اشاعتیں

جون 12, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

انا کے لوک پال بل کو جوک پال بل بنانے کی کوشش

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 18 جون 2011 کو شائع انل نریندر  لگتا ہے کہ انا ہزارے کے لوک پال بل پر صدی کے سب سے بڑے چاند گرہن کا اثر ہوگیا ہے۔ لوک پال بل جوک پال بل بن کر رہ گیا ہے۔ دیش کو بہت امید تھی کہ سول سوسائٹی کے نمائندے اورحکومت کے درمیان شاید کوئی رضامندی ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔انا اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ سرکار ہماری دلیلیں سننے کوتیار نہیں تھی اور محض اپنی بات کرتی رہی۔ سرکار یہ ہی چاہتی ہے کہ لوک پال کے نام پر11 نفری ایک باڈی بنے جو اعلی سطح کے کچھ معاملوں میں بدعنوانی کی جانچ کرے۔ اس کے پاس اپنی کوئی جانچ ایجنسی نہیں ہے جبکہ سول سوسائٹی چاہتی ہے کہ اس باڈی کو سبھی سطح پر کرپشن کی جانچ اور سزا طے کرنے کا حق ملے۔اس کے پاس جانچ کی اپنی مشینری ہو تاکہ وہ حکومت سے آزاد رہے۔ وزیر اعظم اور جج صاحبان کو جانچ کے دائرے میں لانے پر اتفاق رائے نہیں ہوپایا۔ دونوں ہی فریقین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 15 جون کی اس میٹنگ میں وزیر اعظم اور بڑی عدلیہ اور پارلیمنٹ کے اندر ممبران کے برتاؤ کو مجوزہ لوک پال کی جانچ کے دائرے میں لانے کے مسئلے پر کچھ ب

سوامی نگم آنند کی موت کیلئے ذمہ دار کون؟

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 17 جون 2011 کو شائع انل نریندر جس وقت دیش کے تمام الیکٹرانک چینلوں پر و پرنٹ میڈیا کی توجہ بابا رام دیو کی طرف لگی ہوئی تھی اور بابا اپنے 9 دن پرانے انشن کو توڑ رہے تھے اسی وقت اسی ہسپتال میں ایک نوجوان سنیاسی سوامی نگم آنند تقریباً چار مہینے کے انشن کی وجہ سے اپنی زندگی کے آخری لمحے گن رہے تھے۔ سوامی نگم آنندعمر صرف34 سال تھی۔ وہ گنگا میں غیر قانونی کھدائی کے احتجاج میں 19 فروری سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ ادھر بابا رام دیو نے انشن توڑا ادھر نگم آنند دنیا سے چلے گئے۔ یہ خبر لوگوں تک دیر سے پہنچی تو اس لئے نہیں کہ سوامی کچھ دنوں سے انشن پر تھے یا ان کے انشن کا اشو کمزور تھا۔ تعجب ہے کہ اطلاعات کے تیزی سے بہاؤ والے اس دور میں بھی ایک موت کی خبر محض اس لئے ہم سے چھوٹ گئی کیونکہ اس کے پیچھے کوئی ڈرامہ نہیں تھا۔ سوامی جی گنگا میں آلودگی اور اس کی پاکیزگی کو بحال کرنے کو لیکر بھوک ہڑتال پر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ گنگا علاقے میں کھدائی پر پوری طرح روک لگے اور ہمالین اسٹرون کریچر کو کمبھ علاقے سے ہٹایا جائے۔ ان کی یہ مانگ تقریباً ویسے

ماہر معاشیات منموہن سنگھ کے رہتے مہنگائی کم ہونے والی نہیں

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 17 جون 2011 کو شائع انل نریندر یہ اس دیش کی بدقسمتی ہی سمجھا جائے کہ کوئی بھی اس مسئلے کی بات نہیں کرتا جو ہندوستان کی90 فیصدی عوام کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔نہ تو انا ہزارے اس کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی بابا رام دیو۔ ایک لوک پال بل کو لیکر اڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے کالی کمائی کو واپس لانے پر۔ دونوں ہی اشو پر موثر طور پر عمل ہونے میں برسوں لگ جائیں گے لیکن جو اشو جنتا کو کھا رہا ہے اس پر کوئی اپوزیشن پارٹی بھی کھل کر نہیں بولتی، یہ اشو ہے مہنگائی کا۔ روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ نے عوام کی ناک میں دم کردیا ہے۔ پیٹرول اور کئی ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے چلتے ماہ مئی میں مہنگائی شرح بڑھ کر 9فیصدی سے اوپر چلی گئی ہے لیکن عام جنتا کو مہنگائی کی چوطرفہ مار کے لئے ابھی اور کمر کسنی ہوگی۔ آنے والے دنوں میں ڈیزل، رسوئی گیس جیسی چیزوں کے داموں میں بھی اضافہ ہونے کے آثار ہیں۔ وہیں ریزروبینک آف انڈیا کو بھی 16 جون کو اپنی ریپوریٹ میں اضافہ کرنے اور شرح سود کو بڑھانے پر غور کرنا پڑا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سود کی شرح

لکھیم پور میں آبروریزی کے بعدسونم کے قتل کا معاملہ

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 16 جون 2011 کو شائع انل نریندر پولیس کی وردی میں چھپے بھیڑیوں کی کالی کرتوت ایک بار پھر سامنے آگئی ہے۔ اترپردیش کے لکھیم پور ندھاسن تھانے میںیہ واردات ہوئی ہے۔ 10 جون کی شام کو تھانے کے پاس رہنے والے مزدور انتظار علی کی 14 سالہ بیٹی سونم کی لاش ایک پیڑ سے لٹکی ملی تھی۔ پولیس نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو پائی۔ ریاست کے اسپیشل ڈی جی پی برج لال نے بتایا کہ پیڑ کی جس شاخ سے لڑکی کی لاش لٹکی پائی گئی وہ زمین سے محض چار فٹ آٹھ انچ کی اونچائی پر ہے جبکہ لڑکی کی لمبائی چار فٹ دس انچ تھی۔ حیوانیت کی شکار لڑکی سونم کا6 سالہ بھائی ارمان علی پورے معاملے کا چشم دید گواہ ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اور اس کی بہن سونم تھانے کے قریب اپنے جانوروں کو گھانس چرا رہے تھے۔ اتنے میں ایک پولیس والا آیا اور اس نے مجھے رائفل دکھا کر کہا کہ یہاں سے بھاگ جاؤں۔ میں نے دیکھا دو اور پولیس والے میری بہن کو ایک کمرے میں کھینچ کر زبردستی لے گئے۔ پولیس نے سونم کا پوسٹ مارٹم بھی کروا لیا اور رپورٹ میں کہا گیا ،سونم کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی لیکن

کہاں گئے رشوت کے200 کروڑ؟ سپریم کورٹ نے کیا سوال

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 16 جون 2011 کو شائع انل نریندر جو کام سیاستداں نہیں کرپائے وہ کام بصد احترام عدالت عظمیٰ نے کردیا ہے۔ حکومت چاہے جتنا بھی معاملے کو دبانے کی کوشش کرے لیکن جب عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ اس کا نوٹس لیتی ہے ،اس دیش کو یقین ہے کہ انصاف ضرور ملے گا۔ ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں اگر سپریم کورٹ نے اتنا سخت رویہ نہ اپنایا ہوتا تو شاید اتنے ملزم تہاڑ جیل کی ہوا نہ کھا رہے ہوتے۔ یہ میں نے اسی کالمم میں کچھ دن پہلے لکھا تھا کہ جیل تو ٹھیک ہے لیکن پیسے کا کیا ہوا؟ کنی موجھی کی ضمانت عرضی کے دوران سپریم کورٹ نے یہ معاملہ اپنے طور پر اٹھا دیا۔ عدالت نے ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں سی بی آئی سے یہ بھی پتہ لگانے کے لئے کہا ہے کہ اے راجہ کے عہد میں ٹیلی کام کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے میں سرکاری خزانے کو کتنا نقصان ہوا؟ عدالت عظمیٰ نے یہ سوال بھی پوچھا کہ رشوت کی رقم 200کروڑ روپے کا کیا ہوا اور اس کی پوزیشن کیا ہے؟ جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس سوتنتر کمار کے ڈویژن بنچ نے کنی موجھی اور شرد کمار کی ضمانت کی عرضیوں پر سی بی آئی سے یہ سوال کیا کہ اے راجہ

ایک اور قلم کا بہادر سپاہی شہید ہوا

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 14 جون 2011 کو شائع انل نریندر ایک اور قلم کا سپاہی تشدد کا شکار ہوگیا۔ انتہائی مطلوب دہشت گرد داؤدابراہیم کے چھوٹے بھائی اقبال کاسکر کے باڈی گارڈ کے قتل کے بعد داؤد کے مخالف چھوٹا راجن سے بات چیت پر مبنی ایک رپورٹ شائع ہونے کے مہینے بھر بعدکرائم رپورٹر جے ڈی کو سنیچر کے روز ممبئی کے کے ڈی مارڈ کے پاس گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ موٹر سائیکل پر سوار ہوکر آئے بدمعاشوں نے جے ڈی کے سرپر گولیاں ماریں۔ انہوں نے ہیرا نند ہسپتال پہنچنے کے بعد دم توڑدیا۔ جوتر بھے ڈے جنہیں پیار سے جے ڈی کہہ کر پکارا جاتا تھا، کافی مقبول ترین کرائم رپورٹر تھے۔ انڈین ایکسپریس ، ہندوستان ٹائمس میں کام کے دوران تمام چونکانے والی جرائم کی خبریں قلمبند کرنے والے جے ڈے ان دنوں ’مڈ ڈے‘ کے کرائم ایڈیٹر تھے۔ مڈ ڈے میں ان کے ایک ساتھی نے بتایا کہ ویروار کو ہی جے ڈی دفتر کی ایک میٹنگ میں حصہ لیا تھا اور تب تک وہ پوری طرح ٹھیک ٹھاک نظر آرہے تھے۔ انڈر ورلڈ سے انہیں دھمکیاں ملنا عام بات بن چکی تھی۔ جے ڈی کو یہ لگتا رہا کہ تمام ڈان اس سے سیدھا واستہ ہونے کے چلتے شاید ان کا کوئی گر

رانا کا بری ہونا بھارت کیلئے جھٹکا

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 14 جون 2011 کو شائع انل نریندر امریکی شہر شکاگو کی عدالت نے پاکستانی نژاد کینیڈائی شہری تہور حسین رانا کو ممبئی حملوں میں تعاون دینے کے الزام سے بری کردیا ہے۔ اس فیصلے سے بھارت کو دھکا لگا فطری ہو سکتا ہے۔ رانا کے 26/11 میں براہ راست طور پر شامل ہونے کی بات عدالت میں ثابت ہونے سے ہندوستان کا موقف زیادہ مضبوط ہوتا اب لگتا نہیں ۔رانا کے خلاف جو ثبوت تھے وہ اتنے پختہ نہیں تھے کہ جوری کے ممبران کو مطمئن کرسکیں۔ بھارت کا واضح خیال ہے کہ 26/11 سیدھا سیدھا آئی ایس آئی کا آپریشن تھا۔ رانا کو اس حملے کی پوری جانکاری تھی۔ اس نے اس معاملے میں ڈیوڈ کالمین ہیڈلی سے بات چیت کی تھی۔ ہیڈلی نے جو تاج محل ہوٹل و چھترپتی شیواجی اسٹیڈیم کی ویڈیو بنائیں تھیں وہ تک رانا سے برآمد ہوئیں تھیں۔ پاکستان سے آتنک وادی ممبئی کہاں اتریں گے اور شہر میں کیسے گھسیں گے یہ تک صلاح مشورہ ہوا تھا۔ ہیڈلی نے نہ صرف رانا کو 26/11 حملوں کے بارے میں بتایا بلکہ اسے یہ بھی کہا کہ وہ نومبر 2008 میں ممبئی کسی بھی حالت میں نہ جائے۔ بھارت کے لئے اس مقدمے کی خاص اہمیت اس لئے ہے کیونکہ ا

اب غیر سیاسی منموہن سرکار وکانگریس پارٹی آمنے سامنے

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily 12 جون 2011 کو شائع انل نریندر مجھے منموہن سنگھ حکومت پر کبھی رحم آتا ہے ،کبھی مایوسی بھی۔ رحم اس لئے آتا ہے کہ اس حکومت کو جو لوگ چلا رہے ہیں وہ سبھی غیر سیاسی ہیں۔ سب سے اوپر سونیا گاندھی ہیں جو سپر پرائم منسٹر ہیں اور سرکار کا ریموٹ کنٹرول ہیں۔ وہ نان پالیٹیکل ہیں۔ ان کے نیچے ہیں وزیر اعظم سردار منموہن سنگھ۔ جنہوں نے زندگی میں ایک آدھ ہی چناؤ لڑا لیکن اس کے بعد آج تک نہیں لڑا۔سونیا گاندھی کے چیف ایڈوائزر احمد پٹیل جیسے لوگ پردے کے پیچھے سے فیصلہ کرتے ہیں وہ بھی غیر سیاستداں سے ہی ہیں۔ اس لئے یہ حکومت جو بھی فیصلے کرتی ہے اس میں افسرشاہی کی بدبو زیادہ آتی ہے۔سیاستداں کم ہونے سے مایوسی ہوتی ہے۔آپ حال ہی میں اس حکومت کے اہم فیصلے دیکھئے چاہے وہ انا ہزارے کا معاملہ ہو، چاہے بابا رام دیو کا۔ دونوں میں ہی بڑے بچکانے طریقے سے اس منموہن سنگھ سرکار نے معاملے کو رفع دفع کیا۔ میری بات تو چھوڑیئے اب تو کانگریس پارٹی کے اندر بابا معاملے پر گھمسان چھڑ گیا ہے۔ رام لیلا میدان میں لگے بابا رام دیو کے یوگ کیمپ کو پولیس کارروائی کے تحت ہٹانے کے بعد کانگر