آزادی پر لگام لگانا !
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بلاوجہ حراست کو لیکر قانون سخت ہے اور یہ ایسے کسی شخص کی شخصی آزادی پر روک لگاتے ہیں جسے بغیر مقدمے کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے ۔اس لئے مقررہ پروسیس کا سختی سے عمل کیا جا نا چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے ایک شخص کی رہا ئی کا حکم دیتے ہوئے یہ رائے زنی کی تھی ۔ جس کی حراست حکام کے ذریعے اس کی اپیل پر غور کئے بغیر دو مرتبہ بڑھا دی گئی تھی۔ جسٹس انیردھ باس ،جسٹس سودھانشو پھلیا کی بنچ نے جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے اس حکم کو منسوخ کردیا جس میں پرکاش چندر یادو عرف منگیری یادو کی حراست کو بر قرار رکھا گیا تھا۔ یادو کو جھارکھنڈ کرائم کنٹرول ایکٹ 2002کے تحت بیڈ کیرکٹر شخص ڈکلیئرکیا گیا تھا ۔ بنچ نے 10جو لائی کو دی اپنے حکم میں کہا کہ قانون کی خانہ پوری پر تعمیل نہیں کی گئی اور یادو کو جھارکھنڈ کے صاحب گنج ضلع کی راج محل جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔بنچ نے کہا کہ بے دلیل حراست کو لیکر سبھی قانون سخت ہیں وہ ایسے کسی شخص کی شخصی آزادی پرروک لگاتے ہیں جسے بغیر کسی مقدمے کے سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے۔ ایسے معاملوںمیں ایک قیدی کے پاس صرف قانونی چارہ جوئی ہی ہوتی ہے ۔جھارکھنڈ کرائم...