اشاعتیں

جون 8, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کشمیری پنڈتوں کے جلد ہی اچھے دن آنے والے ہیں!

ہجرت کے درد کے درمیان اپنی وجود کی لڑائی لڑ رہے کشمیری پنڈتوں کے اچھے دن آنے والے ہیں کم سے کم لگ تو ایسا ہی رہا ہے۔ کشمیری پنڈتوں کی گھاٹی میں واپسی اور بازآبادکاری کے لئے ایک بڑی یوجنا پر کام شروع ہوچکا ہے۔نریندر مودی سرکار نے اس مدعے کو اپنی فوقیت کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا ہے۔ بھاجپا کے چناوی مینی فیسٹو میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ وہ کشمیری پنڈتوں کو پورے سنمان کے ساتھ واپسی یقینی بنانے کے لئے پر عہد ہیں۔دہشت گردانہ واقعات کی وجہ سے 1990ء کے بعد گھاٹی سے ہجرت کرکے آئے کشمیری پنڈتوں کی تعداد بڑھ کر6-7 لاکھ ہوگئی ہے۔ یوجناؤں کے مطابق کشمیری مہاجروں کی واپسی اور باز آبادکاری کا یہ نیا پیکیج اس پیکیج سے زیادہ دلکش ہوگا جس کا اعلان سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپریل 2000ء میں کیا تھا۔ اس پیکیج میں پوری طرح یاجزوی طور سے برباد ہوئے مکانوں کی دوبارہ تعمیر کیلئے ہر خاندان کو ساڑھے سات لاکھ روپے کی مدد ،گرچکے مکانوں کے لئے ہر پریوار کو دو لاکھ روپے کی مدد اور1989ء میں افراتفری کے دوران اپنی جائیداد بیچ چکے لوگوں کے لئے گرو پ ہاؤسنگ سوسائٹی میں مکان خریدنے کے لئے فی خاندان ساڑھے سات لاک

اس بار لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نہیں!

وزیر اعظم کے بھاشن کے بعد ہی سنسد کے پہلے اجلاس کا خاتمہ ہوگیا لیکن ابھی تک اپوزیشن لیڈر کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ چناؤ میں کراری ہار جھیلنے والی کانگریس کو اپوزیشن لیڈرکے پد کی کرسی مل بھی پائے گی یا نہیں۔ اس کو لیکر برسراقتدار بھاجپا کے اعلی لیڈران میں بھی تذبذب کی حالت ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پردھان منتری نریندر مودی شروعاتی دور میں ہی اپوزیشن کے ساتھ اچھے رشتے رکھنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے سوال پر ان کا رخ بھی صاف نہیں ہوپایا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 16 ویں لوک سبھا میں کانگریس کے پاس لوک سبھا کی اتنی بھی سیٹیں نہیں آئی ہیں کہ وہ قانونی طور سے اس کرسی کے لئے اپنا دعوی ٹھوک سکے کیونکہ اپوزیشن لیڈر کیلئے بھی ایوان میں اس کے پاس کم سے کم 54 ممبر ہونے چاہئیں لیکن اس بار پارٹی کو کل 44 سیٹیں ہی مل سکی ہیں۔ یہ ضرورت ہے کہ اتنی کم سیٹوں کے بعد بھی کانگریس کی حیثیت سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کی ہے۔ لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کو ہی اپوزیشن لیڈر کا پد ملتا ہے۔ یہ پد کیبنٹ رینک کا ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ کئی آئینی پوسٹ پر تقرریوں میں اپوزیشن لیڈ

گڈ گورننس نریندر مودی اسٹائل!

مودی سرکار کو اقتدار سنبھالے ہوئے محض کچھ ہی دن ہوئے ہیں لیکن اقتدار کے گلیاروں میں ایک دم نئے قسم کی تصویر دکھائی دینے لگی ہے۔ وزارتوں کے بڑے بڑے افسر بھی ڈرے اور سہمے ہوئے دکھائی پڑ رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ لیٹ لطیف آنے کے عادی ہو چکے بڑے صاحب بھی اب آدھا گھنٹہ پہلے آکر اپنی کرسیوں میں جم جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے اچانک دورے کے خوف سے ہلکان ہیں کیونکہ پی ایم نے سیکریٹریوں کی بیٹھک میں آگاہ کردیا ہے کہ وہ وزارتوں میں کبھی بھی دورہ کرنے کے لئے آسکتے ہیں۔ انہیںیہ پسند نہیں ہے کہ سرکار کا کوئی بھی دفتر بے قاعدگی کا شکار ملے۔سہمے ہوئے کئی افسر گجرات کیڈر کے اعلی افسروں سے یہ جانکاری لے رہے ہیں کہ مودی جی کے دورہ کا طور طریقہ گاندھی نگر میں کس طرح کا رہتا تھا۔ان لوگوں کو بتایا گیا کہ مودی جی دفاتر کے ٹوائلٹ تک کا بھی معائنہ کر لیتے ہیں اگر وہاں گندگی ملی تو خفا ہوجاتے ہیں۔ مینکا گاندھی کی وزارت نے تو باقاعدہ ایک سرکولر جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دفتر کے وقت میں کوئی بھی پان یا گٹکھا نہیں کھائے گا۔ سگریٹ بھی دفتر کے اندر نہیں پی سکتا۔ ایسے میں مشکل ان افسروں کو آرہی ہے جو دھنواں دھار

تحریک طالبان کی بڑھتی طاقت و ہمت!

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہوا حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آتنکی پاکستان میں جب چاہیں جہاں چاہیں حملہ کرسکتے ہیں۔ طالبان نے ایسے وقت پر یہ چنوتی دی ہے جب پاکستان کی سرکار اورفوج کی طالبان سے لڑنے کی صلاحیت پر پہلے سے سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے آتنکیوں کی منشا ایئرپورٹ پر لمبے وقت تک قبضہ جمائے رکھنے کی تھی۔ فوج کے مطابق آتنکی جہازوں اور ایئرپورٹ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی تیاری کے ساتھ آئے تھے لیکن وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ پہلی بار نہیں جبممنوعہ تنظیم تحریک طالبان نے جس نے اس تازہ حملے کی ذمہ داری لی ہے ،نے ہوائی اڈوں پر نشانہ سادھا ہے۔ اگست2013ء کو سکیورٹی فورسز کی پوشاک میں آئے آتنکیوں نے راولپنڈی کے بینظیر بھٹو ایئرپورٹ اور چکلالہ ایئربیس پر حملہ کی ناکام کوشش کی۔ 15 دسمبر 2012ء کو آتنکیوں نے پیشاور ایئرپورٹ احاطے میں گھسنے کی کوشش میں پانچ راکٹ داغے اور دھماکہ خیز مادے سے لدی کار میں حملہ کیا جس میں9لوگ مارے گئے۔ 22 مئی 2011ء کو پاک۔ طالبان نے کراچی کے مہران نو سینک اڈے پر حملہ کیا جس میں18 سکیورٹی ف

کیا ہند۔ چین کے درمیان نیا باب لکھا جائے گا؟

نریندر مودی کی حکومت کے قیام کے دو ہفتوں کے اندر چین کے وزیر خارجہ وانگ چی کا دورہ ہند اپنے آپ میں ایک بہت بڑا سوال ہے۔ کیا وانگ بھی نئی حکومت سے محض رابطہ قائم کرنے کی خانہ پوری کرنے کے لئے آئے تھے یا یہ ٹٹولنے آئے کہ نریندر مودی کی حکومت کا چین کے تئیں کیا موقف ہے؟ ہندوستان پہنچنے سے پہلے ایک ملاقات میں وانگ نے مودی کو چین کا دوست بتاتے ہوئے اس دورہ کا خاکہ بھی رکھ دیا اور کہا تھا کہ بھارت اور چین میں کافی یکسانیت ہے۔ چین بھارت کی ترقی کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس میں تعاون دینے کے لئے بے قرار ہے۔ چین بھارت کی نئی سرکار کے ساتھ کام کرنے کیلئے اتاولا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے چین کے وزیر اعظم لی کیانگ نے فون پر بات چیت کی۔ چین نے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اس کا خیر مقدم ہے لیکن ہندوستان چین پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ پچھلے 10 سال میں ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت کے زمانے میں چین کی فوج جب چاہے سرحد پار کر ہمارے علاقے میں کیمپ لگا کر بیٹھ جاتی تھی یا سرحد پر بن رہی ہماری سڑکوں تک کا بننابند کرادیتی تھی۔ جموں و کشمیر یا اروناچل کے لوگوں کو اپنے یہا

ایک طرف سورج کی مار تو دوسری طرف بجلی کٹوتی!

پورے شمالی ہند میں پچھلے کئی دنوں سے قہر کی گرمی پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں گرمی سے ہائے توبہ مچی ہوئی ہے۔ صبح اٹھتے ہی سورج تپنا شروع کردیتا ہے۔ دن چڑھتے چڑھتے اتنی تپش ہوجاتی ہے کہ سہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے غروب ہونے کے گھنٹوں بعد تک بھی گرمی کی تپش کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ چلچلاتی دھوپ اور آگ اگلتی سورج کی کرنیں اور گرمی سے پریشان لوگ ایتوار کے دن راجدھانی میں کچھ ایسا ہی محسوس کرنے کو اور دیکھنے کو ملا جب درجہ حرارت نے پچھلے62 سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے شہر کے پالم علاقے میں درجہ حرارت47.8 ڈگری سیلسیس تک ریکارڈ کیا گیا۔ تیز دھوپ اور لو کے تھپیڑوں سے گر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ جیسے جیسے دن چڑھتا ہے سڑکوں پرعام زندگی ٹھہر سی جاتی ہے۔ کپڑوں سے سر ڈھکے لوگوں کا سڑک پر چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مانا جاسکتا ہے گرمی کا موسم عام آدمی کے لئے زندگی محال کر دیتا ہے لیکن آبادی کے بڑھتے دباؤ اور ماحول میں گرمی پیدا کرنے والے انسانی سازو سامان کی وجہ سے سال در سال حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ گرمی سے بچاؤ کے وسائل پنکھا، کولر، ایئر کنڈیشن،فرج وغیرہ بجلی کی قلت کے سبب یہ سب بے معنی ہوتے

گنگاکی صاف آبی لہر بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ مافیا بھی ہے!

یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مودی سرکار کا مشن گنگا شروع ہوگیا ہے۔ گنگا کو پاک اور خوبصورت بنانے کے ساتھ اس کے ٹرانسپورٹ اور سیاحتی اور ماحولیاتی طور پر بہتر بنانے کے لئے مرکزی حکومت نے چار وزارتوں آبی وسائل، ٹرانسپورٹ، ٹورازم اور ماحولیات کو مل کر کام کرنے کی ہدایت دی ہے۔ آبی وسائل سکریٹری کی سربراہی میں ان چاروں وزاروں کی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو ایک مہینے میں اپنی مفصل رپورٹ پیش کرے گی۔ پانی ہی زندگی ہے اور گنگا زندگی دینے والی ۔ اتراکھنڈ میں سمندر سے 14 ہزار فٹ کی اونچائی پر واقع گنگوتری گلیشیئرسے شروع ہونے والی یہ پوتر ندی خلیجی بنگال میں جاکر گرتی ہے۔دنیا کی بڑی ندیوں میں شامل گنگا بھارت کے ایک چوتھائی سے زیادہ جغرافیائی حصے کو اپنے پانی سے سینچتی ہے۔پانچ ریاستوں (اتراکھنڈ،یوپی، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال ) سے ہوکر گزرتی ہے۔ گنگا اپنی معاون ندیوں کے ساتھ دیش کے بڑے جغرافیائی حصے کے لئے سینچائی کا 12 مہینے کا ذریعہ ہے۔ ندی کی وجہ سے مچھلی صنعت بھی کافی پھل پھول رہی ہے۔ گنگا سیاحوں کو بھی اپنی طرف راغب کرتی ہے اور اس کے ساحل پر واقع ہری دوار، الہ آباد اور بنارس بڑے تیرتھ شہر

ارون جیٹلی کے پہلے بجٹ سے زیادہ امیدیں نہ لگائیں!

نریندرمودی 30سال بعد ایک ایسی پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم بنے ہیں جس کے پاس مکمل اکثریت ہے ملک کے عوام نے واضح اکثریت دے دی ہے تو اس نے نئی حکومت سے بہت زیادہ امیدیں بھی لگا رکھی ہے چناؤ کمپین کے دوران عوامی ریلیوں میں سرکار کا ایجنڈا پیش کیا تھا جس پر اب عمل کی باری ہے مودی کو گجرات کی خوشحالی کا عمل بردار مانا جاتا ہے ان کے سامنے دیش کی معیشت کوپٹری پر لانا، مہنگائی پر قابو پانا ، روزگار کے مواقع بڑھانے جیسے چیلنج ہے مودی حکومت کا پہلا بجٹ جولائی میں آئے گا پیشے سے وکیل وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو بنایا گیا ہے جوڑ توڑ کی سیاست میں ماہر جیٹلی اب مالی سیکٹر میں کیسے جوڑ توڑ میں ماہری دکھاتے ہیں یہ تو بجٹ سے پتہ چلے گا مودی حکومت کے لئے سب سے بڑی چنوتی ہے مہنگائی پر قابو پانا۔ دیش کی عوام سب سے زیادہ پریشان اور لاچار ہے مسلسل بڑھتی مہنگائی سے ۔ یوپی اے سرکار کی ہار میں سب سے بڑی وجہ یہ ہی تھی مودی سرکار نے مہنگائی نہ روکنے کے بہانے رکھے جسے پچھلی سرکار کی دین تھی تو عوام کا اس کا اچھااشارہ نہیں جائے گا مہنگائی پر پوری طرح قابو پانا ہے معیشت کا برا حال ہے مودی معیشت کو کیسے سدھاریں گے ان

مودی کے دورہ امریکہ سے دونوں ملکوں کے رشتے بہتر ہوں گے

کہاوت ہے کہ دنیا جھکتی ہے جھکانے والا چاہئے نریندر مودی کو اپنی سرزمین پر پاؤں رکھنے کی اجازت تک نہ دینے والا امریکہ اب انہیں لال قالین پر بیٹھانے کی تیاری کررہا ہے۔ صدر براک اوبامہ کی دعوت قبول کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ستمبر آخری ہفتے میں امریکہ جانے کا اراداہ کرلیا ہے۔ انہیں دنوں میں اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیویارک میں ہونا ہے امکان ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی بھی اس موقعے پر موجود رہیں گے اس سالانہ اجلاس کے دوران امریکہ میں تمام غیرملکی سینئر لیڈروں کی بھیڑ ہوتی ہے اور تنازعوں سے بچنے کے لئے امریکی صدر عام طور پر کسی سے ا لگ سے ملنا پسند نہیں کرتے لیکن مودی کے معاملے میں یہ روایت توڑتے دکھائی دے رہے ہیں یہ وہی امریکہ ہے جس نے پچھلے کئی برسوں سے تک مودی کو ویزا تک دینے سے انکار کیا اور بار بار بے عزت کیا۔ اب اگر اوبامہ پلٹی کھار ہے ہیں تو اس میں امریکہ کا مفاد زیادہ ہے معاملہ سیدھے امریکی اقتصادی اور فوجی مفادات سے وابستہ ہے ہندوستان کا خوردہ بازار ، ڈیفنس سودوں اور ایٹمی بھٹیوں کا معاملہ امریکہ کو بے چین کررہا ہے پچھلے کچھ مہینوں میں امریکہ اور بھارت ک

یوپی میں بڑھتے جرائم اور بے حس اکھلیش سرکار!

اترپردیش میں نہ تو جرم کم ہورہے ہیں اور نہ ہی اکھلیش سرکار قانون و انتظام پر قابو پا رہی ہے۔جرم لگاتار بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سرکار کہتی ہے کہ وہ ایسے معاملوں کو روکنے کے لئے کڑے قدم اٹھا رہی ہے لیکن عام لوگوں کے درمیان اس کا الٹا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عام جنتا کو لگتا ہے کہ پولیس جو کارروائی کررہی ہے وہ صرف دکھاوے کے لئے ہے۔مقدمے درج ہوتے ہیں تو ان میں کئی طرح کی خامیاں چھوڑ دی جاتی ہیں۔ اس کا فائدہ مجرموں کوملتا ہے۔پھر بدایوں کی رونگٹے کھڑے کردینے والی بربر واردات اور ریپ کے دیگر واقعات کو دیکھ کر وزیر اعلی اکھلیش یادو کے ساتھ ساتھ دیگر سپا لیڈروں نے جس طرح کے بیان دئے ہیں اس سے انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا ہے ۔ یہ بیان یہ ہی بتاتے ہیں کہ سپا نیتاؤں کو نہ تو اپنی بھول کا احساس ہے اور نہ ہی وہ یہ سمجھ پا رہے ہیں کہ اترپردیش انتظامیہ کی چھوی کس طرح تار تار ہورہی ہے؟ یہ عام بات نہیں کہ امریکی وزارت خارجہ سے لیکر اقوام متحدہ کے چیف تک حیرانی جتا رہے ہیں۔اس پر اترپردیش کے وزیر اعلی یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات تو سب جگہ ہوتے رہتے ہیں۔ پارٹی کے اعلی لیڈر رام گوپال یادو نے پردیش کی

ارے بھائی آپ کا کیا ہوگا؟

لوک سبھا چناؤ نتائج نے عام آدمی پارٹی کو بری طرح ہلایا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود کے لئے بھی گہرا سنکٹ پیدا کردیا ہے۔چناؤ میں اپنی ہار اور اپنی حالت کا جائزہ لینے کے بجائے پارٹی کے اندرونی جھگڑے سب کے سامنے آگئے ہیں۔ ’آپ ‘ پارٹی کے کئی بڑے نیتا پارٹی چھوڑ گئے ہیں اور جو بچے ہیں وہ اب کھل کر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ بری پرفارمینس کے لئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں۔ لگ بھگ پارٹی کے سبھی چہرے پارٹی سے کنارہ کر چکے ہیں۔ پہلے ونود کمار بننی گئے، پھر اشونی اپادھیائے الگ ہوئے، شاذیہ علمی اور کیپٹن گوپا ناتھ نے پارٹی چھوڑی ، اس کے بعد ہریانہ میں ہار کی ذمہ داری لیتے ہوئے سینئر لیڈر یوگیندر یادو نے پارٹی کے سبھی عہدوں سے استعفیٰ دے دیا، اب آپ پارٹی کے دو سنستھاپک ممبر منیش سسودیا اور یوگیندر یادو کا ایک دوسرے پر الزام در الزام کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ منیش سسودیا نے یوگیندر یادو کو جو خط لکھا ہے اس کا مضمون سوالوں کی ایک پوری فہرست کھڑا کررہا ہے۔فی الحال دونوں لیڈر میڈیا سے بات نہیں کررہے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ کچھ بڑا ہونے جارہا ہے۔ یہ اہم اس لئے بھی ہے کیونکہ اس کا اثرآنے والے ودھان سبھا چناؤ پر ب