی سڑکوں پر پانی جمع ہونے سے پست ہوجاتی ہے۔ سب سے برا حال تو ملینیم سٹی نام سے مشہور نئے ڈیولپمنٹ یافتہ شہر گوڑ گاؤں کا ہوا ہے جسے حال ہی میں ہریانہ سرکار نے گورو گرام کا نام دیا ہے۔ وہاں دو گھنٹے جم کر بارش کیا ہوئی کہ 10 گھنٹے تک گاڑیوں کا جام لگ گیا۔ لوگ شام 4 بجے دہلی کے لئے روانہ ہوئے اور پہنچے اگلے دن صبح۔ سارے کام دھندے ٹھپ ہوگئے لیکن جو ہوا وہ ایک دم حیرانی کا باعث نہیں ہے۔ جس طرح سے شہر بن رہا ہے اس میں بنیادی ڈھانچے سے وابستہ کئی اہم باتوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً پانی کی نکاسی، اس لئے مان

کانگریس اور نوازشریف کے ملتے سر

یہ عجب اتفاق ہے کہ ادھر کانگریس پارٹی کشمیر میں ریفرنڈم کی بات کررہی ہے ادھر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ اسے کشمیریوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے وہاں پبلک ریفرنڈم کرانا چاہئے۔ لوک سبھا کے مانسون اجلاس کے تیسرے دن قائدہ193 کے تحت کشمیر کے حالات پر بحث شروع کرتے ہوئے کانگریس کے لیڈر جوتر ادتیہ سندھیا نے کہا کہ کشمیر میں آج رائے شماری کی ضرورت ہے۔ سرحد پار نواز شریف نے کشمیروادی کے لوگوں کے ساتھ اتحاد دکھانے کے نام پر منعقدہ بلیک ڈے کے موقعہ پر کہا کہ آج ہم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی دکھانے کے لئے’ یوم سیاہ‘ منا رہے ہیں۔ اس سے دنیا کو سخت سندیش دینا چاہتے ہیں کہ پاکستانی لوگ ان کے (کشمیریوں) حقوق کی لڑائی میں ہمیشہ ساتھ ہیں۔ اگر کشمیریوں کے حقوق کی بات نواز شریف کررہے ہیں تو پہلے اپنے قبضے میں جو کشمیری ہیں ان کو تو ان کا حق دے دیں۔ پاکستان کے قبضے والے کشمیر میں چناوی دھاندلی کو لیکر مقامی لوگوں کا غصہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پاکستان میں 21 جولائی کو اپنے قبضے والے کشمیر میں چناؤ کروایا تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چناؤ میں

رام سیتو کو نقصان پہنچائے بغیر بنے سیتوسمندرم پروجیکٹ

یہ انتہائی خوشی کا موضوع ہے کہ مودی سرکار سیتو سمندرم پروجیکٹ کو نئی شکل میں لانے کی تیاری کررہی ہے۔ان کو اس کے تحت رام سیتو کو نقصان پہنچائے بغیر سیتو سمندرم نہر کی تعمیر ٹھیک ٹھاک ممکن ہوسکے گی۔ پروجیکٹ کے نئے ڈھانچے کو لیکر سرکار اور آر ایس ایس کے سینئر لیڈر شپ کے درمیان سیتو بننے کا کام مرکزی وزیر جہاز رانی نتن گڈکری نے کہا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ نئی تجویز پر سنگھ اور سرکار کے درمیان باقاعدہ اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں جلد ہی حکومت کا موقف رکھا جائے گا۔ ذرائع بتاتے ہیں پروجیکٹ کے نئے خاکے کو لیکر گڈکری کچھ ماہ سے حکومت اور آرایس ایس کے درمیان اتفاق رائے بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ سنگھ کے ساتھ چند نکتوں پر کچھ اختلافات تھے مگر گڈکری نے ان کا بھی حل نکال لیا۔ اس سے پہلے سرکار کی سطح پر پروجیکٹ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ چند دن پہلے ہی وزیر خارجہ سشما سوراج کی رہائش گاہ پر سرکار کے سینئر وزرا نے گڈکری کی نئی تجویز کو دھیان سے سنا اور تسلی جتائی۔ سیتو سمندرم پروجیکٹ کے نئے خاکے پر وزیر اعظم کے دفتر کی بھی پل پل نظر ہے۔ سرکار کے ایک سینئر وزیر کا کہنا ہے کہ سرکار رام

ہلیری بنام ٹرمپ

امریکہ کی ریاست فلاڈلیفیامیں ڈیموکریٹک پارٹی کانفرنس میں ہلیری کلنٹن کا پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننا تاریخ رقم کرنے جیسا ہے۔ تاریخ اس لئے کہ 227 برسوں کی چناوی تاریخ میں ہلیری پہلی بار خاتون صدارتی امیدوار بنی ہیں۔ اب تک ایک بھی خاتون کسی بھی پارٹی کی امیدواری نہیں پا سکی۔ کئی مہینے کی متنازعہ مہم کے بعد اب ڈیمو کریٹک پارٹی کی ہلیری کلنٹن اور ریپبلکن پارٹی کی ڈونلڈ ٹرمپ آمنے سامنے ہوں گے۔ 70 سالہ ٹرمپ نے محض ایک سال پہلے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ انہوں نے اپنے 16 ابتدائی حریفوں کو ہرا کر ریپبلکن پارٹی میں دبدبہ قائم کردیا۔ ہلیری ویسے 2008ء میں بھی امیدواری کی دوڑ میں تھیں لیکن براک اوبامہ کی شخصیت کے سامنے وہ شکست خوار ہوگئی تھیں۔ نائب صدارت کے عہدے کے لئے ورجینیا صوبے کے گورنر رہ چکے سینیٹر ٹم کیم ہلیری کے ساتھ ہیں۔ ٹرمپ نے نائب صدر کے عہدے کے لئے انڈیانا صوبے کے گورنر مائک فینس کو چنا ہے۔امریکی روایت کے مطابق نائب صدر کے عہدے کے لئے امیدوار چننے کا کام صدارتی عہدے کے امیدوار کے ذمہ ہوتا ہے۔ یعنی پیس کی شخصیت کا جائزہ لیکر ہلیری اور ٹرمپ کی حکمت عملی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

پاک سے بات نہیں سخت جواب دینے کی ضرورت

پہلے نوید اس کے بعد پکڑا گیا سجاد احمد اور اب بہادر علی کوئی پہلا پاکستانی آتنکی نہیں ہے جو کشمیر میں زندہ پکڑا گیا ہے بلکہ جب سے کشمیر میں دہشت گردی کی شروعات ہوئی ہے بیسیوں پاکستانی اور افغان آتنکیوں کو زندہ پکڑا جا چکا ہے۔ اس سے بھی زیادہ چونکانے والا پہلو کشمیرمیں دہشت گردی کا ہے۔ ریاست میں 27 دیشوں کے آتنک وادی سرگرم ہیں جبکہ ریاست میں ابھی تک مارے گئے 25 ہزار سے زیادہ دہشت گرد غیر ملکی آتنکیوں کی تعداد آدھے سے کچھ کم ہو رہی ہے۔ کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں کنٹرول لائن کے پاس نوگام سیکٹر میں ہوئی مڈ بھیڑ میں پکڑے گئے آتنک وادی کی پہچان کرلی گئی ہے۔ اس کا نام بہادر علی ہے اور وہ پاکستان کے شہر لاہور کا رہنے والا ہے۔ 22 سالہ بہادرعلی کو دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ نے تربیت دی ہے۔ سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو اس لشکر آتنک وادی کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے پاس سے 23 ہزار روپے ہندوستانی کرنسی، 3 اے کے 47 رائفل، 2 پستول برآمد کی گئیں۔ پچھلے دو مہینے میں بہادر علی دوسرا ایسا پاکستانی دہشت گرد ہے جس کوہماری سکیورٹی فورسز نے پکڑا ہے۔ اس کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا ہے جس میں اس نے دہشت گردوں کے ماسٹر پلان

آخر کیوں بند کیا جائے پیلٹ گن کا استعمال؟

جموں وکشمیر میں گزشتہ دنوں اشتعال انگیز مظاہروں اور ہمارے سکیورٹی جوانوں پر پتھر بازی پر خودساختہ لیڈروں اور ہمارے میڈیا کے ایک حصے نے بہت ہائے توبہ مچا رکھی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ پیلٹ گن استعمال پر پابندی لگنی چاہئے؟ ہم پوچھتے ہیں کیوں لگنا چاہئے؟ کیا ہمارے سکیورٹی جوانوں کو اپنی جان بچانے کا اتنا بھی حق نہیں ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری زبردست احتجاجی مظاہروں اور پتھر پھینکنے کے واقعات میں تقریباً 3500 سکیورٹی جوان زخمی ہوچکے ہیں۔ وزیر مملکت داخلہ ہنسراج اہیر نے بتایا کہ وہاں پر اس سال زبردست مظاہرے اور پتھر پھینکنے کے کل1029 واقعات ہوئے ہیں۔2015ء میں احتجاجی مظاہروں اور پتھر پھینکنے کے کل 730 واقعات ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اہیر نے بتایا کہ 17 جولائی تک جموں و کشمیر میں 152 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 30 جوانوں کی موت ہوئی جبکہ 2015ء میں 2008ء دہشت گردانہ واقعات میں 39 جوانوں کی موت ہوگئی تھی۔ پیلٹ گن کے استعمال پر خاصا تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی اس دباؤ کا شکار ہوتے لگ رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ پیلٹ

کیا فیٹ ٹیکس جنک فوڈ کو کنٹرول کر سکے گا؟

اکثر بچوں کو اس جنک فوڈ سے بچانے کیلئے سخت قدم اٹھانے کی مانگ اٹھتی رہتی ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔ میں نے بھی اسی کالم میں اس بڑھتے مسئلے اور بچوں کی صحت کو بچانے کے لئے کچھ ٹھوس کرنے کی وکالت کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سمت میں کیرل حکومت نے کچھ ٹھوس قدم اٹھائے ہیں۔ کیرل سرکار نے پیزا، برگر جیسے جنک فو ڈ پر جو’’ فیٹ ٹیکس‘‘ لگایا ہے وہ صحیح سمت میں اٹھایا گیا ایک صحیح قدم مانا جائے گا۔ بچوں کا دل اب دلیا، پوہا یا بریڈ جیسے روایتی ناشتوں میں نہیں لگتا۔ ان کی دیکھا دیکھی بڑے بھی ہفتے میں ایک آدھ پیزا ، برگر کھا ہی لیتے ہیں لیکن شگر اور موٹاپا کے بڑھنے کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ بازار میں ملنے والے اس طرح کے فوری کھانے والی چیزیں بھارت کے لئے عجیب و غریب قسم کی بیماریوں کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ کی ایک سروے رپورٹ بتاتی ہے کیرل دیش کا تیسرا اور پنجاب کا دوسرا ایسے راجیہ ہے جہاں آبادی کا ایک تہائی یا اس سے بھی بڑا حصہ موٹاپے کی مار جھیل رہا ہے۔ ویسے اس سروے کی مانیں تو ’فیٹ ٹیکس‘ سب سے پہلے دہلی میں لگنا چاہئے جہاں تقریباً آدھے لوگ موٹاپے سے پریشان ہیں۔ جنک فوڈ سے بچوں کی