اشاعتیں

دسمبر 17, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پاکستان میں چناو ¿ کی الٹی گنتی شروع!

لمبے طویل انتظار کے بعد آخر کار پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام چناو¿ کا پروگرام جاری کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں نے راحت کی سانس لی ہے ۔پاکستان الیکشن کمیشن نے جمع کو دیر رات چناو¿ پروگرام جاری کیا ۔اس سے کچھ گھنٹوں پہلے ہی سپریم کورٹ نے عام چناو¿ کیلئے افسروں کو الیکشن افسر کی شکل میں مقرر کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ملتوی کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو خارج کر دیا تھا ۔الیکشن کمیشن کی نوٹیفکیشن کے مطابق امیدوار ۰۲دسمبر تک اپنی نامزدگی داخل کرسکتے ہیں اور پرچہ داخل کرنے والے امیدواروں کے نام 23 دسمبر کو شائع کئے جائیں گے ان کے دستاویزوں کی جانچ 24 دسمبر سے 30 دسمبر تک کی جائے گی ۔پرچوں کو مسترد یا منظور کرنے کے الیکشن آفیسر کے پرچہ کے خلاف اپیل دائر کرنے کی تاریخ 3 جنوری ہوگی۔امیدواروں کی ترمیم شدہ فہرست 11 جنوری کو جاری کی جائے گی ۔امیدواری واپس لینے کی آخری تاریخ 12 جنوری ہے ۔اور پولنگ 8فروری کو ہوگی ۔بتادیں کہ پاکستان میں نئی حد بندی کے بعد نیشنل اسمبلی میں کل 336 سیٹیں ہوں گی ۔اس سے پہلے ان کی تعداد 342 ہوا کرتی تھی ۔پاکستا ں میں صوبائی اسمبلی ا

اپوزیشن سے آزاد پارلیمنٹ!

پیر کو اپوزیشن کے 78 ممبران پارلیمنٹ کو معطل کر دیا گیا تھا ،منگل کو ایک بار پھر لوک سبھا سے 49 ایم پی کو معطل کر دیا گیا۔پچھلے ہفتے 14 ایم کو ملا لیں تو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں معطل ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 141 پہونچ گئی تھی ۔ان سبھی ایم پیز کو موجودہ سیشن کی باقی میعاد کے لئے معطل کیا گیا تھا۔سرکار کا کہنا ہے کہ ان ممبران پارلیمنٹ نے اپنی مانگ کی حمایت میں پارلیمنٹ میں ہنگامہ کیا اور کام کاج میں رخنہ ڈالا ۔ہاو¿س میں کام کاج نہ ہونے دینے کی وجہ سے ان ممبران کو معطل کیا گیا۔حالانکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مودی سرکار من مانی پر اتر آئی اور وہ بے حد اہم بلوں کو بغیر بحث کے من مانے ڈھنگ سے پاس کرانا چاہتی ہے اس لئے وہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن ممبران کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔مودی سرکار اپوزیشن سے آزاد دیش کی بات اس لئے کرتی ہے تاکہ اپنی من مانی کر سکے ۔کانگریس نے اسے پارلیمنٹ اور جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے ۔اپوزیشن کا کہنا ہے سرکار اپوزیشن سے آزاد پارلیمنٹ چاہتی ہے تاکہ اہم بلوں کو من مانے طریقے سے پاس کرا سکے۔سرکار پارلیمنٹ کی حفاظت کو نظر ا نداز کر لوگوں کی توجہ بھٹکانے کا کام کررہی ہے

زبردست شکست سے کوئی سبق لے گی کانگریس!

حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں تین ریاستوں میں ملی زبرست شکست سے کانگریس کچھ سبق لے گی ؟ اس شکست کے بعد کانگریس نے ذمہ داری طے کرتے ہوئے تبدیلی شروع کر دی ہے ،ایسے اشارے آنے لگے ہیں اس کا آغاز مدھیہ پردیش سے ہوا ہے ۔پارتی کے سینئر لیڈر ہار کے اہم ذمہ دار کملناتھ اور دگوجے سنگھ کے دائرے سے باہر نکلتے ہوئے تیز ترار لیڈر جیتو پٹواری کو پردیش کانگریس تنظیم کی زمہ داری سونپی گئی ہے ۔جیتو پٹواری کی گنتی پردیش کانگریس کے ان لیڈروں میں ہوتی ہے جو کمل ناتھ ،دگوجے سنگھ کسی کے خیمے میں نہیں ہے ۔وہ پارٹی کی لیڈرشپ کے بھروسہ مند ہیں اور نوجوانوں کو پارٹی کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں اس کے ساتھ وہ سبھی لیڈروں کو ساتھ لیکر چلنے میں یقین رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے پردیش کانگریس میں نسلی تبدیلی کرتے ہوئے صدر کے عہدے کے لئے جیتو پٹواری پر بھروسہ جتایا ہے ۔مدھیہ پردیش میں بھاجپا کو موہن یادو کو وزیراعلیٰ بنانے کے بعد کانگریس پر تبدیلی کا دباو¿ بڑھ گیا تھا ۔کانگریس نے تبدیلی کے ساتھ ذات برادری کے تجزیوں کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کی ہے ۔جیتو پٹواری او بی سی برادری سے ہیں ۔وہی نیتا اپوزیشن کا عہد

ناخوش سی جی آئی بولے !الزام لگانا آسان ہے!

معاملوں کو درج فہرس کو لیکر پیدا تنازعہ سے ناخوش چیف جسٹس آف انڈیا ڈی ایس چندر چور کا کہنا ہے کے الزام لگانا اور خط لکھنا بہت آسانا ہے انہوںنے صاف کیا بیماری کی وجہ سے جسٹس اے ایس بوپنا کے دستیاب نا ہونے کی وجہ سے منی لانڈرنگ کے معاملے میںعاپ لیڈر ستیندر جین کی ضمانت عرضی کو جسٹس بیلا تریویدی کی بینچ کے سامنے درجہ فہرس کیا گیا 2 سینئر بار کے ممبر دشنت دوبے ،پرشانت بھوشن نے جسٹس چندر چور کو الگ الگ خطوط لکھ کر معاملوں کو سماعت کی فہرس میں مبینہ گڑبڑی کا معاملہ اٹھایا ہے اور ان کہنا ہے کے عرضیوں کو جس بینچ کے ذریعہ سنا جانا مقرر ہے اسے پلٹ کر بھیجا جا رہا ہے اس نا گذیںتنازعہ کے سلسلہ میں چیف جسٹس نے یہ رائے زنی کی ہے انہوںنے جین کی طرف سے پیش ہوئے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس میں دہلی کے سابق وزیر ستیندر جین کی ضمانت عرضی ہر جسٹس تریویدی کی بینچ کے ذریعہ کی جانے والی سماعت کو ملتوی کرنے کا درخواست کی تھی چیف جسٹس نے کہا متعلقہ جج ہی فیصلہ لیں گے اور الزام لگانا اور خط لکھنا بہت آسان ہے جسٹس اے ایس بھوپنا کے دفتر سے ایک خط آیا ہے جس میں وہ طبیت خرا

سمہا کے وزیٹرس پاس پر ہنگامہ !

پرتاپ سمہا کون ہے جن کے پاس سے لوک سبھا میں پہنچے تھے اور رنگین دھنوا چھوڑنے والے ؟بی جے پی ایم پی پرتاپ سمہا کا نام اب بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں ہمیشہ کےلئے درج ہو گیا ہے ۔بدھوار کو پارلیمنٹ میں گھسے 2 لڑکوں سے ملے ان کے پاس پر ایم پی کے ہی دسخت تھے ایک صحافی کی شکل میں چھوٹی عمر سے ہی اپنے خیالات اور اس کے بعد سال 2014 میں میسور کوڈاگو سیٹ سے لوک سبھا چناﺅں چیت کر ایم پی بننے تک انہوںنے کئی کارنامے کئے ہیں گزشتہ 9 برسو کی ایم پی شپ میں سمہا نے نا صرف اپوزیشن بلکہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے بھی ٹکر لی ہے جب کے بی جے پی جےسی ڈسیپلن حامی پارٹی میں ایسا ہونا عام بات نہیں ہے مئی میں بی جے پی کے راجیہ سبھا چناﺅ ہارنے پر پرتاپ سمہا نے بی ایس یدی یورپااور باسو راج بومئی کی سرکار پر انگلی اٹھائی تھی انہوںنے کہا کے پارٹی نے کانگریس کے لیڈروں پر کرپشن کے مبینہ الزامات کی جانچ نہیں کی ان کا الزام تھا کے بی جے پی کی ریاستی حکومت نے کسی معاہدہ کے تحت کانگریس لیڈروں کے خلاف کارروائی نہیں کی بدھ کو پارلیمنٹ میں جو ہوا اس نے پارلیمنٹ کی سکورٹی پر سوال کھڑے کر دئے اب ہر ستح پر جائزہ لیا جا رہا ہے اور

کیا بھاجپا میں پیڑھی تندیلی کا دور ہے ؟

بھوپال میں بھارتی جنتا پارٹی کے دفتر میں منگل کے روز پھر ایک بار ورکر چونک گئے 11 دسمبر کو بھی وہ اس وقت بھی حیرانی میں پڑھ گئے جب مدھیہ پردیش میں پارٹی نے اپنے وزیراعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کا اعلان کیا تھا ۔اس ایک دن پہلے بھی چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کو لیکر پارٹی اعلیٰ کمان میں سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔منگل کو راجستھان کی باری آئی کیوں کہ وہاں پر وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان ہونے والا تھا دفتر کے مہمان خانہ میں لگے ٹی وی پر راجستھان کی خبر آ رہی تھی تبھی وسندھرا راجے سندھیا نے بھجن لال شرما کے نام کا اعلان کر دیا بھوپال میں موجود لیڈر اور ورکروں نے کبھی ان کا نام تک نہیں سنا تھا ۔نیتا لوگ آپس میں سوال کر رہے تھے یہ کون ہے بھجن لال شرما ؟پہلے چھتیس گڑھ میں وشنو دیو کے ساتھ پھر مدھیہ پردیش میں موہن یادو اب راجستھان میں بھجن لال شرما کو وزیراعلیٰ بنا دیا ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے چونکانے والی سیاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب مہارت حاصل کر لی ہے ۔غیر مقبول چہروں کو بڑے عہدوں پر ذمہ داری سونپنے کا سلسلہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہی شروع کیا ہے وہ سیاسی مبصرین کی سمجھ سے باہر ہے