اشاعتیں

دسمبر 18, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

راہل گاندھی کا ’’بھوکمپ‘‘

کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے گجرات کے مہسانہ میں ایک بڑے عوامی جلسے کو مخاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی پر صنعتی گھرانوں سے کروڑوں روپئے لینے کا جو الزام لگایا ہے وہ سننے میں بھلے ہی سنسنی خیز لگتا ہو پر اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہی الزام دہلی کے وزیرا علی اروندکیجریوال دہلی اسمبلی میں بھی لگا چکے ہیں۔اسی الزام کوثابت کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے مناسب ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اسے بے بنیاد تک بتادیا ہے جبکہ کورٹ میں کیس کرنے والے وکیل بھی اب تک کوئی نئے حقائق نہیں لا پائے۔ کل ملاکر معاملہ یہ ہے کہ دو صنعتی گھرانوں کے یہاں سے ایک انکم ٹیکس ریٹ میں کئی دستاویز برآمدہوئے تھے۔ برآمد دستاویزات میں کئی سیاسی لیڈروں کو سال 2013ء میں رشوت دینے کی بات درج ہے۔ اس طرح کے خلاصے کوئی پہلی بار نہیں ہوئے ہیں۔ قریب دو دہائی پہلے جین بندھوؤں کی ڈائری میں بھی ایسے ہی کئی سیاسی لیڈروں کو پیسے دینے کا خلاصہ ہوا تھا۔ اس واقعہ نے بھارتیہ سیاست کو جھنجھوڑ کر بھلے ہی رکھ دیاتھا لیکن آخر کر کچھ بھی ثابت نہیں ہو پایا تھا۔اس سے بھی پہلے وشوناتھ پرتاپ سنگھ بوفورس معاملہ میں سورگیہ راجیو گاندھی پر رشوت لی

پے ٹی ایم کا استعمال کتنا محفوظ

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے نوٹ بندی کا اعلان کرنے کے بعد سب سے زیادہ فائدہ جن کمپنیوں کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے ان میں موبائل پیمنٹ کی سہولت دینے والی کمپنی ’پے ٹی ایم‘ بھی ہے لیکن کیا پے ٹی ایم 100 فیصد محفوظ ہے؟ کیا پے ٹی ایم پر بھروسہ کرنا صحیح ہے؟ آر ایس ایس سے متعلقہ تنظیم نے سوال اٹھائے ہیں پے ٹی ایم میں چین کی کمپنی کی حصہ داری کو لے کر منچ کا کہنا ہے کہ قاعدے کے مطابق کسی ہندوستانی کمپنی میں حصہ داری اس کمپنی کے شیئروں میں 50 فیصد سے کم ہے تو وہ بھارتیہ کمپنی نہیں ہے اس لئے ہم نے لوگوں کو پے ٹی ایم کو نہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سودیشی جاگرن منچ کے نائب کنوینر اشونی مہاجن نے بتایا کہ ہم نے پے ٹی ایم میں چینی کمپنی ’علی بابا‘ کی حصہ داری کی کئی رپورٹ پڑھی ہیں۔ ہم’ کیش لیس‘ نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ایسے میں ہمیں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ کوئی بھی بھارتیہ کمپنی کسی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ اپنا ڈاٹا شیئر نہ کرے۔ ہم پے ٹی ایم کا بائیکاٹ کریں گے۔ اب آتے ہیں پے ٹی ایم کی سکیورٹی کے مدعہ پر۔ پے ٹی ایم کا استعمال کرنے والے ہوشیار ہوجائیں۔ اس کا سسٹم فول پروف نہیں ہے۔ اس کے استعم

عالمی آتنک واد کا بڑھتا خطرہ

ترکی کی راجدھانی انقرہ میں روس کے سفیر آندرے کارلوف کا قتل ،جرمنی کی راجدھانی برلن میں ٹرک سے جان لیوا حملہ، سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں اسلامک سینٹر میں فائرننگ یہ واقعات آتنکواد کے بڑھتے دائرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آج یوروپ و کئی ملکوں میں اسلامی آتنک واد نے قہر ڈھا رکھا ہے۔ پہلے بات کرتے ہیں ترکی میں روسی سفیر آندرے کارلوف کے قتل کی۔ ترکی کی راجدھانی انقرہ میں روسی سفیر کا تب قتل کردیا گیا جب وہ ایک آرٹ نمائش دیکھنے گئے تھے۔ وہاں جب وہ اسٹیج پر تقریر کررہے تھے تو ایک نامعلوم شخص نے کارلوف کو نشانہ بنا کر اندھا دھند فائرننگ کی۔ گولی چلاتے ہوئے وہ اللہ اکبر،حلب کا بدلہ جیسے الفاظ نکال رہا تھا۔ سیریا میں روس کے رول کو لیکر ترکی میں اس کے خلاف احتجاج کے بعد یہ واقعہ سامنے آیا۔ گزشتہ سال نومبر میں ترکی میں سیریائی مہم میں شامل روس کا ایک جنگی ہوائی جہاز مارگرایاتھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بہت بڑھ گیا تھا۔روسی سفیر کے قتل کو لیکرترکی کے افسران نے منگلوار کو 6 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا ہے کہ ہمیں جاننا ہوگا کہ قاتل کو کس نے احکام دئے تھے

چائے والا ارب پتی اور درزی کروڑ پتی:واہ کیا بات ہے

نوٹ بندی کے بعد مختلف ایجنسیوں کی جانب سے کالے دھن کے کبیروں کے خلاف کی جارہی کارروائی سے روز روز نئے نئے چونکانے والے خلاصے ہورہے ہیں۔ایسے ایسے لوگوں سے اتنی موٹی رقم پکڑی جارہی ہے جس کا تصور بھی کرنا مشکل ہے۔مثال کے طور پر گجرات کے سورت شہر میں ٹھیلے پر چائے پکوڑے بیچنے سے اپنے کیریئر کی شروعات کرنے والے شخص کے پاس سے 400 کروڑ روپے کی جائیداد ملنا۔ وہیں چنڈی گڑھ میں لوگوں کے کپڑے سل کر گزر بسر کرنے والے درزی کے پاس بھی قریب1 کروڑ سے زیادہ جائیداد ملی۔ ذرائع نے بتایا کہ کشور بھجیا والاکے ٹھکانوں پر چار دن پہلے چھاپہ مارا گیا تھا۔ اس کے ٹھکانوں اور لاکروں کی تلاشی میں ابتک 14 کلو سونا، 1 کلو کے ہیرو جواہرات جڑے زیورات،180 کلو چاندی، 95 لاکھ روپے کے نئے 2000 روپے کے نوٹوں سمیت1.33 کروڑ روپے سے زیادہ کی نقید برآمد ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ غیر منقولہ جائیدادکی کاغذات ملے ہیں جن کی تخمینہ قیمت قریب400 کروڑ روپے ہے۔ انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ نے چنڈی گڑھ میں نجی بینک ایچ ڈی ایف سی کے کسٹمر چیف بھوپندر سنگھ گل کو گرفتار کیا ہے۔ ای ڈی نے بتایا کہ چنڈی گڑھ کے کپڑا کاروباری اندر پال مہاجن کے گھر سے 13 د

نئے فوجی سربراہ کی تقرری پر بے مطلب کا تنازع!\

فوجی سربراہ کے عہدے پر لیفٹیننٹ جنرل وپن راوت کی تقرری کو لیکر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اس طرح ایک بار پھر نریندر مودی سرکار اہم عہدوں پر تعیناتی کو لیکر اپوزیشن کی نکتہ چینی کی زد میں آگئی ہے۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں نے دو اعلی جنرلوں کو نظرانداز کرکے لیفٹیننٹ جنرل راوت کو فوجی سربراہ بنائے جانے کو فوج میں غلط روایت کی شروعات اور فوجی افسران کے حوصلہ پر منفی اثر ڈالنے والا فیصلہ بتایا ہے۔ ان پارٹیوں کا ماننا ہے کہ دو اعلی فوجی افسران کو درکنار کرکے لیفٹیننٹ جنرل راوت کو ترجیح دی گئی لہٰذا ان کی تقرری متنازع ہے۔ ہماری رائے میں یہ تنقید بھی صحیح نہیں اور اس سے بچنا چاہئے۔ نئے فوجی سربراہ کی تقرری و چناؤ سرکار کا خصوصی اختیار ہے۔ بیشک اس میں سینئرٹی کا دھیان رکھا جاتا ہے لیکن وہ اکلوتی آخری وجہ ہوتی ہے تو پھر سرکار کے فیصلے کی شاید ہی کوئی درکار ہی نہیں تھی۔ سینئر افسر کو اپنے آپ فوجی سربراہ مان لیا جاتا کیونکہ ایسا نہیں ہے اس لئے اپنے وقت میں ہر سرکار کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام پہلوؤں کو دھیان میں رکھتے ہوئے سب سے مناسب شخص کااس عہدے پر تقرر کرے۔ اپوزیشن کو سرکار کے کام کاج کی

سرکار کو راحت :نوٹ بندی میں دخل سے انکار

مودی سرکار کے نوٹ بندی کے فیصلے پر سرکار کو سپریم کورٹ نے راحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس پر دخل نہیں دے گی۔ نوٹ بندی کے فیصلے کو سرکاری خزانہ نیتی قراردیتے ہوئے سپریم کورٹ نے فی الحال اس میں دخل دینے سے انکارکردیا۔ نوٹ بندی کا مدعہ سیاسی اور سماجی طور سے اہم تو ہے ہی اب یہ قانونی طور سے بھی اہم ہو گیا ہے۔ گذشتہ نومبر کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹ چلن سے باہر کرنے کے بعد عوام الناس کے دل میں یہی سوال تھے جو شکروار کو سپریم کورٹ نے بھی اٹھائے۔ آخرکسی شہری کو پراپرٹی کے حق سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟ ایسا مناسب قانونی عمل سے کیا جاسکتا ہے لیکن مرکز ی سرکار کے ذریعے اٹھائے گئے قدم آئین اور قانون کی نظر میں کتنے ٹکتے ہیں اس پر عام لوگوں کے ساتھ ساتھ قانون کے جانکاروں کی نگاہیں بھی لگی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی ہدایت دی کہ نوٹ بندی سے متعلق مختلف ہائی کورٹوں اور دیگر عدالتوں میں چل رہے مقدموں کو اب صرف سپریم کورٹ ہی سنے گی۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو پانچ ممبری آئینی بینچ کے پاس بھیجتے ہوئے اس کے سامنے ٹیسٹ کے لئے 9 سوال رکھے ہیں۔ یہ فیصلہ بینچ نے اس لئے لیا ہے کہ نوٹ بندی کو

نوٹ بندی سے چھنتا روز گار

ملک میں معاشی معاملوں کے کئی ماہرین دعوی کررہے ہیں کہ نوٹ بندی سے آئندہ وقت میں ملک کے معاشی حالات سدھریں گے اور معاشیات کالے دھن سے پاک ہونے کی وجہ سے مضبوط ہوگی۔ بیشک ایسا ہو بھی سکتا ہے لیکن فی الحال تو ہمیں نوٹ بندی کی وجہ سے کئی دقتیں نظر آرہی ہیں۔اس کے برے نتائج سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ سرکار کی نوٹ بندی سے عام لوگوں و مزدوروں کے روبرو روزی روٹی کا مسئلہ کھڑا ہوگیاہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے مزدوروں کے بے روزگار ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ دہلی پردیش کانگریس کمیٹی نے مرکزی سرکار پر حملہ بولتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ نوٹ بندی کے فیصلے نے دہلی میں بے روزگاری بڑھا دی ہے۔ دہلی پردیش ادھیکش اجے ماکن نے کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے 48.63 لاکھ غیر منظم مزدوروں کا روزگار چھننے کی کگار پر ہے۔ ان پر بے روزگاری کی تلوار لٹک گئی ہے۔ ماکن نے کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے خوردہ بکری میں 88-90 فیصدی تک کمی آئی ہے۔ پیداوار میں 80 فیصدی تک کمی آئی ہے جس کے نتیجے میں نوکریوں میں کمی آنے کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی ہے۔ کالے دھن پر وزیر اعظم نریندر مودی کی ’’سرجیکل اسٹرائک‘‘ کے بعد 1857 کی میرٹھ کا صرافہ کاروبار

کشمیر میں 2016ء میں جوانوں پرحملوں کا اضافہ

سرجیکل اسٹرائک کے ڈھائی مہینے بعد ہی آتنکی تنظیم لشکر طیبہ نے دکشنی کشمیر کوپھرسے مضبوط قلع بنا لیا ہے۔ لشکر کے نیٹورک میں اضافہ سے سکیورٹی ایجنسیاں چوکنا ہوئی ہیں۔ ایجنسیوں کو جہلم ندی سے آتنکیوں کی گھس پیٹھ کی خبریں مسلسل مل رہی ہیں۔ جہلم سے لگے پمپور میں فوج کے قافلے پر ہوئے حملے سے گھس پیٹھ کی اطلاع کی تصدیق ہوتی ہے۔ آتنکی پمپور میں اس سے پہلے بھی سی آر پی ایف اور فوج کے قافلوں کو نشانہ بنا چکے ہیں یاد رہے کہ پمپور میں ہی اپ ضلع وکاس سنستھان کی عمارت پر آتنکیوں نے قبضہ کرلیا تھا جسے خالی کرانے میں سکیورٹی فورسز کو 60 گھنٹے لگ گئے تھے۔ نوٹ بندی کی وجہ سے آتنکیوں اور دہشت گردوں کو نقدی ملنا بند ہوگیا تھا۔ اس وجہ سے تشدد گڑبڑی اور آتنک وادی حملے کی وارداتوں میں بھی کچھ دنوں تک کمی آئی۔ لشکر نے اب کشمیر میں بینک لوٹ سے نقدی لوٹنے کی واردات کو انجام دینا شروع کردیا ہے۔ حوالہ نیٹ ورک بھی سرگرم ہوا ہے۔ اس کے ذریعے سے بھی اگروادیوں کو فنڈ ملنے لگے ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیوں کو ان پٹ ہے کہ آتنکیوں کے فدائین حملے اور بڑھ سکتے ہیں۔ اس سال اب تک 7 فدائین حملے ہوچکے ہیں۔ جموں و کشمیر میں سال 2016ء

راہل کی پی ایم سے ایسے وقت ملاقات کے معنی

دودن پہلے وزیر اعظم نریندرمودی پر شخصی بدعنوانی کے بہت سنگین الزام لگانے کے بعد کانگریس نائب صدر کی شکروار کو وزیر اعظم سے ملاقت کرنا اپوزیشن کو سمجھ نہیں آیا ہے۔ کہا یہ گیا ہے کہ راہل گاندھی کانگریس ڈیلی گیشن کے ساتھ پی ایم سے کسانوں کے قرضے معافی کے مدے پر ملے۔ راہل گاندھی نے کسانوں کی بدحالی کا مدعا اٹھاتے ہوئے ان کے قرض معافی کی مانگ کے سلسلے میں میمورنڈم وزیرا عظم کو سونپا۔ اس دوران مودی نے بھی سیاسی دشمنی سے اوپر اٹھ کر گرمجوشی دکھاتے ہوئے راہل کو ایسی ملاقاتوں کیلئے ملتے رہنے کو کہا۔ نوٹ بندی پر سنسد کے چارہفتوں کا وقت برباد کرنے کے بعد پی ایم اور کانگریس نائب صدر کی اس ملاقات پر کئی سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ نوٹ بندی پر بنے اپوزیشن اتحاد کا اس ملاقات میں غبارہ پھوڑدیا ہے۔نریندر مودی پر کانگریس کے ساتھ آئی 15 پارٹیوں میں سے کئی پارٹیوں نے کسانوں کے مدعے پر راہل کو اکیلے وزیر اعظم سے ملنے پر بیحد ناراضگی ظاہر کی ہے۔ اس کی وجہ سے اپوزیشن نیتاؤں نے راشٹرپتی بھون تک مارچ میں شامل ہونے سے انکارتک کردیا۔اس طرح موسم سرما کا سیشن ختم ہونے کے ساتھ ہی نوٹ بندی کے مدعے پر بنا اپوزیشن اتحاد ب

کالے دھن پر سیاسی پارٹیوں کو کھلی چھوٹ

پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے مودی سرکار نے نوٹ بندی کے معاملے میں سیاسی پارٹیوں کو بڑی راحت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ریونیو سیکریٹری ہنس مکھاڑھیا نے بتایا کہ 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ اپنے کھاتے میں جمع کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو انکم ٹیکس میں پہلے سے مل رہی چھوٹ جاری رہے گی لیکن نقد شکل میں یہ رقم 20 ہزار سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ ساتھ ہی چندہ دینے والے کی رسید اور اس کی صحیح پہچان بھی ضروری ہوگی۔ موجودہ قانون کے تحت کسی بھی سیاسی پارٹی کو ایک شخص سے ملنے والی رقم 20 ہزار سے زیادہ ہونے پر چیک یا ڈرافٹ سے ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر اس رقم پر بھی انکم ٹیکس دینا ہوگا۔ دراصل سیاسی پارٹیوں کے بینک کھاتے میں جمع رقم کو پہلے سے ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے۔ بھارت میں لگ بھگ 1886 رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں۔ سرکار نے بھرشٹاچار اور کالے دھن کا ایک سب سے بڑے ذریعے کو کالا دھن سفید کرنے کی چھوٹ دے دی ہے۔ آپ کسی بھی پارٹی کو لے لیجئے اس کے لئے چندے کے طور پر 20 ہزاررسیدیں 20 ہزار روپے کی کٹوانا مشکل نہیں ہے۔ اس طرح ایک جھٹکے میں 4 کروڑ روپیہ آجاتا ہے۔ اسے واپس دینے کے لئے ( کچھ فیصد چندہ کاٹ کر

سال میں کئی بار کہیں نہ کہیں 16 دسمبر دوہرایا جارہاہے

16 دسمبر آتے ہیں ہمیں وسنت وہار میں رونما نربھیا کانڈ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ 16 دسمبر 2012ء کانڈ آج بھی سبھی دیش واسیوں کو دہلا دیتا ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنے برس گزرنے پر بھی کچھ بھی نہیں بدلا۔ اجتماعی آبروریزی کی متاثرہ کے گھروالوں سے کئے گئے وعدے آج بھی ادھورے ہیں۔ نربھیا ہم شرمندہ ہیں ، تمہارے قاتل آج بھی زندہ ہیں، ایسا کوئی دن نہیں جاتا جب شام ہونے کے بعد خواتین کے ساتھ کوئی نہ کوئی واردات نہیں ہوتیں۔ بھارت سرکار کے اعدادو شمار کی مانیں تو عورتوں کے تئیں جرائم میں 18 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق چار سال پہلے کے مقابلے میں 10 ہزار سے زیادہ محض آبروریزی کے معاملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکانے والے حقائق یہ ہیں کہ سزا کی شرح محض 29 فیصدی پر آ ٹکی ہے۔ مطلب ایک سال میں 100 میں سے29 ملزمان کو ہی سزا ہوپا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نربھیا کانڈ کے بعد ہوئے تمام ہنگامے اور وعدے، اعلانات کے باوجود کیا اس طرح کی واردات کو روکا جا سکے ؟ نہیں بالکل نہیں۔ دیش کی راجدھانی ہونے کے باوجود خواتین جرائم میں کمی نہیں آئی ہے۔ 16 دسمبر کے سانحہ کے بعد دیش

ہائی وے پر شراب ٹھیکوں پر پابندی

قومی و صوبائی شاہراؤں کے کنارے شراب کی فروخت ممنوع کرنے کا عزت مآب سپریم کورٹ کا حکم لائق خیر مقدم ہے۔صحیح بات تو یہ ہے کہ شراب بندی کی بات توسبھی کرتے ہیں لیکن اسے نافذ کرنے میں کوئی بھی سرکار یا ریاستی حکومتیں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ وجہ صاف ہے کہ انہیں زیادہ فکر محصول آمدنی کی رہتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے اپنے تازہ فرمان میں صاف کردیا ہے کہ قومی شاہراؤں کے کنارے شراب کی دکانیں چلنے دینے کے پیچھے محصولات کی جائز وجہ نہیں ہوسکتی۔ فیصلے کا پیغام صاف ہے کہ انسانی زندگی اور پبلک ہیلتھ بالا تر ہے۔ پابندی ہائی وے کے 1500 میٹر دائرے میں نافذ ہوتی ہے۔ ہائی وے کے کنارے بنے موجودہ ٹھیکوں کے لائسنس کی بھی 31 مارچ کے بعد سے تجدید نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے ہائی وے کے کنارے لگے شراب کے اشتہار و سائن بورڈ ہٹانے کا بھی حکم دیا ہے۔ پچھلے ہفتے کورٹ نے سڑک حادثوں میں قریب ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی موت پر تشویش جتائی تھی۔ 7 دسمبر کو اس سے وابستہ عرضیوں پر فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے پنجاب سرکار کو سخت پھٹکار لگائی تھی۔ پنجاب سرکار نے سپریم کورٹ سے راحت کی مانگ کرتے ہوئے کہا ت