اشاعتیں

مارچ 19, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پارلیمنٹ میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کا سوال!

کانگریس کے سینئر لیڈر جے رام رمیش نے سنیچر کو کہا کہ پارلیمنٹ میں تعطل ختم کرنے کیلئے کوئی بیچ کا راستہ نہیں ہے۔ چوںکہ اڈانی گروپ سے معاملے میں جے پی سی کی تشکیل کی اپوزیشن کی مانگ پر کوئی سمجھوتہ ہو سکتا راہل گاندھی کے معافی مانگنے کا سوال ہی اٹھتا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کے 16پارٹیوں کا جے پی سی سے جانچ کی مانگ کرنے سے بوکھلائی ہوئی ہے اس لئے وہ تھریڈی مہم’ ڈسٹارٹ ‘ یہ یوں کہیے کہ برنام کر نا اور اشو سے توجہ بھٹکانے میں لگی ہے۔رمیش نے الزام لگایا ہے کہ اپوزیشن کی جے پی سی کی تشکیل کی مانگ سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی راہل گاندھی سے معافی کی مانگ کر رہی ہے جبکہ انہوںنے ایسا کچھ نہیں کہا ہے ۔جیسا کہ حکمراں فریق بتارہا ہے۔ ان کے اس بیان سے ایک دن پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعہ کو کہا تھا کہ اگر اپوزیشن بات چیت کیلئے آگے آئے تو پارلیمنٹ میں جاری موجودہ ڈیڈلاک کو ختم کیا جا سکتا ہے تو کانگریس جنرل سیکریٹری نے کہا کہ میں کوئی بیچ کا راستہ نہیں دیکھتا کیوں کہ بی جے پی کی ہماری مانگ کو لیکر کوئی سمجھو تہ نہیں کرنا چاہتی اور راہل گاندھی کے معافی کا سوال ہی نہیں اٹھتا ۔

ایک بار پھر آمنے سامنے !

وزیر قانون کرن ریجیجو نے سنیچر کو پھر سے ججوں کی تقرری کیلئے کالیجیم سسٹم پر نکتہ چینی کی ہے۔یہ کانگریس پارٹی کے دیدہ دلیری کا نتیجہ ہے ایک پروگرام میں ریجیجو نے کہا کہ ہم کالیجیم سسٹم کو فولو کریںگے لیکن ججوں کی تقرری حکم سے نہیں ہو سکتی ۔ یہ پوری طرح انتظامی معاملہ ہے ریجیجو نے پروگرام کے دوران آئینی لکشمن ریکھا کی بھی بات کہی ۔انہوںنے حیرانی جتاتے ہوئے سوال کیا لیکن جج صاحبان انتظامی تقرریوں کا حصہ بنتے ہیں تو عدلیہ کاموں کو کون کرے گا؟ غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے سرکار کو ہدایت دی ہے کہ وہ نیا قانون بننے تک چیف الیکشن کمشنر اور دیگر چناو¿ کمشنروں کا سلیکشن کر نے کیلئے وزیر اعظم ،بھارت کے چیف جسٹس اور لوک سبھا میں حکمراں پارٹی کی ممبری والی ایک نفری کمیٹی بنائے وہیں انہوںنے دعویٰ کیا کہ کچھ ریٹائرڈ جج اور ورکر ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ ہندوستانی عدلیہ اپوزیشن پارٹی کا رول نبھائے انہوںنے کہا کہ یہ بھارت مخالف گروہ کا حصہ ہے ۔ ریجیجو نے کہا کہ کچھ لوگ عدالت میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ براہ کرم سرکار پر لگام لگائیں سرکا ر کی پالیسی بدلیں ۔ وہیں بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ

نشانے پر سپریم کورٹ !

مہاراشٹر کی مہا وکاس اگھاڑی (این وی اے)حکومت گرنے میں گورنر کے رول پر پچھلے دنوں دئے گئے سخت ریمارکس کے بعد جس طرح سے دیش کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کوٹرو ل کئے جانے لگا وہ صرف افسوس ناک ہے اور حیرت میں ڈالنے والا بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلا یہ ابھیان اتنا سنگین تھا کہ ممبران پارلیمنت کے ایک گروپ نے صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو سے مل کر معاملے میں دخل دینے کی درخواست کی ۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی آن لائن ٹرولنگ کے معاملے میں 13اپوزیشن پارٹیوں کے نیتاو¿ صدر کو خط لکھا ہے ۔ انصاف کے راستے میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے ان سے فوری اس معاملے صدر جمہوریہ سے فوراً ایکشن لینے کی مانگ کی ہے۔اپوزیشن پارٹیوں کو کہنا تھا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی آئینی بنچ مہاراشٹر میں سرکار کی تشکیل اور گورنر کے رو ل کے معاملے میں ایک اہم ترین آئینی اشو پر سماعت کررہی ہے۔ خط میں آگے کہا گیا ہے ۔یہ معاملہ زیر سماعت ہے اس درمیان مہا راشٹر میں حکمراں پارٹی کے مفاد کیلئے امکانی طور سے ہمدردی رکھنے والے ٹرول آرمی نے بھارت کے چیف جسٹس کے ایک

مجھے پارلیمنٹ میں بولنے کا موقع ملے!

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے لندن میں دئے گئے اپنے بیان پر پارلیمنٹ میں جاری حکمراں فریق کے سنگرام پر جوابی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں اڈانی اشو پر ان کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالوں کو بھٹکانے کیلئے حکومت کی جانب سے یہ تماشہ کیا جار ہا ہے۔ انہوںنے صاف لفظوںمیں کہا: میں ایک ایم پی ہوں اورمیرے اوپر پارلیمنٹ میں الزام لگے ہیں میں ان کا جواب دوںگا۔اگر دیش میں جمہوریت ہے تو مجھے پارلیمنت میں بولنے کا موقع ملے گا۔ لندن سے لوٹے راہل گاندھی جمعرات کو لوک سبھا میں آئے مگر ہاو¿س فوراً ملتوی کردیا گیا ۔ اس کے بعد انہوںنے لوک سبھا میں کانگریس کے نیتا ادھیر رنجن چودھری کے ساتھ جاکر لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے ملاقات کی اور اپنا موقف رکھنے کیلئے وقت دینے کی درخواست کی بعد میں صحافیوں سے بات چیت میں راہل گاندھی نے کہا کہ میں نے اسپیکر سے درخواست کی ہے کہ حکومت کے چار چار وزرا ءنے مجھ پر جو الزام لگائی ہے میں ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ناطے میرا حق ہے کہ ہاو¿س میںاس کا جواب دوں ۔ اسپیکر نے میری باتیں تو سنیں لیکن کوئی پختہ یقین دہانی نہیں ملی ۔ حالاںکہ میںنے امید نہیں چھوڑی ہے ۔ اب مجھے بو