اشاعتیں

اپریل 30, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے سرکار کا مستقبل ؟

ایکناتھ شندے کی قیادت میں شیو سینا میں پچھلے سال ہوئی پھوٹ اور 16ممبران اسمبلی کی اہلیت پر سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے آنے والے فیصلوں کو لیکر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے ۔ بڑی عدالت کے امکانی فیصلے میں مہاراشٹر کی سیاست میں ایک اور زلزلہ آنے یا آنے کے بارے میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر اجیت پوار سرکار بچانے کیلئے کیا اس کی حمایت کریںگے؟ بحث وزیر اعلیٰ بدلنے اور دل بدل پھر شروع ہونے کو لیکر بھی چل رہی ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیو سینا کے لیڈ ر سنجے راو¿ت نے پچھلے دنوں پیش گوئی والے انداز میں کہا کہ یہ سرکار ٹکنے والی نہیں ہے اور اس کا ڈیتھ وارنٹ جاری ہو چکا ہے اب صرف ایک بات طے ہونی ہے کہ اس پرکون دستخط کرتا ہے ۔ اس سے کچھ دن پہلے سجنے واو¿ت نے کہا تھا کہ دل بدل کا دوسرا سیزن پھر شروع ہونے والا ہے ۔ حالاںکہ ایسی پیش گوئی صرف سنجے راو¿ت کی ہی نہیں کئی اور لیڈر بھی ایسا کہہ رہے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ سرکار کے کمزور ہونے دعوے کیوں کئے جارہے ہیں؟ اس کے پیچھے دو وجہ بتائی جا رہی ہیں۔ پہلی وجہ موجودہ سرکار کے سامنے موجود قانونی اڑچنیں ہیں اور دوسری

اروند کیجریوال کا شیش محل !

وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے سی ایم ہاو¿س کے تجدید اور تزئین کاری پر کروڑوں روپے خرچ معاملے نے طول پکڑ لیا ہے ۔ اس مسئلے پر جہاں راج نیواس و دہلی سرکار کے درمیان ٹھن گئی ہے وہیں بھاجپا نے اس اشو کو کیجریوال کو گھیرنے کا من بنا لیا ہے ۔اور بھاجپا کے ذریعے ڈاکٹر ہرش وردھن کی قیادت میں وزیر اعلیٰ کے رہائش گاہ کے قریب بے میعادی بھوک ہڑتال و دھرنا دینے کا فیصلہ کیا لیکن پہلے ہی دن بارش نے کھیل بگاڑ دیا اور وہ دھرنا شروع نہ ہو پایا اور ٹینٹ گڑے کے گڑے رہ گئے۔ بھاجپا کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعلی اپنے شیش محل جیسے بنگلے کو میڈیا کے ذریعے سے دہلی کے سبھی شہریوں کو دیکھنے کا موقع دیں ۔ بھا جپا پردیش صدر ویرندر سچدیوا نے کہاکہ دہلی سرکار ایک مبینہ کرپٹ سرکار ہے ۔جو صرف اپنے لیڈروں کے مفادات کی تکمیل اور ووٹ بینک بنانے کیلئے کام کرتی ہے۔اس حکومت نے تعلیمی انقلاب کی بات کی تھیتو وہاں اسکول روم گھوٹالہ کیا اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بات کریں تو میٹرو کے چوتھے فیز کو لٹکا دیا اور بس خریدنے میں گھوٹالہ کیا ، ہیلتھ سیکٹر میں کورونا دور تک گھوٹالے کئے اور دہلی کو محلہ کلینک جیسا چھلاوا دیا ۔ اسی طرح مفت بجلی پ

کرناٹک کی کرسی پر کون بیٹھے گا؟

کرناٹک میں چناو¿ کمپین میں مشکل سے دس گیارہ دن بچے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں گھمسان اپنے شباب پر ہے ۔ بی جے پی نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔پی ایم مودی ،راجناتھ سنگھ ،امت شاہ ،جے پی نڈا اور کئی دیگر مرکزی وزیر اور پارٹی کے نیتاو¿ں نے چناو¿ کمپین میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ وہیں کانگریس کی طرف سے پرینکاگاندھی واڈرا،ملکارجن کھڑگے ، جے بی ایف کی طرف سے ایچ ڈی دیو گوڑا کمپین کو رفتار دے رہے ہیں۔ زہریلے سانپ اور وش کنیا جیسے الفاظ بھی دیگر اشوز کو ہوا دے رہے ہیں۔ اے بی پی سی ووٹر کے تازہ سروے کے مطابق کرناٹک میں کانگریس نمبر ون ہونے جارہی ہے ۔اور اس کے سروے کے مطابق کانگریس کو 40فیصد ووٹ کے ساتھ اسے 107-119کے درمیان سیٹیں مل سکتیں ہیں۔ جبکہ بی جے پی کا ووٹ شیئر 35فیصد ہے اس کے حصے میں 74سے 86سییٹیں آ سکتی ہےں ۔ جبکہ جے ڈی ایس تیسرنمبر پر 17فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 23سے 25سیٹیں لے سکتی ہے۔ بھاجپا اور کانگریس کے سامنے جو چنوتیاں ہیں وہ ایک دم الگ ہیںدونوں پارٹیوں میں سے کسی کی بھی کوئی غلطی ان کے لئے سانپ اور سیڑھی کا کھیل بن سکتی ہے ۔ چناو¿ کے تیسرے دعویداد جنتا دل سیکولر بھاجپا اور کانگری

آنند موہن کی رہائی پر واویلا!

سابق ایم پی و بہار کے دبنگ لیڈر آنند موہن کی 15سال بعد رہائی پر نہ صر ف بہار بلکہ پورے دیش بھر میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ۔ گوپال گنج کے ڈی ایم جی کرشنا قتل کانڈ میں ملی سزا (14سال) سے ڈیڑھ سال سے زیادہ پچھلی اتوار کو سہرسہ جیل سے باہر نکلے سابق ایم پی آنند موہن نے اس بات سے سرے سے انکار کردیا کے حکمراں جماعت نے چناوی فائدے کیلئے قانون بدل کران کو جیل سے چھڑایا؟ یہ بالکل غلط بات ہے ۔ میری رہائی کی مخالفت کرنے والے دو اصل آئین اور کورٹ کو نظر انداز کررہے ہیں اور اس کی توہین کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ بھاجپا و جی کرشنیا کا پریوار آنند موہن کی رہائی کی یہی وجہ بتا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کی بنیادی روح ،یکسانیت کے حق پر مبنی ہے یہ خاص اور عام میں کوئی فرق نہیں کرتی ۔ ہر عادمی کو چاہے وہ ہارے کی جان کی قیمت کو ایک مانتی ہے ۔ سب کے لئے ایک ہی طرح کا انصاف اور قانون کی بات کرتی ہے۔ لیکن رسمی طور سے ایسا نہیں کہ کسی ریاست میں کوئی 9سال کی سزا کے بعد چھٹا ہے توکہیں 11یا 16سال میں رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک اتفاق نہیں ہے ۔سپریم کورٹ مسلسل ریاستوں کو اس میں یکسانیت لانے کی بات کہتی رہی ہے۔ دراصل گوپال گ