اشاعتیں

اپریل 14, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جے ڈی یو کے سرکردہ لیڈر بنام دبنگی کی بیوی !

عام طور پر لوگ گھر بسانے کے لئے شادی کرتے ہیں لیکن چناو¿ لڑنے کے لئے شادی کی جائے تو معاملہ انوکھا ضرور بن جاتا ہے ۔اسی شادی کی وجہ سے موجودہ لوک سبھا چناو¿ میں بہار کی جن سیٹوں کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے ان میں منگیر لوک سبھا سیٹ بھی شامل ہے اس سیٹ پر آر جے ڈی نے کچھ مہینے جیل سے ضمانت پر باہر آئے اشوک مہتو کی بیوی انیتا دیوی کو ٹکٹ دے دیا ہے ۔جبکہ جے ڈی یو نے اپنے موجودہ ایم پی راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ کو ایک بار پھر چناو¿ میدان میں اتارا ہے ۔للن سنگھ پچھلے سال تک جنتا دل یونائٹڈ کے صدر تھے بی جے پی نے الزام لگایا تھا کہ آر جے ڈی سے قربت کی وجہ سے للن سنگھ کو صدر کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا اشوک مہتو کا تعلق سال 2000 کے آس پاس بہار کے نوادہ ، شیخ پورہ ، جموئی اور آس پاس کے علاقوں میں سرگرم اس مہتو گروپ سے رہا ہے جو پسماندہ برادریوں کے درمیان کئی خونی جھگڑے ہوئے تھے ۔بہار میں گینگوار اور ایس پی امت لوڈھا کا وہ سچ جس پر بنی فلم خاکی ہے۔ دی بہار چیپٹر اشوک مہتو کو سال 2001 میں نوادہ جیل بریک کانڈ میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا ۔بہار کی اس لڑائی پر او ٹی ٹی پر ویب سیریر خاکی : دی بہار چیپٹ

بالی ووڈ کی کوئن یا ہماچل کی پرنس!

کنگنا رناوت میرے بارے میں کہتی ہیں کہ میں راجہ کا بیٹا ہوں ،میرے والد ویر بھدر سنگھ صرف رام پور شہر سیاست کے راجہ نہیں تھے وہ ہماچل پردیش کے دلوں کے راجہ تھے ۔اور مجھے فخر ہے کہ میں ان کا بیٹا ہوں ۔ہماچل پردیش کے پی ڈبلیو ڈی وزیر اور منڈی لوک سبھا سیٹ سے کانگریس امیدوار وکرم آدتیہ سنگھ رام پور کشر شہر میں اکٹھا لوگوں سے خطاب کررہے تھے ۔سنیچر کی شام کانگریس کی جانب سے منڈی لوک سبھا سیٹ کے امیدوار بنائے جانے کے اگلے دن وہ اپنی چناو¿ کمپین کا آغازکر رہے تھے ۔بی جے پی کی جانب سے ٹکٹ دئیے جانے کے بعد سے یہ مانا جانے لگا تھا کہ کانگریس اس بار ان کی ماتا اور موجودہ ممبر پارلیمنٹ کرتیہ سنگھ کے بجائے وکرما آدتیہ سنگھ کو منڈی سے اتار سکتی ہے ۔وجہ یہ تھی کہ وکرما آدتیہ نے سیدھے کنگنا رناوت کو پرانے بیانوں کو اٹھاتے ہوئے ان پر تنقید شروع کر دی تھی ۔پھر کنگنا نے بھی سیدھے وکرما آدتیہ سنگھ پر پلٹ نکتہ چینی شروع کر دی ۔منڈی لوک سبھا سیٹ میں چھ ضلعوں کے 17 اسمبلی حلقے آتے ہیں ۔ان میں سے تین اسمبلی حلقے درج فہرست برادریوں کے لئے ریزرو ہیں اور پانچ قبائلی برادریوں کے لئے ،ہماچل پردیش کی چاروں لو ک سبھا

چھتریوں نے بڑھائی بھاجپا کی دھڑکنیں !

لوک سبھا چناو¿ جیتنے کے لئے ایک ایک ووٹ پانے کے لئے سخت محنت کررہے بھاجپا کے لیڈروں کے سامنے چھتریہ انجمنوں نے پریشانی کھڑی کر دی ہے ۔گجرات اور مغربی اتر پردیش میں چھتریہ انجمنوں نے آندولن چھیڑا ہوا ہے ۔وزیراعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے تھوڑی پریشانی کھڑی ہو سکتی ہے ۔دراصل مرکزی وزیر پرشوتم روپالا نے چھتریوں کو لیکر ایسی رائے زنی کر دی جس سے سماج کے لوگ آندولن پر اتر آئے ہیں ۔غازی آباد کے ایم پی وی کے سنگھ کا ٹکٹ کٹنے سے چھتریہ مغربی اترپردیش اور ہریانہ میں آندولن کررہے ہیں ۔روپالا 22 سال کے بعدچناوی سیاست میں اترے ہیں ۔اور وہ گجرات دنگوں کے بعدچناو¿ ہار گئے تھے تب سے وہ راجیہ سبھا میں ہی ہیں ۔اس بار وزیراعظم نریندر مودی نے راجیہ سبھا کوٹے سے منتری بنے نیتاو¿ں کو چناو¿ میں اتارا ہے ۔پروشوتم روپالا کو راج کورٹ سے چناو¿ میدان میں اتارا گیا ہے ۔روپالا نے ایک ریلی میں کہا کہ آزادی کے آندولن میں دلت مورچہ پر ڈٹے رہے لیکن چھتریوں نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے ۔وہ یہیں نہیں رکے انہوںنے آگے کہا چھتریوں کا مغلوں کے ساتھ روٹی بیٹی کا رشتہ تھا ۔روپالا کے اس بیان

بہن جی نے اکیلا چلو کی ٹھانی !

بسپا چیف مایاوتی جو کہتی ہیں وہ کرتی ہیں ،کرکے دکھاتی ہیں ۔کئی انتخابات میں بہتر نتیجہ نہ آنے کے بعد بھی ان کے تیور میں کوئی کمی نہیں ہے ۔جہاں دیش بھر میں چھوٹی سے لیکر بڑی پارٹیاں این ڈی اے یا انڈیا اتحاد میں جانے کو بے چین ہیں وہیں بسپا سپریمو نے یوپی میں عام چناو¿ اپنے دم خم پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔حالانکہ اس فیصلے نے سب کو ضرور چونکا دیا ہے ۔ان کو آج بھی اپنے کیڈر پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے ۔یہی کیڈر ان کا گمان اور شان بھی ہے ۔بسپا کا نعرہ ہے سروجن ہتائے و سروجن سکھائے ۔وہ دبے کچلے محروموں کے لئے سیاست کرتی ہیں ۔وہ اپنی تقریر کی شروعات بھی ان کو لیکر ہی کرتی ہیں ۔دیش بھر کی پارٹیوں پر الزام لگاتی ہیں کہ چناو¿ کے وقت دلت اور استحصال شدہ اور محروم لوگ یاد آتے ہیں ۔مایاوتی چناو¿ نزدیک آتے ہی بھاجپا ،کانگریس ،سپا و دیگر اپوزیشن پارٹیوں پر بھی ڈاکٹر بھیم راو¿ امبیڈکر ،کاشی رام ،سنت رویداس کی یاد آنے کا ڈھونگ کرنے کا بھی الزام لگاتی ہیں ۔مایاوتی نے انڈیا اتحاد سے دور رہ کر اپنے کیڈر کے بھروسہ چناو¿ میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے ۔بھتیجے آکاش کے ذریعے کمپین کی حکمت عملی اپنائی

2019 کی پرفارمنس بھاجپا دہرا پائے گی؟

برہم اور بے چینی ،گڑ بڑی مہاراشٹر میں سیو سینا اور راشٹر وادی پارٹی (این سی پی ) میںپھوٹ کے بعد کئی لوگوں میں یہی لفظ سنائی پڑ رہے ہیں ،مہاراشٹر میں 2024 لوک سبھا چناو¿ ریاست کی دو بڑی پارٹیوں میںپھوٹ کے سائے میں ہو رہے ہیں ۔بھاجپا ،کانگریس کے علاوہ اب یہاں دو شیو سینا یعنی دو پوار والی پارٹیاں ہیں ۔پونے کے ڈولپ ناندیڑ سٹی علاقے کے ایک ووٹر کا کہنا ہے ،جہاں پیسہ ہوتا ہے نیتا وہیں جاتے ہیں ۔لوگ اتنے پریشان ہیں کہ ان کا ووٹ ڈالنے کے لئے جانے کا من نہیں ہے ۔اسی شہر میں ایک دوسرے ووٹر نہیں کہا گھوٹالے والوں کو تم کیوں لے رہے ہو۔گھوٹالے والے ادھر گئے اور سب منتری بن گئے یہ کیسے چلتا ہے لوگ سمجھ رہے ہیں ۔ممبئی کے مشہور شیواجی پارک کے باہر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ایک ریٹائر ایس پی کے مطابق لوک پارٹیاں توڑنے کے خلاف ہیں ان کے نزدیک کھڑے ایک اور شخص نے تنقیدی لہجہ میں کہا کہ بھاجپا توڑ رہی ہے اس کا مطلب تم میں کچھ تو کمیاں ہیں ۔اس وجہ سے وہ لوگ توڑ رہے ہیں ۔جمہوریت خطرے میں ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے دعووں پر وہ پوچھتے ہیں کس کی جمہوریت خطرے میں ہے ۔ہندو کا لوک تنتر خ طرے میں ؟َ عام آدمی کا لو

ووٹروں کیلئے بڑے چناوی اشو !

سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈولپنگ سوسائٹی (سی ایس ڈی ایس ) کے لوک نیتی پروگرام کے تحت ووٹنگ سے پہلے سروے میں ووٹروں کے من کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔سروے میں لوگوں نے مانا کہ پچھلے پانچ برسوں میں روزگار کے مواقعوں میں گراوٹ آئی ہے ۔ضروری چیزوں کی قیمتوںمیں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ان کی وجہ سے لوگوں کی معیاری زندگی بیلنس رکھنے میں پریشانی ہو رہی ہے ۔سروے میں شامل 62 فیصدی لوگ مانتے ہیں کہ آج کے دورمیں نوکری پانا سب سے مشکل ہے ۔شہر سے لیکر گاو¿ں تک کے لوگوں کے پاس روزگار کا سنکٹ ہے ۔خواتین کے لئے تو موقع اور بھی کم ہو گئے ہیں ۔بے روزگاری کے مسئلے پر کل 62 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ لوک سبھا 2024 چناو¿ میں جنتا کی نظروں میں یہ سب سے بڑا اشو ہے ۔62 فیصد گاو¿ں میں 65 فیصد شہروں اور قصبوں میں 59 فیصد کا خیال ہے کہ بے روزگار سب سے اہم ترین اشو ہے ۔وہیں 65 فیصد مرد اور 59 فیصد خواتین یہ مانتی ہیں کہ سروے میں لوگوں نے مانا کہ بے روزگاری اور مہنگائی کے لئے مرکز اور ریاستی سرکاریں ذمہ دار ہیں ۔ان کا خیال تھا کہ سبھی طبقوں کی بہتری کے لئے ریاستی حکومتوں کو دیش کی مالی حالت بیلنس رکھنے کے لئے آگے آنا