اشاعتیں

ستمبر 29, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اور اب راہل کانگریس :چنوتی تو اب شروع ہوگی

پہلے سے طے شدہ کہانی کے مطابق داغی لیڈروں کو بچانے پر متنازعہ آر ڈیننس کو وزیر اعظم منموہن سنگھ کی کیبنٹ نے واپس لے لیا ہے۔ یوپی اے حکومت اور کانگریس کور گروپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے راہل گاندھی کے سامنے سرنڈر کردیا۔وہی ہوا جس کی کہانی راہل گاندھی نے 27 ستمبر کو لکھی تھی۔ آج بیشک کانگریسی سارا سہرہ راہل بابا کو دے رہے ہیں لیکن پورے واقعے سے کئی سوال اٹھ گئے ہیں۔ سب سے پہلا تو کانگریس کی اندرونی سیاست سے وابستہ ہے کیا اب ہم راہل ۔کانگریس کا دور دیکھنے والے ہیں؟ راہل کو پارٹی نے اس برس جنوری میں اپنا نائب صدر بنایا تھااور وہ اپنا امکانی لیڈر مان چکی ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کولیکر زیادہ ہی سرگرم ہیں اس لئے انہوں نے وزیر اعظم کے بیرونی دورے سے لوٹنے تک کا انتظار نہیں کیا۔بیچارے منموہن سنگھ اب تو انہیں بے عزتی ہونے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ داغی لیڈروں کو بچانے کے آرڈیننس پر وزیر اعظم کے پیچھے ہٹنے کے ساتھ ہی ایک بار پھر سونیا اور راہل گاندھی کا سرکار کے الٹے پڑے فیصلے کو بھی بے داغ بتا کر نکلنے کا سیاسی فارمولہ سامنے آگیا ہے۔ دراصل یوپی اے کے عہد میں کئی ایسے موقعے آئے ہیں جب عوام مخ

داغی نمبر ون بنے مسعود: چار سال کی جیل ممبری بھی گئی

داغی ممبران پارلیمنٹ اور ممبر اسمبلی کو بچانے والا قانون منسوخ ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ سے آخر کار داغی دور ہونے لگے ہیں۔ کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر رشید مسعود سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے پہلے شکار بنے ہیں۔ عدالت سے چار سال کی جیل کی سزا ہوتے ہی وہ راجیہ سبھا سے نااہل ہوگئے ہیں۔ ان کا ابھی پانچ سال کا وقت بچا تھا۔ آر جے ڈی چیف لالویادو بھی کرپشن کے جرم میں قصوروار ٹھہرادئے گئے ہیں اور ان کو چار سال کی جیل ہوگئی ہے۔ کرپشن سمیت درجن بھر چنندہ جرائم میں صرف قصوروار ٹھہرایا جانا ہی ممبر شپ سے نااہل بنا دیتا ہے۔ چاہے سزا صرف جرمانے تک ہی کیوں نہ ہو اس کے علاوہ کسی بھی جرم میں دو برس یا اس سے زیادہ کی سزا ہونے پر وہ شخص نہ صرف سزا سنائے جانے کی تاریخ سے ایوان کی ممبری سے نااہل ہوجائے گا بلکہ سزا کاٹ کر جیل سے باہر آنے کے 6 سال تک چناؤ نہیں لڑ سکے گا۔ ایسے میں مسعود کی نہ صرف راجیہ سبھا ممبری گئی بلکہ وہ اگلا چناؤ بھی نہیں لڑ پائیں گے۔ اگر ابھی عدالت میں اپیل پر ان کی سزا پر روک لگادیتی ہے تو وہ اگلا چناؤ لڑ سکتے ہیں لیکن ممبر شپ چلی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے کئی سینئر لیڈروں پر تلوا

وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے پھر چلا مسلم کارڈ!

اس دیش میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ دیش میں مذہب کی بنیادپر یہ ووٹ بینک کا سلسلہ بند ہو اگر کوئی اقتصادی نقطہ نظرسے یا سماجی حساب سے پسماندہ ہے اسے چاہے وہ کسی مذہب کا ہو،سرکاری مدد ،سہولیات ملنی چاہئیں۔ کانگریس پارٹی کے خلاف ہمیشہ یہ الزام لگتا ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر سماج کو بانٹ کر خوش آمدی کی سیاست کرتی ہے۔ تازہ مثال وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کا سبھی ریاستوں کے وزرائے اعلی کو لکھے خط کی ہے ،جس میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اقلیتی فرقے کے لڑکوں کی دہشت گردی کے نام پر ناجائز گرفتاری نہیں ہونی چاہئے اور یہ یقینی بنانے کو کہا گیا ہے ایڈوائزری میں شندے کا کہنا ہے کسی بھی بے قصور مسلم لڑکے کو پولیس حراست میں نہ رکھا جائے۔ کئی نمائندہ وفد یہ شکایت لے کر آرہے ہیں کہ دہشت گردی کے نام پر مسلم لڑکوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔ مسلم لڑکوں کو لگ رہا ہے کہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہیں بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ شندے نے ایسے معاملوں میں ہائی کورٹ سے اسپیشل عدالت بنانے اور جلد سماعت کرنے اور بے قصور لوگوں کو رہا کرنے کو کہا ہے۔ غلط طریقے سے مسلم لڑکوں کو گرفتار کرنے

ریپبلکن ڈیموکریٹس کے درمیان اختلاف کے سبب امریکہ میں کام بندی!

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور سب سے طاقتور اور خوشحال دیش ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں سرکار کا اتنا زوال ہوسکتا ہے لیکن ایسا ہورہا ہے۔ امریکی سرکار نے جزوی طور پر کام بندی شروع کردی ہے۔ پچھلی مرتبہ امریکی حکومت میں کام بندی 16 دسمبر1995ء سے 6 جنوری1996ء تک ہوئی تھی۔ تب بل کلنٹن صدر ہوا کرتے تھے۔ یہ حالات 21 دن تک بنے رہے تھے۔ سرکار شٹ ڈاؤن کے حالات امریکی جمہوری نظام کی دین ہے۔ یہاں صدر ملک اور سرکار کا سربراہ ہوتا ہے لیکن آئین سازیہ میں اس کی اکثریت کی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ ہے کہ صدر کانگریس اور سینیٹ کے چناؤ الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہر سال 30 دسمبر تک امریکی کانگریس (ہندوستانی لوک سبھا کی طرح) اگلے سال تک کے لئے بجٹ پاس کرتی ہے۔ سرکار کو بجٹ پاس ہونے کے بعد اپنے پروگرام چلانے کے لئے پیسہ ملتا ہے۔ اگر بجٹ اٹک جائے تو سرکار کے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔ سارا جھگڑا ’اوبامہ کیئر‘ نامی اسکیم کو لیکر کھڑا ہوگیا ہے۔ 2010ء میں براک اوبامہ نیا قانون لائے۔ ’’پیشنٹ پروٹیکشن اینڈ افورڈیبل کیئر ایکٹ‘ اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو صحت بیمہ کور اسکیم میں لانا تھا

سی بی آئی ملائم ۔مایاوتی کو چپ کرا سکتی ہے مجھے نہیں، نریندر مودی

بھارتیہ جنتا پارٹی کو ڈر ہے کہ نریندر مودی کے بڑھتے قدموں اور بڑھتی مقبولیت سے کانگریس بوکھلا گئی ہے۔ مودی کو روکنے کے لئے کانگریس کچھ بھی کرسکتی ہے۔ وہ سی بی آئی کے ذریعے سے مودی کو2002ء کے دنگوں میں پھنسا سکتی ہے۔ بھاجپا نیتا و راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو خط میں الزام لگایا ہے کہ سرکار بھاجپا اور اس کے پی ایم ان ویٹنگ امیدوار نریندر مودی کو گھیرنے کے لئے سی بی آئی ،انٹیلی جنس بیورو اور این آئی اے جیسی جانچ ایجنسیوں کا بیجا استعمال کررہی ہے کیونکہ اس نے مان لیا ہے کہ وہ سیاسی طور سے مودی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اپنے15 صفحات کے خط میں جیٹلی نے کہا کہ کانگریس پچھلے کچھ برسوں سے مودی اور اس کی حکومت میں وزیر داخلہ رہے امت شاہ پر نشانہ لگاتی رہی ہے۔ انہوں نے لکھا کانگریس کی گھٹتی مقبولیت کے دور میں اس کی حکمت عملی صاف ہے۔ کانگریس سیاسی طور پر بھاجپا اور نریندر مودی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ہار ان کے چہرے پر صاف جھلکتی ہے۔ انہوں نے جانچ ایجنسیوں کا بیجا استعمال کرکے اب تک مودی اور سابق وزیر داخلہ امت شاہ کو غلط طریقے سے پھنسانے کی بہت سے طریقے اپنان

کیا مظفر نگر فسادات کے سبب مسلم ووٹ کا پولارائزیشن ہوگا؟

اترپردیش میں فرقہ وارانہ فسادات اور جھگڑا رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مظفر نگر فسادات کے ایک مہینے کے بعد مغربی اترپردیش پھر سے سلگ اٹھا ہے۔ سردھنہ سے بھاجپا ممبر اسمبلی سنگیت سوم کی گرفتاری اور ان پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ لگانے کے احتجاج میں ایتوار کو کھیڑا گاؤں کی مہا پنچایت پر روک کے باوجود 20 ہزار لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی اور حالات اس قدر بگڑے کے بھیڑ مشتعل ہوگئی۔ اعلی افسروں کی گاڑیوں سمیت64 سرکاری گاڑیاں روڈ ویز بسوں کو توڑ پھوڑ کی اور چار گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ بھیڑ پر قابو کرنے کے لئے پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس اور فائرننگ کرنا پڑی۔ اس میں ایس پی کرائم سمیت27 پولیس والے اور دیگر 8 لوگ زخمی ہوگئے۔ ان دنگوں کا سیاسی نتیجہ بھی ہوگا۔ لوک سبھا چناؤ ابھی دور ہیں۔ مظفر نگر فسادات کے بعد پورے دیش کے مسلم ووٹ کی پولارائزیشن کا تذکرہ ابھی سے شروع ہوگیا ہے۔ مسلم ووٹوں کا اثر 120 سیٹوں پرہے اس لئے سیکولر پارٹیوں کے درمیان نئی کھچڑی پکتی آرہی ہے۔ اترپردیش،بہار ہی نہیں مغربی بنگال ،مہاراشٹر اور آسام میں بھی مسلم ووٹوں کے کم معنی نہیں ہیں۔ جہاں ان کی تعداد 10 فیصدی سے زیادہ ہے۔ لالو پرسا

وقت وقت کی بات ہے :نائک سے کھلنائک بنے لالو پرساد!

وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ کہاں تو90 کی دہائی میں منڈل رتھ پر لالو پرساد یادو نے سماجی تبدیلی کا نعرہ دیتے ہوئے بہار میں اقتدار قائم کیا اور تقریباً دو دہائی تک ہندوستانی سیاست پر چھائے رہے آج وہی لالو جی چارا گھوٹالہ کیس میں قصوروار ہوکر سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے ہیں۔ چارا گھوٹالہ کی شکل میں سرکاری پیسے کی کھلی لوٹ کے ایک معاملے میں45 لوگوں سمیت لالو کو قصوروار قراردیا گیا ہے۔ سی بی آئی کی رانچی عدالت نے پیر کے روز اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 8 قصورواروں کو تین تین سال کی سزا سنائی۔ لالو سمیت باقی37 افراد کی سزا پرفیصلہ 3 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔ عدالت نے یہ فیصلہ چائیباسہ کو باغبانی سے فرضی ڈھنگ سے 37.7 کروڑ روپے نکالنے کے معاملے میں سنایا ہے۔ چارا گھوٹالے سے جڑے پانچ معاملوں کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سنایاہے۔ ایسے چار معاملوں میں ابھی الگ الگ عدالتوں کو فیصلہ آنا باقی ہے۔950 کروڑ روپے کو ناجائزطور پر نکالنا کا ہے۔ پورا چارا گھوٹالے میں لالو کے ساتھ ایک دیگر سابق وزیر اعلی جگن ناتھ مشر اور کچھ دیگر لیڈروں کے سلاخوں کے پیچھے پہنچنے کے باوجودعام جنتا یہ سوال پوچھ رہی ہے آخر ک

رائٹ ٹو ریجیکٹ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ میل کا پتھر!

سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں چناؤ اصلاحات کی سمت میں ایک اہم فیصلہ دیا ہے جس کا سبھی خیر مقدم کریں گے۔ سپریم کورٹ نے ووٹر کو امیدوار کو مسترد کرنے کا حق دیا ہے۔ اگر چناؤ میں کھڑا کوئی بھی امیدوار اس کو پسند نہیں آتا تو ووٹر اس کو مسترد کرسکتا ہے۔ عدالت نے چناؤ کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں موجود بٹن میں سے کوئی ایسا نہیں بلکہ مسترد کرنے کا بٹن اس میں دستیاب کرائے حالانکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا چناؤ کارروائی پر کوئی سیدھا اثر تو نہیں ہوگا لیکن اس سے سیاسی پارٹیوں پر اچھے اور ایماندار امیدوار اتارنے کا دباؤ ضرور بنے گا۔ عدالت نے صاف کیا کہ جمہوریت میں ووٹر کو اپنے ناپسندیدہ امیدوار کو مسترد کرنے کا حق ملنا ضروری ہے تاکہ سیاسی پارٹیاں اچھے امیدوار کھڑے کرنے کے لئے مجبور ہوں۔ چیف جسٹس پی سنت شیوم کی سربراہی والی بنچ نے ایک غیر سرکاری تنظیم پی یو سی ایل کی عرضی پر دئے گئے فیصلے میں کہا کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی یہ فیصلہ ہر نقطہ نظر سے تاریخی اور جمہوریت کو اس کی طاقت کا احساس دلانے والا فیصلہ ہے۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آنے کی امید ہے اور ان ووٹروں میں حوصل

مودی نے پہلے ہی شو میں طےکی 2014 کی چناؤ ی حکمت عملی

اتوار کو جاپانی پارک میں بھاجپا پی ایم امیدوار نریندر مودی کی ریلی کا سارے دیش کوانتظار تھا خاص کر عوام اورنوجوانوں میں اتنا جوش تھاکہ وہ صبح 9 بجے سے ہی جاپانی پارک میں آنے لگے تھے ساڑھے 10 بجے تک یہ میدان بھر گیا تھا ٹھیک 12 بج کر3منٹ پر مودی اسٹیج پرآئے۔ اورلاکھوں کی تعداد میں جمع لوگوں کو مایوسی نہیں ہوئی مودی پوری طرح چھا گئے اور خوب تالیاں بجی ۔نعرے بازی کے ساتھ نوجوانوں نے گرمجوشی سے نریندر مودی کاخیرمقدم کیا۔ پارک کے باہر ہاتھی گھوڑا پالکی جے مودی لال’’ کے نعرے ‘‘ کے ساتھ مہاوت اور گھوڑ سوار بھی مودی کی راج شاہی کا خیرمقدم کررہے تھے۔ اسٹیج پر اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر وجے کمار ملہوترا تقریر کررہے تھے لیکن جنتا ان کی تقریر سننا نہیں چاہ رہی تھی۔ جلد بازی ملہوترہ کو اپنی تقریر ختم کرنی پڑی۔ اس کے بعد مشہور کرکٹر اور ایم پی نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے انداز میں چٹکی لیتے ہوئے کانگریس کو نشانہ بنایا۔ اورمودی کے گن گان کئے اس کے بعد بھاجپا پردیش صدر وجے گوئل نے اپنی بات رکھی۔ اور مودی کی تقریر دینے کے آتے ہی قریب ایک منٹ تک تالیاں بجا کر مودی کاخیرمقدم کیاگیا انہوں نے ایک متوازن پائی

آرڈیننس بکواس ،پھاڑ کر پھینکو راہل کاماسٹر اسٹروک؟

کانگریس کے نائب صدر و یووراج راہل گاندھی نے جمعہ کے روز اچانک بغیر کسی پہلے سے طے دہ پروگرام و اطلاع کے نئی دہلی پریس کلب پہنچ کر موجود لوگوں کو چونکا دیا۔طے شدہ پروگرام کے مطابق کانگریس کے میڈیا انچارج ممبر پارلیمنٹ اجے ماکن نے ’’میٹ دی پریس‘‘ کا پروگرام رکھا تھا۔ پریس کانفرنس کے دوران ماکن کو ایک ٹیلیفون آیا وہ باہر نکل کر چلے گئے۔ کچھ منٹوں میں انہوں نے لوٹ کر بتایا پارٹی نائب صدر راہل گاندھی کا فون تھا ،وہ خود آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ راہل نے یوں ہی اینٹری کیوں لی؟ کیوں پریس کلب کے اسٹیج کو چنا! خیر انہوں نے آخر پریس والوں کو اور چونکا دیا جب انہوں نے کہا سزا یافتہ ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی ممبر شپ برقرار رکھنے لئے لائے گئے متنازعہ آرڈیننس بکواس ہے ،اسے پھاڑ پھینکو۔ راہل گاندھی کی بات سن کر سب ہکے بکے رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ پریس والوں کے سوالوں کا جواب دیتے وہ اٹھ کر چلے گئے۔ راہل سے ٹھیک پہلے اسی پریس کانفرنس میں اجے ماکن سرکار کا بچاؤ کررہے تھے اور بھاجپا پر دوہرا پیمانہ اپنانے کا الزام لگا رہے تھے۔ اتنا ہی نہیں صدر کے آرڈیننس روکنے اور دگوجے سنگھ اور ملن دیوڑا اور