اشاعتیں

اگست 24, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بھاجپا نہیں مودی ۔شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ کہئے!

بھارتیہ جنتا پارٹی اب مودی ۔شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنتی جارہی ہے۔ یہ دونوں جس طرح چاہتے ہیں ویسے ہی حکومت اور پارٹی چل رہی ہے۔ بھاجپا پارلیمانی بورڈ کی تشکیل پراس طرح کی بحث چھڑنا فطری ہے جس طرح اٹل جی اڈوانی جی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو پارلیمانی بورڈ میں نہ شامل کرانہیں مارگ درشک منڈل میں رکھا گیا ہے ، اس سے نریندر مودی اور امت شاہ کے ارادہ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ بھاجپا کا کہنا ہے کہ وہ بزرگ لیڈروں کے بدلے جوان لیڈر شپ کو ذمہ داری سونپنے کی پالیسی پر چل رہی ہے۔اگر اتنا ہوتا تو شاید کسی کو تنقید کرنے کا موقعہ نہیں ملتا جس طریقے سے امت شاہ نے باگ ڈور سنبھالی اسی سے پتہ لگ گیا تھا کہ یہ دونوں مل کر سب سے پہلے ان لیڈروں کو پارٹی امور سے ہٹائیں گے جن سے ان کو خطرہ ہے۔ پہلے اپوزیشن کو ختم کیا اور اب پارٹی کے اندر کسی بھی طرح کا چیلنج کرنے والوں کو باہر کا راستہ دکھایا جارہا ہے۔ نریندر مودی نے ان لال کرشن اڈوانی کو بے عزت کیا ہے جنہوں نے مودی کو ہاتھ پکڑ کر سیاست سکھائی تھی۔ امت شاہ نے بھاجپا کی باگ ڈور سنبھالی تبھی طے ہوگیا تھا کہ پارٹی کے فیصلے گجرات منڈل کی طرز پر ہوں گے۔ ان دون

سپریم کورٹ نے منسوخ کئے کوئلہ الاٹمنٹ کے سارے بلاک

ہندوستان کے سابق کمپٹرولر و آڈیٹر جنرل(سی اے جی) ونود رائے نے جب کولہ گھوٹالے کو اجاکر کرتے ہوئے دیش کے خزانے کو ایک لاکھ 86ہزار کی چپت لگنے کی بات کہی تھی کو منموہن سنگھ سرکار اور کانگریس نہ جانے کن کن دلائل اور ہڑپوں کے ساتھ ان پر برسی تھی اب سپریم کورٹ نے ایک طرح سے ان انکشافات پر اپنی مہر لگا دی ہے اس کے آثار پہلے ہی نظر آرہے تھے کہ سپریم کورٹ کوئلہ الاٹمنٹ کو صحیح نہیں پائے گی کیونکہ ان کا الاٹمنٹ منمانی کی کہانی بیان کررہا تھا اس پر شاید ہی کسی کو تعجب ہو کہ سپریم کورٹ نے 1993 کے بعد سبھی کوئلہ بلاک کے الاٹمنٹ کو غیر قانونی ٹھہرا دیا ہے اقتصادی اصلاحات کی بنیاد کیا کرپشن کے پاؤں پر رکھی گئی تھی؟ دیش کی نایاب ذریعہ کوئلہ کے ساتھ ڈیرھ ڈھائی سے جو سرکاری کھیل چل رہا تھا اس کو بے نقاب دیش کی سب سے بڑی عدالت نے کردیا ہے۔ عدالت نے کوئلہ الاٹمنٹ کے عمل پر ہی سوال اٹھاتے ہوئے اسے غیرقانونی بتا دیا جس میں دیش کا یہ نایاب معدنیات کو چوری چھپے منمانے طریقے سے بانٹ دیا جاتا تھا۔ دیش میں دستیاب توانائی ذرائع میں سب سے اہم کوئلہ کو اقتصادی ترقی کاانجن ماناجاتا ہے جس میں بجلی بنانے اور صنعت

شیلا دیکشت کی واپسی سے کیا کانگریس کو سنجیونی مل سکتی ہے؟

کیرل کے گورنر کے عہدے سے استعفی دینے کے بعد سابق وزیراعلی شیلادیکشت کے پھر سے سرگرم سیاست میں اترنے کی قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں۔ انہو ں نے اپنا استعفی صدر کو بھیج دیاہے اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے عہدے پر بنے رہنے کی یقین دہانی کے باوجود شیلا جی نے منگل کو استعفی دے کر بھاجپا کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے یوپی اے کے دوران کانگریس کے وفادار گورنروں کی فہرست میں شیلادیکشت واحد ایک ایسی گورنر تھی جنہیں بھاجپا فی الحال ہٹانا نہیں چاہ رہی تھی بھاجپا کے حکمت عملی ساز نے اشارہ کردیا ہے کہ ترویندرم راج بھون میں برقرار رکھ کر دہلی کی سیاست سے دور رکھا جائے ۔ محترمہ شیلادیکشت کے اس فیصلے نے دہلی کے دس سال پرانی تاریخ کو دہرایا ہے 2004میں مرکز میں منموہن حکومت بننے کے بعد بھاجپا لیڈر مدن لال کھورانہ راجستھان کے گورنری کا عہدہ چھوڑ کر دہلی کی سیاست میں گود پڑے تھے اس وقت بھی یوپی اے سرکار کھورانہ کو دہلی نہیں آنے دیناچاہتی تھی دہلی کی سیاست کی نبض کو باریکی سے سمجھنے والی شیلادیکشت آنیوالے اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کے لئے مصیبت کھڑی کرسکتی ہے یہی وجہ تھی پیر کو راجناتھ سے ملاقات کرنے کے بعد

ضمنی چناؤ نتائج سے ظاہر ہے مودی لہر دھیمی پڑ گئی!

چار ریاستوں کی18 اسمبلی سیٹو ں پر ہوئے ضمنی چناؤ کو بنیادبنا کر کوئی بڑا نتیجہ نکالنا ٹھیک نہیں ہے لیکن نتیجوں سے کچھ اہم اشارے تو مل رہے ہیں۔ عام طور پر اسمبلیوں کے ضمنی چناؤ وہاں کی حکمراں پارٹی کے حق میں جاتے ہیں لیکن بھاری اکثریت سے مرکز میں اقتدار میں آنے کے سبب ہر ایک چناؤ کو نریندر مودی کی ہار جیت کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ محض100 دن کی میعاد میں مودی کو دو ضمنی چناؤ جھیلنے پڑے اور دونوں ہی نتیجے ان کے حق میں نہیں رہے۔ بہار میں لالو نتیش اتحاد بی جے پی پر بھاری ثابت ہو۔ کانگریس کو سبھی جگہ راحت ملی ہے۔ عام آدمی پارٹی سیاسی منظر سے تقریباً غائب ہوچکی ہے لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے بی جے پی پر چھایا اقتدار کا نشہ ان نتائج سے ٹوٹ گیا ہے۔ تفصیل میں جائیں تو ان18 سیٹوں میں سے 7 بی جے پی کو 5 کانگریس کو،3 آر جے ڈی کو ،2 جے ڈی یو کو ملی ہیں۔ اس سے پہلے اتراکھنڈ کے ضمنی چناؤ میں تینوں سیٹیں کانگریس کی جھولی میں گئی تھیں جھارکھنڈ کے بعد بہار میں ہوئے اسمبلی ضمنی چناؤ کے نتیجے جہاں بھاجپا کی مقامی لیڈر شپ کیلئے محاسبہ کرنے کا وقت ہے وہیں بھاجپا کی مخالف پارٹیوں اور اتحاد کیلئے ایک آکسیجن

عورتوں کیخلاف جنسی حملوں میں اضافہ اور بے اثر قدم!

یہ انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ راجدھانی دہلی میں عورتوں کے خلاف جاری جرائم میں کمی آنے کی جگہ مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس حالت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ جو بھی قدم اٹھائے گئے ہیں وہ بے اثر ثابت ہورہے ہیں۔ پچھلی پیر کو دہلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ایک نرس سے اجتماعی بدفعلی کے واقعے نے راجدھانی کو ایک بار پھر شرمسار کردیا ہے۔ عورتوں کی عصمت پر لڑکوں کے ذریعے ہورہے حملوں کے معاملے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم بیورو کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ایسے معاملوں کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں132 فیصد اضافہ ہوا ہے اور لڑکوں کے ذریعے آبروریزی کے معاملے میں60.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ لڑکوں کے ذریعے انجام دینے والے جرائم میں سب سے زیادہ اضافہ عورتوں کی عزت پر ہونے والے حملوں میں ہوا ہے۔ یہ اضافہ132.3 فیصد ہے۔جہاں تک عورتوں کی بے عزتی کے معاملے ہیں اس میں 70.5 فیصداور آبروریزی کے معاملے 60.3 فیصد بڑھے ہیں۔ انڈین پینل کوڈ کے تحت گرفتار لڑکوں میں سے66.3 فیصد کی عمر16 سال سے18 برس کے درمیان ہے۔ مرکزی وزیرخاتون و اطفال ترقی مینگاگاندھی نے

’’لو جہاد ‘‘سے ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کی تیاری!

اب تک شمال مشرقی اورمشرقی ریاستوں میں خاص طور پر عیسائی مشنریوں کے خلاف تبدیلی مذہب کا الزام لگاتی رہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب اترپردیش میں اپنی قومی ایگزیکٹو میں ’’لو جہاد‘‘ کا ریزولوشن لاکر تبدیلی مذہب کے خلاف وسیع تحریک چھیڑنے کی تیاری کرلی ہے۔بھاجپا کے سینئر لیڈروں کی مانیں تو غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر اور مالی مدد کے چلتے مغربی اترپردیش، آندھرا پردیش سمیت دیش کے کئی بڑے علاقوں میں کچھ مسلم تنظیموں کے ذریعے ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کراکران سے شادی کرنے والے مسلم لڑکوں کو اچھی خاصی رقم دینے کے ساتھ ساتھ ہی ان کے روزگار کا انتظام کرنے کا کھلا کھیل اس وقت چل رہا ہے۔ اس کا نمونہ پچھلے دنوں سہارنپور کی ایک مسجد سے بھاگی ایک ہندو لڑکی کے بیان سے ملتا ہے لیکن خوشامدی کے چلتے ریاست کی سماج وادی پارٹی سرکار اسے ایک لو افیئر مان کر رفع دفع کرنے میں لگی ہے۔ بھاجپا نے پردیش ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے پہلے ہی دن صاف کردیا پارٹی اسمبلی چناؤ میں طبقہ خاص کے ذریعے دوسرے طبقے کی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کے واقعات ’لو جہاذ‘ کو اشو بنائے گی۔ بھلے ہی میٹنگ کے اندر عہدیداروں نے سیدھے سیدھے اس نا

ایک اور ’’کتاب بم‘‘ آگیا کانگریسی کی مشکلیں بڑھانے کیلئے!

کانگریس اور سابقہ یوپی اے II- سرکار اور خاص کر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ پر ایک اور ’’کتاب بم‘‘ پھوٹنے والا ہے۔ ٹو جی سی ڈبلیو جی اور کوئلہ گھوٹالے کو لیکر منموہن سرکار کی پریشانی کا سبب بن رہے سابق سی اے جی ونود رائے بھی اپنی آنے والی کتاب کے ذریعے کانگریس اور یوپی اے سرکار کی پریشانی بڑھانے جارہے ہیں یہ کتاب اکتوبر میں شائع ہوسکتی ہے۔ اپنی کتاب ’’ناٹ جسٹ ان اکاؤنٹینٹ‘(Not just an  accountant ) میں رائے نے دعوی کیا ہے کہ کامن ویلتھ گیمس اور کوئلہ گھوٹالے میں شامل مبینہ شخصیتوں کا نام آڈٹ رپورٹ سے ہٹانے کیلئے یوپی اے سرکار نے ان پر دباؤ ڈالا تھا۔ انہوں نے آگے کہا ہے گھوٹالے بازوں کو بچانے کے لئے اس وقت کی سرکار کے لوگوں نے ان پر دباؤ بنایا تھا۔ رائے کے خلاصے کے بعد کانگریس نے جہاں سابق سی اے جی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے وہیں بھاجپا کا کہنا ہے رائے کے انکشاف سے سابقہ یوپی اے حکومت میں انتہا پر پہنچے کرپشن کی ایک بار پھر سے تصدیق ہوئی ہے۔ عام چناؤ کی کمپین کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے میڈیا مشیر رہے سنجے بارو نے بھی اپنی کتاب لکھی تھی۔ جس نے چناؤ کے وقت کانگریس کی مش

مودی حکومت کے آپریشن گورنربدل مہم کو جھٹکا!

گورنروں کو ہٹانے کی کارروائی پر اتراکھنڈ کے گورنر عزیز قریشی نے سپریم کورٹ جاکر مودی سرکار کی آپریشن گورنر مہم کو جھٹکا دیا ہے۔ اس کے چلتے سرکار کے نشانے پر آئے کئی گورنروں کی تبدیلی کا معاملہ پھنس گیا ہے۔ گورنر عزیز قریشی نے اب سیدھے طور پر مودی حکومت کو چیلنج کردیا ہے۔ وہ اس بات سے خاص طور سے ناراض ہیں کہ مرکزی ہوم سکریٹری نے کیسے ان سے استعفے کی مانگ کرڈالی۔ گورنر نے اس معاملے میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے سرکار کے برتاؤ کو چیلنج کردیا ہے۔ گورنر قریشی نے آئین کی دفعہ157(A) کا حوالہ دیکر عرضی دائر کی ہے۔ اس میں مئی2010ء میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیکر بتایا گیا ہے کہ گورنر مرکزی حکومت کا ملازم نہیں ہوتا۔ ایسے میں اسے آئینی عہدے پر بیٹھے گورنر سے استعفیٰ مانگنے کا حق نہیں ہے۔ قابل غور ہے کہ مئی 2010ء میں گورنروں کی برخاستگی سے وابستہ ایک معاملہ میں آئینی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر گورنر قریشی کے وکلا نے چنوتی دی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرکزی ہوم سکریٹری نے ان کو استعفیٰ دینے کے لئے کہا تھا جبکہ ایسا حق صرف صدر کے پاس ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرکا

نہ تو وزراء اعلی کی ہٹنگ ٹھیک ہے اور نہ ہی پی ایم کا بائیکاٹ!

وزیر اعظم نریندر مودی کے پروگراموں میں وزرا ء اعلی کی ہٹنگ کا معاملہ اور ان کے پروگراموں کا کانگریسی وزراء اعلی کے ذریعے بائیکاٹ کرنے ا فیصلہ ایک غلط شروعات تو ہے ہی بلکہ ایک غلط سیاسی رویت کو جنم دینا ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا کے بعد جھارکھنڈ کے وزیر اعلی ہیمنت سورین کی ہٹنگ ہوئی ہے اور یہ تب ہوئی جب وزیر اعظم خود اسٹیج پر موجود تھے۔ اس معاملے میں کانگریس نے طے کرلیا ہے کہ مستقبل میں وہ اپنی پارٹی کی سرکاروں کے وزراء اعلی کو وزیر اعظم کے پروگراموں سے دور رکھے گی۔ یعنی وہ وزیر اعظم کے پروگراموں کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ جھارکھنڈ میں مرکزی وزیر محنت و فولاد اور معدنیات نریندر سنگھ تومر کو رانچی میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ورکروں نے کالے جھنڈے دکھا کر ان کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ دراصل دونوں طرف سے غلطی ہوئی ہے۔ پہلی غلطی ان سیاسی ورکروں کی طرف سے جو یقیناًبھارتیہ جنتا پارٹی یا این ڈی اے سے وابستہ ہوں گے ،کیونکہ کم از کم پروٹوکول کی تعمیل نہیں کررہے ہیں۔ دیش کے وزیر اعظم کی موجودگی میں کسی بھی سینئر شخص کو بولنے کے دوران اس کو سننے کے بجائے ہٹ

بیدرد اور بے رحموں کی تنظیم آئی ایس آئی ایس!

آئی ایس آئی ایس کے ذریعے امریکی صحافی جیمس فالی کا قتل اس پیشے سے جڑے بڑھتے خطرے کی تازہ مثا ل ہے۔ اس انٹرنیٹ اور آن لائن دور میں دہشت گرد تنظیمیں صحافیوں کو دشمن سمجھتی ہیں اور میدان جنگ کی رپورٹینگ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور جوکھم بھری ہوگئی ہے۔ اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں نے دو سال پہلے سیریا میں اغوا ہوئے امریکی صحافی کا سر قلم کردیا۔دہشت گردوں نے صحافی جیمس فالی کے قتل کا ایک 4 منٹ40 سیکنڈ کا ویڈیو بھی جاری کیا۔ اس ویڈیو کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کیا گیا حالانکہ بعد میں اسے ہٹا دیا گیا۔ جیمس فالی کا سر قلم کرنے کا جو ویڈیو عراق کے دہشت گرد آئی ایس آئی ایس نے جاری کیا ہے وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ آئی ایس آئی ایس کی بیدردی اور بے رحمی کے بارے میں تو سب پہلے سے ہی جانتے ہیں وہ ایسی تنظیم ہے جس کی بیدردی کی وجہ سے القاعدہ نے بھی اس سے رشتے توڑ لئے تھے۔ اس تنظیم نے چیتاونی دی ہے کہ ایک دوسرے امریکی صحافی کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ جولائی کے آخر میں دی واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی جیسن ریزن کو ایران میں ایک شخص نے گرفتاری وارنٹ دکھا کر اغوا کرلیا تھا ،تب سے ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔

سہارنپور فساد رپورٹ لیپا پوتی کے سوائے کچھ نہیں ہے!

سہارنپور میں گذشتہ مہینے ہوئے فساد پر اترپردیش سرکار کے ذریعے تشکیل شدہ شیو پال یادو کمیٹی کی رپورٹ کے جو بیورے سامنے آئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اکھلیش یادو سرکار ابھی جوابدہی سے نکلنا چاہتی ہے۔کمیٹی کی یہ رپورٹ لیپا پوتی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ راجیہ سرکار دکھانا چاہتی ہے کہ فساد سے نمٹنے کو لیکر وہ سنجیدہ ہے لیکن شاید ہی کوئی اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لے گا۔ شیو پال یادو کی قیادت والی سپا نیتاؤں کی جانچ رپورٹ کو سرکاری رپورٹ بتانے سے بھڑکی بھاجپا نے اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔ پارٹی نے کہا سیاسی طور سے متاثر اس رپورٹ میں ریاستی سرکار اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھاجپا کو کٹہرے میں کھڑا کررہی ہے۔ رپورٹ پر کانگریس نے پردھان منتری نریندر مودی سے جواب مانگا ہے جبکہ مایاوتی نے بھاجپا و سپا دونوں کو فرقہ وارانہ تناؤ کے لئے ذمہ دار بتایا ہے۔ اس کمیٹی کی غیر جانبداری ہی شک کے گھیرے میں ہے کیونکہ اس میں صرف سرکار اور سماجوادی پارٹی کے لوگ شامل ہیں۔ اس رپورٹ کی سفارش سیاسی رنگ سے رنگی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ یہ رپورٹ فساد متاثروں اور قانونی انتظام کی بدحالی جھیل رہی یوپی کی جنتا کو کوئی