اشاعتیں

اپریل 29, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

انسداد قبضہ مہم کا خوفناک منظر

قبضہ مخالف مہم کی جم کر مخالفت ہورہی ہے لیکن یہ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے یہ اندازہ نہیں تھا۔ ہماچل پردیش کے کسولی میں منگلوار کو جو کچھ ہوا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔اسسٹنٹ ٹاؤن پلانر شیل بالا شرما کی رہنمائی میں جب حکام اور ملازمین کی ٹیم قبضہ ہٹانے کیلئے وہاں پہنچی تو ایک ہوٹل مالک نے گولی مار کر شیل بالا شرما کو مار ڈالا اور ایک ملازم اور ایک مزدور بھی زخمی ہوگئے۔ گولیاں چلا کر جنگلوں میں بھاگ گیا۔ یہ قبضہ مخالف مہم سپریم کورٹ کے حکم پر چلائی جارہی تھی۔ سپریم کورٹ نے 15 دن کے اندر کسولی کے 13 ہوٹلوں کا قبضہ ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ یہ میعاد پوری ہونے والی تھی اس لئے توڑ پھوڑ ہونا تقریباً طے تھا۔ ان ہوٹلوں کو حساس ترین پہاڑی جگہ پر ہونے کے سبب دو منزل تک بنانے کی اجازت ملی تھی لیکن کچھ نے تو چھ منزل تک تعمیر کر لی تھیں ۔ شیل بالا کے قتل کی خبر اخباروں اور میڈیا میں ہر جگہ چھا گئی۔ اس لئے بدھوار کو سپریم کورٹ نے نہ صرف معاملہ کا خود نوٹس دیا بلکہ تلخی میں یہ بھی کہا کہ اگر اسی طرح حکام کے قتل ہوتے رہے تو اسے حکم پاس کرنا بند کرنا ہی ہوگا کیونکہ یہ ایک افسر کے قتل کا معاملہ ہے

دیش میں بڑھتا گن کلچر

ہم اکثر امریکہ میں گن کلچر کی بات کرتے ہیں۔ بات بات میں بندوق چلانا ، قتل کرنا یہ اب امریکہ تک محدود نہیں رہا، ہمارے دیش میں بھی یہ مسئلہ بہت تیزی سے بڑ ھ رہا ہے۔ آئے دن ہم سنتے ہیں ، پڑھتے ہیں کہ فلاں تنازع کو لیکر گولیاں چلائی گئیں۔ کل ہی دوارکا (دہلی کے سیکٹر23) تھانہ علاقہ میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب نقاب پوش بدمعاشوں نے قریب 40 راؤنڈ گولیاں چلائیں اور خطرناک بدمعاش سندیپ عرف مینٹل و اس کے ساتھی پون کو بھون ڈالا۔ کچھ دن پہلے دہلی کے حوض خاص میں واقع اپنے کلینک سے گھر جانے کے لئے ڈاکٹر ہنسراج ناگر پر تاک لگائے بیٹھے تین چار حملہ آوروں نے تابڑ توڑ فائرننگ کی جواب میں 71 سالہ ڈاکٹرناگر نے بھی اپنے لائسنسی پستول سے گولی چلائی۔ دونوں طرف سے قریب25 راؤنڈ گولیاں چلیں۔ واردات کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے۔ تین گولیاں لگنے سے زخمی ڈاکٹر ناگر کو پرائیویٹ ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔ سواری بٹھانے کو لیکر ہوئے جھگڑے کے بعد ایتوار کی رات جڑودا کلاں گاؤں گولیوں کی گونج سے دہل گیا۔ اس میں ایک آر ٹی وی ڈرائیور کی موت ہوگئی جسے 6 گولیاں ماری گئیں۔ ا یڈیشنل ڈی سی پی سنتوش مینا کے مطابق متوفی 27 س

کابل میں خود کش حملے میں 10 صحافی شہید

صحافیوں کے لئے کام کرنابہت خطرناک اور غیر محفوظ ہے. اس جگہ پر کوریج کرنااپنی زندگی کو داؤ پر لگانا ہے. افغانستان کی راجدھانی کابل میں خودکش حملہ میں 10 صحافیوں سمیت کم سے کم 37 افرادہلاک ہوئے، مرنے والوں میں اے ایف پی فوٹوگرافر سمیت، کم سے کم آٹھ دیگر صحافیوں ہیں. اے ایف پی کے فوٹو گرافر شاہ مٹھی کی موت کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے لی گئی، جس نے اس پر حملہ کیا تھا. چاہے میڈیا کا اہلکارشروع سے ہی چاہے طالبان یا دیگر دہشت گردی تنظیم کے نشانے پر رہے ہیں ، گزشتہ دہائی میں، صحافیوں پر حملوں کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے. کابل میں تعنات نیوز ایجنسی نے اے اف پی کے چیف فوٹو گرافر کے طور پر پیر کو اسی طرح کام کر رہے تھے، جسے وہ گزشتہ 22 سال سے کر رہے تھے اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کی ظرف سے، صبح 8:00 ایک موٹر سائیکل خودکش حملہ آور نے خود کو نیشنل ڈائریکٹرییٹ سیکورٹی (این ڈی اس) محکمہ کے باہر دھماکے سے اڑا دیا. شاہ میرائی نے فوری طور پر تباہی کے منظر کی طرف رخ کیا. ان کے صحافیوں میں سے ایک ویڈیوجرنلسٹ ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے. شاہ نے اسے واٹسن پر ایک پیغام بھیجا، فکر مت کرو، میں سامنے

چھوٹاراجن نے جیوتیرمے ڈے کو کیوں مروا گیا

ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے صحافی جے ڈے کے قتل کے معاملے میں اہم ملزم چھوٹا راجن کوقصوروارقرار دیاہے. عدالت نے دوسرے معاملے میں قتل کے دوسرے ملزم صحافی جگنا ووراکوبری کردیا. وورا کے علاوہ، پالسن جوزف کو بھی بری کر دیا ہے. عدالت نے اس معاملے میں راجن سمیت نو افراد کو قصوروار قراردیاہے. ممبئی میں رہنے والے ڈے، مڈ ڈے نیوز میں ایک سینئر جرائم کے رپورٹر کے طور پر کام کرتے تھے. جیوتیرمے، جس نے اخبار کے لئے جے ڈی نام سے مظمون لکھا تھا، پر 11 مئی 2011 کو پردیش کے ممبئی کے مضافات میں گولی مارہلاک کر دیا گیا تھا. وہ ایک موٹر سائیکل پر سوار تھے اور اپنے گھر کی طرف جارہے تھے، تبھی چاربدمعاشوں نے ان پرگو لیا چلا دی.وہ ممبئی کے بہترین کرائم رپورٹر میں جیوتیرمے کا شمار تھا. پہلے وہ بھی انڈین ایکسپریس اور ہندوستان ٹائمز سے وابستہ تھے. جس وقت انھیں ہلاک کیا گیا 56 سال کی عمر تھی. جیوتیرمے ڈے کے قتل کے بعد اور اس معاملے میں ایک اور صحافی جگنا وورا کی گرفتاری کے بعد، پورے ملک کے صحافی برادری سکتے میں ہے. مبینہ انڈرولڈ ڈان راجندر سدا شیو عرف چوٹا راجن اور اس وقت ایشین ایج میں بیورو کے چیف کے طور پر کام

افسپا کا ہٹانا بدلے ماحول کی تصدیق ہے

میگھالیہ میں افسپا (مسلح فورس مخصوص اختیار ایکٹ) کا ہٹایا جانا ایک بڑے واقعہ کے ساتھ ساتھ ایک مثبت قدم ہے۔ خطہ کو مخصوص اختیارات سے مسلح کرنے والے اس بیحد سخت بڑے قانون کو نارتھ ایسٹ کی جنتا نے لمبے وقت تک ایک خطرناک اور کچلنے والے قانون کی شکل میں دیکھا اور جھیلا ہے۔ افسپا کو ہٹانے کا مرکزی سرکار کا یہ فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تشدد کا لمبا دور دیکھ چکے نارتھ ایسٹ کے راجیوں میں حالات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ قدم وزارت داخلہ کی اس رپورٹ کے بعد اٹھایا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نارتھ ایسٹ میں تشدد کے واقعات میں دو دہائی کے دوران تشدد میں کافی کمی آئی ہے بلکہ 1997 کے انتہا پسندی کے کٹر پسندی کے دور کے بعد اس خطہ میں 2017 میں تشدد کے سب سے کم واقعات درج ہوئے ہیں۔ اس سے یقینی طور پر ان ریاستوں کے شہریوں کو راحت ملی ہوگی۔ منی پور کی سماجی کارکن ایروم شرمیلا تو اس قانون کی مخالفت میں 16 سال تک بھوک ہڑتال پر رہیں۔ اب تک میگھالیہ سے لگنے والی آسام کی سرحد پر 40 فیصدی علاقہ میں یہ قانون لاگو تھا، تریپورہ اور میزورم کے بعد میگھالیہ تیسرا راجیہ ہے جہاں افسپا کو پوری طرح سے ہٹا لیا گی

پونٹی چڈھا دوم! دو سگے بھائیوں کی موت

وہ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے۔ ٹھیک ایسا ہی کچھ راجدھانی دہلی میں ہوا جب چھوٹی سی بات پر دوسگے بھائیوں نے ایک دوسرے کو گولی مار کر موت کی نیند سلادیا۔ آج سے تقریباً 6 سال پہلے 2011 میں دہلی فارم ہاؤس میں شراب کاروباری پونٹی چڈھاپر ان کے چھوٹے بھائی ہردیپ نے گولیاں برسائیں تھیں اور پونٹی کے گرگے نے ہردیپ کو مار گرایا تھا۔ ٹھیک ایسا ہی منظر دہلی کے ماڈل ٹاؤن علاقہ میں دوہرایا گیا۔ اسے پونٹی چڈھا دوم بھی کہا جاسکتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں جمعہ کی رات کو ہوئے تہرے قتل کو لیکر کئی سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔ پارکنگ کو لیکر تنازعہ میں بڑے بھائی جسپال نے چھوٹے بھائی گرجیت کو کار کو ٹکر ماری اور اس کی ٹانگ توڑ دی۔ جسپال سنگھ انیجا (52 سال) اور ان کے چھوٹے بھائی گرجیت (48 سال) ماڈل ٹاؤن پارٹ 2 کی کوٹھی میں فیملی کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ چار منزل کوٹھی کا گراؤنڈ فلور جسپال اور فرسٹ فلور گرجیت کے پاس تھا۔باقی دونوں فلور بھی دونوں بھائیوں کے بیچ بٹے ہوئے تھے۔ جمعرات کی دیر رات جسپال اپنے دوست کو اوڈی کار سے چھوڑنے جارہے تھے تبھی گرجیت نے اپنی امبیسڈر کار سامنے لگادی۔ اس پر دونوں بھائیوں

مودی سے موہ بھنگ، اب ہم جیتیں گے

کانگریس پارٹی کی ایتوار کو رام لیلا میدان میں جن آکروش ریلی نے دہلی کے نیتاؤں کے چہرے پر رونق لا دی ہے۔ وہ اب محسوس کررہے ہیں کہ ان کا کھویا ہوا مینڈیڈ واپس لوٹنے لگا ہے۔ جن آکروش ریلی نے پردیش نے پوری طاقت جھونک دی تھی۔ اس ریلی کی کامیابی اور ناکامی پارٹی کے مستقبل سے جڑی ہوئی تھی۔ یہ ریلی اپنے آپ میں اس لئے بھی زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ راہل گاندھی کے پارٹی صدر بننے کے بعد دہلی میں یہ ان کی پہلی عظیم الشان ریلی تھی اس لئے پوری کانگریس نے ریلی کوکامیاب بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔ اسٹیج کنٹرول کرنے سے لیکر ہر طرف گہری نگاہ رکھی جارہی تھی۔ بیشک ریلی کی کامیابی اور بہتر انتظامات نے دہلی پردیش پارٹی اعلی کمان کا کافی سکہ جما دیا۔ پچھلے دنوں راج گھاٹ پر منعقدہ ان شن ریلی کے دوران ہوئی کرکری کے بعد کانگریس اعلی کمان کے سامنے ’جن آکروش ‘ ریلی ایک چنوتی تھی جسے بخوبی اہل لیڈرشپ کے ساتھ پردیش کانگریس صدر اجے ماکن نے کامیاب بنایا۔ مہینے بھر سے ریلی کے انعقاد کو لیکر تیاریوں میں لگے اجے ماکن خود دیر رات تک رک کر ریلی کی تیاریوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس ریلی کی کامیابی سے اج

خون سے لت پت بچے مانگ رہے تھے مدد

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے دیش کے اسکولی بچوں کی پڑھائی لکھائی خطرے کے درمیان ہورہی ہے۔ جس دن اترپردیش کے کرشی نگر میں اسکولی بچوں کو لے جایا جارہا تھا وہاں گاڑی بے پہریدار ریلوے کراسنگ پر ایک ٹرین کی زد میں آگئی اور 13 بچوں کی موت ہوگئی اس دن دہلی کے کیشو پور علاقہ میں بھی اسی سے ملتا جلتا ایک حادثہ ہوا۔ فرق یہ تھا کہ بچوں کو لے جارہی گاڑی کی ٹکر ایک ٹینکر سے ہوگئی جس میں ایک سال کی بچی کی جان چلی گئی اور 17 بچے زخمی ہوگئے۔ ڈرائیور کا کان میں ایئرفون لگائے رکھنا اور ریڈ لائٹ پر غلط سائڈ سے یو ٹرن کرنا حادثے کی وجہ بن گیا۔ کیشو پورکے سینٹرل اسکول اور سروودیا کنیا ودیالیہ کے 18 بچوں کو ڈرائیور وجے جمعرات کی صبح اسکول لے جارہا تھا پرائیویٹ وین کنہیا نگر میٹرو اسٹیشن کے نزدیک پہنچی تبھی تیز رفتارسے آئے دودھ کے ٹینکر نے اسے ٹکر ماردی۔ حادثہ اتنا خوفناک تھا کہ وین نے تین بار پلٹی کھائی اور ٹکر کے بعد ایک زور دار آواز ہوئی اور کچھ دیر بعد بچوں کے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگوں کی بھیڑ نے دبے ہوئے بچوں کو نکالا اور بعد میں کچھ لوگوں نے وین کو سیدھا کیا۔ ایک ایک کرکے بچوں کو نکال کر

لال قلعہ کو گود دینے پر سیاسی جنگ

دہلی کے لال قلعہ کو ڈالمیہ بھارتیہ گروپ کے ذریعے پانچ سال کے لئے 25 کروڑ روپے میں گود لینے پر سیاسی جنگ چھڑ گئی ہے۔ اس کی کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ شیو سینا نے بھی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے سرکار تاریخی وراثت کو پرائیوٹائز کررہی ہے۔کانگریس نے پوچھا ہے کہ کیا مودی سرکار کا یہی ’نیو انڈیا‘ ہے؟ کیا وراثت کی دیکھ بھال کے لئے سرکار کے پاس پیسہ نہیں ہے؟ مرکزی سرکار نے اس معاملہ میں صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ لال قلعہ سے کمپنی پیسہ نہیں کمائے گی بلکہ تاریخی جگہ پر لوگوں کے لئے سہولیات ملیں گی۔ ایک معاہدے کے مطابق ڈالمیہ گروپ وراثت اور اس کے چاروں طرف بنیادی ڈھانچہ کا رکھ رکھاؤ کرے گی۔ وزارت سیاحت کے مطابق ڈالمیہ گروپ نے 17 ویں صدی کی اس تاریخی عمارت پر چھ مہینے کے اندر بنیادی سہولیات مہیا کرانے پر رضامندی جتائی ہے۔ اس میں پینے کے پانے کے کھوکھے، سڑکوں پر بیٹھنے کے لئے بینچ لگانا، آنے والوں کو جانکاری دینے کیلئے علامتی بورڈ لگانا شامل ہیں۔ گروپ نے اس کے ساتھ ہی دو نقشہ لگانا ٹوائلٹ اور قلعہ کی سجاوٹ کے کام پر رضامندی جتائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ وہاں سے ایک ہزار مربع فٹ کے عل

برف پگھلی 65 سال بعد!اُن اور اِن کا ملن

برسوں سے کٹر دشمن رہے نارتھ اور ساؤتھ کوریا کے لئے جمعہ کا دن تاریخی رہا۔ جنگ کے قریب65 سال بعد پہلی بار نارتھ کوریا کا کوئی بڑا سربراہ ساؤتھ کوریا پہنچا وہ بھی پیدل بارڈر پار کرکے۔ ساتھ ہی کوریا کے چیف کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے دیش کی سرحد میں لیکر آئے کم جانگ ان نے بھی گیسٹ بک میسج میں کہا کہ ایک نئی تاریخ کی شروعات ہے۔ یہ کشیدگی پر ڈپلومیٹک کوششوں کی جیت کا دن تھا۔ پچھلے جمعہ کو جو ہوا اسے ایشیا ہی نہیں پوری دنیا لمبے عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ دو الگ الگ مقامات پر دو سربراہ مملکت نے سرحد پار کی اور رشتوں پر جمی برف پگھلنے لگی۔ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی جب ہمالیہ پہاڑ سیریز کو سر کر کے چین پہنچے تو وہ سارے اندیشات ختم ہونے لگے جو پچھلے کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو اچانک بڑھانے لگے تھے۔ مودی اور جنگ پنگ ملاقات کے مقابلے کم اور اُن کی ملاقات زیادہ سرخیوں میں بنی ہوئی ہے اس لئے یہ مسئلہ اگلے کچھ دنوں میں چھایا رہے گا۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات پرپوری دنیا کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں۔ اسے اس سیکٹر کے لئے کافی نہیں لیکن پورے سیریا کے لئے اہم ترین مانا جارہا ہے۔

موت کے یہ ریلوے پھاٹک

صاف ستھری دھلی یونیفارم پہن کر پیٹھ پر بستہ اور ہاتھ میں پانی کی بوتل لیکر اپنے گھروں سے اسکول کے لئے نکلے یہ نونیہال کچھ ہی دیر میں خون سے لت پت بے جان پڑے تھے۔ بچوں کے ماں باپ پر تو دکھ کا پہاڑ ہی ٹوٹ گیا۔ موقعہ پر پہنچے ہر شخص کی آنکھیں نم تھیں۔ 13 اسکولی بچے اسکول کے بجائے موت کے دروازے پر پہنچ گئے جب ایک پسنجر ٹرین اترپردیش کے ہدرواہ میں بغیر پھاٹک والی کراسنگ پر ان بچوں کی اسکول وین کو ٹکر ماری اور معصوموں کی زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ڈیوائن مشن اسکول میں پڑھنے والے ان بچوں کے اسکول بیگ ،کاپی،کتابیں، پانی کی بوتلیں اور ٹفن ان کے مردہ جسم کے آس پاس بکھرے پڑے تھے۔ ان کی سفید یونیفارم انہی کے خون سے لال ہوچکی تھی۔ صبح قریب 7:15 کا وقت تھا جب یہ حادثہ ہوا۔ اس ٹکر میں ہوئی ان بچوں کی موت مجرمانہ لاپروائی کے ساتھ ہی ادارہ جاتی ناکامی کا بھی معاملہ ہے۔ وین کے ڈرائیور نے کان میں ایئرفون لگا رکھا تھاوہ وہاں موجود چوکیدار کی وارننگ کو نہیں سن پایا۔ اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ ایسے حادثوں کے لئے بنا گیٹ مین کے ریلوے پھاٹک کہیں زیادہ ذمہ دار ہے۔ دو سال پہلے جولائی 2016 میں اترپرد

کاسٹنگ کاؤچ سے پارلیمنٹ بھی اچھوتی نہیں

بھارت کی فلمی دنیا کی یعنی بالی ووڈ میں تو ہم نے کاسٹنگ کاؤچ کے بارے میں سنا ہے لیکن پہلی بار ہم یہ سن رہے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ میں بھی کاسٹنگ کاؤچ ہے اور یہ بات کسی اور نے نہیں کہی بلکہ خودایک کانگریسی نیتا نے کہیں۔ تازہ تنازعہ بالی ووڈ کی نامور کوریو گرافر سروج خان (69 سال) نے ٹیلی ویژن نیٹ ورک اور سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی میڈیا کے ساتھ ان کی بات چیت کے ویڈیو کے سامنے آنے پر کہا کہ یہ بابا آدم کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ ہر لڑکی کے اوپر کوئی نہ کوئی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے، سرکار کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ تم فلم انڈسٹری کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ وہ کم سے کم روٹی تو دیتی ہے، ریپ کرکے چھوڑ تو نہیں دیتے۔ ’ایک دو تین ‘ اور ’چولی کے پیچھے‘ جیسے مشہور گیتوں اور نیشنل ایوارڈ ونر کوریوگرافر نے کہا کہ محفوظ رہنے اور ایسی ہستیوں سے بچنے کی ذمہ داری عورتوں کی ہے۔ فلم صنعت کو نشانہ بنائے جانے پر کہا کہ یہ لڑکی کے اوپر ہے کہ تم کیا کرنا چاہتی ہے، تم اس کے ہاتھ میں آنا چاہتی ہو، یا نہیں آؤگی۔ تمہارے پاس آئی ہے تو تم کیا بیچو گی اپنے آپ کو؟ فلم انڈسٹری کو کچھ مت کہنا، وہ ہمارا مائی باپ ہے۔ اس بیان