اشاعتیں

ستمبر 11, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

برہمالین شنکر آچاریہ کو بھو سمادھی!

شنگر آچاریہ سوامی سروپ آنند سرسوتی کو پیر کی شام پانچ بجے ویدک منتر اچارن کے ساتھ نر سی پور کے پرم ہنس ڈنگا آشرم میں بھو سمادھی دے دی گئی ۔اس دوران ہزاروں چیلے اور ماننے والے اور شردھالو موجود رہے مدھیہ پر دیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے بھی سوامی سوروپ آنند کے انتم درشن کر انہیں شردھانجلی دی اس درمیان سوامی شردھا نند سرسوتی کو گجرات کے دوارکہ پیٹھ کا نیا شنکر آچاریہ بنا یا گیا جبکہ سوامی اوی مکتیشور آنند سرسوتی کو اترکھنڈ کے جیوتش پیٹھ کا شنکر آچاریہ بنا یا گیا ۔ ان دونوں کو شنکر آچاریہ سوروپ آنند سرسوتی کا جانشین بننا پہلے سے ہی طے تھا ۔ سوروپ آنند نے اس بات کا اشارہ 19برس پہلے اپنے دونوں چیلوں کی کاشی میںڈنڈ دکشا کے بعد دے دیا تھا ۔اسی وقت اوی مکتیشور آنند اور سدا نند شنکر آچاریہ کے نمائندہ چیلے اعلان کئے گئے تھے ۔ دونوں گرو بھائیوں کی ڈنڈ دکشا 15اپریل 2003کو کاشی کے کیدار کھنڈ میں شری ودیا مٹھ میں ہوئی تھی ۔پیر کو شنکر آچاریہ سرسوتی کے خواہش کے مطابق اس کا اعلان کر دیا گیا ۔ اپنے وصیت نامے میں سرسوتی نے لکھا تھا کہ میں جیوتش پیٹھ کے ششیہ اوی مکتیشور

میں اس سے دھیرے نہیںچل سکتا !

بھار ت جوڑ و یاترا کے کنوینر اور سینئر کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ نے پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی سے کہا کہ وہ پد یاترا میں دھیرے چلیں ۔ ان کے اتنے تیز چلنے سے باقی پد یاتری مسلسل پچھڑ رہے ہیں اس پر راہل گاندھی نے کہا کہ وہ اس سے آہستہ نہیں چل سکتے ان کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ 25کلو میٹر چلنا چاہتے ہیں۔ لیکن پارٹی کے سینئر لیڈروں نے ان سے کہا کہ ساتھ چل رہے دوسرے پد یاتری بار بار پچھڑ جا رہے ہیں ۔اور وہ صر ف دن میں 22کلو میٹر ہی چلیں ۔ راہل گاندھی کی پد یاترا میں بھاری بھیڑ آ رہی ہے سوشل میڈیا میں فوٹو سے پتا چلتا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارا بڑا میڈیا اسے دکھانے سے کترا رہا ہے کیرل میں کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کے تیسرے تین بھی بہت زیادہ بھیڑ شامل ہو گئی ۔رک رک کر ہو رہی بارش کے درمیان کانگریس نیتا اور سیکڑو ورکر بغیر چھتری کے بھیگتے ہوئے پد یاترا میں شامل ہوئے راہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک 3500کلو میٹر لمبی پد یاترا چل رہی ہے ۔یاترا میں شامل لوگوں کے پیروں میں چھالے پڑ گئے ہیں لیکن یہ یاترا جاری رہے گی۔ راہل گاندھی اور پد یاتریوں کے خیر مقدم کیلئے سیکڑوں سڑکوں کے کنارے بڑی تعدا د م

روسی فوج پر بھاری پڑتی یوکرین فوج!

روس یوکرین جنگ کے 200دن گزر جانے کے بعد بھی روس یوکرین کو پوری طرح نہیں جیت پایا اور یوکرین بڑے صنعتی شہر خارکیو میں کمزور پڑتی اپنی فوج کو دیکھتے ہوئے روس نے اپنے فوجیوں کو واپس بلا لیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر یوکرین کے فوجیوں کے نئے علاقے پر جھنڈے لہرانے کی تصویروں کا سیلاب آگیا ہے ۔روس کے فوجیوں کے چھوڑے گئے مورچوں اور برباد فوجی گاڑیوں کی تصویریں بھی خوب وائرل کی جارہی ہیں ۔ یوکرین کی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے حملوں کے ذریعے روس کے قبضے والے کم سے کم 3ہزار مربع کلو میٹر علاقے کو آزاد کرالیا ہے ۔ یوکرین میں جارحانہ کاروائی مشرقی یوکرین میں ہو رہی ہے ۔ یوکرین کے دعوو¿ ں کی تصدیق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے پہلے سے آزاد کرائے علاقوں سے تین راستوں کو بھی آزاد کر الیا ہے ۔ حالاںکہ روس کی فوج نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اس کے فوجی پھر سے مورچے سنبھالنے کیلئے حکمت عملی کیلئے پیچھے ہٹے ہیں ۔یوکرین کی فوجیوں نے روس کے پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔اس ایک گاڑی کی تصویر 11ستمبر کو جاری کی گئی ہے جس میں یوکرینی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے کپیانسک اور جوسس پر کنٹرول کرلیا ہے ۔یہ روس کے قبضے میں آ گئے تھے جو سپلائ

متاثرہ کیلئے آواز اٹھانا کیا جرم ہے؟

پچھلے 23مہینے سے جیل میں بند کیرل کے صحافی صدیق کپن کو سپریم کورٹ نے جمعہ کو ضمانت دے دی ۔صدیق کپن کو 5اکتوبر 2020کو اتر پردیش پولیس نے متھرا سے گرفتار کیا تھا ۔چیف جسٹس ادے امیش للت و جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بنچ نے کپن کی عرضی پر یہ حکم دیا تھا ۔ بڑی عدالت نے کپن کے جیل میں رہنے کی میعاد کو بتاتے ہوئے یہ جاننا چاہا ہے کہ کپن کے خلاف ٹھوس ثبوت کیا ہیں۔ عدالت نے پولیس کے اس دعوے پر سوال اٹھایا کہ کپن اور تین دیگر افراد کے پاس سے ایسے دستاویز ملے جس سے پتا چلا کہ دنگے بھڑکانے کی سازش تھی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے وہ یہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہاتھرس کی متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کی ضرورت ہے اور انہوں نے اس کیلئے آواز اٹھائی کیا یہ قانون کی نظر میں جرم ہے؟ چیف جسٹس نے یہ رائے زنی یوپی سرکار کے وکیل مہیش جیٹھ ملانی کی دلیل کہ کپن و دیگر افراد دنگے بھڑکانے کے ارادے سے ایک ٹول کٹ کے ساتھ ہاتھرس جا رہے ہیں ۔ جیٹھ ملانی سے جج صاحب نے پوچھا کہ ضبط شدہ دستاویز کا کونسا حصہ اکسانے والا تھا؟ اس سے پہلے بنچ نے اتر پردیش کے داخلہ محکمے سے کپن کی عرضی پر 5ستمبر تک جواب

نتیش ایکٹر ہیں یا ڈائریکٹر!

پچھلے ایک مہینے میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپوزیشن کے تقریبا ً دس لیڈروں سے ملاقات کر چکے ہیں جن میں سے تقریبا ً آدھا درجن سے زیادہ ملاقاتیں پچھلے تین دنوں میں ہوئیں ہیں ۔ بہار میں این ڈی اے کا ساتھ چھوڑے نتیش کمار کو ابھی ایک مہینہ ہوا ہے لیکن وہ بہار میں کم اور دہلی کی سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر آرہے ہیں۔ دہلی دورے کے بعد 25ستمبر کو ہریانہ کی ایک ریلی میں شامل ہوں گے ان کا آنے والے دنوں میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنر جی سے بھی ملنے کا پروگرام ہے۔ نتیش کمار نے خود بتایا ہے کہ وہ جلد ہی دہلی آنے والے ہیں ۔ اور کانگریس لیڈر سونیا گاندھی سے ان کے بھارت واپسی پر ملیں گے ۔ ان ملاقاتوں اور دوروں کے معنیٰ بھی نکالے جا رہے ہیں ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نتیش کمار سال 2024میں اپوزیشن کی طرف سے پی ایم فیس بننا چاہتے ہیں بھلے ہی وہ میڈیا سے اس بارے میں انکار کرتے رہے ہیں کہ انہیں کوئی خواہش نہیں ہے لیکن ان کی غیر اعلانیہ دعویداری پی ایم مودی کی وجہ سے بھی ہے ۔ یہ کہنا جے ڈی یو نیتا اور سابق ایم پی کے سی تیاگی ہے ۔ نتیش کے پی ایم عہدے کی دعویداری پر جواب میں تیاگی میں نے

حجاب کا موازنہ پگڑی سے کرنا غیر مناسب!

سپریم کورٹ نے کرناٹک حجاب معاملے کی سماعت کے دوران جمعہ کو جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ حجاب سے سکھ کی پگڑی کا موازنہ کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ یہ طے کر چکی ہے کہ پگڑی اور کرپان سکھ دھرم کی پہچان کا ضروری حصہ ہے۔ سکھو کے پانچ سو برسوں کی تاریخ اور آئین کے مطابق یہ بھی سب سے اہم حقیقت ہے اس لئے سکھو سے موازنہ کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے یہ رائے زنی حجاب کے حمایتی عرضی گزاروں کے وکیل نظام پاشا کی دلیل کے دوران کی تھی۔ پاشا کا کہنا تھا کہ سکھ مذہب کے پانچ اصولو ں کی طرح اسلا م کے بھی پانچ بنیاد ی ستون ہیں ۔ نظام کا کہنا تھا کہ حج،نماز ،روزہ، زکاة ،توحید اور حجاب کو اسلام کے پانچ بنیادی ستون بتا یا تھا۔ جسٹس گپتا نے انہیں ٹوکا تونظام پاشا نے کہا کہ ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ 1400برس سے حجاب بھی اسلامی روایت کاحصہ رہا ہے ۔ لہذا کرناٹک ہائی کورٹ کا نتیجہ غلط ہے، نظام پاشا سے پہلے عرضی گزاروں کی طرف سے وکیل دیو دت کامت نے کہا کہ بنیادی حقوق پر واجب پابند ی ہو سکتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب یہ قانون سسٹم ،اخلاقیات یا ہیلتھ کے خلاف ہو ۔یہاں لڑکیوں کا حجاب پہننا نہ توقان