اشاعتیں

دسمبر 2, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ہاتھی پر سوار ہوکر آئے گی ایف ڈی آئی

خوردہ کاروبار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے فیصلے کو اب راجیہ سبھا میں بھی منظوری مل گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی تاریخ میں یہ بھی درج ہونے جارہا ہے کہ کسانوں اور دلتوں ، دستکاروں ،کاریگروں اور بنکروں ،مزدوروں و چھوٹا دھندہ کرنے والے کروڑوں ہندوستانیوں کے پیٹ پر لات مارنے والے اس فیصلے کونافذ کروانے میں اترپردیش کی دو پارٹیاں بہوجن سماج پارٹی، سماجوادی پارٹی کا قابل قدر کردار رہا ہے۔ اگر سماجوادی پارٹی نے لوک سبھا میں ووٹنگ کے وقت واک آؤٹ کرکے سرکار کی حمایت کی ہے تو وہیں بسپا نے راجیہ سبھا میں سرکار کے حق میں ووٹ ڈالا ہے اور ایف ڈی آئی لاگو کروانے کے لئے راستہ ہموار کردیا ہے۔ کیا شری ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی بہن بھارت کی عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں؟ کیا جنتا ان کی چال بازیوں کو سمجھ نہیں سکتی؟ ملائم سنگھ نے منگل کو کہا تھا کہ ایف ڈی آئی دیش کے مفاد کے خلاف ہے اور اس کے آنے سے کروروں کسانوں اور چھوٹے و خوردہ دوکانداروں کا روزگار چھن جائے گا مگر اب ریزولیوشن پر ووٹنگ کی باری آئی تو وہ ایوان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ مایاوتی کی پارٹی کے داراسنگھ نے منگل کو کہا تھا کہ ایف ڈی آئی دیش کو دوسری

بھارتیہ کھیلوں کا کالا دن 4 دسمبر

بھارتیہ کھیلوں کو جھٹکے تو اکثر لگتے ہی رہتے ہیں لیکن اتنا بڑا جھٹکا شاید پہلے کبھی نہیں لگا ہوگا جتنا 4 دسمبر کو لگا تھا۔ ہم اسے ہندوستانی کھیلوں کے لئے کالا دن کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔4 دسمبر کو انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی نے بھارتیہ اولمپک ایسوسی ایشن کے چناؤ میں سرکاری مداخلت کو اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی مانتے ہوئے آئی او اے کو اولمپک تحریک سے معطل کردیا ہے۔ آئی اوسی کے ایگزیکٹو بورڈ کی سوئٹزرلینڈ کے لوسانا میں ہوئی دو روزہ میٹنگ میں آئی او اے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی او سی نے آئی او اے کے چناؤ کو کھیل قانون کے تحت کرانے پر ہی ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے صاف کردیا تھا کہ وہ ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں بھارت کی معطلی کا ریزولیشن پیش کرے گا اور اسے آخر اب آئی او اے سے معطل کردیا گیا ہے۔ اس معطلی کے فیصلے کے دور رس اثر ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کی سپریم کھیل تنظیم کو آئی او سی سے کسی طرح کی مدد نہیں ملے گی اور اس کے حکام اولمپک میٹنگوں میں حصہ لینے اور کھلاڑی اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے سے محروم ہوجائیں گے۔ بھارتیہ ایتھلیٹ اپنے قومی پرچم کے نیچے اولمپک مقابلوں میں حصہ نہ لے

بیشک نمبروں کی طاقت میں سرکار جیت گئی لیکن یہ اس کی اخلاقی ہار ہے

بیشک منموہن سنگھ سرکار نے ایف ڈی آئی پر لوک سبھا میں نمبروں کی طاقت کے کھیل میں کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن صحیح معنوں میں یوپی اے سرکار کی لوک سبھا میں ہار ہوئی ہے۔ کہنے کو تو اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج کی جانب سے پیش ریزولیوشن کہ سرکار ملٹی برانڈ خوردہ میں51 فیصدی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینے سے متعلق اپنے فیصلے کو واپس لے۔18 کے مقابلے253 ووٹوں سے گر گیا۔ لیکن دو دن کی بحث نے اتنا ضرور صاف کردیا کہ یوپی اے سرکار جیتی لیکن پارلیمنٹ ہاری۔ بحث میں18 پارٹیوں کے 22 ممبران نے حصہ لیا جبکہ کل چار پارٹیوں نے ایف ڈی آئی کی حمایت کی۔ اگر14 پارٹیاں جنہوں نے ایف ڈی آئی کی مخالفت میں تقریر کی ان کی تعداد جوڑی جائے تو یہ تعداد 282 کے آس پاس بیٹھتی ہے جبکہ جن پارٹیوں نے اس کے خلاف اپنے نظریات رکھے ان کی تعداد224 کے قریب بنتی ہے۔ دو دن کی بحث میں میری نظروں میں ہیرو تو بھاجپا کی لیڈر سشما سوراج ہی رہیں۔ انہوں نے نہ صرف ایف ڈی آئی کے مثبت پہلو ایک ایک کرکے گنائے بلکہ حکمراں فریق کے مقررین کی دلیلوں کی ہوا نکال دی ہے۔ یوپی اے سرکار کی لاج سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی میں ووٹنگ سے ٹھیک پہلے

وی آئی پی موومنٹ سے پریشان جنتا سالوے کا کہنا صحیح ہے

وی آئی پی کی آمدورفت کی وجہ سے ٹریفک جام میں گھنٹوں پھنسے رہنا دہلی کے شہریوں کی مجبوری بن گئی ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی وی آئی پی کی آمدورفت کی وجہ سے کبھی روڈ بند رہتا ہے تو کبھی راستہ بدل دیا جاتا ہے۔ اگر کسی وی آئی پی کو راشٹرپتی بھون یا وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے رام لیلا میدان جانا ہو تو سارا راستہ بند کردیا جاتا ہے۔ حد تو تب ہوجاتی ہے جب بہادر شاہ ظفر مارگ پر ڈھابوں کی دوکانوں تک کو بند کردیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو گاڑیوں کو کھڑا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ جبکہ وی آئی پی موٹر قافلہ سڑک کے دوسری طرف سے جانا ہوتا ہے۔ پریس والوں کو اپنے دفتر پہنچنے میں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ راج گھاٹ تو پریس ایریا کے پیچھے سے ہی ہوکر جانا پڑتا ہے اور یہاں آئے دن کوئی نہ کوئی غیر ملکی وی آئی پی آتا رہتا ہے یہ تسلی کی بات ہے کہ سینئر وکیل ہریش سالوے کا خیال رہے کہ پولیس کو لا اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کا اختیار ضرور ہے لیکن اس نام پر عام آدمی کو پریشان نہیں کیا جاسکتا۔ پولیس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ وی آئی پی شخصیات کی آمد کے نام پر عام آدمی کے بنیادی حقوق میں دخل دے۔ پولیس قانون کو لاگو کرائے لیکن

عدم استحکام اور کشیدہ حالات کی جانب گامزن مشرقی وسطیٰ

مشرقی وسطیٰ میں ایک بار پھر حالات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ مصر ،اسرائیل اور فلسطین ان تینوں ملکوں میں پھر سے ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ پہلے بات ہم مصر کی کرتے ہیں۔ مصر کی حکومت اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ بڑھ گیا ہے۔ دیش کی سپریم آئینی عدالت نے اسلامی شرعی آئین کے مسودے پر ریفرنڈم کرانے کے صدر محمد موروسی کے فیصلے پر احتجاج کیا ہے۔ اس نے 15 دسمبر کو مجوزہ ریفرنڈم کا معائنہ کرنے سے انکارکردیا ہے۔ مصر کے سینئر ججوں نے صدر محمد موروسی کے اسلام حمایتیوں کے ذہنی و جغرافیائی دباؤ کے خلاف بے مدت ہڑتال شروع کی جبکہ قریب ایک درجن اخبارات نے بھی اپوزیشن کی حمایت میں اپنے ایڈیشن نہ نکالے کا اعلان کیا ہے۔ موروسی نے پچھلے مہینے اپنے ہمنوا ملکوں کے ذریعے سے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔اس کے بعد اپوزیشن سے سیدھے ان کا ٹکراؤ تیز ہوگیا۔ اسی درمیان بڑی آئینی عدالت نے کہا کہ اسلام پرستوں نے ججوں کو عدالت کمپلیکس میں داخل ہونے سے روکا جس کے خلاف وہ اپنا کام کاج عارضی طور پر ملتوی کررہے ہیں۔ کئی اخبارات میں نئے آئین کے خلاف احتجاج میں اپنے پہلے صفحے پر نعرہ لکھا ہے کہ ’’تانا شاہی نہیں چلے گی‘‘۔ ادھر اسرائیل اور فلسطی

دہشت گردی معاملوں میں مسلم لڑکوں کو زبردستی اٹھانے و ستانے کا سوال

پیر کو کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کر ایک میمورنڈم دیا۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے برسوں تک جسمانی اور ذہنی اذیت جھیلنے کے بعد کچھ بے قصور متاثرین کو آزادی مل پائی ہے۔ ان بے گناہوں کے ساتھ ہی ان کے رشتے داروں کے ذریعے برسوں تک جھیلی گئی بدنامی کا ازالہ کیسے کیا جائے گا؟ وزیر اعظم نے دہشت گردی کے الزام ثابت نہ ہونے کے بعد بھی جیل میں بند بے گناہ مسلم لڑکوں کا مسئلہ جلد سلجھانے کا بھروسہ دلایا ہے۔ حال ہی میں اترپردیش میں اکھلیش یادو کی سرکار نے دہشت گردی کے ملزمان کے خلاف مقدمے واپس لینے کی مہم چلائی لیکن ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد انہیں سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ نمائندہ وفد کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی دھماکہ ہوتا ہے تو پولیس بے قصور مسلمانوں کو مقدموں میں خانہ پوری کرنے کے لئے پھنسا دیتی ہے۔ اس میں سچائی بھی ہے۔ پولیس ٹھیک سے چھان بین تو نہیں کرتی بس خانہ پوری کرنے کے لئے گرفتاریاں دکھا دیتی ہے۔ لیکن عدالتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بے قصور ہے تو اسے عدالت با عزت بری کرتی ہے اور چھوڑ دیتی ہے۔ ہمارے سامنے دہلی ہائی کورٹ کا تازہ فیصلہ ایک مثال ہے۔ عد

مودی اپنی سیاسی زندگی کا سب سے اہم چناؤ لڑ رہے ہیں

گجرات اسمبلی چناؤ کی جتنی اہمیت اس مرتبہ ہے اتنی شاید کبھی پہلے نہیں ہوا کرتی تھی۔ پورے دیش کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں۔ دراصل بی جے پی خاص کرنریندر مودی حمایتیوں نے اسے اس شکل میں پروجیکٹ کیا ہے کہ گجرات کی سیاست سے زیادہ قومی سیاست کے لئے اہم ہے۔ اس لئے گجرات اسمبلی چناؤ اس مرتبہ کانگریس کے لئے کم نریندر مودی کے لئے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ گجرات میں جیسے مودی کے لئے اپنے وقار کی لڑائی لڑی جارہی تھی ویسی نہیں اس بات کا بھاجپا کی سینئر لیڈر شپ اور خود پارٹی کو بھی احساس ہوچکا ہے۔ پارٹی کو کانگریس سے اتنا ڈر نہیں جتنا اسے اپنی پارٹی کے اندرسے ہے۔ اسے سابق وزیر اعلی کیشوبھائی پٹیل سے بھی اتنا ڈرنہیں لیکن جب سنگھ کے متوقع آر ایس ایس ورکر کیشو بھائی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو یہ ضرور مودی کے لئے تشویش کا سبب بن جائے گا۔ اس لئے مرکزی بھاجپا لیڈر شپ نے اب دورخی حکمت عملی پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ایک تو گجرات کو جنرل اسمبلی تک محدود نہ کرنا بلکہ اس کی قومی اہمیت کا دعوی کرنا۔ اب تک پارٹی کے لیڈر اور خودنریندر مودی اشارے اشارے میں یہ بات کرتے تھے لیکن اب نیتا کھل کر نریندر مودی کو ہونے والے و

دھوکہ،غلط فہمی پھیلانے والے اشتہارات پر کارروائی ہو

آج کل ٹی وی اور اخبارات میں ایسے اشتہارات کی کمی نہیں جن میں دعوی کیا جاتا ہے کہ ان کے استعمال سے کم سے کم وقت میں موٹاپا،شگر کی بیماریاں یہاں تک کہ دل سے جڑی بیماریوں سے بھی نجات پائی جاسکتی ہے۔ بچوں سے متعلق اشتہارات کا تو سیلاب ہی آگیا ہے۔ مثال کے طور پر دودھ میں ملائے جانے والے پروڈکٹس بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات میں بچوں کی نشو ونما اور یادداشت میں دوگنا رفتار سے اضافہ، جسم کو فوراً تقویت دینے اور لمبائی دوانچ بڑھانے وغیرہ کا دعوی کیا جاتا ہے۔ یہ چیزیں بازار میں خاصی مقبولیت حاصل کرچکی ہوتی ہیں تبھی تو سامان بنانے والی کمپنیاں لاکھوں روپے اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں۔ اسی طرح سے کہا جاتا ہے چاکلیٹ ملے مشروبات سے بچے لمبے، طاقتور اور تیز ہوجاتے ہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کوئی بھی حقیقت یا سائنسی مطالعہ سامنے نہیں آیا جو ان دعوؤں کی تصدیق کرتا ہو۔ شاید یہ ہی وجہ ہے ہندوستانی غذائی سکیورٹی و اسٹنڈرڈ اتھارٹی یعنی ایف ایس ایس آئی نے کئی شکایتوں کے پیش نظر ایسے 35 معاملوں میں نوٹس جاری کیا ہے۔ اخبارات ٹی وی چینلوں اور دوسری پبلسٹی ذرائع پر دکھائے جانے والے اشتہارات سے متع

رابرٹ واڈرا کو کلین چٹ دینے کا معاملہ

سرخیوں میں چھائے رابرٹ واڈرا زمین گھوٹالے معاملے پر وزیراعظم کے دفتر نے واڈرا کو کلین چٹ دے د ی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی بنچ میں چل رہے ایک مقدمے کے سلسلے میں سونیاگاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کے خلاف اروند کجریوال کے ذریعے عائد الزامات پر پی ایم او کی طرف سے جواب داخل کیا گیا ہے اس اعتراض نامے میں کہا گیا ہے کہ واڈرا پر لگے الزامات بے بنیاد ہی نہیں بلکہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ معاملہ رابرٹ واڈرا و ہریانہ کی ڈی ایل ایف کمپنی کے درمیان کا ہے ایسے میں وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جانچ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ خیال رہے کہ نوتن ٹھاکر کی عرضی پر گذشتہ11 اکتوبر کو الہ آبادہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے مرکزی سرکار کو عرضی پر اعتراض پرجواب داخل کرنے کے لئے تین ہفتے کا وقت دیا تھا۔ یہ معاملہ سینئر وکیل جسٹس اوما ناتھ سنگھ اور جسٹس وریندر ناتھ دیکشت کی ڈویژن بنچ کے سامنے چل رہا ہے۔ بحث اس نکتہ پر ہورہی ہے کہ کیا عرضی سماعت کے لائق ہے یا نہیں مرکزی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل موہن پرکاش پراشن کی دلیل تھی کہ عرضی میڈیا رپورٹ پر مبنی ہے۔ ایسے میں اخبا

راجہ کولندرعرف رام نرنجن کا رونگٹے کھڑے کرنے والا کیس

یہ کلجگ کا دور ہے اس دور میں بربریت ،ظلم اور غیر انسانی حرکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ کچھ آدمی تو کہنے کو انسان ہوتے ہیں لیکن برتاؤ میں وہ جانور سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ راجہ کولندر عرف رام نرنجن کا سامنے آیا ہے۔ صحافی دھریندر سنگھ قتل کا راز نہ کھلتا تو رام نرنجن عرف راجہ کولندر کا پتہ نہیں چلتا کہ اس نے کتنے لوگوں کو کاٹ کر ان کا بے رحمانی قتل کرکے ان کے سر گھر میں سجاتا ہے۔مگر دھریندر کے قتل کے معاملے میں کیج گنج پولیس پر دباؤ بنا تو پولیس حرکت میں آگئی اور پھر معاملے کی پرتیں کھلنے لگیں اور وہ ایسی کھلیں کہ پولیس افسروں کے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ راجہ کولندر عام یاشاطر قاتل نہیں بلکہ آدم خور نکلا۔ راجہ کولندر نے دھریندر کا قتل 14 دسمبر2002ء کو کیا تھا ۔ اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ صحافی دھریندر کو اس کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے ، وہ کبھی بھی اس کی کرتوت اخبار میں چھاپ کر اس کا کھیل ختم کرسکتا ہے۔ دھریندر کے قتل کی تفتیش کرنے والے اس وقت کے ایس او سری نارائن تیواری نے دھریندر کے موبائل سے اس کی آخری کال راجہ کولندر کی بیوی پھولن دیوی کے موبائل پر ہوئی

شہید کیپٹن سورو کالیا کو انصاف دلایا جائے

یہ بہت ہی دکھ کی بات ہے کہ کارگل جنگ کے شہید سورو کالیا کے پتا کو اپنے بیٹے پر پاک سینا کے ذریعے کئے گئے غیر انسانی ظلم کی کارروائی کی مانگ کو لے کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ہے۔ کارگل جنگ میں شہید کیپٹن سورو کالیا اور ان کے پانچ ساتھیوں کی لاش کے ساتھ پاکستانی سینا کے غیر انسانی سلوک کا معاملہ واقعی تکلیف دہ ہے۔ کارگل جنگ ختم ہوئے13 سال ہوگئے ہیں۔ ان 13 سالوں میں کسی بھی بھارتیہ سرکار نے اس معاملے کو اٹھانے کی ہمت نہیں دکھائی۔اس سے صاف ہے کہ ہمارے سرکاری تنتر میں صرف عام لوگوں کو ہی نہیں بلکہ دیش کے لئے جان قربان کرنے والے شہیدوں کے لئے بھی وہ کتنے غیر ذمہ دار ہیں۔ شہید کیپٹن سورو کے پتا ایم کے کالیا محض اتنا چاہتے ہیں کہ پاک سینا کی طرف سے ان کے بندی بیٹے کو جس طرح سے اذیتیں دے کر مار ڈالا گیا اسے بھارت سرکار بین الاقوامی عدالت میں اٹھائے۔ کوئی سمویدن شیل سرکار ہوتی تو ایسا خود بخود کرتی لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ این کے کالیا کے ذریعے بار بار آگاہ کئے جانے کے باوجود بھارت سرکار کے ذریعے اس موضوع پر کچھ ٹھوس قدم نہیں اٹھا نے کی ہمت نہیں دکھا پائی۔حیرانی ہوتی ہے کہ اب تک کسی س

ہردیپ چڈھا کے قتل کی گتھی سلجھنے کا دعوی

چڈھا برادران قتل کانڈ کے پہلے دن سے جاری تمام شبہات و اٹکلوں سے دھیرے دھیرے پردہ ہٹنے لگا ہے۔ ہم نے تو پہلے دن سے ہی کہا تھا کہ اس قتل کانڈ کا اصل فگر سکھدیو سنگھ نام دھاری ہیں اور اسی کے ارد گرد ساری واردات گھوم رہی ہے۔ اب یہ قتل کانڈ کی گتھی سلجھانے میں لگی دہلی پولیس کے کرائم برانچ نے سکھدیو سنگھ کو اہم ملزم بنا کر ان پر قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کے مطابق نامدھاری نے ہی پورے شرینتر کے تحت چھوٹے بھائی ہردیپ چڈھا کا قتل کیا تھی۔ جمعرات کو نامدھاری کو پانچ دنوں کی پولیس حراست میں لے کر میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ گورو کی عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے نامدھاری کو پیش کرتے ہوئے الزام کنندگان کی طرف سے الزام لگایا کہ نامدھاری ہی اس معاملے میں ہردیپ پر گولی چلانے کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی ہے۔ جریح میں کہا گیا کہ سکھدیو سنگھ نے ہی ہردیپ پر اپنی پستول سے گولی چلائی اور یہ بات اس نے اپنے پولیس کو دئے بیان میں کہی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ نامدھاری پونٹی چڈھا کہا فرنٹ مین ہے اور فارم ہاؤس میں غنڈہ گردی، لوٹ پات و ہتیا کے پریاس کے معاملے میں ملزم ہے۔ اس پر نامدھاری کے وکیل نے جر