اشاعتیں

جنوری 13, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دامنی کی قربانی بیکار نہیں تھی آہستہ آہستہ تبدیلی آنے لگی ہے

6 دسمبر کی رات کو وسنت وہار علاقے میں بدقسمت دامنی عرف انامیکا کی قربانی ضائع نہیں جانے دی جائے گی یہ تصوران ہندوستانیوں نے اسی دن کر لیا تھا۔ ایک مہینے سے زیادہ کا وقت ہوچکا ہے۔ کڑاکے کی سردی میں، بارش میں، اولوں میں آج بھی جنترمنتر پر انصاف کے لئے لو جل رہی ہے۔ پورا دیش ان بہادر لڑکوں کو سلام کرتا ہے۔ انہوں نے پولیس کے ڈنڈے کھائے، پانی کی بوچھاریں جھیلیں لیکن ان کا حوصلہ نہیں گرا۔ مظاہرین کی تعداد بیشک کم ہوگئی ہے لیکن ایک مہینے بعد بھی ان کا حوصلہ بلند ہے۔ جنترمنتر پر22 دسمبر سے مسلسل مظاہرہ کررہے لڑکوں کا کہنا ہے کہ ہمارے اندر اتنی ناراضگی ہے جب تک سسٹم نہیں بدلتا ہماری تحریک جاری رہے گی۔ طالبعلم سدھانشو نے بتایا کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے لیکن متاثرہ کا درد اور پولیس کی ذیاتی ہمیں یہاں کھینچ لاتی ہے۔ جب تک قانون نہیں بنے گا ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ پچھلے ایک مہینے میں جو تبدیلی آئی ہے وہ صحیح سمت میں صحیح قدم ہے۔ راجدھانی میں 5 فاسٹ ٹریک عدالتیں بن چکی ہیں۔ ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے تو دو برس پہلے تین سال کی بچی سے بدفعلی اور اس کے قتل کے معاملے کو محض 10 دنوں میں ہی نپٹا کر

ہر خاص و عام کیا پولیس سکیورٹی کا حقدار ہے؟

ویسے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے تھی لیکن جب سرکار انتظامیہ لاپرواہ ہوجائے تو پبلک سیفٹی کے لئے عزت مآب عدالت کو پوچھنا ہی پڑا کے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی سمیت تمام ایسے اشخاص کو بھی پولیس سکیورٹی کیوں دی جارہی ہے جن کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ جسٹس جی ایس سنگھوی کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے کہا کہ آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں یا ایسے اشخاص کو جن کی زندگی کو خطرہ ہو، پولیس سکیورٹی فراہم کی جانی چاہئے۔ ججوں نے کہا کہ صدر جمہوریہ ، نائب صدر، وزیر اعظم، لوک سبھا اسپیکر، چیف جسٹس اور آئینی عہدوں پر فائض افراد اور ریاستوں میں ایسے ہی ہم منصب عہدوں پر فائض افراد کو سکیورٹی دی جاسکتی ہے لیکن ہر عام و خاص شخص کو لال بتی کی گاڑی اور سکیورٹی کیوں؟ صورتحال یہ ہے کہ مکھیا اور سرپنچ بھی لال بتی کی گاڑی لیکر گھوم رہے ہیں۔ جج صاحبان نے ریاستوں میں لال بتی کی گاڑیوں کے بیجا استعمال کو لیکر دائر مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کے دوران یہ احکامات دئے۔ ججوں نے کہا آخر سرکار اس سسٹم کو ختم کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرکے یہ واضح کیوں نہیں کرتی کے لال

پاکستان میں مولاناقادری ، عدلیہ اور پاک فوج کی اصل نیت کیا ہے؟

پاکستان کے اندرونی حالات اور تجزیئے اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ سمجھنا مشکل ہورہا ہے۔ اس پڑوسی دیش میں آخر ہوکیا رہا ہے؟ ایک طرف بھارت سے ہندوستانی جوانوں کے سر قلم کرنے کے واقعے کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی بنی ہوئی ہے اورمستقبل کو لیکر تشویش پائی جاتی ہے۔ وہیں راتوں رات پاکستان کی سیاست میں ایک مولوی کا قومی منظر پر آنا اور ایک معمول کی طرح پورے دیش کو ہلا دینا، رہی سہی کثر پاکستان کی سپریم کورٹ نے پوری کردی ہے۔ اب تو یہ سوال پوچھا جارہا ہے کیا پاکستان میں اسی طرح کا انقلاب آئے گا جیسے عرب ممالک آیا ہے؟ پاکستان کیا ’عرب بسنت ‘کا نیاپتہ ہے؟ منگلوار کو راجدھانی اسلام آباد میں صوفی اور مذہبی پیشواؤں نے مذہبی لیڈر طاہرالقادری کی قیادت میں سرکار کے استعفے کی مانگ کو لیکر زبردست مظاہرہ کیا۔ پاکستان کی سڑکوں پر ایک انقلابی ماحول دیکھنے کو ملا۔ راتوں رات کینیڈا سے 8 سال بعد آئے مولانا طاہرالقادری کے پیچھے لاکھوں پاکستانی کیسے لگ گئے، یہ اپنے آپ میں ایک معمہ کا موضوع ہے۔ یہ مولانا جو آیت اللہ خمینی کی یاد دلاتے ہیں پچھلے 8 سالوں سے کینیڈا میں تھے۔ پڑھے لکھے ،دانشور دنوں سنی۔ شیعہ اپیل

پاکستان کے اکسانے کے پیچھے آخر اصل منشا کیا ہے؟

دراصل ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کے پاکستان بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر بڑھ رہی کشیدگی کو کم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ان کا کوئی بڑا گیم پلان ہے جس کا میندھر سیکٹر میں دو ہندوستانی فوجیوں کا سر قلم کرنا ایک حصہ ہے۔اگرایسا نہ ہوتا تو کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے کے لئے مشکل سے ہوئی فلیگ میٹنگ سے ٹھیک ایک دن پہلے جنگ بندی کی پھر سے خلاف ورزی نہ کرتا۔ یہ ہی نہیں بھارت نے پاکستان پر تازہ الزام لگایا ہے کے دونوں ملکوں کے درمیان برگیڈیئر سطح پر ہوئی فلیگ میٹنگ کے بعدسے اب تک وہ پانچ بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے لہٰذا پیر کو فلیگ میٹنگ کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ ہی نکلا یعنی کچھ بھی نہیں۔ کوئی 25 منٹ تک چلی میٹنگ میں دونوں فریقین اپنی اپنی بات رکھتے رہے لیکن اس میٹنگ میں ہندوستانی نمائندہ وفد نے پاکستانیوں کو بخشا نہیں اور ان کی للو چپو نہیں کی۔ ہندوستانی فوج کی جانب سے بات کررہے برگیڈیئر ایم ایم سمترا نے پاکستان سے سیدھا پوچھا کے کیا بارڈر پر پاک فوج کی بجائے کوئی اور نگرانی کررہا ہے؟ ہندوستانی برگیڈیئر کے اس سوال کو سن کر پاکستانی افسر بغلیں جھانکنے لگے۔ برگیڈیر سمترا نے ن

صنعت کاروں نے تومودی کو اپنا مستقبل کا لیڈر مان لیا

اگر بھارت کی صنعتی دنیا کو ہندوستان کا اگلا وزیر اعظم چننا ہوتو ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو ہی دیش کا اگلا وزیر اعظم چنیں۔ جس طریقے سے بڑے صنعتکاروں نے نریندر مودی کی تعریف میں پل باندھے ،ایسی تعریف وہ بھی کھل کر پبلک اسٹیج پر پہلے کبھی شاید کسی لیڈر کی ہوئی ہو۔ مسلسل تیسری بار گجرات اسمبلی چناؤ جیتنے والے نریندر مودی کو ’’انڈیا اِنک‘‘ نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ مودی کی وائبرینٹ گجرات کانفرنس میں شامل ہوئے ملکی و غیر ملکی سرکردہ صنعتکاروں نے ان کے ترقی کے ماڈل کو سب سے بڑھیا مانتے ہوئے ان کی لیڈر شپ کی تعریف کی ہے۔ ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین مکیش امبانی نے جہاں نریندر بھائی کو ایک دور اندیش لیڈر بتایا وہیں ان کے چھوٹے بھائی اور اے ڈی اے جی کے چیف انل امبانی نے تو مودی کا موازنہ مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل سے کردیا ہے۔ انل امبانی نے کہا کہ جس طرح مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل نے گجرات کو چمکایا، اسی لائن میں نریندر مودی آج کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا ارجن کی طرح مودی کی نگاہیں ہمیشہ مقصد پانے پر لگی رہتی ہیں۔ وہ پہلے مقصد کو پاتے ہیں اور پھر پورا کرنے میں

دنیا کے سب سے بڑے دھارمک یگیہ مہا کنبھ کا آغاز

دنیا کے سب سے بڑے دھارمک پروگراموں کے انعقاد میں سے ایک مہا کنبھ کے شاہی اشنان کا آغاز ہوچکا ہے۔ پیر کو سوریہ ادے ہونے کے ساتھ ساتھ ہی شاہی اشنان کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پورے 147 برسوں کے بعد بنے درلبھ گریہی سنیوگ پر الہ آباد سنگم میں اشنان کے لئے دنیا بھر سے شردھالوؤں ، سادھوسنتوں کے ساتھ ریلا امڑ پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایتوار کی دیر رات تک میلہ زون میں 25 لاکھ سے زیادہ افراد پہنچ چکے ہیں۔ میلہ انتظامیہ پہلے شاہی اشنان مکرسنکرانتی پر تقریباً سوا کروڑ شردھالوؤں کے سنگم اشنان کا امکان ظاہرکررہا ہے۔ پیر کو بھگوان بھاسکر پہلی کرن کے ساتھ شردھالوؤں کی بھیڑ گنگا جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر امڑ پڑی۔الہ آباد میں صدی کے دوسرے مہا کنبھ میں شاہی اشنان اپنی الگ طرح کے نظارے پیش کررہا ہے۔ سب سے پہلے مہانروانی اکھاڑے کے سنتوں نے شاہی اشنان کیا ۔ اس کے فوراً بعد نکھی اکھاڑے کے سنتوں نے اشنان کیا۔ ان کے لوٹنے کے ساتھ ہی آنند اکھاڑا ، اٹل اکھاڑا کے سنت اشنان کے لئے پہنچے۔ سرکاری اندازے کے مطابق 1 کروڑ10 لاکھ شردھالو سنگم میں پوتر ڈبکی لگا کر موکش کی کلپنا کریں گے۔ دیوتاؤں سے امرت کا گھڑا چھیننے ک

گڈکری کی غیر دوراندیشی اور موقعہ پرست پالیسی سے جھارکھنڈ میں یہ دردشا ہوئی

بھاجپا اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا میل پوری طرح سے اقتدار کے لئے ہوا تھا اور اس بے اصولی اور پالیسیوں کے سمجھوتے کا یہ ہی حشر ہونا تھا۔ جے ایم ایم اور بھاجپا کے درمیان پچھلے کئی دنوں سے تکرار جاری تھی۔ جے ایم ایم نیتا اور ارجن منڈا سرکار میں نائب وزیر اعلی رہے ہیمنت سورین نے حمایت واپسی کی کئی وجوہات گنائی ہیں۔ دراصل یہ ایک محض یا سب سے بڑا اشو اقتدار کے بٹوارے کا رہا۔ سورین کا کہنا ہے اتحاد اس بنیاد پرہوا تھا کہ دونوں پارٹیاں باری باری سے سرکار سنبھالیں گی۔ ارجن منڈا ستمبر2010ء میں جے ایم ایم کی حمایت سے ریاست کے وزیر اعلی بنے تھے اب سورین کی باری ہے لیکن بھاجپا اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس نے سرے سے ہی اس بات کو مسترد کردیا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان 28-28 مہینے کا کوئی سمجھوتہ بھی ہوا تھا۔ جب دیش کا موجودہ سیاسی ماحول بھاجپا کے موافق مانا جارہا ہو تب دوریاستوں میں اس کی سرکار گرجائے یا گرنے کے دہانے پر ہو اس کے برے دن ہی کہا جائے گا۔ منڈا سرکار تو گر چکی ہے کرناٹک میں جگدیش شیٹر سرکار کے عدم استحکام میں گھرنے سے اگر کچھ صاف ہے تو وہی کے قومی پارٹی کی شکل میں اس پارٹی کا مستقبل اچھ

ایسے نابالغوں سے بچاؤگے... جے جے ایکٹ کی دفعات بدلو

دہلی میں 23 سالہ فیزیوتھیراپسٹ طالبہ کے ساتھ بدفعلی کے بعد جب ملزم گرفتار ہوئے تو کہا گیا تھا کہ طالبہ پر سب سے گھناؤنی حرکت کرنے والا ملزم17 سال کا ہے۔ اس کے بارے میں بتایا گیا ہے وہ ساڑھے سترہ سال کا ہے اور قصوروار پائے جانے پر بھی وہ چھوٹ جائے گا۔ اسے نابالغوں کے ساتھ اسپیشل ہوم میں رکھا جائے گا اور نہ ہی اسے جیل میں بھیجا جاسکتا ہے۔ جیسے جیسے دہلی آبروریزی کے حقائق سامنے آرہے ہیں یہ مانگ زور پکڑتی جارہی ہے کم سے کم خواتین کے خلاف جرائم میں نابالغ کی عمر حد کو گھٹا دیا جانا چاہئے ۔دراصل اس گھناؤنے معاملے میں پکڑے گئے مبینہ نابالغ نے سب سے زیادہ بربریت دکھائی تھی۔ ویسے ابھی اس کی اصلی عمر کو لیکر تحقیقات و ٹیسٹ جاری ہیں۔ اسی ماحول میں ہوئی پولیس ڈائریکٹر جنرلوں اور ہوم سکریٹریوں کی میٹنگ میں تجویز پیش کی ہے کہ اطفال مجرم کے زمرے میں آنے کی عمر حد18 سال سے گھٹا کر16 کردی جائے ۔ مرکزی وزیر خواتین و اطفال کرشنا تیرتھ بھی اس مطالبے کی حمایت کررہی ہیں۔ قانون کے واقف کاروں کے درمیان ضروری اس مسئلے پر دو رائے ہے۔ ظاہر ہے یہ معاملہ سنگین ہے۔ ابھی دیش میں18 سال سے کم عمر کے بچوں کو نابا

اندھیر نگری چوپٹ راجہ، ’’ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا‘‘

دیش کی جنتا میں ہائے توبہ مچی ہوئی ہے، لوگ سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں، فوج میں بغاوت کی صورتحال بنی ہوئی اور یہ یوپی اے سرکار اور کانگریس کی صحت پر اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ دہلی گینگ ریپ کیس میں آج بھی جنتا جنترمنتر پر بیٹھی ہے۔ عدالتیں سخت رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی کے چلتے سرکار نیا دوز دین کو تیار ہے۔ رہی سہی کثر پونچھ کے مینڈھر سیکٹر میں دو ہندوستانی جوانوں کے پاکستانی فوج کے ذریعے سرقلم نے پوری کردی ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے یوپی اے سرکار ان کے تھنک ٹینک کو لگتا ہے کہ دیش بھر میں جو بھی تحریکیں چل رہی ہیں ان کے پیچھے درپردہ طاقتوں کا ہاتھ ہے جو اس سرکار اور کانگریس پارٹی کو کمزور کرنا چاہتی ہیں اور ساری تحریک سیاسی ہے۔ سرکار کو یہ اپوزیشن کی سوچی سمجھی چال لگ رہی ہے کہ اسے بدنام کرنے کے لئے پارٹی کے تھنک ٹینک کا یہ ماننا ہے کہ بھلے ہی دکھائی دینے میں ایسا لگ رہا ہو جیسے یہ عام آدمی کا غصہ ہے اور بغیر کسی کے بلاوے پر سڑک پر آرہا ہے، لیکن ایسا نہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی بنا کر ملکی و غیر ملکی طاقتیں ایسا کروارہی ہیں۔ ایک سینئر کانگریسی پالیسی ساز کا کہناکے

سرکار بیشک بربریت آمیز حرکت کو طول نہ دینا چاہے لیکن فوج میں بغاوت کے حالات

پاکستان یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ حکومت ہند میں کوئی دم نہیں ہے۔ وہ کچھ بھی کرلے یہ یوپی اے سرکار معاملے کو رفع دفع کرنے میں لگ جائے گی اور جنگ بندی کو نظر انداز کرنا اور کنٹرول لائن پر خلاف ورزی کر پاکستانی فوج نے تو بربریت کی حدیں ہی پار کردیں تو اب اسلام آباد نے صرف اس واردات سے پلہ جھاڑنے کی کوشش کی ہے لیکن اقوام متحدہ سے جانچ کرانے کا داؤ چل کر معاملے کو بین الاقوامی رنگ دینے کی پرانی عادت کا بھی ثبوت دے رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کرکٹ سیریز ختم ہونے کے فوراً بعد اور ویزا پالیسی کو پائیدار بنانے اور آسان کرنے کے پس منظر میں سرحد پار سے ہوئی یہ بربریت بیشک نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی دہلی ۔لاہور بس سیوا شروع کرنے کے بعد کارگل جنگ ہوئی تھی۔ بیشک اب حکومت ہند اس واقعے کو زیادہ طول دینے کے حق میں نہ ہو لیکن فوج میں اپنے ساتھیوں کے سر قلم کردینے کے واقعے نے بھاری ناراضگی پیدا کردی ہے۔ اپنے دو ساتھیوں کے سر قلم کے معاملے کے بعد راجپوتانہ رائفلز کے ایک ہزار جوانوں نے اس دن کھانا پینا چھوڑدیا اور وہ بہت غصے میں ہیں۔ یونٹ کے کمانڈنگ افسر نے ان ناراض جوانوں کو سمجھانے کی کوشش کی، ا