اشاعتیں

دسمبر 4, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

تو کہاں گیا کالا دھن

دیش کے سینٹرل بینک ریزرو بینک آف انڈیا نے کہا ہے کہ دیش میں 14.5 لاکھ کروڑ کے 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ میں سے12 لاکھ کروڑ روپے بینکنگ سسٹم میں آچکے ہیں اور امید کی جارہی ہے 30 دسمبر تک کی میعاد میں باقی رقم بھی بینکوں میں جمع ہوجائے گی۔ ویسے تو 31 مارچ 2017ء تک ریزرو بینک میں پرانی کرنسی جمع ہوسکتی ہے۔ ریزرو بینک کے اس بیان کے بعد یہ سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ جب ساری رقم بینک میں جمع ہوجائے گی تو کالا دھن کہاں چلا گیا اور کالے دھن کو باہر لانے کے لئے کی گئی نوٹ بندی کا خمیازہ بھارت کے عوام و غریب جنتا کو بلا وجہ ہی بھگتنا پڑا؟ اپنا دوسرا کرنسی جائزہ پیش کرتے ہوئے ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل نے کہا کہ پرانے نوٹ 14.5 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹوں میں سے 12 لاکھ کروڑ روپے واپس بینکنگ سسٹم میں لوٹ آئے ہیں اور باقی جلد جمع ہوجائیں گے۔ ارجت پٹیل نے ان سوالوں کو اپنی پریس کانفرنس میں ٹال دیا جن میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ بند کئے گئے سارے نوٹ تقریباً بینکوں میں واپس آچکے ہیں تو کیا اب اس کا مطلب ہے کہ معیشت میں کالا دھن نہیں ہے؟ بدھوار کو کرنسی جائزہ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد میڈیا کو خطاب کررہے تھے۔ ا

جے للتا کی املاک اور سیاسی جانشین کون ہوگا

تاملناڈو کی سورگیہ نیتا و وزیر اعلی جے للتا کی املاک کے مالکانہ حق کو لیکر قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ سوال اٹھنے لگے ہیں جے للتا کی وراثت کا وارث کون ہوگا؟ جانکاری کے مطابق جے للتا کے پاس 21.28 کلو سونا( ریاستی حکومت کے قبضے میں) اور 1250 کلو چاندی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس 2 ٹوئیٹا پراڈو ایس یو بی، ایمبسڈر کارڈ، مہندرا بولیرو اور کچھ دیگر گاڑیاں بھی تھیں۔ جے للتا کے گھر سے پولیس کو کچھ سال پہلے مارے گئے چھاپے میں 800 کلو چاندی ،28 کلو سونا ،750 جوڑی جوتے، 10500 ساڑیاں، 91 گھڑیاں اور 41 ایئر کنڈیشنر ملے تھے۔ جے للتا کا ہندوستانی سیاست میں اپنا قد ضرور تھا اس کا علم پہلے بھی تھا اور ان کی موت کے بعد بھی صاف ہوگیا لیکن اس طاقتور لیڈر کا سیاسی سفر کرپشن کے دھبے سے داغدار رہا۔ بھاجپا نیتا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے 1966ء میں آمدنی سے زیادہ وسائل سے املاک کو لیکر جے للتا کے خلاف مورچہ کھولا تو اس وقت کی ڈی ایم کے سرکار نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی تھی۔ جے للتا پر پانچ سال کے اندر 66 کروڑ کی ناجائز پراپرٹی بنانے کے سنگین الزام لگے تھے اور معاملہ نچلی عدالت سے

نوٹ بندی کے 30 دن بعد ۔۔۔؟

نوٹ بندی کو ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ نئے نوٹوں کی قلت میں رتی بھر بھی بہتری نہیں آئی ہے۔ 8 نومبر کو وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ جنتا 54 دن کے لئے میرا ساتھ دے۔ لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ان 54 دنوں میں سے30 دن گزرنے کے بعد بھی کرنسی کی قلت کم نہیں ہوئی ہے۔ بینک کھاتوں میں سیلری و بزرگوں کی پنشن آئے 8 دن ہوچکے ہیں لیکن لوگوں کوگھنٹوں لائنوں میں لگ کر بیرنگ لوٹنا پڑرہا ہے۔ بینکوں کو آر بی آئی کے ذریعے بیحد کم نقدی دی جارہی ہے۔ اگرچہ 100 لوگوں کو بھی آر بی آئی کے قواعد و ہدایت کے مطابق 24 ہزار روپے نکالنے دیا جاتا ہے تو برانچ کی نقدی کچھ گھنٹوں میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ بینک کھلنے سے پہلے ہی اس سردی میں لوگوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اے ٹی ایم کا بھی برا حال ہے۔ اکا دکا اے ٹی ایم چلتے ہیں اور گھنٹوں لوگوں کا قیمتی ٹائم برباد ہورہا ہے۔ ایک پرائیویٹ بینک کے سینئر افسر نے مجھے بتایا کہ نئی کرنسی اس تناسب میں نہیں چھپ رہی ہے جتنی اس کی مانگ ہے۔ ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل نے دعوی کیا تھا کہ ریزرو بینک اس بات کا خیال رکھ رہا ہے کہ نوٹ پرنٹنگ پریس اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کام کریں تاکہ نئے نوٹ

’’ونس اگین سنگھ از کنگ‘‘

’’سنگھ از کنگ ونس اگین‘‘ جسٹس جگدیش سنگھ کھیر بھارت کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے 44 ویں چیف جسٹس کے طور پر وہ اگلے سال 4 جنوری کو حلف لیں گے۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے منگل کو خط لکھ کر اپنے جانشیں کے طور پر جسٹس کھیر کے نام کی سفارش کردی ہے۔ جسٹس کھیر سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج ہیں۔ جسٹس ٹھاکر کی میعاد 3 جنوری 2017ء تک ہے۔ 64 سال کے جسٹس کھیر دیش کا چیف جسٹس بننے والے ملک کے پہلے سکھ ہوں گے۔ ان کی میعاد قریب 7 مہینے (27 اگست 2017 تک) ہوگی۔ جسٹس کھیر ایک انتہائی اہم ترین سیاسی دور میں یہ عہدہ سنبھالیں گے۔ کنٹروورشیل نیشنل جوڈیشیل کمیشن ایکٹ سے وابستہ معاملے کی سماعت جسٹس کھیر کی سربراہی والی پانچ نفری آئینی بنچ نے کی تھی۔ یہ ایکٹ سپریم کورٹ نے خارج کردیا تھا۔ جسٹس کھیر سرکارکے خلاف فیصلہ سنانے سے کتراتے نہیں ہیں۔ اروناچل پردیش میں اس سال جنوری میں صدر راج لگانے کا فیصلہ منسوخ کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے چیئرمین بھی جسٹس کھیر ہی تھے۔ سہارا چیف سبرت رائے کو جیل بھیجنے والی بنچ کا بھی وہ حصہ تھے۔ انہوں نے سینئر عدالت کی اس بنچ کی بھی سربراہی کی تھی جس میں حال ہی میں یکساں

الوداع اماں،تمہاری کمی پر نہیں کی جاسکتی!

75 دنوں سے اسپتال میں زندگی کی آخری جنگ لڑتی تاملناڈو کی وزیر اعلی جے جے للتا آخر کارہار گئیں۔ پیر کی رات ان کی دیہانت ہوگیا۔ تین دہائی تک تاملناڈو کی سیاست کا ستارہ رہی جے للتا کے جانے کے ساتھ ہی ایک دور کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ برہمن پریوار میں پیدا ہوئیں جے للتا اس ریاست کی سیاست کی بڑی طاقتور بن کر ابھری تھیں، جہاں آزادی سے بھی پہلے برہمن مخالف تحریک شروع ہوئی تھی۔ جے للتا نے ہمیشہ اپنی شرائط پر زندگی گزاری اور اپنی شرطوں پر سیاست کی اور اپنیوصیت پر ہی انہیں دفنایا گیا۔ساری عمر انہوں نے دراوڑ سیاست کی تھی اور براہمن واد کی مخالفت کی تھی۔ ذات سے برہمن جے للتا کا ہندو ریتی رواج سے دہا سنسکار نہیں کیا گیا بلکہ انہیں دفنانے کی دو وجہ بتائی جاتی ہیں پہلی انہوں نے دراوڑوں کی سیاست کی جنہیں ناستک مانا جاتا ہے۔ پریر ،انا دورے ، ایم جی آر سمیت سبھی بڑے دراوڑ نیتاؤں کو بھی دفنایا گیا۔ جے للتا کے آخری درشن کرنے کیلئے جس طرح لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاملناڈو کی جنتا میں ان کے لئے کتنا پیار اور احترام تھا۔ کیا شاندار انتم یاترا رہی۔ جے للتا کی اچانک موت نے تاملناڈو کی سیاست می

بھارت میں کتنی محفوظ ہے کیش لیس ڈیجیٹل ایکونامی

ایک طرف بھارت سرکار ڈیجیٹل انڈیا اور کیش لیس ایکونامی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے جبکہ دوسری طرف سائبر سکیورٹی پر خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ بینکوں میں اکاؤنٹ ہیک ہورہے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کلون ہورہے ہیں۔ میں اپنی ہی آپ بیتی بتاتا ہوں۔ تقریباً تین برس پہلے آئی سی آئی سی آئی بینک میں میرے کھاتے (سیونگ) میں سے 40 ہزار روپے کسی انجانے شخص نے نکال لئے تھے۔ بنگلورو سے اس نے میرے اکاؤنٹ سے 5 ہزار روپے کی 8 بار ٹرانزیکشن کر یہ روپیہ اپنے کھاتے میں کرلیا۔ یہ کام بینک کی ملی بھگت سے ہوا ہوگا۔ میں نے مجبوراً ریکوری کا کیس کنزیومر کورٹ میں ڈال رکھا ہے جو ابھی بھی چل رہا ہے۔ مجھے یہ پیسے ابھی تک نہیں ملے۔ حال ہی میں کوٹک مہندر بینک کریڈٹ کارڈ کھاتے میں سے کسی نے 5 ہزار روپے نکال لئے۔ میں نے بینک کو بار بار درخواست کی لیکن اس نے ہاتھ کھڑے کردئے اور مجھے یہ پیسہ دینا پڑا۔ جب ہمارا سائبر سسٹم اتنا لچر ہو تو ڈیجیٹل انڈیا اور کیش لیس ایکونامی کتنی کامیاب ہوگی ،کہنا مشکل ہے۔ نوٹ بندی کے بعد نقدی لین دین کو بڑھاوا دینے کی سرکار کی کوششوں کے درمیان ماہرین کی وارننگ پر توجہ دینی ہوگی۔ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کو محض 6 سیکنڈ

کیا کسی نے این آر آئی کا بھی سوچا ہے

بیشک حکومت اور ریزرو بینک دن رات نئی کرنسی کی سپلائی کرنے کے لئے زور لگا رہے ہیں لیکن 28 دن ہونے کے بعد بھی اے ٹی ایم اور بینکوں کے باہر لائنیں بند نہیں ہورہی ہیں۔ کل ہمارے ایک ملازم نے 24 ہزار روپے اپنے کھاتے سے نکلوائے۔ اسے 22 ہزار تو 2 ہزار کے نوٹوں کی شکل میں ملے باقی 2 ہزاراسے 10 کے سکوں کی تھیلیوں میں ملے۔ بینک بھی پریشان ہے وہ اکثر اپنے باہر لکھ کر لگا رہے ہیں بینک میں پیسہ نہیں ہے، بیکار لائن میں کھڑے نہ ہوں۔ ایک اور پریشانی دیکھنے کو مل رہی ہے لوگوں کو جو پیسے مل رہے ہیں وہ انہیں خرچ کرنے سے پرہیز کررہے ہیں۔ نوٹ بندی سے لوگوں کی حالت ہی بدل گئی ہے۔ سیلری ملی ہوگی لیکن جیب میں نوٹ نہیں ہوں گے۔ بھلے دھن پتی ہو، کھاتے میں پیسہ ہو مگر دماغ میں پریشانی ہے کہ نقدی ملے تو اسے بچا کر گھر میں محفوظ رکھیں۔ یکم نومبر بنام یکم دسمبرکا فرق یہ ہے کہ بھارت کے شہری سے آج غیر اعلانیہ طور پر یہ قانونی آئینی حق چھنا ہوا ہے کہ بینک کو اس کا پیسہ دینے کو مجبور نہیں کرسکتا۔ اپنے ہی پیسے پر اس کا آج حق نہیں ہے۔ وہ کینسر سے مر رہا ہو، شوگر کا مریض ہو، امراض قلب کا مریض ہو ،دمے سے متاثر ہو ،بینک اسے

ہزاروں کروڑ کا خلاصہ کرنے والے

محکمہ انکم ٹیکس نے ستمبر میں ختم آمدنی انکشاف یوجنا کے تحت ممبئی کے ایک خاندان کے 2 لاکھ کروڑ روپے اور احمد آباد کے تاجر کے کنٹروورشیل طریقے سے 13860 کروڑ روپے کے اعلان کو خارج کردیا ہے۔ اس درمیان سرکار نے آئی ڈی ایس کے تحت ایک مہینے کی میعاد پر اعلان کردہ کالہ دھن کو ترمیم کر 67382 کروڑ روپے کردیا ہے۔ پہلے اس کے 65250 کروڑ روپے ہونے کی بات کہی گئی تھی۔ 13860کروڑ روپے کے کالے دھن کا انکشاف کرنے والے کاروباری مہیش شاہ کو سنیچر کی شام ایک چینل کے اسٹوڈیو سے گرفتار کرلیا گیا۔ کئی دنوں سے مفرور بتائے جارہے پراپرٹی ڈیلرشاہ نے دعوی کیا کہ یہ پیسہ ان کا نہیں ہے۔ شاہ نے آمدنی اعلان کے آخری دن 30 ستمبر کو قریب 13860 کروڑ روپے کے کالے دھن (سرسری نقدی) کا اعلان کر چونکا دیا تھا۔ کئی دنوں کی گمشدگی کے بعد سنیچر کی شام اچانک ای ٹی وی گجراتی کے اسٹوڈیو میں پہنچے۔ اسی دوران پولیس اور محکمہ انکم ٹیکس نے ڈرامائی انداز سے اسٹوڈیو سے انٹرویو کے درمیان ہی انہیں دبوچ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پیسہ کئی لوگوں کا ہے۔ شاہ نے کہا مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ بہت جلد سبھی لوگوں کے نام کے بارے میں انکم ٹیکس محکمے کو

بہار کے چانکیہ نتیش نے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے

نوٹ بندی پر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے وزیراعظم نریندر مودی کی اقتصادی سرجیکل اسٹرائک کی کھلی حمایت کرکے نئی سیاسی بحث اور نئے سیاسی تجزیئے بننے کے دور کو ہوا دی ہے۔ حالانکہ نتیش نے این ڈی اے سے قریب کے سوال پر چھڑی بحث کی صفائی دیتے ہوئے نوٹ بندی کو اشو بیس حمایت بتا کر اٹھ رہی قیاس آرائیوں پر لگام لگانے کی کوشش کی ہے۔دراصل نتیش نے نوٹ بندی کے بہانے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی کی حمایت سے بنی اتحادی سرکار نے اپنے ایک سال کے عہد میں ملے جلے اشارے دئے ہیں۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ نتیش لالو کے دباؤ میں کام کررہے ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کے نام پر نتیش پر سنگین سوال اٹھے ہیں۔ برینڈ نتیش راڈار پر رہا ہے اور ان پر لالو کا اثر دیکھا گیا ہے۔ نتیش کمار کو نوٹ بندی کی شکل میں ایسا موقعہ دے دیا کہ جب وہ بڑا سندیش دے سکتے تھے ایسے میں انہوں نے اپنی اتحادی پارٹی سے الگ سخت موقف اپنایا۔ اس سے نہ صرف لالو پرساد کو انہوں نے پیغام دے دیا بلکہ دباؤ میں نہ جھکنے والے نیتا کی حیثیت سے اپنی ساکھ بچانے کی پہل کی ہے۔ دراصل بہار کی سیاست میں نتیش کمار کا اپنا کوئی کور

منوج تیواری نے پہن لیا ہے کانٹوں کا تاج

پچھلے کئی سال سے جاری طویل سسپینس کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اعلی کمان کے ذریعے مشرقی دہلی سے ممبر پارلیمنٹ منوج تیواری کو دہلی بھاجپا کی باگ ڈور جس اعتماد کے ساتھ سونپی گئی ہے اس سے ان کے لئے چنوتیاں کم نہیں ہیں۔ بھاجپا لیڈر شپ کے ساتھ ساتھ دہلی بھاجپا کے نئے پردھان و بھوجپوری گلوکار منوج تیواری کے سامنے اس فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی بھاری چنوتی ہے۔یہ خطرہ زیادہ ہے کہ کہیں فروری 2015ء کے اسمبلی چناؤ کے ٹھیک پہلے وزیر اعلی کے امیدوار اعلان کی گئیں کرن بیدی کی طرح منوج تیواری کا بھی حال نہ ہوجائے۔10 سال سے تینوں میونسپل کارپوریشنوں میں اقتدار پر قابض بھاجپا کو محض چار مہینے بعد ہونے والے دہلی میونسپل کارپوریشنوں میں جتانے کی تیواری کے سامنے اپنے کیریئر کی سب سے بڑی چنوتی ہے وہ یہ ہے کہ دوبارہ کمل کھلانا اور پچھلے ریکارڈ کو دوہرانا ان کے لئے بڑا ٹارگیٹ ہوگا۔ فی الحال یہ اتنا آسان نظر نہیں آرہا ہے۔ غیر منقسم کارپوریشن میں 2002ء میں ہوئے میونسپل کارپوریشن چناؤ کانگریس نے جیتکر 134 میں سے108 سیٹیں لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سے باہر کردیا تھا لیکن 2007ء کے ایم سی ڈی چناؤ میں ڈاکٹرہر