اشاعتیں

مارچ 20, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

برسلز اب اسلامی آتنکیوں کی یوروپی راجدھانی

بلجیم کی راجدھانی برسلز میں منگلوار کو ہوئے بم دھماکے پیرس حملے کے ملزم صالح عبدالسلام کی گرفتاری کے چاردن بعد ہوئے ہیں۔ نومبر2015 میں پیرس میں اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے بیحد خطرناک حملے کے ایک دن بعد ہیں اس دہشت گرد تنظیم نے اس حملہ کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اطلاع جاری کی تھی کہ فرانس اور اس کے حمایتی دیشوں پر اس طرح کا حملہ کیا جائے گا۔فرانس کی جانچ ایجنسیوں کو اس حملہ کی تہہ میں پہنچنے میں سب سے زیادہ مدد بلجیم نے کی تھی۔ پیرس حملہ کی سازش میں اہم کردار نبھانے والے صالح عبدالسلام کی گرفتاری کے بعد ہی بلجیم کی سکیورٹی ملازمین کو چوکنا ہونا پڑا تھا لیکن بلجیم کی سکیورٹی ایجنسیاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں ناکام رہی ہوں برسلز میں آتنکی حملوں کو بھی نہیں روک سکیں۔ ماہرین کے مطابق اس بات کا پورا امکان ہے کہ صالح عبدالسلام کی گرفتاری سے پہلے یہ حملہ منظم اور کئی ہفتوں کی تیاری کے بعد کیا گیا۔ یہ بلجیم میں وسیع اور خطرناک آتنکی نیٹورک کی موجودگی کا بھی اشارہ کرتا ہے۔ بلجیم کے تھنک ٹیک ایگروموٹ کے مطابق بلجیم غیر ملکی لڑاکوؤں کی پناہ گاہ بن گیا ہے۔ اس کے مطابق بلجیم ہی ایک ایس

’کانگریس مکت بھارت‘ کا تعبیر ہوتا بی جے پی کا خواب

اترا کھنڈ میں جاری سرکار گرانے اور بچانے کا کھیل صرف ایک ہی ریاست کی سیاست تک محدود رہنے والا واقعہ نہیں ہے۔دراصل یہاں اقتدار کی لڑائی دیش کی سب سے پرانی اور سب سے زیادہ وقت تک راج کرنے والی کانگریس پارٹی کے وجود سے جڑ گئی ہے۔ اتراکھنڈ میں اگر ہریش راوت اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کانگریس کے ہاتھ سے نکلی ریاستوں کی لسٹ میں ایک اور نام جڑ جائے گا اور ’کانگریس مکت بھارت‘ کے ایجنڈے پر کام کے لئے بی جے پی کو زیادہ حوصلہ ملے گا۔ لوک سبھا چناؤ کے وقت بی جے پی نے جب ’کانگریس مکت بھارت ‘کا نعرہ دیا تھا تو کانگریس کی طرف سے طنز کیا گیا تھا کہ ہمیں برطانوی حکومت بھی ختم نہیں کر پائی تو بی جے پی کی کیا بساط، جو صرف کچھ ریاستوں میں ہی پہچان رکھتی ہے؟ لیکن اب جب ٹھنڈے دماغ سے غور کریں اور دیکھیں تو کانگریس کے ہاتھ سے ایک ایک کرکے ریاستیں نکلتی جارہی ہیں اور پارٹی سمٹتی جارہی ہے۔ دہلی اور مکمل ریاست کا درجہ حاصل یافتہ 29 ریاستوں کی سیاسی تصویر کو دیکھا جائے تو کانگریس کی حکومت صرف7 ریاستوں، کرناٹک، ہماچل، آسام، اتراکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، میزورم تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ بہار میں وہ تک

پیرس کے بعد اب بروسیلز

دہشت گردی نے ایک بار پھر یوروپ کو نشانہ بنایا ہے ،بلجیم کی راجدھانی بروسیلز کے ہوائی اڈے اور ایک میٹرو اسٹیشن پر منگلوار کو ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں میں کم سے کم34 لوگوں کی موت ہوگئی اور200 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ بروسیلز کو یوروپی یونین کی راجدھانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) نے حملہ کی ذمہ داری ہے۔ صرف چاردن پہلے بلجیم کی پولیس نے نومبر ہوئے پریس حملہ کے اہم سازشی صالح عبدالسلام کو بروسیلز کے میٹرو اسٹیشن کے پاس سے گرفتار کیا تھا۔ مانا جارہا ہے کہ یہ آتنکی حملہ اسی کا بدلہ ہے۔ بلجیم کے وزیر اعظم چارلس مائیکل نے بتایا کہ ہوائی اڈے پر ہوئے حملے میں فدائین شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم جنگ کے حالات سے گزر رہے ہیں۔ ایئرپورٹ پر ہوئے آتنکی حملے میں بڑی تعداد میں ہندوستانی مسافر بال بال بچ گئے ہیں۔اس وقت بھارت کی پرائیویٹ ایئر لائنس جیٹ ایئر بیس کے کئی جہاز ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ بم دھماکے سے 50 منٹ پہلے ایک جہاز ممبئی سے ایئرپورٹ پر اترا تھا جبکہ دہلی سے پہنچا ایک دوسرا جہاز حملے کے 10 منٹ بعد اترا۔ سبھی مسافروں کو ہوائی اڈے سے بحفاظت باہر نکال لیا گیا۔ حالانکہ وہاں 60

88 سال بعد کیوبا جانے والے امریکی صدر براک اوبامہ

امریکی صدر براک اوبامہ نے اپنے عہد کے آخری دنوں میں ایک اور تاریخی پہل اپنے نام درج کرالی ہے۔ اتوار کو وہ سہ روزہ سرکاری دورہ پر کیوبا گئے اور کیوبا کی راجدھانی حوانا پہنچنے پر ان کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی خاتون اول مشیل اوبامہ اور ان کی تینوں بیٹیاں بھی تھیں۔ اس سے پہلے جانے والے امریکی صدر کالون کولیز تھے جو88 سال پہلے 1928ء میں جنگی جہاز سے پہنچے تھے۔ ان 88 برسوں میں دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ کہاں توا مریکہ کیوبا کو خاص کر اس کے سربراہ مملکت فیڈرل کاستروکو اپنا سب سے بڑا دشمن مانتا تھا اور کہاں آج اتنے برسوں کی دشمنی دوستی میں بدلی تو اوبامہ کیوبا چلے گئے۔ شاید ہی کسی دیش کے ساتھ امریکہ کے ایسے تعلقات رہے ہوں جیسے کیوبا سے رہے۔ الزام لگتے رہے ہیں کہ امریکہ نے فیڈرل کاسترو کو مارنے تک کی کوششیں کروائیں۔ طویل عرصے سے کاسترو کی حفاظت میں رہے سیوین اے اکلانتے کے مطابق امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کاسترو کے قتل کے لئے 638 بار کوشش یا پلاننگ کی۔ ایک دلچسپ قصہ کاسترو کی سابقہ معشوقہ ماریتا لورنج کا بھی ہے۔کاسترو کی اس سے 1958 ء میں ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بعد میں سی

اتراکھنڈ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنی ہوگی

اکثر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام اکثر بنا رہتا ہے۔ ان ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام کس طرح رہ رہ کر سر اٹھاتا ہے اس کی تازہ مثال ہے اتراکھنڈ۔ریاست میں ہریش راوت کی قیادت میں کانگریس حکومت بحران میں پھنس گئی ہے۔9 کانگریسی ممبران اسمبلی نے وزیر اعلی کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ ہریش راوت سرکار کا مستقبل بھنور میں پھنسا ہے۔ چونکانے والی بات تو یہ ہے کہ باغی ممبران میں سے سابق کانگریسی وزیر اعلی وجے بہو گنا بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کانگریس ہائی کمان نے اچانک وجے بہوگنا کو ہٹا کر ہریش راوت کو اس لئے اقتدار سونپا تھا کیونکہ وہ اپنے ہی ممبران کی ناراضگی سے لڑ رہے تھے۔ اب وہی صورتحال ہریش راوت کی بنی ہوئی ہے۔ ویسے اتراکھنڈ جب سے بنا ہے محض ایک ہی وزیر اعلی نے اپنی میعاد پوری کی ہے۔ اس بغاوت کے چلتے بھاجپا کو بھی اپناوزیر اعلی بدلنا پڑا تھا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سیاسی پارٹیاں مینڈیٹ کا سنمان نہیں کرتیں۔راج کرنے کامینڈیٹ کسی کو ملتا ہے اور راج کوئی اور کرتا ہے۔ اسمبلی میں کل 71 (ایک نامزد) ممبر اسمبلی ہے۔ بغاوت سے پہلے کانگریس کے36 ، بھاجپا کے 28 اور 6 دیگرتھے۔ ایوان میں اک

سی بی ایس ای کے 12 ویں کے ریاضی پیپر پر چھڑا تنازعہ

مسلسل چوتھے برس سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کا 12 ویں ریاضی کا پیپر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ 14 مارچ کو ہوا پیپر اتنا مشکل تھا کہ اسے تین گھنٹے میں حل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ طلبا کو تو چھوڑیئے اساتذہ تک مانتے ہیں کہ وہ بھی اس سوال نامے کو تین گھنٹے میں پورا نہیں کرسکتے اس لئے معاملہ تو پارلیمنٹ میں بھی اٹھا اور طلبا کی پریشانی یہ ہے کہ کورس سے باہر کے سوال پیپر میں پوچھے گئے۔ ایسے سوال 8 سے10 نمبر کے تھے جبکہ بورڈ کے حکام اس سے انکار کرتے ہیں۔ وہیں سب سے بڑا سوال یہ بھی ہے کہ جب پرچہ بنانے کی کارروائی چھ مہینے پہلے شروع ہوجاتی ہے تو ایسی گڑ بڑی کیوں ہوتی ہے؟ خاص طور پر ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے۔ 2015ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ پچھلے سال کی غلطیوں کے باوجود پیپر سیٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بحث تک سی بی ایس ای نہیں کررہا ہے۔ 2013 ء میں پیپر بہت مشکل آیا تھا اور طلبا نے اس کی شکایت کی تھی۔ ریاضی انتہائی اہم سبجیکٹ ہے۔ انجینئرنگ کے علاوہ بہت سوں کے لئے بھی حساب کا ایک اہم مضمون ہے لیکن آخری وقت میں سوال نامے کے پیٹرن میں تبدیلی کر طلبا کی مشکلیں بڑھا رہا ہے۔نیشنل ایجوک

راجدھانی دہلی بن گئی ہے نقلی کرنسی کا اڈہ

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دیش کی راجدھانی دہلی اب نقلی کرنسی کا مرکز بن گئی ہے۔ دیش میں چار برس کے دوران قومی راجدھانی میں سب سے زیادہ50 کروڑ روپے مالیات کے نقلی نوٹ پکڑے گئے ہیں۔ نقلی کرنسی چلا کر دہشت گردوں کو مدد پہنچانے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تفتیشی ایجنسیوں کو اس بات کے پختہ ثبوت ملے ہیں کہ پکڑی گئی کرنسی پاکستان میں واقع ایک پریس میں چھپی ہے۔دہلی تک اس کرنسی کو پہنچانے کے لئے ساؤتھ اور ساؤتھ مشرق ایشیائی خطہ میں بنے خودکفیل کرائم نیٹ ورک کی مدد لی جاتی ہے۔ جن دیشوں سے نقلی نوٹ ہندوستانی سرحد میں لائے جاتے ہیں ان میں خاص ہیں نیپال، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملیشیا،سری لنکا اور متحدہ عرب امارات۔ زمینی سرحد اور سمندری راستے یہ کرنسی دہلی تک پہنچائی جاتی ہے۔ دہلی میں اس کرنسی کو قریب 47 مقامات پر چلایا جاتا ہے۔ اسی کی معرفت جموں و کشمیر میں دہشت گردوں کو مدد پہنچائی جاتی ہے۔ دہلی میں کچھ دن پہلے جامع مسجد علاقہ سے نقلی نوٹ پکڑے گئے۔ نیہال وہار میں بھی پچھلے دنوں بڑی کھیپ ملی تھی۔ دہلی پولیس و ریزرو بینک آف انڈیا کی مختلف شاخوں کے ذریعے پکڑے گئے

ملکی بغاوت سے وابستہ قانون کا جائزہ

جے این یو کے کنہیا معاملے میں دیش دروہ کا معاملہ درج ہونے سے مانگ اٹھ رہی ہے کہ اس برطانوی دور کے قانون میں تبدیلی ہونی چاہئے۔ اس برطانوی عہد کے قانون میں تبدیلی کے لئے اورملکی بغاوت لفظ کی پھر سے تشریح کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے مرکزی سرکار اور آئینی کمیشن نے ایک سب گروپ بنایا ہے۔ تبدیلی کے سیکٹرز کی پہچان کی جارہی ہے۔ مذہب کی بنیاد پر سماج کو بانٹنے کی کوشش کرنے والوں پر بھی سخت کارروائی کے بارے میں دفعات شامل کی جاسکتی ہیں۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ سرکار نے کمیشن کو جلد رپورٹ سونپنے کے لئے کہا ہے۔ رپورٹ آنے کے بعد اس پر بحث کے لئے کل جماعتی میٹنگ بلائی جاسکتی ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی معاملے کے بعد ملکی بغاوت قانون کی نئے سرے سے تشریح کرنے کے لئے چوطرفہ دباؤ کے چلتے مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے۔ برطانوی عہد کے اس قانون (آئی پی سی کی دفعہ 124A) کو منسوخ کرنے کی مانگ اٹھ رہی ہے۔ آئینی کمیشن نے 42 ویں رپورٹ میں مانا ہے کہ ملکی بغاوت قانون میں خامی ہے، لیکن کمیشن نے اسے منسوخ کرنے کی سفارش نہیں کی تھی۔ اس کے بعد 2006 میں 156 ویں رپورٹ میں کمیشن نے ملکی بغاوت کی جگہ کوئی مت

امن کا پیغام دیتا ہے اسلام

امن اوربھائی چارے کے لئے اسلام کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کوکہا کہ اللہ کے 99 ناموں میں کسی کا مطلب تشدد سے نہیں ہے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کسی مذہب کے خلاف ٹکراؤ نہیں ہے اور دہشت گردی و مذہب کو الگ رکھنا چاہئے۔ یہ بات وزیر اعظم مودی نے سہ روزہ پہلی ورلڈ صوفی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ اس پروگرام میں پاکستان، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، مصر سمیت20 ملکوں کے روحانی پیشوا اور عالمی دین ماہر تعلیم سمیت 200 افرادپر مشتمل نمائندہ وفد نے شرکت کی۔ اس نے اپنی طرح کی اس پہلی صوفی کانفرنس میں شرکت کی۔ اسے کٹر پسند اسلام کے خلاف تیزی سے ابھرتی رائے کی علامت مانا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا ان دہشت گردوں نے اذان اور پرارتھنا کی مقدس جگہوں پر حملے کئے اور ایسے وقت میں صوفی ازم ایک نور کی طرح ہے جو تشدد سے سہمی دنیا کو ایک نئی روشنی دکھا سکتا ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور صوفی ازم اس کی روح ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ جب ہم اللہ کے 99 ناموں کی باتیں کرتے ہیں تو ان میں کوئی بھی تشدد کی بات نہیں محسوس ہوتی۔ حضرت نظام الدین اولیا ؒ

روسی صدر ولادیمیرپوتن کا باہمت اور پائیدار فیصلہ

روسی صدر ولادیمیر پوتن کا اچانک شام سے اپنے فوجیوں کی واپسی کا اعلان ان کے ذریعے ایک جوا کھیلا گیا ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں مستقل امن کے قیام کی سمت میں ایک قدم ہے۔ روسی فوجیوں کی مکمل واپسی کی کوئی میعاد وقت ابھی طے نہیں کیا گیا ہے۔باوجود اس کے پوتن کی یہ پہل کافی اہم مانی جاسکتی ہے۔ پوتن نے یہ فیصلہ شام کے صدر بشرالاسد سے فون پر بات کرنے کے بعد لیا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ اسد نے بھی اپنی منظوری دے دی ہے تبھی یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔  منگلوار کو روسی وزیر دفاع نے بتایا کہ روس نے شام سے اپنے فوجی سازو سامان کو واپس لانے کی کارروائی شروع کردی ہے۔ پوتن نے شام میں یہ قدم اٹھا کر ایک جوا کھیلا ہے۔انہوں نے اب باقی دنیاکو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ روس شام میں امن چاہتا ہے اب امریکہ سمیت دیگر ملکوں کو پہل کرنی ہوگی۔ روسی صدر کو یہ معلوم تھا کہ وہ شام میں زیادہ وقت تک نہیں ٹک سکتے۔ وہ شام کو دوسرا افغانستان نہیں بنانا چاہتے اس لئے انہوں نے موقعہ پاتے ہی روسی فوج کی واپسی کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان ٹھیک اس وقت آیا ہے جب جنیوا میں شام امن مذاکرات ہونے والے ہیں۔ ڈپلومیٹک حلقوں میں روس کے