اشاعتیں

مارچ 19, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

برطانوی پارلیمنٹ پرحملہ

بلجیم کی راجدھانی بروسیلزپر آتنکی حملہ کی پہلی برسی پر بدھوار کو لندن برطانوی پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آور نے فرانس کے نیس شہر میں ہوئے ٹرک حملے جیسا حملہ کرنے کی کوشش کی۔ کار سوار حملہ آور نے تیز رفتار سے کار پارلیمنٹ کی طرف جانے والے ویسٹ مسٹر برج پر درجن بھر پیدل مسافروں کو کچل دیا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق کار کی ٹکر اتنی زبردست تھی کہ کچھ لوگ ٹیمس ندی میں جا گرے۔ یاد رہے جولائی 2016ء میں نیس میں ٹرک سوار خودکش حملہ آور نے 83 لوگوں کو کچل ڈالا تھا۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کو بدھوار بروسیلز کے ہوائی اڈے پرہوئے فدائی حملے کی پہلی برسی پر نشانہ بنایا گیا۔ برسیلز حملے میں تین فدائی حملہ آوروں نے دھماکہ کیا تھا جس میں 36 لوگ مارے گئے تھے۔ لندن حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے لی ہے۔ آتنکی تنظیم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ خلیفہ کے سپاہی نے اس حملے کو انجام دیا۔ برطانوی پرائم منسٹر ٹیزا نے ہاؤس آف کامنس کو بتایا کہ حملہ آور آئی ایس کی آئیڈیالوجی سے متاثر تھا اور اس نے اکیلے ہی واردات کو انجام دیا تھا۔ برطانوی پولیس کے مطابق 52 سالہ خالد مصطفی برطانیہ میں پیدا ہوا تھا اور یہاں کٹر پسندی

جتنابڑاجرائم پیشہ اتنی بڑی اس کی پہنچ

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس جے۔ ایس۔ کھیر کے ایک تبصرے نے ہمارے عدلیہ سسٹم کی بدنصیبی اجاگر کردی ہے۔ جسٹس کھیر نے خود کہا ہے کہ ہمارا دیش بھی عجب ہے جہاں جرائم پیشہ شخص جتنابڑا ہوتا ہے اس کی پہنچ بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ جسٹس کھیر نے بدفعلی کے متاثرین اور تیزاب حملہ کے شکار یا اپنے گھر کے ایک واحد روزی روٹی کمانے والے شخص کو گنوانے والوں کے حالات پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا جرائم پیشہ افراد کے آخری قدم تک انصاف کے لئے پہنچ ہوتی ہے لیکن متاثرین کو یہ سہولت نہیں ملتی۔ ادارے کے سرپرست کے طور پر میری اپیل ہے کہ اس برس کو متاثرین کیلئے کام کا برس بنایا جائے۔ اس کے لئے معاون قانونی ورکروں کو بھی نچلی عدالت میں بھیج کر متاثروں کو ان کے حقوق کے بارے میں واقفیت کرائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آتنکی معاملوں کے قصورواروں کے لئے قانون کے تحت ہر ضروری قانونی مدد دستیاب ہے یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی ہر متبادل کا استعمال کرنے کے بعد ہی انہیں قانونی مدد ملتی ہے۔ حقیقت میں چیف جسٹس 1993ء بم دھماکوں کے قصوروار یعقوب میمن کا ذکر کررہے تھے حالانکہ انہوں نے کسی خاص معاملے کا ذکر تو نہیں کیا لیکن ان کا اشارہ صا

ایودھیا سیاست کا معاملہ نہیں بلکہ عقیدت کا ہے

یہ صحیح ہے کہ رام مندر۔ بابری مسجدتنازعہ پر کئی بار سمجھوتہ کی کوشش ہوئیں ہیں لیکن وہ سبھی ناکام رہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برسوں سے چلے آرہے اس مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش چھوڑدی جائے۔ سپریم کورٹ نے اس حساس ترین اور عقیدت سے وابستہ اشو پر فریقوں سے بات چیت کرکے مسئلے کا حل اتفاق رائے سے نکالنے کو کہا ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو عدالت کوئی حل نکالنے کیلئے ثالثی کو بھی تیار ہے۔ یہ ریمارکس منگلوار کو چیف جسٹس جے ۔ ایس ۔کھیر ، جسٹس ڈی۔ وائی چندرچور اور جسٹس سنجے کشن کول کی بنچ نے بھاجپا نیتا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی رام جنم بھومی تنازعہ معاملہ کی جلد سماعت کرنے کی مانگ پر دئے ہیں۔سوامی نے کورٹ سے کہا کہ معاملہ چھ برسوں سے التوا میں پڑا ہے اس مسئلے پر روزانہ سماعت کر جلد نپٹارہ کرناچاہئے۔ چیف جسٹس کھیر نے سوامی سے کہا کہ اتفاق رائے سے کسی حل پر پہنچنے کے لئے آپ نئے سرے سے کوشش کرسکتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو آپ کو اس تنازعے کو ختم کرنے کے لئے کوئی ثالث بھی چننا چاہئے۔ اگر فریق چاہیں تو میں دونوں فریقین کے ذریعے چنے گئے ثالثوں کے ساتھ بیٹھوں تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ

مودی سے خوفزہ مسلمان،صبر و امید رکھیں

فائر بینڈ ہندوتو لیڈر کی ساکھ رکھنے والے یوگی آدتیہ ناتھ اتر پردیش کی کمان سنبھالتے ہی ایکشن میں آگئے ہیں۔ ان کے وزیر اعلی بننے سے جہاں عام طور پر خوشی اور امید کا ماحول ہے وہیں مسلم فرقے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ یوگی کی ساکھ سے یہ طبقہ خوفزدہ ہے۔ یوگی کے عہدہ سنبھالتے ہی کچھ مسلم کٹر پسند لیڈروں نے انہیں اور ڈرانا شرو ع کردیا ہے جبکہ ایسا کرنے کی فی الحال ہمیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ بیشک یوگی کی ساکھ ایک فائر بینڈ ہندوتو وادی کی ہے لیکن حلف لینے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے سب کو ساتھ لیکر چلنے اور بغیرامتیاز کے کام کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ مسلمانوں کی تشویش دور کرنے کیلئے کئی مسلم دانشور بھی آگے آئے ہیں اور انہوں نے مثبت نظریئے کے ساتھ آگے بڑھ کر نئی حکومت کا خیر مقدم کرنے کی اپیل کی ہے اور امید جتائی ہے کہ بغیر امتیاز کے کام کاج ہوگا اور اکثریتی اور اقلیت میں کوئی فرق نہیں سمجھا جائے گا۔ ان کی رائے میں مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک مثبت نظریئے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ بھاجپا’ سب کا ساتھ سب کا وک

پہلی بار مسلم خواتین نے حقوق کی آواز اٹھائی

تین طلاق کے اشو پر یہ خوشی کی بات ہے کہ مرکزی سرکار کی مہم رنگ لانے لگی ہے۔ اب تو مرکزی سرکار کو کھل کر مسلم خواتین کی حمایت ملنے لگی ہے۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ میں اپنے چناؤ مینوفیسٹو میں شامل کر جہاں تین طلاق کے اشو کو سامنے رکھا وہیں اب آر ایس ایس سے جڑے ہوئے مسلم راشٹریہ منچ نے اس معاملے پر بڑی تعداد میں مسلم خواتین کی حمایت حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے۔ سنیچر کو دہلی کے کانسٹیٹیوشن کلب میں مسلم ویلفیئر منچ کے ذریعے منعقدہ مسلم خواتین کانفرنس میں پہلی بار سینکڑوں کی تعداد میں مسلم عورتیں پردے سے باہر نکلیں اور تین طلاق کے خلاف اپنی آوازیں بلند کیں۔ مسلم عورتوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے برابری کے حق کے ساتھ تعلیم اور اقتصادی انحصاریت پر زوردیا۔ کانفرنس پوری طرح سے قومیت کے رنگ میں رنگی نظر آئی۔ بھارت ماتا کی جے کے نعرے گونجے، وندے ماترم کا گائن ہوا۔ مسلم راشٹریہ منچ مہلا ونگ کی صدر شہناز حسین نے کہا کہ اترپردیش میں جس طرح سے مسلم بہنوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت کی ہے اس سے دیش کی بہت سے مسلم بہنوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہمارے سماج می

سنگھ کے پرچارک سے وزیر اعلی بننے تک ترویندر سنگھ راوت

اتراکھنڈ میں ترویندر سنگھ راوت کی رہنمائی میں نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ آر ایس ایس سے لیکر اتراکھنڈ کے 9ویں وزیر اعلی تک کا سفر طے کرنے والے ترویندر سنگھ راوت کے بارے میں کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں۔ ترویندر سنگھ راوت پوڑی ضلع کے جہری کھال بلاک خیراسون گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ دیو بھومی مانے جانے والے اتراکھنڈ نے ایک نہیں دو وزیر اعلی دئے ہیں ترویندر اور یوگی آدتیہ ناتھ۔یوگی کی بھی پیدائش اتراکھنڈ کی ہی ہے۔ ترویندر سنگھ کے والد پرتاپ سنگھ راوت ہندوستانی فوج کی بی ای جی رڑکی کور میں ملازم تھے۔ ترویندر سنگھ 9 بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ شروع سے ہی خاموش طبعیت والے ترویندر نے لیس ڈاؤن کے جہری کھال ڈگری کالج سے گریجویٹ اور گڑھوال یونیورسٹی شری نگر سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔شری نگریونیورسٹی سے ہی صحافت میں ایم اے کرنے کے بعد 1984 ء میں دہرہ دون چلے گئے۔ یہاں بھی انہیں آر ایس ایس میں اہم عہدوں پر ذمہ داری سونپی گئی۔ وہاں سنگھ کے پرچارک کا کردار نبھانے کے بعد ترویندر سنگھ راوت میرٹھ ضلع کے پرچارک بنے۔ ان کے کام سے سنگھ اتنا متاثر ہوا کہ انہیں اتراکھنڈ بننے کے بعد 2002ء میں بھاجپا

بھارت میں 2050ء تک ہوں گے سب سے زیادہ مسلمان

امریکہ میں واقع نیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ میں سال 2010ء سے 2050ء کے درمیان پوری دنیا میں مسلمانوں کی آبادی میں تقریباً 73 فیصدی اضافہ ہونے کی بات کہیں گئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سال2050ء میں بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا دیش بن جائے گا۔ بھارت انڈونیشیا کو پچھاڑ دے گا ساتھ ہی دنیامیں تیسری بڑی آبادی ہندوؤں کی ہوگی۔ امریکی ایجنسی نیو ریسرچ سینٹر نے پچھلے دنوں جاری رپورٹ میں یہ دعوی کیا تھا۔ اس وقت دنیا میں ابھی سب سے زیادہ آبادی عیسائیوں کی ہے ، دوسرے نمبر پر مسلمان ، تیسرے نمبر پر ناستک، چوتھے نمبر پر ہندو ہیں۔ رپورٹ میں 2010ء سے 2050ء کے دوران الگ الگ مذاہب کو ماننے والوں کی آبادی میں جو اندازہ پیش کیا گیا ہے اس کے مطابق دنیا میں ہندوؤں اور عیسائیوں کے مقابلے میں مسلم آبادی بڑھ کر دوگنی کے قریب ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق صدی کے آخر تک دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان73 فیصد ہوں گے جبکہ عیسائی 35 اور ہندو 34 فیصد بڑھیں گے۔ یعنی 2050 ء تک مسلمانوں کی آبادی کا قریب 30 فیصد (2.8 ارب) اور عیسائی آبادی 31 فیصدی (2.9 ارب) ہوگی۔ 2010ء میں دنیا میں 1.6 ارب (قریب 23 فیصدی) مسلمان جبکہ 2.17 ارب عیس

جیتے تو جنتا کا مینڈیٹ۔ہارے تو ای وی ایم قصوروار

جیتے تو جنتا کا مینڈیٹ۔ہارے تو ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کے الزام۔ اس طرح کے الزام عام طور پر چناؤ میں بری طرح سے ناکارہ ثابت ہوئے ہیں۔ نیتا و سیاسی پارٹیاں ایسے الزام لگاتے رہے ہیں۔ تازہ معاملہ حال ہی میں ہوئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کا ہے۔ بسپا چیف مایاوتی نے سب سے پہلے اپنی ہار کے پیچھے ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کو وجہ بتایا تو اکھلیش یادو نے کہا انہوں نے جوکا ہے اس کی جانچ ہونی چاہئے۔ کانگریس نے بھی اس کا نوٹس لیا تو اروند کیجریوال نے بھی الزام لگادیا کہ ای وی ایم کے ذریعے سے ان کے ووٹ اکالی دل اور کانگریس کو ٹرانسفر کردئے گئے حالانکہ اگر مشین کی کرپاسے ہی جیت اور ہار ہوتی تو بھاجپا کو کہیں بھی چناؤ ہارنا نہیں تھا۔ چناؤ کمیشن بار بار صفائی دے رہا ہے کہ اس طرح کے الزام بے بنیاد ہیں اور ای وی ایم کے ذریعے پولنگ پوری طرح سے محفوظ ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ای وی ایم سے چناؤ کرانے میں24 سال لگے ہیں، ہیکنگ کا آج تک کوئی ثبوت نہیں دے پایا پھر بھی یہ لوگ ایسے بیہودہ اور بے بنیاد الزامات لگانے سے باز نہیں آتے۔ انہیں اس بات کی بھی کوئی فکر نہیں کہ آپ کے الزاموں سے بھارت کا جمہوری عمل کمزور

جسٹس کرنن نے عدلیہ کی ساکھ داؤں پر لگائی

ہماری جوڈیشیری کی کامیابی یقینی طور سے بہت وسیع ہیں اور ہماری عدلیہ نے کئی طرح سے تاریخ رقم کی ہے لیکن گزشتہ ہفتے جو واقعہ ہوا ہے وہ ضرور پریشان کرنے والا ہے۔ اگر اسے مضحکہ خیز کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ میں بات کررہا ہوں کولکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس سی۔ ایس۔ کرنن کی۔ ان کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے ، جس میں ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے سپریم کورٹ آگے کیا کرے گا؟ مغربی بنگال کے ڈی جی پی سجیت دھر پرکائست جمعہ کو جب جسٹس کرنن کے خلاف ان کے گھر ضمانتی وارنٹ لے کر پہنچے تو جسٹس کرنن نے یہ وارنٹ لینے سے صاف انکار کردیا اور نہ ہی جسٹس کرنن نے کسی کاغذ پر دستخط کئے نہ ہی 31 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ الٹے جسٹس کرنن نے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کو خط لکھ کرضمانتی وارنٹ خارج کرنے کی اطلاع دی۔ خط کو حکم بتاتے ہوئے انہوں نے لکھا جائز اسباب کی بنیاد پر وارنٹ (ضمانتی) خارج کرتا ہوں۔ ایک دلت جج کو پریشان کرنے کے لئے اسے نیچا دکھانے والے کام کئے جارہے ہیں۔ میری اپیل ہے کہ یہ ٹارچر بند کر ہماری عدالتوں کی ساکھ اور عزت بحال کریں۔ میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ میرے خلاف

بھاجپا کے سبھی کونسلروں کے ٹکٹ کاٹنے پر ناراضگی

اترپردیش۔ اتراکھنڈ میں زبردست کامیابی کے بعد بھاجپا کی اب پوری توجہ دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات پر ہے۔ ان میں بھاجپا اقتدار میں ہے۔ بیشک ایم سی ڈی چناؤ میں اشو مختلف ہوتے ہیں اور ان کی اہمیت اسمبلی انتخابات جتنی نہیں ہوتی لیکن دہلی اسمبلی چناؤ میں نہ بھولنے والی ہار کے بعد ان کارپوریشن چناؤ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ بھاجپا ہائی کمان اس بار میونسپل چناؤ جیتنے کیلئے پوری طاقت لگا دے گا۔ راجدھانی میں تین میونسپل کارپوریشنوں میں بھاجپا کے 153 کونسلر ہیں۔ ان میں سے کئی کونسلر ایسے بھی ہیں، جو کئی بار کونسلری کا چناؤ لڑے اور کامیاب بھی ہوئے۔ خبر ہے کہ بھاجپا اعلی کمان سبھی کونسلروں کو بدلنا چاہتی ہے۔ بھاجپا اعلی کمان کے فیصلے پر اگر عمل ہوا تو سبھی 153 کونسلروں کا ٹکٹ کٹ جائے گا۔ اس سے کونسلر سکتے میں آگئے ہیں۔ دہلی میونسپل کارپوریشن میں کامیابی کا پرچم لہرانے کے مقصد سے بھاجپا نے پارشد بندی کا داؤں چلا۔ بھاجپا اسے وزیر اعظم نریندر مودی کا’نیو انڈیا‘کا نظریہ بتا کر ناراض موجودہ کونسلروں کے زخموں پر مرہم لگانے کی حتی الامکان کوشش میں لگا ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ناراض کونس

نظام الدین درگاہ کے گدی نشیں پاک میں لاپتہ

دنیا کی مشہور درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے گدی نشیں سمیت دو ہندوستانی سجادوں کے غائب ہونے کی خبر سے ڈپلومیٹک اور مذہبی حلقوں میں ہلچل مچنا فطری ہی ہے۔ آصف نظامی اور ناظم نظامی نامی یہ دو سجادے نظام الدین درگاہ کے بہت اہم ترین نام ہیں اور وہ پاکستان میں لاہور کے داتادربار درگاہ کے بلاوے پر وہاں گئے تھے۔ لاہور سے کراچی کے لئے فلائٹ میں سوار ہوئے تھے۔ ان کے گھروالوں کے مطابق آصف کو کراچی جانے کی اجازت دے دی گئی لیکن ادھورے سفری کاغذات کی وجہ سے ناظم کو لاہور ہوائی اڈے پر ہی روک لیا گیا۔ ایک ذرائع کے مطابق اس کے بعد ناظم لاہور ایئر پورٹ سے لاپتہ ہوگئے جبکہ آصف کراچی ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔غور طلب ہے کہ آصف اور ناظم لاہور میں اس درگاہ کی زیارت سے پہلے 8 مارچ کو کراچی میں اپنے رشتے داروں سے ملنے گئے تھے۔ نظام الدین درگاہ اور داتا دربار کے گدی نشینوں کو ایک دوسرے کے یہاں زیارت کے لئے آنے جانے کی روایت رہی ہے۔ دراصل حکومت دونوں سجادوں کی سکیورٹی کو لیکر فکر مند ہے۔ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی درگاہ کے یہ دونوں سجادے صوفی روایت کو ماننے والے ہیں۔ حکومت کو اندیشہ ہے کہ آئی ایس آئ