اشاعتیں

فروری 28, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چدمبرم نے کھڑا کردیاپارٹی کے سامنے مصیبتوں کا پہاڑ

کانگریس چیف سونیا گاندھی منگلوار کو بھلے ہی پارٹی کے سینئر لیڈر پی چدمبرم کے بچاؤ میں کھل کر سامنے آگئی ہوں لیکن چدمبرم سے وابستہ حالیہ تین واقعات نے کانگریس کو بیک فٹ پر آنے کو مجبور ضرور کردیا ہے۔پہلامعاملہ ہے چدمبرم کا انٹرویو۔ وہ بھی ایسے وقت جب مرکزی سرکار اور بی جے پی پوری اپوزیشن کو راشٹردروہی بنام دیش بھکتی ایشو پر گھیرنے کی پر زور کوشش میں ہے۔ چدمبرم نے ایک انگریزی اخبار کو دئے گئے انٹرویو میں پارلیمنٹ پر حملے کے ملزم افضل گورو کو پھانسی دئے جانے پر نااتفاقی کا اظہار کر پوری پارٹی کو سوالوں کے گھیرے میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔ چدمبرم نے کہا افضل پر فیصلہ شاید ٹھیک نہیں تھا اسے بغیر پیرول کے عمر قید دی جاسکتی تھی۔ جب چدمبرم سے پوچھا گیا کہ آپ بھی تو اس سرکار کا حصہ تھے جس نے افضل کو پھانسی دلوائی تھی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت وزیر داخلہ نہیں تھے۔ اس انٹرویو کے بعد کانگریس کو صفائی دینی پڑی کہ یہ چدمبرم کی شخصی رائے ہوسکتی ہے، پارٹی کی نہیں۔دوسرا معاملہ عشرت جہاں کیس کا ہے۔ عشرت جہاں معاملہ میں آئے افسروں کے بیانات کا ہے جس سے پیغام جارہا ہے کہ عشرت کو آتنکی نہ بتانے کے لئے اس

اسلام آباد میں گورنر کے قاتل کے جنازے میں بے تحاشہ بھیڑ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے اس وقت کے گورنر رہے سلام تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے جنازے میں منگل کے روز ہزاروں کی بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ پاکستان سرکار نے اسے پیر کو چپ چاپ طریقے سے پھانسی دے دی تھی۔ تاثیر کے سکیورٹی گارڈ رہے قادری نے مبینہ طور پر اسلام کی بے حرمتی کرنے والے کی حمایت کرنے پر ان کا قتل کردیا تھا۔ پنجاب کے گورنر سلام تاثیر نے 2011ء میں ایش نندا قانون میں ترمیم کی بات کہی تھی۔ اس وقت قادری ان کی سکیورٹی میں تعینات تھا اور اس بیان سے ناراض تھا۔ اس نے اسلام آباد میں دن دھاڑے تاثیر کو مار ڈالا تھا۔ قادری نے تاثیر کو دو گولیاں ماری تھیں۔ اس نے خود عدالت میں قتل کی بات قبول کی ۔ معاملہ حساس ہونے کی وجہ سے ممتاز قادری کی پھانسی کی جانکاری کچھ گنے چنے لوگوں کو ہی تھی۔ ذرائع کی مانیں تو ایتوار کی رات کچھ افسران کو پھانسی کے فیصلے کی جانکاری دی گئی۔ ساتھ ہی انہوں نے تاکیدکی تھی کہ وہ اس کی جانکاری کسی کو نہ دیں۔ اسی پریشانی سے بچنے کے لئے پولیس اور جیل محکمے کے سینئر افسران نے پھانسی کے پلان میں اڑچن نہ آنے پر متبادل حکمت عملی بھی تیار کی تھی۔ قادری کے30 سے زیادہ رشتے داروں کو دیر را

کنہیا کو مشروط ضمانت:ہائی کورٹ کے سخت ریمارکس

یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ افضل گورو اور یعقوب میمن کے جوڈیشیل قتل کی دہائی دینے والے جے این یو طلبا یونین کے صدر کنہیا کمار کو آخر کار عدالت کی پناہ میں جانا پڑا اور ضمانت کی عرضی داخل کرنی پڑی اور ہماری عدالتوں کا منصفانہ رویہ دیکھئے کہ ہائی کورٹ نے کنہیا کو ضمانت بھی دے دی حالانکہ یہ مشروط ضمانت ہے۔ جسٹس پرتیبھا رانی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آئین میں سبھی کو اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے، لیکن اس آزادی کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں۔ حق اور فرض ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ جسٹس پرتیبھا رانی کی بنچ نے کنہیا کو10 ہزار روپے کے ذاتی مچلکہ اور ایک ضمانتی پر مشروط ضمانت دے دی۔ ضمانتی کنہیا کمہار یا جے این یو کا کوئی پروفیسر یا ادارے سے وابستہ کوئی ممبر ہونا چاہئے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے دہلی پولیس کو جھٹکا ضرور لگا ہے۔ اپنے 23 صفحات کے فیصلے میں بنچ نے کہا کہ پولیس کے پاس ایسا کوئی ویڈیو نہیں ہے جس سے کنہیا دیش مخالف نعرے بازی کرتا دکھائی دے رہا ہو۔ پولیس نے ویڈیو کی ہی بنیاد پر یہ معاملہ درج کیا تھا۔ عدالت نے انتم ضمانت کی شرائط میں کنہیا کو ایک حلف نامہ ب

5 سال بعد شام میں جنگ بندی

تقریباً 5 سال کی خونی لڑائی کے بعد آخر کار شام میں سنیچر کے روز سے جنگی بندی ہوگئی ہے۔ امریکہ اور روس نے اعلان کیا ہے کہ شام میں سنیچر سے تاریخی جنگ بندی لاگو ہوگئی ہے لیکن اس جنگ بندی میں اہم جہادی خطرناک تنظیم اسلامک اسٹیٹ اور النصرہ فرنٹ شامل نہیں ہے۔ پانچ برس سے جاری اس لڑائی کے اہم اپوزیشن گروپ نے اس اعلان کو مشروط منظوری دے دی ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب ایک دن پہلے دمشق کے قریب ہوئے سلسلہ وار دھماکوں میں 134 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ متوفین میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔واشنگٹن اور ماسکو نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ دمشق کے وقت کے مطابق وسطی شینا سے جزوی جنگ بندی شروع ہوگی اس سے اس لڑائی پر روک لگ جائے گی جس میں 260000 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی بے گھر ہوگئی ہے۔ امریکہ اور روس کی پہل سے کئے گئے اس عارضی جنگ بندی کو مختلف فریقین کے بیچ خونی لڑائی کے خاتمے کی سمت میں ایک اہم قدم مانا جائے گا۔ اس خانہ جنگی میں 2 لاکھ60 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ شام میں علاقائی کنٹرول کی پیچیدہ گڑ بڑی نے سمجھوتے کو نافذ کرنے کی کوشش کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔شام میں

عشرت جہاں کیس میں حلف نامہ بدلنے میں چدمبرم کے رول کی جانچ ہو

منموہن سنگھ سرکار کے دوران ایک کے بعد ایک گھوٹالے تو کانگریس کی دردشا کیلئے ذمہ دار رہے ہی ہیں لیکن کانگریس کس حد تک گر سکتی ہے اس کے وزیر کیسے قومی سلامتی کو درکنار کرسکتے ہیں، اس کا پتہ چلتا ہے عشرت جہاں معاملے میں تازہ انکشافات سے۔ صرف ووٹ بینک کی خاطریہ سرکاری دستاویزوں سے چھیڑچھاڑ بھی کرسکتے ہیں اور ایک دہشت گرد کو بے قصور فرضی مڈ بھیڑ کا شکار بھی بتا سکتے ہیں۔ میں بات کررہا ہوں لشکر طیبہ کی فدائی حملہ آور عشرت جہاں کی۔عشرت جہاں مڈ بھیڑ معاملے میں سابق مرکزی داخلہ سکریٹری جی کے پلے کے تازہ انکشافات سے سابق مرکزی وزیرداخلہ پی چدمبرم کی اوچھی حرکتوں کا پتہ چلتا ہے۔ پلے کا دعوی ہے کہ چدمبرم نے وزیر داخلہ رہتے ہوئے اس حلف نامے کو بدلوایا تھا جس میں عشرت کے لشکر طیبہ سے جڑے ہونے کی بات کہی گئی تھی۔نئے حلف نامے میں عشرت کے دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہونے کی بات ہٹا لی گئی تھی۔ پلے نے ایک انگریزی اخبار کو دئے گئے انٹرویو میں بتایا کہ وزارت داخلہ نے اگست2009 ء میں سپریم کورٹ میں اوریجنل ایفی ڈیوڈ داخل کیا تھا۔ اس میں انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ عشرت اور ا

آخر کون کون ہیں 4 لاکھ قرض کے ڈیفالٹر

سرکاری بینکوں میں ڈوبے ہوئے قرض یا عدم ادائیگیوں کی وجہ سے 4 لاکھ کروڑ کا بٹہ لگنا دیش کی معیشت کے لئے خطرے کی گھنٹی تو ہے ہی ساتھ ساتھ اس میں مقروضین اور بینکوں کی ملی بھگت کی بھی بو آتی ہے۔ حال ہی میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے عزت مآب سپریم کورٹ نے بھارتیہ ریزرو بینک کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ بینکوں سے 500 کروڑ روپے یا اس سے زیادہ کا قرض لیکر ڈیفالٹر کرنے والوں کی لسٹ دستیاب کرائے۔عدالت نے ریزرو بینک سے6 مہینے کے اندر ان کمپنیوں کی بھی لسٹ مانگی ہے جن کی قرض اسکیموں کے تحت ڈھانچہ بندی کی گئی ہیں۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے لون ڈیفالٹروں کی لسٹ سیل بند لفافے میں پیش کرنے کو کہا ہے۔ کورٹ جاننا چاہتی ہے پبلک سیکٹر کے بینک اور مالیاتی ادارے کس طرح بغیر موضوع گائڈ لائنس پر بڑے پیمانے پر قرض دے رہے ہیں۔ کورٹ یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ وصولی کے لئے مناسب انتظام کئے گئے ہیں یا نہیں؟ ایک این جی او نے2005ء میں ایک مفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی جس میں سرکاری کمپنی ہڈکو کی طرف سے کچھ کمپنیوں کو دئے گئے قرض کا اشو اٹھایا گیا تھا۔ وکیل پرشانت بھوشن نے این جی او کی طرف سے پ

بہت خوفناک تھی مرتھل کی وہ رات

ہریانہ کے جاٹوں کو ریزرویشن ملے یا نہ ملے لیکن اس کی آڑ میں جو کچھ 22-23 فروری کو این ایچ۔1 پر مرتھل کے پاس ہوا ، اس سے غیر جاٹ فرقے کی عزت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ دنیا کی نظروں میں جاٹ فرقے کی ساکھ اور عزت دونوں کو بھاری دھکا لگا ہے جس کی تکمیل شاید کبھی نہ ہوسکے۔ ایک ایسا کالا دھبہ لگا ہے جو دھل نہیں سکتا۔ہریانہ میں جاٹ تحریک کے تشدد کی لپٹوں نے سماجی تانے بانے کو کس قدر جھلسادیا ہے اس کے ڈراؤنے عکس اب سامنے آنے لگے ہیں۔ زخمیوں کے دم توڑ جانے سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ صنعتی انجمنوں کے تجزیئے کے مطابق قریب ایک ہزار کروڑ کی املاک خاک ہوگئی ہے۔سب سے گھناؤنی اور دردناک تصویر تو اجتماعی آبروریزی کے مبینہ وارادات سے ابھرتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مبینہ طور پر دہلی سے لگے مرتھل کا سامنے آیا ہے۔ گزشتہ22-23 فروری کو دہلی ۔چنڈی گڑھ ہائی وے پر راجدھانی سے محض48 کلو میٹر دور مرتھل جو ڈھابوں کے لئے مشہور ہے، یہاں عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوئی یا نہیں یہ تو ریاستی سرکار و پولیس انتظامیہ کی جانچ کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن ہائی کورٹ کی پھٹکار کے بعد سرکار وپولیس بیحد سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔

افضل کی موت کو جوڈیشیل قتل کہنا حد کی خلاف ورزی ہے

جے این یو میں دیش مخالف نعرے لگانے کا معاملہ ابھی خاموش نہیں ہوا ہے کہ کیمپس میں سنیچر کو ایک بار پھر اشتعال انگیز پوسٹر نظر آئے۔ جے این یو کے گوداوری ہوسٹل میں لگائے گئے پوسٹروں میں کشمیر کی آزادی کی مانگ کی گئی ہے۔ افضل گورو اور یعقوب میمن کی پھانسی کو جوڈیشیل قتل قرار دیا گیا ہے ساتھ ہی پوسٹر کو 12 مارچ تک نہیں ہٹانے کی اپیل کی گئی ہے۔ یہ پوسٹر ’دی نیو میٹیلسٹ‘گروپ کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ سنیچر کی صبح جب ان پر لوگوں کی نظریں پڑیں تو لال درگ کا ماحول دوبارہ گرما گیا۔ پوسٹر کے ذریعے سے بھارت کو دو حصوں میں دکھایا گیا ہے۔ نئے پوسٹر میں کشمیر کی آزادی کی مانگ ایک حصے میں کی گئی ہے تو دوسری حصے میں بھارت کو پانی بتانے کے علاوہ یعقوب و افضل کی پھانسی کو عدلیہ کا قتل بتایا گیا ہے۔گوداوری ہوسٹل میں جمعہ کی رات ان پوسٹروں کو کس نے لگایا اس کی جانکاری نہیں ہے۔ یہ کس کی طرف سے لگائے گئے ہیں یہ بھی پتہ نہیں چل پایا۔ اس میں کسی تنظیم یا طالبعلم کا نام نہیں ہے صرف نیچے رابطے کے لئے ای میل دیا گیا ہے۔ اس میں لکھا ہے ۔۔۔’’The Newmatarialiast@gmail.com ‘‘ پوسٹ میں اے وی بی پی اور آر ایس ایس کو فا

اسمرتی و انوراگ کی پختہ تقریر سے کانگریس لیفٹ پارٹیاں ڈھیر

جے این یو اور حیدر آباد یونیورسٹی کے اشو پر سرکار کو پارلیمنٹ میں گھیرنے کی اپوزیشن حکمت عملی پوری طرح ڈھیر ہوگئی ہے۔میں دو مقررین کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا۔ مرکزی وزیر انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کی تقریر کا اور ممبر پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر کی ۔ یوں تو مرکزی وزیر انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کی کم تعلیم کو لیکر سوال اٹھتے ہی رہے ہیں اور مذاق بھی بنتے رہے ہیں۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ جب وزیر اعظم نے وزارت انسانی وسائل اسمرتی ایرانی کو دیا تو مجھے بھی تھوڑا تعجب ضرور ہوا تھا لیکن بدھ اور جمعرات کو جس طریقے سے موثر ڈھنگ سے اسمرتی نے لوک سبھا اور پھر راجیہ سبھا میں سرکاری موقف رکھا ، اس سے مجھے اپنی رائے ان کے بارے میں بدلنی پڑی ہے۔ بدھوار کو اسمرتی ایرانی نے اپنے لب و لہجہ اور حقائق سے اپوزیشن کی بولتی بند کردی۔ لیفٹ پارٹی الگ تھلگ پڑ گئی اور کانگریس اتنی بے چین سی ہوگئی کہ راہل گاندھی کوتو لوک سبھا سے جانا پڑا۔ اسمرتی ایرانی نے اتنا احساس دلا دیا کہ انہیں اپوزیشن سرکار کا جواب سنے بغیر ہی پانچ سات منٹ پہلے واک آؤٹ کرگئیں۔ ایک دن پہلے ہی وزیر اعظم نے پارٹی کو ہدایت دی

کیا سرکار امیر مندروں کو ٹیکس کے دائرے میں لائے گی؟

دیش بھر میں اکثر مذہب بڑی بحث کا موضوع ہوتا ہے کہ بھارت کے مندروں کے پاس بے پناہ دھن دولت ہے لیکن یہ پیسہ سرکار کے کام نہیں آتا ہے۔ سرکار نے اب اس پر اپنی نگاہیں ٹیڑھی کر لی ہیں۔ ذرائع پر یقین کریں تو مرکزی سرکار دیش بھر کے امیر مندروں کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی مقامات کو بھی ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوشش میں ہے۔ حقیقت میں سرکار ٹرسٹ پر شکنجہ کسنے کی کوشش میں لگی ہے۔ ابھی تک ٹرسٹ ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت بڑی رقم بے کار پڑی رہتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ان پیسوں کو مین اسٹریم میں لانے کے لئے حکومت غور کررہی ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے پچھلے دنوں ہی8 سکریٹریوں کا ایک گروپ بنایا ہے۔ جنہیں بڑی تبدیلی کے لئے سفارشیں دینی ہیں۔ ان میں سے کئی سفارشوں کو بجٹ میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ سکریٹریوں کے گروپ نے مذہبی مقامات کو بھی انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کی سفارش کی ہے لہٰذا مندر، مسجد، گورو دوارہ اور گرجا گھر میں انکم ٹیکس کے دائرے میں آسکتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ دیش بھر میں درجنوں مندر ایسے ہیں جن کے پاس زبردست جائیداد ہے لیکن ان پیسوں کا استعمال دیش کی ترقی میں نہیں ہو پارہ