اشاعتیں

فروری 2, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چوتھی مرتبہ تیسرا مورچہ، مقصداقتدار میں آنا اور مودی کو روکنا!

غیر کانگریس ،غیر بھاجپا پارٹیوں نے ایک مرتبہ پھر ایک مشترکہ محاذ بنانے کی کوششیں تیز کردی ہیں یا یوں کہیں ایک مرتبہ پھر تیسرا مورچہ وجود میں آنے لگا ہے اور اس میں شروعاتی طور پر 11 پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں مشترکہ حکمت عملی سے چلنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں چاروں لیفٹ پارٹیوں کے علاوہ سماجوادی پارٹی، جنتا دل (یو)، جنتا دل (ایس)، انا ڈی ایم کے ، بیجو جنتادل ،آسام گن پریشد، جھارکھنڈ وکاس مورچہ وغیرہ شامل ہیں۔ جلد بازی میں درجنوں بل پاس کروانے کی سرکار کی منشا کو بھی یہ پارٹیاں ناکام کرنے کی پوری کوشش کریں گی۔ حال تک بھاجپا لیڈر شپ والے این ڈی اے کے کنوینر رہے شرد یادو اب نئے مورچے میں سرگرم کردار میں آگئے ہیں۔ بدھوار کو ان پارٹیوں کی میٹنگ کے بعد انہوں نے دعوی کیا کہ یہ سانجھیداری محض پارلیمانی عمل تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جلد ہی سبھی پارٹیوں کا مشترکہ پروگرام بھی سامنے آئے گا۔ انہوں نے کہا ہمارا پروگرام یہ یقینی کرنا ہے کہ لوگ کیسے اپنا گزر بسر کرسکیں۔ دیش کے سیکولرازم کے ڈھانچے کو کیسے محفوظ رکھا جا سکے اور کرپشن پر کیسے قابو پایا جائے۔ 15 ویں لوک سبھا کا یہ آخری اجلاس ہے جس کے ختم ہو

پھر بوتل سے نکلا ’کیش فا رووٹ ‘ کا جن!

دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنی کرپشن کے خلاف لڑائی میں ایک نیا باب جوڑ دیا ہے۔ سیاست کے سب سے بڑے گھوٹالوں میں شمار ’نوٹ کے بدلے ووٹ‘ معاملے کی نئے سرے سے جانچ کرانے اور کیس کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔جمعرات کو دہلی کے وزیر تعلیم منیش سسودیانے اس کی جانکاری دی۔دہلی سرکار اب اس معاملے کی اپیل دہلی ہائی کورٹ میں کرنے والی ہے۔ سرکاری وکیل کی مانیں تو اس معاملے میں موجود آڈیو ویڈیو ثبوت ہی کافی ہیں۔ سرکاری وکیل دیال کرشنن نے کہا اس کے باوجود ثبوت درکنار کیا گیا۔ نومبر2013ء میں دہلی کی نچلی عدالت نے امرسنگھ سمیت پانچ دیگر ملزمان کو چھوڑدیا تھا۔ دہلی سرکار کا ایسا خیال ہے کہ جو ثبوت ان کے ہاتھ لگے ہیں اس سے کئی بڑے لوگ شکنجے میں پھنس سکتے ہیں۔ اس لئے قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر تعلیم منیش سسودیا نے کہا کہ2008ء میں پارلیمنٹ کے اندر نیوکلیائی معاہدے پر یوپی اے سرکار کو بچانے کے لئے بھاجپا ممبران کو رشوت دینے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ 22 جولائی 2008ء کو بھاجپا کے تین ایم پی اشوک ارگل،چھگن سنگھ کلستے، مہاویر سنگھ بھگوڑا، لوک سبھا میں ایک کرور روپے کے نوٹ کے بنڈل لہرائ

کیجریوال سرکار کب تک چلے گی؟

ہندی کی ایک فلم آئی تھی’’ یہ آگ کب بجھے گی‘‘ اسی طرز پر دہلی کی جنتا سوال پوچھ رہی ہے کہ کیجریوال سرکار کی عام آدمی پارٹی کی سرکار کب گرے گی؟ یہ اقلیتی ’’آپ‘‘ پارٹی کی حکومت تب ہی گرے گی جب کچھ ممبر اسمبلی حکومت سے حمایت واپس لے لیں گے۔ یہ دو ہی صورت میں ہوسکتا ہے پہلا اگر کانگریس کے پانچ ایم ایل اے حمایت واپس لے لیںیا پھر ’آپ‘ پارٹی کے 28 میں سے ایک تہائی ممبران حمایت واپس لیں۔ آزاد ممبر اسمبلی بھی اپنی حمایت واپس لے تو بھی سرکار خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ پچھلے دنوں عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے ونود کمار بننی نے حکومت گرانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ جنتا دل (یو) کے ایم ایل اے شعیب اقبال، آزاد ممبر اسمبلی رامویر شوقین نے پہلے تو بننی کا ساتھ دیا پھر کیجریوال سے بات چیت کرنے کے بعد اعلان کردیا کے ہماری حمایت جاری رہے گی۔ رہی بات کانگریس کی تو کیجریوال کا سارا دارومدار اس کی حمایت پر ٹکا ہوا ہے۔ آئے دن کانگریسی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں ہم اپنی حمایت واپس لے لیں گے لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ فی الحال کانگریس حمایت واپس لے گی۔ کانگریس یوں ہی کیجریوال پر تلوار لٹکائے رکھے گی۔ دہلی پردیش کانگریس پردھان

پچھلے10برسوں میں یوپی اے سرکار کو مہنگائی کی فکر نہیں ہوئی!

چناؤ سے عین پہلے مہنگائی روکنے کے اقدامات کرتی دکھائی پڑ رہی یو پی اے سرکار اپنے 10 سال کے عہد میں اسے روکنے کی مکینزم کی بنیاد نہیں رکھ سکی۔ مسلسل برسوں تک عوام کو مہنگائی کے کوڑے لگانے والی کانگریس یوپی اے سرکار کو اب جب سر پر چناؤ ہیں دام گھٹانے کے بارے میں خیال آیا ہے۔ اس نے سی این جی و پی این جی کے دام گھٹانے کا اعلان کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں رسوئی گیس کے رعایتی سلنڈروں کی تعداد 9 سے بڑھا کر12 کردی گئی تھی اب سی این جی اور پی این جی کے داموں میں راحت دیکر خاص کر بڑے شہروں کے صارفین کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیر کو وزیر پیٹرول و قدرتی گیس ویرپا موئلی نے جب سی این جی کے دام میں 30 فیصدی اور پی این جی کے دام میں20 فیصدی کمی کا اعلان کیا تو ان کے چہرے پر چناوی رنگ کی لکیریں صاف دکھائی پڑ رہی تھیں۔ اس کا مقصد عام آدمی کو راحت پہنچانا ہے لیکن یہ ہی فکر پچھلے دس سالوں میں اس سرکار کو کیوں نہیں ہوئی؟ سرکاری مشینری کی بے حالی کا عالم یہ ہے کہ غذائی پروڈکٹس کی مہنگائی انتہا پر پہنچ گئی ہے بازار کا حساب کتاب اتنا بگڑ گیا نہ تو مانگ بڑھنے کا فائدہ کسانوں کو مل رہا ہے اور نہ ہی ریکارڈ

راہل گاندھی بنام نریندر مودی بنام کیجریوال!

چناؤ کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی موقعہ نہیں گنوا رہے ہیں۔ اکثر کم بولنے والی کانگریس صدر سونیا گاندھی چناؤ میں ہر بار کمپین میں کوئی نہ کوئی تلخ بات نریندر مودی کے لئے ایسی بول دیتی ہیں جس کا ردعمل ہوتا ہے۔ اب تازہ واقعے میں سونیا گاندھی نے گلبرگ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا بھاجپا اور وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی اقتدار کی بھوک کے لئے تشدد کو بھڑکانے اور زہر کی کھیتی جیسی تباہ کن سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا بھاجپا کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اقتدار کے لئے لالچ۔ بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی نے کانگریس پردھان کو زبردست جواب دینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ میرٹھ میں ایک ریلی کو خطاب میں انہوں نے سونیا گاندھی کے زہر کی کھیتی والے بیان پر زوردار حملہ کیا۔ ان کا کہنا ہے یہ کانگریس ہی ہے جو مختلف فرقوں کو لڑوا کر زہر کے بیج بونے اور اس کی فصل کاٹنے کا کام کرتی آرہی ہے۔ میرٹھ میں ایتوار کو اپنی ریلی میں کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا میں سونیا گاندھی نے پوچھتا ہوں کے کسان خودکش

پاور کٹ اور بجلی کمپنیوں کا گورکھ دھندہ!

دہلی میں بجلی جانے کی شکایتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ پاور کٹ سے جنتا پریشان ہے۔ دہلی سرکار اور بجلی کمپنیوں میں کھینچ تان جاری ہے۔ بجلی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ہم گھاٹے پر چل رہے ہیں ریٹ بڑھاؤ نہیں تو ہم بجلی کی سپلائی میں کٹوتی کریں گے۔ کیا واقعی بجلی کمپنیوں کو خسارہ ہے؟ اگر ہم آر ڈبلیو اے تنظیم کی بات پر یقین کریں تو یہ تینوں کمپنیاں بی آر پی ایل ،ٹی پی ڈی ڈی ایل اوربی وائی جی ایل منافع کما رہی ہیں اور قطعی خسارے میں نہیں ہیں۔ ان تنظیموں کے مطابق گذشتہ مالی سال تک بجلی کمپنیوں کو قریب900کروڑ سے زیادہ کا فائدہ ہوا ہے۔ آر ڈبلیو اے نے اس بارے میں بجلی کمپنیوں کے دستاویزات کی بنیادپر ہی یہ انکشاف کیا ہے جنہوں نے ڈی ای آر سی میں جمع کرائے ہیں وہ دستاویز کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ آر ڈبلیو اے انجمنوں نے بجلی کمپنیوں کے ہی دستاویزات دیکھے ہیں جن کے مطابق بی ایس ای ایس جمنا کو چھوڑ کر باقی دونوں کمپنیاں منافع میں ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق بی ایس ای ایس راجدھانی کو ہی قریب 654کروڑ روپے کا منافع ہوا ہے۔ سرکاری دستاویزوں میں بجلی کمپنیوں نے جو جانکاری دی ہے اس میں یہ کمپنیاں بجلی تقسیم سے کروڑوں کی

12 سال بعدآخر کار ہریش راوت کا بنواس ختم!

مرکزی وزیر ہریش راوت کا سنیچر کے روز 12 سال کا بنواس آخر تب ختم ہوگیا جب دہرہ دون میں کانگریس ممبر اسمبلی کی میٹنگ میں کافی جدوجہد کے درمیان ہریش راوت کے نام پر اتفاق رائے بن گیا۔ گھنٹوں انتظار کے بعد آخر کار میڈیا سے روبرو ہوئے کانگریس جنرل سکریٹری جناردن دویدی نے بتایا کے وجے بہوگنا نے نئے وزیر اعلی کے طور پر ہریش راوت کے نام کی تجویز رکھی گئی جس پر عام اتفاق رائے سے انہیں اسمبلی پارٹی کا نیتا چن لیا گیا۔ اس کے بعد شام کو راج بھون میں گورنر عزیز قریشی نے انہیں عہدہ راز داری کا حلف دلایا۔ اس وقت کے وزیر اعلی وجے بہوگنا کے استعفے کے بعد ان کے جانشین کے لئے دوڑ تیز ہوگئی تھی۔ مقابلہ ہریش راوت اور ستپال مہاراج و اندرا ہردمیش میں تھا۔ یہاں تک بتایا گیا کہ ستپال مہاراج کو 22 ممبران اسمبلی کی حمایت تھی اس سے پہلے اندرا کے حق میں زوردار لابنگ ہورہی تھی۔ اس کے پیچھے دلیل دی جارہی تھی کہ کسی ایم ایل اے کو ہی نیا وزیر اعلی بنایا جانا چاہئے۔ اس بات کی بھی دہائی دی گئی کے راہل گاندھی کہہ چکے ہیں کانگریس حکمراں ریاستوں میں وزیر اعلی کا عہدہ خاتون کو ہی ملے گا تو اب موقعہ ہے اس تجربے کی شروعات ا

پی ایم ان ویٹنگ کی دوڑ میں اب جے للتا بھی شامل!

عام طور پر وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں نریندر مودی۔ راہل گاندھی کا ہی نام لیا جاتا ہے لیکن ایک طرف ایک اور پی ایم ویٹنگ بھی ہیں،وہ ہیں انا ڈی ایم کے کی لیڈر اور وزیر اعلی جے للتا۔تاملناڈو کی سیاست میں آیا نیا موڑ جے للتا کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ڈی ایم کے میں اندرونی کھٹ پٹ جاری ہے۔ اس صورت میں انا ڈی ایم کے لوک سبھا چناؤ میں اہم کردار نبھا سکتی ہے۔ جے للتا خیمے میں امید بڑھ گئی ہے کہ پارٹی 2014ء لوک سبھا چناؤ میں تاملناڈو اور پونڈوچیری کی40 سیٹوں میں زیادہ تر جیت کر اگلے پی ایم کی دوڑ میں شامل ہوسکتی ہیں۔ جے للتا نے بھی صاف کردیا ہے کہ وہ لیفٹ پارٹیوں کو چھوڑ کر کسی بھی دوسری قومی پارٹی کے ساتھ چناؤ سے پہلے اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایتوار کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے جے للتا نے آنے والے لوک سبھا چناؤسے پہلے مارکسوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کا اعلان کردے۔ بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں اے ۔بی وردھن اور سدھاکر ریڈی کے ساتھ انا ڈی ایم کے چیئرمین اور تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے چنئی میں اپنی رہائشگاہ پر اخبار نویسوں سے کہا کہ انا ڈی ایم کے اور مارکسی پارٹی نے لوک سبھا چناؤ کا مقا

الفا لیڈرپریش بروا کو موت کی سزا !

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے دیش کی تاریخ میں ہتھیاروں کی سب سے بڑی برآمدگی کے10 سال پرانے معاملے میں جمعرات کو جماعت اسلامی کے سربراہ اور بھارت کی علیحدگی پسند تنظیم الفا کے سینئرلیڈر سمیت 14لوگوں کو موت کی سزا سنائی ہے۔جج ایس۔ ایم مجیب الرحمان نے سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان پرہجوم عدالت میں یہ فیصلہ سنایا۔ خیال رہے یہ فیصلہ ہتھیاروں سے بھرے10 ٹرکوں کو 2 اپریل 2004ء کو ضبط کرنے کے قریب ایک دہائی بعد آیا ہے۔ان ٹرکوں کو بنگلہ دیش کے ذریعے بھارت کے شمال مشرقی الفا ٹھکانوں پر بھیجا جانا تھا۔ ٹرکوں میں لدے قریب 1500 بکس میں اے۔کے47 ، چائنیز پستولیں، کاربائن، راکٹ لانچ،27ہزار دستی بم اور1.1 کروڑ گولیوں کو برآمد کیا گیا تھا۔ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (الفا) کی فوجی برانچ کے چیف پریش بروا کو اس کی غیر موجودگی میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے چیف مطیع الرحمن نظامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو بھی سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد بی ایم پی کے حمایتی وکیلوں نے عدالت کے باہر نعرے بازی کی۔ اسے سیاسی اغراز پر مبنی فیصلہ بتایا۔ بنگلہ دیش میں الفا جیسی ہندوستانی دہشت پس

ایک غلط بیان سے راہل خود بھی پھنسے اور پارٹی کو بھی پھنسایا!

1984ء کے سکھ مخالف دنگوں پر راہل گاندھی کے بیان سے 30 سال پرانا یہ معاملہ لوک سبھا چناؤ سے پہلے ایک بار پھر گرماگیا ہے۔ اس سے کانگریس جہاں بیک فٹ پر ہے وہیں دوسری راجنیتک پارٹیوں کو کانگریس پر حملہ کرنے کا ایک سنہری موقعہ مل گیا ہے۔ بھاجپا اور اکالی دل (بادل) دنگا متاثرین کو انصاف دلانے کی مانگ کو لیکر سڑکوں پر اترآئے ہیں۔ وہیں سکھ دنگوں کی غیر جانبدارانہ جانچ کے لئے دہلی کی ’آپ‘ سرکار نے خصوصی جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) قائم کرنے کی پہل کردی ہے۔ جس کا اکالی دل اور بھاجپا بھی سمرتھن کررہے ہیں۔ اس ہلچل کے مدنظر اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں ایک طرف بھاجپا کو یہ فائدہ ہورہا ہے کہ 2002ء کے گجرات دنگوں پر کانگریس کی مہم کو دھکا لگا ہے وہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں دہلی میںیہ معاملہ اور طول پکڑے گا۔ ٹی وی چینلوں میں ایک بار پھر آپریشن بلو اسٹار پر بحث چھڑ گئی ہے۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔گذشتہ10 سالوں سے لگاتار دیش کی حکومت چلا رہی کانگریس کو ان دنوں اس کہاوت کی ٹیس ستارہی ہوگی۔ راہل گاندھی کو تیاری سے ٹائمس ناؤ ٹی وی چینل پر انٹرویو کے لئے اتارا گیا تھا۔ پارٹی کو امید رہی ہوگی کہ

آندھرا پردیش کی تقسیم کا معاملہ نئے ٹکڑاؤ کی طرف بڑھ رہا ہے!

آندھرا پردیش ودھان سبھا نے تلنگانہ کے قیام سے متعلق بل کو ایک آواز میں خارج کر کانگریس رہنماؤں کے لئے بے چینی کی حالت پیدا کردی ہے۔پردیش کے دونوں ایوانوں نے آندھرا پردیش پنر گھٹن ایکٹ 2013 کو خارج کردیا اور اس سلسلے میں پیش پرستاؤ کو ایک آواز میں قبول کرلیا۔ایک ڈرامائی پیش رفت کے درمیان ودھان سبھا ادیکش ناویندلا منوہر نے راجیہ کے وزیر اعلی این کرن کمار ریڈی کی جانب سے پیش سرکار کے پرستاؤ کو پیش کیا ہے جس میں ایکٹ کو خارج کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اس پرستاؤ کو سوتی طور پر پاس کردیا گیا۔ اس معاملے پر لمبے وقت تک بھولنے کے بعدکانگریس کی مرکزی سرکار نے ریاست کے قیام کے بل کو سیدھے سنسد میں لاکر مسئلے کا مستقل حل ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن اسے شاید ہی اندازہ رہا ہوگا کے راجیہ کا سیاسی سمی کرن اس طرح پلٹا کھائے گا۔ آندھرا پردیش کے وزیر اعلی کرن ریڈی نے راشٹرپتی پرنب مکھرجی سے ایکٹ کو سنسد میں نہ بھیجے جانے کا انورودھ بھی کیا ہے۔ پرستاؤ میں کہا گیا ہے کہ راجیہ کا وبھاجن بنا کسی سہمتی اور ٹھوس وجہ سے کیا جارہا ہے اور ایسا کرتے ہوئے لسانی اور ثقافتی یکسانیت اور معاشی اور انتظامیہ جیسے پہلوؤ