اشاعتیں

نومبر 19, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کس طرف لہر ،کانگریسی یا بھاجپا ؟

گورکھپور کے ندی چوک کے قریب چائے ناشتے کی ایک دکان پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں چناﺅ کے تذکرہ ہو رہا تھا موجود لوگوں میں کانگریس اور بھاجپا کو لیکر الگ الگ رائے تھی بھاجپا اور کانگریس کو لیکر بہس ہوتی رہی اور بات اشوک گہلوت اور وسندھرا راجے تک پہنچ جاتی ہے باتوں باتوں میں ان لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کے اگر ان کی پسند دیدہ پارٹی کامیاب ہو جاتی ہے تو وزیراعلیٰ کون ہوگا ایک شخص دویندر بشنوئی کا دعوا تھا کے بی جے پی ہی کامیاب ہوگی اور وسندھرا راجے سندھیا اگلی وزیراعلیٰ ہوگیں ان کے ساتھ بیٹھے دوسرے شخص للت سنگھ کا کہنا تھا کے کانگریس کی حکومت پھر واپسی کریں گی اور اشوک گہلوت ہی وزیراعلیٰ بنیں گے یہاں ےہ بتانا ضروری ہے کہ ریاست میں ووٹروں کے دل میں یہ بات بس گئی ہے کے ہر5 سال میں تبدیلی ہوتی ہے وہ اس سے سرکار کی تمام اچھائیاں اوربرائیاں ٹٹولتے ہیں ۔اشوک گہلوت کی رہنمائی والی کانگریس حکومت اسی سیاسی چرن کو بدلنے کی پوری طاقت چھنوک رہی ہے راج نہیں رواج بندلے گا تھیم پر وہ جارحانہ طرےقے سے چناﺅ مہم میں ہے ایک سال کے دوران ان کی اسکیموں کا صاف اسر دکھائی پڑتا ہے ۔جئے پور جود پور ہائی وے سے لگے گاﺅں چ

آسٹریلیا نے ورلڈ کپ جیتا لیکن ٹیم انڈیا نے دل جیتا !

اس کرکٹ ورلڈ کپ میں ایک بار بھی ہار کا منھ نہ دیکھنے والی ٹیم انڈیا نے دیش واسیوں کے دل میں ورلڈ کپ کی امید کو یقین میں بدل دیا تھا مگر اتوار کو ہوئے فائنل میچ امید کے برعکس رہا ۔شروع کے میچوں میں ہار کو منھ دیکھنے والی آسٹریلیائی ٹیم نے بیشک کپ جیتا ہو مگر ٹورنمنٹ میں ٹیم انڈیا نے دل جیتا ۔مین آد دا ٹونمنٹ کا خطاب وراٹ کوہلی کو ملنا تو یہی بتاتا ہے میں کوئی کرکرٹ ایکس پرٹ نہیں ہوں لیکن میری رائے میں ٹورنمنٹ میں سارے میچ چیتنا ٹیم انڈیا کو بھاری پڑ گیا ۔اگر ایک دو میچ ہار جاتے تو شائد اور یقین اور توجہ سے کھیلتے آسٹریلیائی کھلاڑیوں نے 2 میچ ہار کر جیتنے کا فن سیکھ لیا اور ہم سارے میچ جیتکر بھی فائنل میں ہار گئے ورلڈ کپ سے پہلے ٹیم انڈیا کی پرفارمینس کو لیکر سبھات جتائے جا رہے تھے فلڈنگ سے لیکر بالنگ اور آل راﺅنڈر کھیلاڑیوں کی کمی پر سوال اٹھائے جا رہے تھے ۔حالانکہ ورلڈ کپ میں ایک کے بعد 10 میچ جیت کر ٹیم انڈیا نے بتا دیا کہ وہ سپر پاوور ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے اگر ےہ میچ وان کھڑے اسٹیڈیم میں ہوتا یا ایڈن گارڈن یا فروز شاہ کوٹلہ گراﺅنڈ میں ہوتا تو شائد ٹیم انڈیا کے ہاتھوں میں کپ ہوتا ک

اب سہارا گروپ کا کیا ہوگا؟

ایک وقت تھا جب سہارا گروپ کے پاس لندن سے لیکر نیویارک تک ہوٹل تھے ،اور اپنی ائر لائنس اور آئی پی ایل سے لیکر بہت کچھ تھا ٹیم تھی یہیں نہیں سہارا گروپ ٹیم انڈیا کو بھی اسپانسر کر تی تھی کمپنی کی پہنچ بلڈنگ تعمیرات سے لیکر مالی سیوائے سٹی ڈولپمنٹ ، میوچیول فنڈ لائف انشورینس وغیرہ سیکٹر تک تھی ۔اس کمپنی کے پاس ایم ڈی ویلی ٹاﺅنس شپ تھی، لکھنو¿ سمیت کئی شہروں میں زمین کی بڑی جائیدایں تھی ،دیش بھر میں ہزاروں ملازم اس کمپنی میں کام کرتے تھے کمپنی کا اپنا میڈیا تھا اپنے شروعاتی دنوں میں سکوٹر پر چلنے والے سہارا شری سبرت رائے سہارا کی پارٹیوں میں سیاسی اور کرکٹر سے لیکر پالی ووڈ سمیت تمام ہستیاں نظر آتی تھی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2009 میں ان کے 2 بیٹوں کی شادی میں 500 کروڑ روپے خرچ کرنے کی بات سنی گئی تھی ان میں 11 ہزار سے زیادہ مہمان شامل ہوئے اور ان کو جہازوں سے لایا گیا تھا ۔وقت بدلتا ہے جب 14 نومبر کو سبرت رائے کی موت ہوئی خبر آئی تب کمپنی کی حالت پہلے سے کافی الگ یعنی کمزور ہے ۔سہارا گروپ اپنی کئی پروپرٹی کو بیچ چکا ہے اور اب کمپنی میں گلیمر نہیں رہا اور کمپنی کی مالی حالت بہت کمزور ہے اب

نتن ےاہو کے خلاف غصہ کیوں بھڑک اٹھا!

اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے خلاف جہاں دنیا میں غصہ بڑھ رہا ہے وہیں ان کے اپنے ملک اسرائیل میں بھی ان کے خؒاف زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں ان کے استعفیٰ کی مانگ یروشلم کی سڑکوں پر کی جا رہی ہے ۔کچھ اسرائیلیوں کا الزام ہے کے نتن یاہو نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے اسرائیل کو اس جنگ میں جھونکا ہے تو کچھ کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں کا غصہ یرغمالوں کو چھڑانے میں ڈھیل کے خلاف ہے لوگ سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے اسرائیل میں اچانک حملوں سے ملک کو جھجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ساتھ ہی پوری دنیا بھی پریشان ہے اسرائیل اور حماس کی جنگ کی وجہ سے سینکڑوں اسائیلیوں کی موت ہو گئی ہے اور ابھی بھی 200 سے زیادہ لوگ حماس کے قبضے میں ہیں 1 مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے جنگ جاری رہتے ہوئے ابھی تک اسرائیل ان یرغمالوں کو جھڑا نہیں پایا ہے اور یرغمال بنائے گئے لوگ اپنے گھر نہیں پہنچ پائے اس کو لیکر لوگوں میں کافی غصہ پایا جاتا ہے اسرائیل میں پچھلے کئی مہینوں سے عوام میں نراضگی چل رہی ہے ۔اس کی وجہ بنجامن نتن یاہو کا ایک فیصلہ ہے ۔وست مشرق میں جتنے بھی ملک ہیں ان میں سے کچھ ہی ہیں جہاں جمہوری نظام ہے ۔اسرائیل