اشاعتیں

جنوری 26, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اقلیتوں کی نظر اندازی پر پی ایم کے اجلاس میں ہنگامہ

وزیراعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی موجودگی میں بدھوار کوحکومت کی ہائی پروفائل اقلیتی کانفرنس میں جم کر ہنگامہ ہوگیا جب ایک شخص نے کھڑے ہو کر حکومت پر اقلیتوں کو نظر انداز کرنے کے الزام لگایا اپنی تقریر میں جب وزیراعظم اقلیتوں کے 15نکاتی پروگرام کے تحت کئے گئے کاموں کو لے کراپنی سرکار کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے جب ہی ایک شخص نے اسکیموں کو زمین پر نہ اتارنے کا الزام جڑ دیا۔ وگیان بھون میں وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن پروگرام کے دوران تقریر کے پیچ میں مشرقی دہلی سے تعلق رکھنے والے شخص ڈاکٹر فہیم بیگ نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ کی ایک بھی اسکیم حقیقی طور پر نافذ نہیں ہوئی ہے حالات یہ تھی کہ ایک طرف وزیراعظم اپنی تقریر فرما رہے تھے تو دوسری طرف یہ شخص یوپی اے سرکار کے دعوؤں کو چلا چلا کر جھوٹا قرار دے رہا تھا افراتفری کے درمیان سونیاگاندھی نے اس سے بات کرنی چاہی لیکن تب تک سیکورٹی عملہ اسے ہال کے باہر لے جاچکا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اقلیتی امور کے وزیر رحمان خاں کو احتجاج ظاہر کررہے شخص کی شکایت سننے کی ہدایت دی وزیر موصوف نے ڈاکٹر فہیم بیگ سے بات کرنے کے بعد صفائی پیش کی انہوں نے بتایا کہ

دہلی میں دن دہاڑے سب سے بڑی لوٹکتنا لوٹا کس نے لوٹا پتہ نہیں!

یہ دہلی کی سب سے بڑی لوٹ مار کی واردات ہے مسلح بدمعاشوں نے منگل کے روز دن دہاڑے دہلی کی سب سے بڑی لوٹ مار کو انجام دیا، ساتھ دہلی کے لاجپت نگر علاقے میں بدمعاش ایک فائننسر سے آٹھ منٹ میں آٹھ کروڑ روپے اور اس کی کار لوٹ کر چمپت ہوگئے کالکا جی کی باشندے راجیش کمار دوتاجروں کے مالی کام کاج کو دیکھتے ہیں منگل کی صبح 9 بجے وہ اپنی ہونڈا سٹی کار میں 4 ساتھیوں کے لاجپت نگر کی طرف جارہے تھے کہ ڈیفنس کالونی مارکیٹ کے پاس ایک ویگن آر کار ان کی کار سے ٹکرائی ان لوگوں میں جھگڑا شروع ہوگیا اور اس دوران دوسری ہونڈا سٹی کار ان کے پاس آکر رکی اس میں تین لوگ اترے اور ہتھیار دکھا کر راکیش سے کار کی چابی لی اور سبھی کو اتار کر کار سمیت فرار ہوگئے کار میں قریب8کروڑ روپے بھی لے گئے کار سے روپے نکالنے کے بعد دونوں کاروں کو موقعہ وار دات سے تھوڑی دوری پر چھوڑ گئے یہ کاریں غازی آباد دہلی سے لوٹی اور چرائی گئی تھی یہ دہلی کی سب سے بڑی مالی لوٹ ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بڑی لوٹ مار میں موڑ سسپنٹ اور تھریل کے کہانی بھی جڑ گئی ہے روز نئی باتیں سامنے آرہی ہے چونکانے والے پہلو یہ ہے کہ دہلی اب تک دہلی پولیس کے ہ

موضوع بحث بنا راہل گاندھی کا انٹرویو!

ایک انگریزی ٹی وی چینل ’ٹائمس ناؤ ‘میں راہل گاندھی کی اورنبے گوسوامی کے ساتھ ہوئی بات چیت دیکھ کر بہت دکھ اور مایوسی ہوئی۔ راہل گاندھی کے اس انٹرویو کا انتظار ہر کوئی کررہا تھا۔ پارلیمنٹ میں قدم رکھنے کے 10 سال بعد وہ پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر میڈیا کے چبھتے سوالوں سے روبرو ہوئے تھے۔ پارٹی میں بھلے ہی راہل نائب پردھان کے عہدے پر ہوں لیکن ان کی اصلی حیثیت سارا دیش جانتا ہے کے وہی کانگریس کی جانب سے پی ایم عہدے کے اکیلے دعویدار ہیں۔ مجھے اس انٹرویو سے زبردست مایوسی ہوئی اور دکھ بھی۔ گوسوامی جیسے منجھے ہوئے اینکر کے سامنے راہل کا وہ حال تھا جیسے شیر کے سامنے میمنے کا ہوتا ہے۔ ایک انگریزی تجزیہ نگار چینل کو پہلا انٹرویو دینا ہی میری رائے میں غلط تھا۔ اگر انٹرویو دینا ہی تھا تو کسی ہندی چینل وہ بھی جو تھوڑا کانگریس کے تئیں وفاداری رکھتا ہو اس کو دینا چاہئے تھا۔ انگریزی چینلوں کو دیش کے سب سے زیادہ انگریزی بولنے والے لوگ دیکھتے ہیں یہ بیشک اثر تو رکھتے ہیں لیکن کثرت سے ووٹ دینے نہیں نکلتے۔ پھرراہل نے وہی رٹی رٹائی کہانی پر بولا۔ سوال کچھ تھا جواب کچھ۔ راہل گاندھی نے سارا زور خواتین اور ن

آسمان سے گرے کھجور پہ اٹکے نتیش کمار!

بہار میں کانگریس نے اپنے پرانے وفادار اتحادی ساتھیوں کے ساتھ پھر سے مل کر 2014ء لوک سبھا چناؤ لڑنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ شری لالو پرساد یادو اور رام ولاس پاسوان کی پارٹیوں کے ساتھ چناوی اتحاد تقریباً طے ہے۔ صرف خانہ پوری اور اعلان باقی ہے۔ کانگریس ، آر جے ڈی، ایل جے پی کے لیڈروں کی ایک میٹنگ جلد ہونے والی ہے جس میں سیٹوں کے بٹوارے کے خاص اشو پر بات چیت ہوگی۔ وہیں آر جے ڈی سے تال میل اور کامن اشو اٹھائے جاسکتے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کا حال ہے وہ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔آسمان سے گرے کھجور پہ اٹکے۔ نتیش کمار نے بڑی دھوم دھام سے بھاجپا سے اپنا سالوں پرانا اتحاد نریندر مودی کی امیدواری کو لیکرتوڑا تھا۔ اس کے توڑنے کے بعد اقلیتوں کی گود میں بیٹھ گئے اور کئی دنوں تک نریندر مودی کو گالیاں دیتے رہے۔ آج نہ تو کانگریس ان کو ساتھ لے رہی ہے اور نہ ہی اقلیتیں۔ نتیش کو کانگریس سے بڑی امید تھی کہ شاید وہ انہیں بہار کے لئے خصوصی درجہ و پیکیج دے دے۔ کانگریس نے نتیش کا خوب استعمال کیا۔ ان سے آئے دن نریندر مودی کو گالیاں دلوائیں اور آخر میں بابا جی کا ٹھلو دکھا دیا۔ رہا سوال اقلیتوں کا ، ہمیں نہ

لوک سبھاچناؤ ریس میں نریندر مودی۔ بھاجپا ابھی تک سب سے آگے!

جیسے جیسے 2014ء لوک سبھا چناؤ قریب آتے جارہے ہیں سبھی بڑی پارٹیاں اپنی چناؤ مہم تیز کرتی جارہی ہیں۔ ٹی وی چینل اپنے اپنے جائزوں میں بھی تیزی لا رہے ہیں۔ تازہ سیاسی پوزیشن کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی ریس میں اول نمبر پر چل رہی ہے۔ ’آپ‘ پارٹی کا گراف جتنی تیزی سے دہلی اسمبلی چناؤ میں بڑھا تھا وہ آہستہ آہستہ گر رہا ہے۔ جنتا کا پارٹی سے تیزی سے کریز ختم ہورہا ہے۔ جیسا کہ کچھ لوگوں کو امید تھی لوک سبھا چناؤ میں کیجریوال اینڈ کمپنی بڑا دھماکہ کرسکتی ہے، اب انہیں کا کہنا ہے کہ کیجریوال اینڈ کمپنی سے انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ جس ڈھنگ سے کیجریوال نے دہلی کی حکومت چلائی ہے اگر ایسی سرکار اتحاد سے مرکز میں بھی چلائیں گے تو یہ دیش کے لئے انتہائی افسوسناک ہوگا بلکہ تباہ کن ہوگا۔’آپ‘ پارٹی کی خراب کارگزاری کا سیدھا فائدہ دونوں بھاجپا اور کچھ حد تک کانگریس کو پہنچ رہا ہے۔ جنتا اب کھلے عام کہنے لگی ہے کہ ’آپ‘ پارٹی کی سرکار سے تو شیلا دیکشت سرکار بہتر تھی۔ قومی سطح پر بھی کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اب کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور دن رات کڑی محنت میں لگے ہوئے ہیں لیکن آج کے حالات میں بھارتیہ جنتا پا

4 کروڑ نئے ووٹر طے کریں گے 2014ء لوک سبھا چناؤ کا نتیجہ!

یہ اچھا اشارہ ہے کہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے والا نوجوان ووٹر اب دیش کی حالت اور سمت طے کرنے میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ حال ہی میں ختم ہوئے پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں یہ ثابت ہوا ہے ان ریاستوں میں ووٹر ٹرن آؤٹ پانچ فیصدی سے لیکر 14 فیصدی تک نوجوان ووٹروں میں اضافہ ہوا ہے۔ دہلی چناؤ کی اگر بات کریں تو یہاں ووٹروں نے سب سے زیادہ حق رائے دیہی کا استعمال کیا ہے۔ اکتوبر2012ء میں جہاں 18-19 سال کے ووٹروں کی تعداد50 ہزار تھی وہی نومبر2013ء میں یہ تعداد 4.05 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ ہی نہیں چناؤ کے بعد 50 ہزار سے زیادہ ایسے ووٹروں کی درخواستیں آئی ہیں چناؤ کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق دہلی میں 66فیصدی ریکارڈ پولنگ ہوئی۔ ان میں18سے 21 برس کے ووٹروں کی ساجھیداری 73 فیصد رہی۔ پولنگ میں نوجوان لڑکوں کی ساجھیداری 78فیصدی رہی جبکہ لڑکیوں کی تعداد 67 فیصدی رہی۔ کلی طور پر پولنگ میں عورتوں کی پولنگ میں بھی 8.5فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ دہلی کے چیف الیکٹرول افسر وجے دیو کے مطابق ووٹر پہلے سے زیادہ بیدار ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2014ء لوک سبھا چناؤ میں نوجوانوں کا دل جیتنے والی ہی پارٹی می

لیک سے ہٹ کر صدر محترم کا چیتاونی بھرا سیاسی ایڈریس!

صدر پرنب مکھرجی نے یوم جمہوریہ کے موقعہ پر سنیچر کو دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ان کی سرکار کا نام لئے بغیر ’آپ‘ سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ صدر محترم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا بہتر انتظامیہ کا متبادل لوک لبھاون بد امنی نہیں ہوسکتی۔یوپی اے سرکار کے سنکٹ موچک رہے پرنب مکھرجی نے پوری طرح سے سیاست سے لبریز ماحول میں تقریر بھی سیاسی ہی کی۔صرف اسکیموں اور پالیسیوں پر مرکوز نہ ہوتے ہوئے انہوں نے دہلی اور دیش کے حالیہ واقعات پر بیباک تبصرے کئے۔ صدر نے اپنی تقریر میں کسی سیاستداں یا پارٹی کا نام تو نہیں لیا لیکن نشانے پر خاص طور پر پچھلے دنوں خوشگوار ناگزیں واقعات سے سرخیوں میں چھائی رہی عام آدمی پارٹی کی پالیسیاں اور اس کے عمل تھے۔ بھاجپا کی سیاست کو بھی انہوں نے نہیں بخشا۔ بھاجپا کے امکانی موقع پرست اتحاد سے بھی ہوشیار کیا۔ پچھلے دنوں آئے چناوی تجزیوں میں جس طرح بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا کی چناؤ بعد اتحادسے سرکار بننے کے امکان دکھائی دے رہے ہیں اس سے بھی انہوں نے زوردار الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ منموجی موقعہ پرستوں کے حوالے مخلوط سرکار بننے پر اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا

امریکہ میں تو ہر پانچویں خاتون آبروریزی کا شکار!

پوری دنیا میں ہی آبروریزی کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہم اپنے دیش میں اور دہلی میں آبروریز افراد کو لیکر حیران پریشان ہیں لیکن دنیا کے سب سے بڑے طاقتور اور خوشحال ملک امریکہ میں ان واقعات کے اعدادو شمار دیکھ کر تو ہم چوک گئے ہیں اوررپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر ایک پانچ میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں آبروریزی کاشکار ہوتی ہے اور آدھی سے زیادہ عورتیں 18 سال کی عمر سے پہلے ہی اس حملے کا سامنا کرتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سبھی طبقوں ،نسلوں اور دیش کی عورتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن کچھ عورتیں کو دیگر کے مقابلے زیادہ شکار ہوتی ہیں۔33.5 فیصدی کثیر نسلی عورتوں سے آبروریزی کی گئی ہے جبکہ امریکی بھارتی نژاد اور الاسکانیو 27فیصد عورتوں کا ہوس کا شکار بنایا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آبروریزی کی شکارہونے والی زیادہ تر عورتوں پر ان کے واقف کاروں نے ہی یہ حملہ کیا اور98 فیصدی حملہ آور مرد تھے۔قریب2 کروڑ 20 لاکھ امریکی عورتوں اور 16 لاکھ مردوں کو اپنی زندگی میں آبروریزی کا شکار ہونا پڑا ہے۔ وائٹ ہاؤس کونسل کی صدر براک اوبامہ کی صدارت میں ہوئی کیبنٹ سطح ک

گرماتا اترپردیش کا سیاسی اکھاڑا!

گورکھپور اور وارانسی میں دوری 200 کلو میٹر کی ہے لیکن جمعرات کو سپا پرمکھ ملائم سنگھ یادو و بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی نے ایک دوسرے پر تلخ الفاظوں کے تیر چلائے تو لگا کہ دونوں نیتاؤں کے منچ آمنے سامنے سجے ہیں۔ حملے ایک دوسرے کو حیثیت یاد دلانے کی حد تک پہنچ گئے۔اترپردیش کا سیاسی میدان بھاجپا بنام سپا میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ حالانکہ جمعرات کو مودی بنام ملائم سیاسی جنگ نظر آئی ۔دونوں نیتاؤں کی یہی کوشش رہی کہ یوپی کی چناوی جنگ میں کانگریس کو اہم مقابلے سے دور رکھا جائے۔ صرف الفاظ سے ایک دوسرے پر حملے نہیں ہوئے بلکہ ووٹوں کے انتظام کیلئے ہر بات پر نظر بھی ٹکی رہی۔ جمعرات کو ہی امیٹھی میں راہل گاندھی بھی پہنچے اور منشی گنج گیسٹ ہاؤس میں مقامی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں بھونپو نہیں ہوں‘‘۔ ان کے پتا سورگیہ راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ بس کام کرنا بھونپو مت بننا۔ کانگریس دیش کے لئے ایک ویژن لیکر چل رہی ہے جو کچھ وقت بعد دکھے گا۔ دراصل دونوں ملائم سنگھ یادو اور راہل گاندھی کی چنتا اس سے بھی بڑھ گئی ہوگی کہ تمام میڈیا سرووں میں لگاتار نریندر مودی اور بھاجپا کی

اور اب پشچمی بنگال کی بربرپنچایت نے اجتماعی آبروریزی کروائی!

ایک بار پھر بربر پنچایت کا ایک شرمناک فرمان سننے کو ملا ہے۔ قصہ ہے پشچمی بنگال کے ویر بھوم ضلع کا۔ ضلع کے لامپور بلاک میں ایک آدی واسی لڑکی کو منگلوار رات دوسری ذات کے نوجوان کے ساتھ بیٹھے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں کو پیڑ سے باندھ کر پنچایت بلائی گئی۔ پنچایت نے دونوں کے پریوار والوں سے 25-25 ہزار روپے جرمانے کی رقم دینے کو کہا۔ نوجوان کے پریوار والوں نے جرمانے کی رقم دے دی اور اسے چھوڑ دیا گیا لیکن لڑکی کے پریوار نے تین ہزار روپے دیکر باقی رقم نہیں ہونے کی بات کہی تو پنچایت کے حکم پر اس کے ساتھ 12 لوگوں نے اجتماعی زنا کیا۔ بدھوار کو وہ خون سے لت پت ایک جھونپڑی میں ملی۔ پریوار کے معاملہ درج کرانے کے بعد حکم دینے والے پنچایت پرمکھ و سبھی زانیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ لڑکی کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ پڑوس کے گاؤں کے ایک غیر آدی واسی لڑکے سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی خود آدی واسی تھی۔ سوموار رات لڑکا شادی کا پیغام لیکر اس کے گھر آیا۔ گاؤں والوں نے لڑکے کو دیکھ لیا۔ سب کے سب اس کے گھر جمع ہوگئے اس کے بعد پنچایت بیٹھی۔ پھر کیاہوا یہ اوپر میں نے بتا ہی دیا ہے۔ متاثرہ لڑکی نے بتایا گاؤں کے لوگ