اشاعتیں

مئی 27, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جذباتی جواب دیکر منموہن سنگھ اپنی ذمہ داری ٹال نہیں سکتے

ٹیم انا کے الزامات پر وزیر اعظم منموہن سنگھ کا جواب شاید کسی کو تسلی بخش نہ لگے۔ وزیر اعظم کا یہ جذباتی قول کے اگر ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت کرسکتا ہے تو وہ سیاست سے سنیاس لے لیں گے۔ یہ بیان ہمارے گلے سے نہیں اترتا نظر آرہا۔ ہمیں تو وزیر اعظم کا جواب خاص اشو سے ہٹ کر اپنے سارے داغی ساتھیوں کو بچانے کا لگتا ہے۔ ٹیم انا نے وزیر اعظم اور ان کے 15 وزرا کی فہرست جاری کی ہے۔ انہوں نے بس یہ ہی تو کہا ہے کہ کوئلہ کھدائی الاٹمنٹ کو لیکر سی اے جی کی ایک رپورٹ میں کچھ کرپشن کی بو آرہی ہے اور کیونکہ یہ وزارت وزیر اعظم کے ماتحت ہے اس لہٰذا سے وہ ذمہ دار ہیں۔ اگر وزیر اعظم بے قصور ہیں تو وہ جانچ کیوں نہیں کروالیتے؟ ڈاکٹر منموہن سنگھ اس دیش کے وزیر اعظم بھی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ سانجھہ ذمہ داری کی بنیاد پر سربراہ ہونے کے ناطے وہ اپنی کیبنٹ ساتھیوں کے برتاؤ کے لئے بھی ذمہ دار ہیں۔ ٹیم انا نے ان کی کیبنٹ کے 15 افراد پر کرپشن کا الزام لگایا ہے۔ اگر سرکار کا سربراہ اپنی ٹیم کے لئے ذمہ دار نہیں توکون ذمہ دار ہے۔ یہ وقت جذباتی بیان دینے اور خود کو ٹیم انا سے دکھی دکھانے کا نہیں بلکہ دیش کے س

عامر کے ’ستیہ مے جیتے ‘ شوسے بوکھلائے ڈاکٹر

عامر خاں کے تازہ ’ستیہ مے جیتے‘ پروگرام سے ڈاکٹر برادری کا بوکھلانا فطری ہے۔ عامر نے وہ کڑوی سچائی دکھائی ہے جو آج کل ہورہی ہے۔ پیسوں کی خاطر زبردستی ٹیسٹ کروانا۔ ضرورت نہ ہونے پر بھی آپریشن کرنا، غلط سرجری کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب دھاندلیاں جاری ہیں۔ ڈاکٹروں کی جوابدہی کچھ بھی نہیں ہے۔ عامر خاں نے اپنے بیحد مقبول پروگرام ’ستیہ مے جیتے‘ میں ڈاکٹر برادری کی دکھتی رکھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ وہ تلملا اٹھے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا بھی بہت خراب تجربہ ہے۔ ہمیں اپنے والد سورگیہ شری کے ۔نریندر کو مشرقی دہلی کے ایک نامور ہسپتال میں بھرتی کروانا پڑا۔ انہیں زکام کی شکایت تھی جس سے انہیں نمونیہ ہوگیا تھا اور اس کے علاج کے لئے بھرتی کرایا لیکن واپس ان کا مردہ جسم ہی ہسپتال سے لیکر آئے۔ اس چکر میں لاکھوں روپیہ کا بل بن گیا۔ بہت ناراضگی تھی۔ پہلے ہسپتال پر کیس کرنے کی سوچی، پھر ہمیں بتایا گیا کہ ہر بڑا ہسپتال کورٹ معاملوں کے لئے تیار رہتا ہے اور اس کام کے لئے انہوں نے وکیلوں کی فوج بھی رکھی ہوئی ہے۔ جہاں تک ریکارڈ کا سوال ہے وہ اتنا پکا بنا کر رکھتے ہیں کہ عدالت میں اسے غلط ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔ ہار

لادن کی خبر دینے والے ڈاکٹر افریدی کو 33 سال کی قید

پچھلے سال القاعدہ سرغنہ اسامہ بن لادن کو مارگرانے کی کارروائی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ساتھ دینے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل افریدی کو ایک عدالت نے ملکی بغاوت کا قصوروار قرار دیتے ہوئے 33 سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ سن کر تعجب بھی ہوا اور عجیب غریب بھی لگا۔ خبر قبائلی علاقے کے سیاسی نمائندے مطاہر زیب خان نے پاکستانی اخبار ڈان کو بتایا کہ شکیل کو چار نفری قبائلی عدالت میں پیش کیاگیا۔ عدالت نے انہیں33 سال کی قید اور 3.2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ سزا سنائے جانے کے بعد شکیل کو پیشاور کی سینٹرل جیل میں بھیج دیا گیا۔ شکیل کو پاکستان جرائم دفعہ کے بجائے برطانوی قانون فرنٹئر کرائم ریگولیشن ایکٹ کے تحت قصوروار قرار دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت دیش سے بغاوت کے معاملے میں موت کی سزا کی سہولت نہیں ہے۔ ڈاکٹر شکیل نے سی آئی اے کی ہدایت پر ایبٹ آباد میں ایک ٹیکا مہم چلائی تھی تاکہ اس کی مدد سے اسامہ اور اس کے خاندان کے لوگوں کے ڈی این اے نمونے لئے جاسکیں۔ مہم سے ملے ثبوتوں کی بنیاد پر ہی امریکہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف گذشتہ مئی مہینے میں کارروائی کرکے مار گرایا تھا۔ پاکست

ریزرویشن کے نام پر اقلیتوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش

مرکزی سرکار کو یہ معلوم تھا کہ اترپردیش اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے اس نے جو کانگریس پارٹی کو اقلیتی ووٹ دلانے کی امید سے اقلیتوں کے لئے جو ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دیا ہے اسے عدالت منسوخ کرسکتی ہے ۔ لیکن پھر بھی مرکز نے ایسا کیا جیسا کے امید تھی اور ویسا ہی ہوا۔ آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے مرکزی سرکار کو زبردست جھٹکا دیتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے سے انکار کردیا۔ قابل ذکر ہے کہ اترپردیش اسمبلی چناؤ کے دوران مرکز نے او بی سی کے 27 فیصد کوٹے سے ساڑھے چار فیصدی ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ریزرویشن سبھی اقلیتی طبقوں کے لئے تھا۔ حالانکہ مانا جارہا تھا کہ اس اعلان کے پیچھے مسلم ووٹ بینک کو لبھانا تھا۔ عین وقت پر کئے گئے اعلان پر چناؤ کمیشن نے اسمبلی چناؤ تک عمل کرنے پر روک لگا دی تھی۔ سرکار نے نتیجہ اعلان ہونے کے ساتھ ہی اس کو نافذ کردیا۔ مرکزی حکومت نے ایک شگوفہ چھوڑا تھا جو اب عدالت نے منسوخ کردیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں بھارت کے آئین میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مرکزی سرکار کا یوپی اسمبلی سے ٹھیک پہلے اٹھایا گیا یہ قدم مفادی سیاست پر مبنی تھا اور اقلیتو

مارکسوادی اپنے حریفوں کو مارنے سے بھی نہیں کتراتے

مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اکثر مارکسوادیوں پر الزام لگاتی رہتی ہیں کہ یہ اپنے سیاسی حریفوں کو قتل کرنے تک سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اب خود مارکسوادی پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے کیرل کی ایک ریلی میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ ایسے موقعے آئے تھے جب مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے مخالفین کو قتل کرنے سے کوئی پرہیز نہیں کیا۔ کیرل کے سینئر مارکسوادی لیڈر ایم ایم منی جو مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے اڈوکی ضلع کے سکریٹری ہیں، انہوں نے کاڈوپاجا میں ایک جلسہ عام کے دوران یہ متنازعہ بیان دیا ہے۔ سنیچر کی رات ایک پبلک ریلی میں کہا کہ پارٹی کی جانب سے اپنے سیاسی حریفوں کا صفایا کرنے کی مثالیں رہی ہیں۔ منی نے یہ بیان اس وقت دیا جب پارٹی کو کوکیورڈ اور کنور ضلع کے کچھ ورکروں کی گرفتاری کے دوران دفاع کی شکل میں آئی ہے۔ ورکروں کو مارکسوادی پارٹی لیڈر ٹی پی چندر شیکھرن کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ منی نے حالانکہ یہ کھلے طور پر یہ وضاحت کرنے کے لئے ریلی بلائی تھی کہ چندر شیکھرن کے قتل میں پارٹی کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ ان کا مطلب جسمانی قتل سے نہیں ہے بلکہ تب جھگڑے کے لئے

کانگریس کے ہاتھ سے پھسلتا آندھرا پردیش: گرفتاری کی سیاست

مدھیہ پردیش کے سابق مقبول وزیر اعلی راج شیکھر ریڈی کے ممبر پارلیمنٹ بیٹے جگموہن ریڈی کی کرپشن کے الزامات میں گرفتاری پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا یہ ہونا ہی تھا۔ جگموہن ریڈی بہت دنوں سے کانگریس لیڈر شپ کی آنکھ کی کرکری بنے ہوئے تھے۔ تین دن کی گہری پوچھ تاچھ کے بعد سی بی آئی نے آمدنی سے زائد اثاثہ کمانے کے الزام میں انہیں گرفتار کرلیا۔ ا س سیپہلے آندھرا ہائی کورٹ نے بھی جگن کو پیشگی ضمانت دینے سے انکارکردیا تھا۔ جگن سے وابستہ کرپشن کے معاملوں میں ریاست کے بہت سے لیڈر، افسر، صنعتکار اور بچولئے پہلے ہی سی بی آئی کے شکنجے میں آچکے تھے اس لئے جگن کی پوچھ تاچھ اور گرفتاری کی پیشگوئی پہلے سے ہی چل رہی تھی۔ بحث تو یہ تھی کہ والد کی کرسی کی طاقت پر راتوں رات ارب پتی بنے اس نوجوان لیڈر کو سی بی آئی پہلے ہی دن سلاخوں کے پیچھے ڈال دے گی لیکن سی بی آئی نے یہ کام تیسرے دن کیا۔ اس تاخیر کے پیچھے کہیں اس نظریئے کو دور کرنا تو نہیں تھا کہ جگن کو سلاخوں میں ڈالنے کے سبب کے پیچھے کرپشن سے زیادہ سیاست چھپی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ راج شیکھر ریڈی کی حادثے میں موت کے بعد بیٹے جگن نے کانگریس کی ناک میں د

ڈنر ڈپلومیسی سے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش

جوڑ توڑ کی سیاست میں ماہر کانگریس نے ایک بار پھر ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ یوپی اے II- کے تین برس پورے ہونے کے موقعہ پر منعقدہ تقریب میں ملائم سنگھ یادو کو دئے احترام کی فوراًاہمیت بھلے ہی نہ ہو لیکن اس سے کانگریس کی حکمت عملی صاف جھلکتی ملی۔ مزیدار بات یہ ہے کہ نوجوان راہل گاندھی نے جس سماجوادی پارٹی کا حال میں ہوئے یوپی چناؤ میں چناؤ منشور پھاڑا تھا ،اسی ملائم سنگھ یادو نے صرف یوپی اے سرکار کی کارناموں کی رپورٹ کارڈ ہی جاری کی بلکہ ڈنر ٹیبل پر انہیں سونیا گاندھی نے اپنی ٹیبل پر جگہ دی۔ یوپی اے خاص طور سے کانگریس اور سپا کے رشتوں کو 1999 ء کی نظر سے دیکھنا چاہئے جب ملائم سنگھ یادو نے این ڈی اے سرکار کے ایک ووٹ سے گرنے کے بعد عین موقعہ پر سونیا گاندھی کو حمایت دینے کا خط دینے سے انکار کردیا تھا۔ اگر اس وقت سونیا گاندھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں تو اس کی ایک وجہ ملائم کی مخالفت تھی ۔ اس کے بعد2004ء کو دوسرا موڑ آیا۔ جب ملائم اور اترپردیش میں تاریخی جیت حاصل کرنے کے بعد بھی یوپی اے سرکار کے بلاوے کا انتظار کرتے رہ گئے۔ اب یہ تیسرا دور شروع ہوا ہے۔ سیاست میں نہ تو کوئی مست

آئی پی ایل 5- دلچسپ رہا مگر شک کے دائرے میں

آئی پی ایل 5- شاندار طریقے سے ختم ہوا۔ ایتوار کو کھیلا گیا فائنل میچ بہت ہی دلچسپ تھا۔ اگر یہ کہیں کہ آئی پی ایل 5- کا اختتامی میچ اس سے اچھا نہیں ہوسکتا تھا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ شاہ رخ خاں کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائڈرز آخر کار پانچویں کوشش میں پاس ہوہی گئی۔ ایتوار کو کھیلے گئے فائنل میں کے۔ کے ۔آر نے پچھلے دو بار رہی چمپئن چنئی سپر کنگز کو پانچ وکٹ سے ہرادیا۔ میچ کا فیصلہ آخری اوور کی چوتھی گیند پر ہوا۔ ونر ٹیم کو 10 کروڑ اور ضمنی کامیاب ٹیم کو 7.50 کروڑ روپے کے انعامی رقم ملی۔ قسمت نے کے۔ کے ۔ آر کا یقینی طور سے ساتھ دیا۔ کم سے کم دو قصے ایسے ہوئے جس سے کے۔کے۔آر کی جیت ممکن ہوسکی۔ پہلا تب ہوا جب کیلس نے ایک شارٹ مارا اور باؤنڈری پر کھڑے مائک ہسی نے کیچ لپک تو لیا لیکن وہ باؤنڈری لائن کراس کرگئے۔ جس بال پر کیلس کو آؤٹ ہونا تھا وہ چھکے میں بدل گئی۔ دوسرا قصہ تب ہوا جب فین ہگس نے شکیب الحسن کو گیند پھینکی شکیب نے شارٹ مارا اور کیچ ہوگئے۔ لیکن کیچ ہونے سے پہلے وہ دو رن بنا چکے تھے۔ ایمپائر نے اس بال کو کمرسے اوپر ہونے کے سبب وائڈ قراردیا۔ وائڈ ہونے کے سبب ہلفین ہگس کو دوبارہ بال کرنی پڑی

آروشی قتل معاملے میں والدین پر چلے گا قتل کا مقدمہ

آروشی ہیمراج قتل کے معاملے میں آخر کار مقدمہ باقاعدہ شروع ہوگیا ہے۔ جمعرات کو سی بی آئی عدالت نے آروشی کے والدین ڈاکٹر راجیش تلوار ،ڈاکٹر نپور تلوار کے خلاف ثبوتوں کو ضائع کرنے اور عدالت و پولیس کو گمراہ کرنے کے الزامات طے کرنے کا فیصلہ سنایا ہے اور اس کے ساتھ ہی نوئیڈا میں چار برس پہلے آروشی تلوار اور ہیمراج کے قتل کے سنسنی خیز معاملے کا مقدمہ شروع ہوا ہے۔ یہ واقعہ18مئی2008 ء کو رونما ہوا تھا۔ اس سے اگلے ہی دن نوکر ہیمراج کی لاش مکان کی چھت پر پڑی ملی تھی۔ سی بی آئی کی اسپیشل جج شیام لال نے مخالف فریق اور بچاؤ فریق کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ سنایا کہ ڈاکٹر میاں بیوی کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ302(قتل) اور دفعہ201 (ثبوت کو ضائع کرنا) کے تحت مقدمہ چلے گا۔ ملزمان کے خلاف دفعہ 34 بھی لگائی گئی ہے جس کے تحت دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر واردات کو انجام دینا بھی شامل ہے۔ جب عدالت نے یہ فرمان سنایا تو ملزمان کے چہروں پر کشیدگی صاف دکھائی پڑی۔ سی بی آئی عدالت میں تلوار جوڑے کے وکیل نے عدالت میں عرضی دائر کرکے چارج شیٹ داخل کرنے کو 15 دن ٹالنے کی کوشش کی مگر اس کی مخالفت سی بی آئی کے وکیل نے کی۔

ٹیم انا کی نئی چارج شیٹ میں نشانے پر وزیر اعظم

بس اب اسی کی کسر بچی تھی کہ ٹیم انا نے وہ کام کردیا جو کسی نے نہیں کیا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ پر پہلی بار کرپٹ ہونے کا الزام جڑدیا۔ وزیر اعظم کے بارے میں اکثر یہ ہی کہا جاتا تھا کہ وہ ایک کرپٹ حکومت میں ایک ایماندار لیڈر ہیں لیکن ٹیم انا نے تو پہلی بار براہ راست وزیر اعظم اور وزیر خزانہ پر سیدھا حملہ کردیا۔ ٹیم انا نے منموہن سنگھ کیبنٹ میں شامل دیگر13 وزرا کو بھی اپنی فہرست میں ڈال لیا ہے جنہیں وہ کرپٹ مانتی ہے۔ وزیر اعظم کو اس لئے کرپٹ کہا گیا ہے کیونکہ کوئلہ سے متعلق سی اے جی کی ایک رپورٹ میں کچھ تبصرے کئے گئے ہیں اس مبینہ رپورٹ میں کوئلہ وزارت کے جس دور کی گڑ بڑی کا ذکر کیا گیا ہے اس وقت یہ وزارت خود وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے پاس ہوا کرتی تھی۔ جن وزراء پر الزام لگائے گئے ہیں ان میں وزیر داخلہ پی چدمبرم، (ٹو جی اسپیکٹرم ،ایئر سیل ،میکسس سودہ) شردپوار (گیہوں درآمد، لواسہ اسکیم) تیلگی اسٹام پیپر معاملہ، ایس ایم کرشنا وزیر اعلی کی شکل میں نجی کھدائی کمپنیوں کو نامناسب فائدہ پہنچانا۔ کملناتھ (چاول درآمدات گھوٹالہ) پرفل پٹیل (ایئر انڈیا۔ انڈین ایئرلائنس کے انضمام میں گھوٹالہ) ولاس

پیٹرول کی قیمتیں:سمجھیں اس سرکار کے بہانے،چھلاوے اور چالاکی... (2)

اس منموہن سنگھ کی یوپی اے سرکار کی چال بازیوں اور چھل اور ان کے ہی غرور کی ان تیل کمپنیوں نے آج بھارت میں پیٹرول دنیا میں سب سے مہنگا بنا دیا ہے۔ آج کی تاریخ میں دہلی میں پیٹرول کے دام 71 روپے18 پیسے فی لیٹر ہیں جبکہ دیگر میٹرو شہروں میں یہ اس سے بھی زیادہ ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں جہاں عام آدمی کی آمدنی ہم سے بہت زیادہ ہے، میں پیٹرول 44.88 روپے فی لیٹر بک رہا ہے۔ کراچی میں یہ بھاؤ 48.64 روپے ، بیجنگ میں 48.05 روپے، دھاکہ میں52.42 ، کولکاتہ میں 61.38 اور نیپال جیسے چھوٹے ملک میں بھی یہ 65.26 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ساری چیزوں کے دام پر سیدھا اثر ہوتا ہے۔ تیز رفتار شہروں کی طرز زندگی اور مہنگی ہوگی۔ بیشک کار، آٹو رکشہ، ٹیکسیاں مہنگی ہوں گی۔ ٹیکسی والوں نے تو ہڑتال کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ٹرانسپورٹ سیوائیں ٹھپ ہوں گی۔ خوردہ قیمت میں ان چیزوں اور سروسوں کے دام بڑھیں گے جن میں پیٹرول کا استعمال ہوتا ہے اور اس کا سیدھا اثر صارفین کی جیب پر پڑے گا۔ افراط زر میں اضافہ چوطرفہ مہنگائی کاانڈیکس ہے۔ مہنگائی غصے کی طرح منہ پھیلائے ہوئے ہے اب

دنیا جھکتی ہے جھکانے والا چاہئے

بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر نتن گڈکری اورآر ایس ایس دونوں پرگجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی بھاری پڑ گئے۔ پارٹی کو سنگھ کے چہیتی سنجے جوشی کو بھاجپا ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ سے پہلے باہر کا راستہ دکھانا پڑا۔ مودی کے دباؤ میں گڈکری اور سنگھ سرخم دکھے۔ پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ مودی نے صاف کہا کہ اگر ورکنگ کمیٹی میں سنجے جوشی آئے تو وہ میٹنگ سے خود کو دور رکھنے کے لئے مجبور ہوں گے۔ گڈکری نے بدھوار کی شام فون سے بات کی تھی۔ گڈکری نے کور کمیٹی کی میٹنگ میں مودی سے بات چیت کی تفصیل رکھی۔ ذرائع کے مطابق کچھ سینئر لیڈر بھاجپا نیتا مودی کی دھمکی کو قبول کرنے کے خواہش مند نہیں تھے مگر گڈکری اور آر ایس ایس کے دباؤ کے چلتے سنجے جوشی کو دو لائن کا استعفیٰ فیکس سے بھیجنا پڑا۔ دراصل مودی اور گڈکری میں سودے کی خوشبو آرہی ہے۔ مودی نے شرط رکھی کے جوشی کو باہر کرو اور گڈکری نے شرط رکھی کے مجھے دوسری میعاد دینے کیلئے آپ حمایت کریں۔ اب لگتا ہے کہ گڈکری کی دوسری میعاد ملنے میں تمام رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔ انہیں اب دوبارہ صدر بنانا طے ہوچکا ہے۔ گڈکری کی تین سالہ میعاد25 دسمبر کو پوری ہونے جارہی ہے۔ اس تجویز کے