اشاعتیں

نومبر 5, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سانسوں کی ایمرجنسی: دہلی بنی گیس چیمبر

پچھلے کچھ دنوں سے تو انتہا ہی ہوگئی ہے۔دہلی این سی آر میں آلودگی نہایت خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دہلی گیس چیمبر میں بدل چکی ہے۔ اتنا دھنواں ہے کہ سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ آنکھوں میں جلن، کھانسی زکام عام ہوگئے ہیں۔ ہوا میں آلودگی کی سطح خطرناک سطح تک پہنچ گئی ہے۔ پی ایم 2.5 کی مقدار محفوظ مانے جانے والی سطح سے 10 گنا زیادہ ہے۔ آئی ایم اے (انڈیا میڈیکل ایسوسی ایشن ) نے ہیلتھ ایمرجنسی ڈکلیئر کردی ہے۔ سب کی جان جیسے گلے میں اٹک گئی ہو لیکن سانس لینے سے کوئی بھلا کیسے بچ سکتا ہے۔ دیوالی کے بعد پھیلے دھنویں کے بعد اب پرالی جلانے میں ہوئی دھند سے آلودگی سطح بڑھ کر کئی گنا ہوچکی ہے۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے مطابق اے کیو آئی (ایئر کوالٹی انڈیکس) کی سطح 100 تک عام مانی جاتی ہے۔ حالانکہ دہلی کا اے کیو آر 300-400 کے درمیان رہتا ہے لیکن منگلوار کو یہ سطح 440 تک پہنچ گئی تھی۔ آلودگی سے نمٹنے کیلئے دہلی حکومت پانی کے چھڑکاؤ سے لیکر آڈ ۔ ایون کو پھر سے لاگو کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ایسا نہیں کہ اکیلے بھارت ہی اس مسئلے سے لڑ رہا ہے کئی دیگر دیشوں میں بھی آلودگی کی سطح باعث تش

اور اب پیرا ڈائز پیپرس

پنامہ پیپرس لیک ہونے کے 18 مہینے بعد پیراڈائز پیپرس نام سے ایک اور بڑا عجب ترین ڈاٹا سامنے آیا ہے۔ اس میں ان فرموں اور آف شور کمپنیوں کی جانکاری ہے ، جو دنیا بھر میں امیروں کا پیسہ بیرونی ممالک بھیجنے میں مدد کرتی ہیں۔ لیک ہوئے ان 1.34 کروڑ دستاویزات میں کئی اہم ہندوستانیوں کے بھی نام ہیں۔دنیا بھر کے صحافیوں نے مل کر امیر اور طاقتور لوگوں کی خفیہ سرمایہ کاری کے بارے میں پیراڈائز پیپرس کے نام سے جو تازہ دھماکہ کیا ہے ،وہ پنامہ دھماکہ سے ایک قدم آگے ہے۔ اور اس میں اشخاص سے زیادہ کارپوریٹ پر زور دینے سے حکومتوں کو جانچ پڑتال کرنے، کارروائی کرنے میں آسانی ہوگی۔ پیراڈائز پیپرس کی شکل میں جو کچھ ہمارے سامنے آیا ہے اس میں اگرچہ سچائی ہے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں ایسے لوگ ہیں جو ٹیکس بچانے کے لئے ان ملکوں کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں یا وہاں کمپنیاں بنا لیتے ہیں جہاں یا تو ٹیکس نہیں لگتا یا معمولی ٹیکس ہی لگتا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو غیر اخلاقی تو کہا ہی جاتا ہے، لیکن انہیں قانون کی خلاف ورزی کی ہی ہے ایسا کہنا ذرا مشکل ہے۔ اس رپورٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ کچھ غیر قانون

قانونی ڈاکہ ،منظم لوٹ تھی نوٹ بندی

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ منگل کے روز مودی سرکار کی دو اہم اقتصادی اصلاحات نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر جم کر خفا ہوئے۔ نوٹ بندی کے ایک سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے ڈاکٹر منموہن سنگھ احمد آباد میں کہا تھا کہ 8 نومبر 2016ء کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں پر پابندی لگایا جانا ایک منظم لوٹ اور قانونی ڈاکہ تھا۔نوٹ بندی اور اس کے بعد گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کے عمل کے طور طریقوں سے دیش کے کاروباری حلقہ میں ٹیکس دہشت کا ڈر بیٹھ گیا۔ گجرات اور احمد آباد میں اپنی پارٹی کی جانب سے منعقدہ چھوٹے اور درمیانے کاروباریوں کی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اس وقت دیش میں پرائیویٹ سرمایہ کاری 25 برس میں کم از کم سطح پر آگئی ہے۔ یہ ہندوستانی معیشت کے لئے کافی خراب پوزیشن ہے۔ نوٹ بندی کو سوچے سمجھے بغیر اٹھایا گیا قدم بتاتے ہوئے سابق وزیر اعظم و جانے مانے ماہر اقتصادیات منموہن سنگھ نے دوہرایا کہ بڑی مالیت کے نوٹوں کوچلن سے باہر کرنے کی این ڈی اے سرکار کی کارروائی ایک منظم لوٹ اور قانونی ڈاکہ تھا۔انہوں نے کہا دیش میں حالات بہت خراب ہیں اور معیشت بیٹھ گئی ہے جبکہ عالمی مالی حالات مناسب تھے۔ ٹیکس دہش

آٹھ ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دینے کی مانگ

سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی درخواست داخل کی گئی ہے جس میں بھارت کی 8 ریاستوں میں ہندوؤں کو اقلیتی درجہ دئے جانے کی مانگ کی گئی۔ اس عرضی کے بعد یہ بحث تیز ہوگئی ہے آخر اس مانگ کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہندوؤں کو بھی کچھ ریاستوں میں اقلیتی درجہ ملنا چاہئے؟ کورٹ میں جو عرضی داخل ہوئی ہے اس میں بتایا گیا کہ 8 ریاستوں لکشدیپ، میزورم، ناگالینڈ، میگھالیہ، جموں وکشمیر، اروناچل پردیش، منی پور اور پنجاب میں ہندوؤں کی آبادی بیحد کم ہے انہیں یہاں اقلیت کا درجہ ملے تاکہ سرکاری سہولیات مل سکیں۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ اقلیت کا درجہ نہیں ملنے سے ان ریاستوں میں ہندوؤں کو بنیادی حقوق سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ عرضی دائر کرنے والے اشونی اپادھیائے نے کہا کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 2002 میں فیصلہ کیا تھا کہ اقلیت کا درجہ ریاستی سطح پر دیا جانا چاہئے۔ 8 ریاستوں میں ہندو بہت کم ہیں باوجود اس کے انہیں اقلیت کا درجہ نہیں دیا گیا۔ 2011 ء میں ہوئی آبادی کے مطابق لکشدیپ میں 2.5 فیصد ، میزورم میں 2.75 فیصد، ناگالینڈ میں 8.75فیصد، میگھالیہ میں 11.53 فیصد، جموں کشمیر میں 28.44فیصد، اروناچل پردیش میں 29 فیصد، منی پور

ٹرمپ کا ایشیائی دورہ اس لئے اہمیت کا حامل ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پانچ ایشیائی ممالک کا دورہ کئی معنوں میں اہم ہے۔ان میں جاپان، ساؤتھ کوریا، چین، ویتنام اور فلپین شامل ہیں۔پہلے وہ جاپان پہنچے، ان کا ایشیائی دورہ 14 نومبر کو فلپین میں ختم ہوگا۔ اس دوران وہ سبھی ملکوں کے ساتھ اہم مسئلوں پر تبادلہ خیالات کریں گے لیکن جاپان، چین اور ساؤتھ کوریا میں بحث کا اہم مرکز نارتھ کوریا ہی ہوگا۔ مسلسل میزائل تجربے کرکے امریکہ کو حملے کی دھمکی دینے والے نارتھ کوریا کی گھیرا بندی کے لئے یہ دورہ اہم رہے گا۔ 25 سال میں یہ کسی بھی امریکی صدر کا سب سے طویل ایشیائی دورہ ہے۔ مانا جارہا ہے کہ اس دورہ میں صدر ٹرمپ ساؤتھ کوریا اور جاپان کے ساتھ مل کر تیونگ یانگ کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کریں گے جبکہ اس مسئلے پر بھی دباؤ بڑھائیں گے، ٹرمپ کے دورہ میں سب سے اہم چین ہوگا۔ ٹرمپ بیجنگ میں چینی صدر شی جن فنگ کے ساتھ ملاقات کریں گے کیونکہ چین نارتھ کوریا کا سب سے بڑا کاروباری دوست ملک ہے اس لئے ٹرمپ نے نارتھ کوریا کے حوصلے پر لگام لگانے کے لئے پہلے ہی چین کو ضروری قدم اٹھانے کو کہا تھا، لیکن چین کی طرف سے اس پر کوئی اہم فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ اس پر دونوں میں

ہرپانچ سال میں بدلتی ہے ہماچل میں سرکار

ہماچل پردیش میں 9 نومبر کو ہونے والے اسمبلی چناؤ کا نتیجہ طے کرنے میں 18 سے 40 سال تک کے بزرگوں کا اہم کردار ہوگا۔ چناؤ کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق ہماچل میں 50 لاکھ ووٹروں میں سے آدھے سے زائد تعداد 18سے40 سال کے عمر کے لوگوں کی ہے جبکہ 40 سے60 تک عمر کے ووٹروں کی سانجھے داری ایک تہائی ہے۔ 68 ممبری اسمبلی والی اس پہاڑی ریاست کی کل آبادی 7363912 ووٹروں پر مبنی ہے۔ چناؤ کمیشن کے ذریعے جاری شناختی کارڈ یافتہ ووٹروں کی کل تعداد 4988362 ہے۔ان میں 2531312 مرد اور 245732 خاتون اور باقی 14 کنڑووٹر ہیں۔ ہماچل پردیش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگ ہر پانچ سال میں سرکار بدل دیتے ہیں۔ تبدیلی اقتدار کی روایت قائم ہوچکی جو سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی ایک پہیلی بنی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کام چاہے جتنا اچھا کروں لیکن لوگوں کو پسند نہیں آتا اور وہ ہر چناؤ میں نیا تلاشتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔ اتفاق سے ہماچل میں دو ہی پارٹیاں اہم ہیں کانگریس اور بی جے پی۔ تبدیلی اقتدار کا کھیل انہی دو پارٹیوں کے درمیان چلتا ہے۔ 1970ء میں جب بی جے پی کا جنم نہیں ہوا تھا تو کانگریس سے جنتا پارٹی نے اقتدار ہتیا تھا اور ا

سپریم کورٹ کے فائنل فیصلہ سے آدھار لنک نہ ہو

آدھارکارڈ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے صاف کہا ہے کہ موبائل اور بینک کھاتوں کو آدھار سے لنک کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں یہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کا معاملہ تو نہیں ہے۔ عدالت ہذا نے حالانکہ اس معاملہ میں عارضی روک لگانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس معاملہ کو آئینی بنچ دیکھ رہی ہے اور سماعت نومبر کے آخری ہفتے میں ہوگی۔ عدالت نے یہ بھی کہا مرکزی حکومت پہلے ہی آدھار لنک کرنے کی میعاد بڑھا چکی ہے۔ بینک اور موبائل کمپنیاں گراہکوں کو میسج بھیج کر خوفزدہ نہ کریں۔ بینک اور ٹیلی کام کمپنیاں گراہکوں کو جو میسج بھیج رہی ہیں ان سے بتائیں اکاؤنٹ اور موبائل نمبر سے آدھار جوڑنے کی آخری تاریخ بسلسلہ 31 دسمبر 2017 اور 6 فروری 2018 ہوگی۔ جسٹس اے سیکری نے تو یہاں تک کہا کہ میں کہنا نہیں چاہتا ، لیکن ٹیلی کام کمپنیاں اور بینکوں کی طرف سے ایسے میسج مجھے بھی آرہے ہیں۔ لوگوں کو لگاتار فون آرہے ہیں۔ ان میں بینک اور موبائل کمپنیوں کی غلطی نہیں ہے کیونکہ ان کو حکومت کی طرف سے احکامات آئے ہوں گے اور وہ اس کی تعمیل کررہے ہیں لیکن سرکار کا حکم دینا صحیح

کرپشن کے نام پر سعودی عرب میں اقتدار کی جنگ

سعودی عرب میں پچھلے کچھ دنوں سے شاہی خاندان میں بہت اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔ کہنے کو تو یہ سب کرپشن دور کرنے کے نام پر ہورہا ہے لیکن لگتا ہے یہ اقتدار کی لڑائی ہے سعودی شہزداہ اپنے راستے سے رکاوٹیں ہٹانے میں لگے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق شاہی فرمان کی بنیادپر دیش کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں ایک نئی کرپشن انسداد کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس کمیٹی کے بننے کے گھنٹوں بعد ہی 11 راجکماروں سمیت 4 وزرا اور درجنوں سابق وزرا کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ حراست میں لئے گئے لوگوں میں ارب پتی راجکمار الولید بن تلہل بھی شامل ہے۔ محمد بن سلمان نے نیشنل گارڈ اور نیوی کے سربراہوں کو بھی برخاست کردیا ہے۔ کمیٹی بنانے کا حکم دینے والے اس شاہی فرمان میں کہا گیا ہے اگر کرپشن کو جڑ سے اکھاڑا نہ گیا اور کرپشن کرنے والوں کو سزا نہ دی گئی تو اس دیش کا وجود نہیں رہے گا۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی سعودی پریس کے مطابق اس نئی کرپشن انسداد کمیٹی کے پاس کسی کے نام پر وارنٹ جاری کرنے، دورہ پر روک لگانے کا اختیار ہے۔ فی الحال یہ واضح نہیں ہوپایا ہے کہ حراست میں لئے گئے لوگوں پر کیا الزامات ہیں۔ گرفتار کئے گئے را

نوٹ بندی کا ایک سال :کیا کھویا کیا پایا

8 نومبر 2016ء کو وزیر اعظم نریندر مودی نے درمیانی رات سے 500 اور 1000 کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد پی ایم مودی نے مشکل جھیلتے لوگوں کو بھروسہ دلایا کہ 50 دنوں کی دقت کے بعد ایک نیا بھارت بنے گا۔ لوگوں نے اسے حمایت بھی دی لیکن کیا نوٹ بندی سے جو توقعات سرکار کوتھیں اور عام جنتا نے امیدیں باندھیں اس پر یہ فیصلہ کھرا اترا؟ نوٹ بندی کا ایک سال پورا ہورہا ہے چلئے اس میں کارناموں اور خامیوں پر ایک نظر ڈالیں۔ نوٹ بندی کے بعد ریزرو بینک نے لمبے انتظار کے بعد جب اعدادو شمار جاری کیا تو پتہ لگا کہ ساری رقم بینکنگ سسٹم میں لوٹی ۔ یہ سرکار کی توقع کے برعکس تھا لیکن نوٹ بندی سے کم سے کم زیادہ کرنسی سسٹم میں لوٹنے کا فائدہ ہوا۔ اب سرکاراس رقم کو نئے سرے سے ٹریک کر سکتی ہے۔ سرکارکا دعوی رہا کہ نوٹ بندی کے سبب بلیک منی اور کرپشن پر روک لگی۔ اس فیصلے کے سبب سرکار کا دعوی ہے کہ ٹیرر فنڈنگ میں روک لگی ہے۔ بیشک یہ کچھ حد تک صحیح ہوگا لیکن آتنک واد پہلے سے زیادہ مشتعل ہوا۔ پچھلے ایک سال میں جتنے ہمارے جوان مرے ہیں اتنے پہلے کسی سال میں نہیں مرے۔ جہاں تک کرپشن کا سوال ہے نہ تو ان میں کمی آئ

دہلی کا باس کون؟ راؤنڈ ون

دہلی سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان حقوق کی حد پر سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے بدھوار سے سماعت شروع کردی ہے۔ بنچ نے کہا کے آئین کی دفعہ239AA انوٹھا ہے۔ سرکار کو اس کا سنمان کرنا چاہئے۔ پہلی نظر میں دوسرے مرکزی حکمراں ریاستوں کے مقابلے میں دہلی میں ایل جی کو زیادہ اختیار دئے گئے ہیں حالانکہ ایل جی سرکاری یوجنا سے وابستہ کوئی فائل دبا کر نہیں رکھ سکتے۔ اختلاف ہونے پر وہ آئین کے تحت معاملہ صدر کے پاس بھیجنے کے لئے مجبور ہوں گے۔ معاملے کی اگلی سماعت7 نومبر کو ہوگی۔ ایل جی اور دہلی سرکار کے درمیان حقوق کو لیکر تنازعہ پہلے بھی کبھی کبھار اٹھا کرتے تھے مگر دہلی میں عام آدمی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اختیارات کو لیکر برابر رسہ کشی کی حالت رہی ہے اس لئے اس معاملہ میں فیصلہ کن وضاحت کی ضرورت جتنی آج ہے اتنی شاید پہلے نہیں تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے اگست 2015 میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر ہی دہلی کا انتظامی چیف ہے۔ عاپ سرکار نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی تھی۔ سپریم کورٹ نے مسئلہ کی سنجیدگی اور نیچرلٹی کو دیکھتے ہوئے مناسبت سے ہی آئینی بنچ کو سونپ دیا۔

داغی نیتاؤں کیلئے بنیں فاسٹ ٹریک عدالتیں

سپریم کورٹ نے سیاست کو جرائم سے پاک بنانے کیلئے مرکزی سرکار سے خصوصی عدالتیں ،اسپیشل عدالتیں بنانے کی وکالت کا خیر مقدم کیاہے۔عدالت نے مرکزی سرکار سے کہا ہے کہ وہ 13 دسمبر تک عدالت کو بتائے کہ دیش بھر میں اس طرح کی کتنی فاسٹ ٹریک عدالت کب تک بنائی جائیں گی اور ان پرکتنے پیسے خرچ ہوں گے؟ مرکز کو چھ ہفتے میں جواب دینا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے قصوروار لیڈروں پر تاحیات پابندی لگانے کیلئے بھاجپا نیتا اشونی اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی پر 2014 تک درج 1581 مقدمات کی تفصیل بھی طلب کی ہے۔ اس کے علاوہ 2014 سے2017 کے درمیان لیڈروں کے خلاف دائر مجرمانہ معاملوں اور ان کے نپٹارے کے بارے میں بھی جانکاری مانگی ہے۔ معاملے کی اگلی سماعت 13 دسمبر کو ہوگی۔ جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے بدھوار کو مرکز اور متعلقہ اتھارٹی کو یہ بتانے کو کہا کہ 1581 ملزم عوامی نمائندوں کے مقدموں کا کیا ہوا؟ ان میں کتنے معاملوں کا نپٹارہ ایک برس میں ہوا؟ معلوم ہو کہ 18 مارچ 2014 کو سپریم کورٹ نے ایسے معاملوں کا نپٹارہ ایک سال کے اندر کرنے کی ہدایت دی تھی ساتھ ہی بنچ نے یہ ب

کیا پاکستانی میڈیا ہندوستانی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے

پچھلے کچھ برسوں سے ساری دنیا میں میڈیا پر حملہ تیز ہوگئے ہیں۔ پترکاروں کو اپنی قلم کی آزادی کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ بہت سے ملکوں کی بات ہم نہیں کرتے لیکن بھارت اور پڑوسی پاکستان میں میڈیا کتنا آسان ہے اس کی بات کرتے ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ باوجود اس کے رپورٹرس وداؤتھ بارڈر ادارہ کی جانب سے شائع ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس رپورٹ 2016 کے مطابق پریس کی آزادی کے پیمانے پر بھارت نچلے پائیدان پر ہے۔ 180 ملکوں کی فہرست میں 133 ویں نمبر پر دکھائی دیتا ہے۔ دیش میں پریس کی آزادی مسلسل بگڑرہی ہے۔ بھارت میں 2015 میں 4 صحافیوں کا قتل ہوا اور ہر مہینے کم سے کم ایک پترکار پر حملہ ہوا۔ کئی معاملوں میں رپورٹروں پر مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے بھی درج کئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ صحافیوں نے خود پر سینسرشپ لگا لی ہے۔ میڈیاپر نظررکھنے والی ویب سائٹ دی اٹ ڈاٹ اے آر جی گیتاسیمو کہتی ہیں کہ ان حملوں کا دائرہ چونکانے والا ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر انٹر نیٹ اور اخبارات پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ کارپوریٹ دھوکہ دھڑی پر ہتک عزت کے مقدمے اور مقامی مافیہ کے کرپشن کی خبر کور کرنے پر صحافیوں کے قتل سے لیک