اشاعتیں

جون 24, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پاک صدر بنام عدالتیں لڑائی بڑھتی جارہی ہے

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی عدلیہ آصف زرداری اور ان کی حکومت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئی ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے استعفے کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سپریم کورٹ نے نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے بھی سوال جواب شروع کردئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے معاملے میں دیش کی سپریم کورٹ نے اشرف سے سیدھا سوال کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں جانکاری منگانے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھیں گے یا نہیں؟ وزیر اعظم اشرف کو جواب دینے کیلئے دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے سبب سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو توہین عدالت کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اور بعد میں انہیں نا اہل قراردیا گیا اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ جسٹس نصیرالحق کی سربراہی والی تین نفری ججوں کی بنچ نے اپنے مختصر حکم میں کہا کہ اسے امید ہے کہ نئے وزیر اعظم عدالت کے حکم کی تعمیل کریں گے۔اگلی سماعت12 جولائی کو مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان کے صدر کو براہ راست گھیرنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ نے تو کھل کر کہا کہ صدر آصف علی زرداری کے پاس 5 ستمبر تک کا وقت ہے۔ اس دوران صدارتی محل میں سی

اناج سڑا تو جیل کی ہوا کھائیں گے افسر

جس دیش میں 20 کروڑ سے زائد لوگوں کو بھرپیٹ کھانا میسر نہیں ہوتا ،جہاں40 کروڑ سے زیادہ لوگ خط افلاس کی زندگی بسر کررہے ہوں وہاں لاکھوں ٹن اناج سڑجائے یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ میں اپنے بھارت مہان کی بات کررہا ہوں۔ ہمارے دیش میں 10.5 فیصدی اناج کا صحیح ذخیرہ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہوتا ہے۔ اس اشو کو لیکر عدالت نے بھی سرکاروں کی جم کر کھنچائی کی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ اترپردیش ہائیکورٹ کی لکھنؤ بنچ نے بدھ کو ایک اہم حکم سنا دیا۔ عدالت نے کہا اناج کے رکھ رکھاؤ میں لاپرواہی برتنے والے افسروں و ملازمین کے خلاف ایف آئی آر درج کر تفتیش کی جاسکتی ہے کیونکہ سرکاری املاک یا اناج کو نقصان پہنچانا آئی پی سی کے تحت جرم ہے۔ ساتھ ہی یہ جنتا کے بھروسے کو بھی کھونا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ہدایت جاری کرکے کھلے میں اناج رکھنے پر فوری طور پر روک لگادی ہے۔ عدالت نے کہا اناج نقصان ہونے پر اس کی وصولی سے متعلق اسٹاف یا افسروں کی تنخواہ کاٹی جائے۔ جسٹس دیوی سنگھ پرساد و جسٹس ستیش چندرا کی رہنمائی والی بنچ نے یہ حکم ایک رضاکار تنظیم پیوپل تنظیم کی پی آئی ایل پر دیا ۔ عدالت میں سرکا

ہمدردی پانے کیلئے ویر بھدر نے استعفیٰ دیا

24 سال پرانے کرپشن کے معاملے میں عدالت میں اپنے خلاف الزامات طے ہونے کے بعد شری ویر بھدر سنگھ نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا اور یہ استعفیٰ منظور بھی ہوگیا۔ جب راجہ صاحب پر الزام لگے تھے تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر الزام ثابت ہوتے ہیں تو انہیں کرسی چھوڑنے میں ذرا بھی ہچک نہیں ہوگی۔یوپی اے سرکار میں کرپشن کے الزام میں استعفیٰ دینے والے یہ تیسرے وزیر ہیں۔ ان سے پہلے اے ۔راجہ اور دیا ندھی مارن کرپشن کے الزامات کے چلتے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ پانچ بار ہماچل کے وزیر اعلی رہے 78 سالہ وزیر بھدر سنگھ کو استعفیٰ اس لئے دینا پڑا کیونکہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے خلاف ہماچل پردیش کی ایک عدالت نے کئی سال پرانے کرپشن کے ایک معاملے میں کرپشن اور مجرمانہ برتاؤ کا الزام طے کیا تھا حالانکہ کانگریس کا یہ ہی موقف تھا کہ عدالت نے ابھی ان پر الزام طے کئے ہیں کوئی سزا نہیں سنائی لیکن ویر بھدر سنگھ نے اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو تنقید سے بچانے کیلئے استعفیٰ دینا مناسب سمجھا۔ویسے اس کے پیچھے ہماچل پردیش کی سیاست بھی کام کررہی ہے۔ استعفیٰ دینے کے پیچھے ایک مقصدعہدے کا لالچ نہ ہونے کا پیغام دینے سے زیادہ اسے

آئی ایس آئی کے دباؤ میں پھر ماری پاکستان نے پلٹی

یو ٹرن لینے کیلئے پاکستان مجبور ہے وہ اپنی بات سے مکر جاتا ہے۔تازہ مثال کئی برسوں سے پاکستانی جیل میں سڑ رہے سربجیت سنگھ کی رہائی کی ہے۔پاکستانی میڈیا میں خبر آئی کہ سربجیت سنگھ کو رہا کیا جارہا ہے سربجیت کا خاندان جو برسوں سے اس کی رہائی کی مہم چلا رہا ہے ان کی خوشیوں کا ٹھکانا نہیں رہا اور مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں۔ بھارت سرکار نے بھی پاکستان حکومت کا شکریہ ادا کردیا۔ لیکن ڈراموں کے لئے اپنے منفرد اسٹائل میں پاکستان آخری وقت پلٹی کھا گیا اور اس نے یہ کہا کہ ہم نے تو سرجیت سنگھ کی رہائی کا فیصلہ کیا سربجیت کا نہیں۔پنجاب کے ترنترام ضلع میں پنڈگاؤں کے باشندے سرجیت سنگھ کو 1982 میں جاسوسی کے الزام میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فوجی عدالت میں ان پر مقدمہ چلا اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ 1989 میں سرجیت کے خاندان کے لئے کچھ راحت کی خبر اس وقت آئی جب پاکستان میں بے نظیربھٹو وزیر اعظم تھیں اور پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے سرجیت کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔ اس قید کی میعاد25 سال تھی۔ یہ سزا کاٹنے کے بعد سرجیت سنگھ کو2004 ء میں رہا ہوجانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ خا

پرنب مکھرجی کے بغیر کانگریس اور منموہن سرکار

مسٹر پرنب مکھرجی نے تقریباً چار دہائیوں کے بعد سرگرم سیاست سے منگل کے روز ٹاٹا کردیا۔ انہوں نے وزیر مالیات کے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ وزارت میں ان کا آخری دن تھا جب پرنب دا اپنی لمبی سیاسی زندگی سے رخصت ہوکر راشٹرپتی بھون میں نئی پاری کی شروعات کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کا افسوس ضرور ہوگا کہ وہ دیش کی معیشت کو ایسے حال پر چھوڑ رہے ہیں جب سامنے تاریک سرنگ نظر آرہی ہے۔ کچھ گھنٹوں پہلے ہی انہوں نے ریزرو بینک کی جانب سے بڑی رعایتوں کا اعلان بارے بتایا تھا مگر ریزرو بینک نے جو اقدامات سامنے رکھے ہیں وہ نہ تو عام جنتا میں اور نہ ہی ہماری معیشت میں کوئی نیا جوش یا سمت دے سکے؟ وجہ چاہے جو بھی رہی ہو یوپی اے II- سرکار کے آغاز سے ہی مسلسل اقتصادی سیکٹر میں بھارت پچھڑتا ہی چلا گیا۔ بازار اور اقتصادی تجزیہ نگار اور اقتصادی مشیر سبھی لٹکے پڑے پالیسی ساز فیصلوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور یہ سب تب تک ہوتا رہا جب وزارت مالیات کی کمان پرنب مکھرجی جیسے بڑے اور ماہر اقتصادیات کے ہاتھ میں رہی ہو۔ اب تو ان کی اہلیت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ سوال تو یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ یوپی اے II میں بحران پ

مصر کے نئے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی چنوتیاں

مصر کے 30سال تک بلا روک ٹوک حکومت چلانے والے حسنی مبارک کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد پہلی بار ہوئے صدارتی چناؤ میں ڈاکٹر محمد مرسی کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہیں 51.73 فیصدی ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے حریف و سابق وزیر اعظم احمد شفیق کو48.2 فیصد ووٹ ملے۔ جیسے ہی نتیجوں کا اعلان ہوا اسی وقت تحریر چوک میں آتش بازی کی جانے لگی۔ لوگ ڈھول بجا کر اپنی خوشیوں کا اظہار کرنے اترآئے لیکن مسلم برادر ہڈ کی جمہوری وفاداری کے بارے میں شبہ رکھنے والے بہت سے لوگ اس وقت صدمے میں تھے۔ مسلم برادر ہڈ تھوڑے سے فرق سے کامیاب ہوئی ہے اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مصر کی بڑی آبادی ان کے چناؤ سے خوش نہیں ہے کیونکہ پہلی بار جمہوری طریقے سے صدر کا چناؤ ہوا ہے۔ اس نکتہ نظر سے اسے تاریخی مانا جاسکتا ہے۔ لیکن اب مصر کی عوام کی پسند کے جمہوری اقتدار کا راستہ ہموار ہوچکا ہے۔ مصر میں حکمرانی کی تبدیلی نے جدید دور میں انقلاب کے امکان کے راستے کھول دئے ہیں۔ اس چناؤ سے مرسی نے اپنی مقبولیت اور مسلم برادر ہڈ نے مصر کی عوام پر اپنی پکڑ مضبوط ثابت کردی ہے۔ جس طرح حسنی مبارک کے خلاف پیدا وسیع عوامی مخالفت نے پوری عرب دنیا کے مزاج کو متاثر کیا اسی

ابوجندال عرف ابو حمزہ کی گرفتاری قصاب کے بعد سب سے بڑا کارنامہ

خطرناک دہشت گرد سید زیب الدین عرف ابو حمزہ عرف ابو جندال کو 21 جون کو دہلی کے اندرا گاندھی ہوائی اڈے سے گرفتار کرلیا گیا۔ دراصل ابو حمزہ کو سعودی عرب پولیس نے پکڑا تھا اور انہوں نے اسے دہلی آنے والی فلائٹ میں بٹھا دیا اور دہلی پولیس کو خبر کردی کہ حمزہ فلاں فلائٹ سے نئی دہلی بھیجا جارہا ہے۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے اسے ہوائی اڈے پر گرفتار کرلیا۔ اجمل قصاب کے بعد ابو حمزہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے ۔ممبئی حملے کے وقت حمزہ کراچی میں واقع کنٹرول روم میں بیٹھے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ آتنک وادیوں کو ہدایت دے رہا تھا۔ اس نے قبول کیا ہے کہ اس حملے کی سازش کا ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمن عرف لکھوی کے ساتھ کام کیا تھا۔ ممبئی حملے کے بعد وہ کچھ وقت پاکستان میں رہا اور پھر سعودی عرب چلا گیاوہاں وہ بطور ٹیچر کام کررہا تھا۔ اس کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس کی جانب سے گرفتار انڈین مجاہدین کے 12 آتنک وادیوں میں سے ایک پاکستانی نژاد محمد عادل نے ابو کے بارے میں جانکاری دی تھی جس کے بعد اس کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ بھی جاری کیا گیا۔ ممبئی حملے کے دوران سکیورٹی ایجنسیوں نے لشکر طبیہ

یوروپ میں بڑھتا مسلم اثر

پچھلے دنوں فرانس کے صدر نکولس سرکوزی صدارتی چناؤ ہار گئے تھے۔ زیادہ تر لوگ سرکوزی کی ہار کی وجہ ان کے جنوبی نظریئے اورماڈل محبوب کارلا برونی سے عشق بتا رہے ہیں۔ ان کی ہار کو دکشن پنتھی اور لیفٹ نظریئے کی جیت کی شکل میں دیکھا جارہا ہے لیکن دراصل نکولس سرکوزی کو ہٹانے میں فرانس کے پروگیرسیو سوشلسٹ طبقے کے علاوہ تارکین وطن مسلمانوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ مغربی میڈیا جان بوجھ کر اس بات دبا یا نظرانداز کررہا ہے۔ نکولس کی جیت میں بھی مسلم دشمنی کا بڑا ہاتھ تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے جیتنے پر پیرس سمیت فرانس کے تقریباً ہر شہر میں بڑے پیمانے پر تشدد اور آگ زنی کے واقعات ہوئے تھے۔ شاید پہلا موقعہ تھا جب کسی فرانسیسی صدر کے جیتنے پر جشن کے بجائے ہر طرف آگ اور دھواں پھیل گیا تھا۔ نکولس لیون میں تو10 ہزار کاریں جلا دی گئیں تھیں۔ نکولا نے جیت کے لئے کیا گیا وعدہ پورا کیا اور فرانس میں حجاب اور نقاب پر پابندی لگادی۔ ان کے اگلے قدم پر چلتے ہوئے یوروپ کے کچھ اور ملکوں نے بھی برقع پر پابندی لگادی۔ ظاہر ہے کہ اس سے یوروپی مسلمانوں کے خلاف ماحول بن رہا ہے۔ مانا جارہا ہے کہ 9/11کا خاکہ جرمنی کے ہیمبرگ شہر م

قدرتی آفت یا پھر سازش کی آگ؟

سرکاری عمارتوں میں آگ لگنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ ہفتے ممبئی کے مہاراشٹر منترالیہ میں خوفناک آگ لگی تو ایتوار کو نئی دہلی کے انتہائی سکیورٹی زون والی وزارت داخلہ کے کمرے میں آگ لگنے کی اطلاع ملی۔ مہاراشٹر حکومت کے سچیوالیہ (منترالیہ) میں جمعرات کو زبردست آگ لگی جس سے اس چار منزلیں تباہ ہوگئیں۔ ان میں وزیر اعلی کے دفتر سمیت کافی کچھ جل کر خاک ہوگیا اور کم سے کم پانچ لوگوں کی موت ہوئی۔ ادھر نئی دہلی میں وزیر داخلہ پی چدمبرم کے دفتر کے پاس واقع نارتھ بلاک میں آگ لگی۔ اس میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ آگ میں کوئی سرکاری دستاویز نہیں جلا ہے۔ اس سے پہلے7 جون کو بھی نارتھ بلاک میں ہی واقع وزارت مالیات کے دفتر میں آگ لگی تھی جس میں دو کمروں میں رکھے دستاویز جل گئے تھے۔ آگ کمرہ نمبر102 کے پاس واقع بالکنی میں رکھے کچرے میں لگی تھی۔اتفاق سے اس دن چھٹی تھی پتہ نہیں کے آگ چھٹی کے دن ہی کیوں لگی؟ کیسے لگی؟ ممبئی میں منترالیہ میں جب آگ لگی تو اس میں نہ تو کوئی سکریٹری اور وزیر بلکہ وزیر اعلی تک منترالیہ میں ہی تھے جب منترالیہ میں آگ کی اطلاع ملی تو لوگوں کے دماغ میں پہلا سوال یہ آیا کیا یہ

ممتا کے پہلے کیبنٹ فیصلے کو عدالتی جھٹکا

جمعہ کو مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب کولکاتہ ہائی کورٹ نے ان کی حکومت کے ذریعے بنائے گئے سنگورلینڈ ری ہیبلٹیشن و ڈولپمنٹ ایسیٹ 2011 کو غیر آئینی اور ناجائز ٹھہرادیا۔ قابل غور ہے کہ مغربی بنگال میں سرکار قائم کرنے کے بعد ممتا بنرجی کی کیبنٹ کا پہلا فیصلہ تھا۔ سنگور کی زمین کسانوں کو لوٹانے تھیں۔ وہاں کی 997.3 ایکڑ زمین میں سے تقریباً 400 ایکڑ زمین کو غیر خواہشمند کسانوں کو مناتے ہوئے انہیں لوٹانے کی کوشش شروع کردی گئی۔ اسمبلی سے ایکٹ پاس کر نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ جب انتظامیہ نے زمین لوٹانے کی کارروائی شروع کی تو ٹاٹا گروپ عدالت چلا گیا۔ دراصل سنگور کی زمین کا اشو ممتا بنرجی کے لئے سیاسی طور سے ایک ناسور بن گیا تھا۔ سنگور کی زمین لوٹانے کے سوال پر ان کی تحریک سے بنگال میں زمین ایکوائر کا اشو کھڑا ہوا۔ اور سنگور اور اس کے بعد نندی گرام کی تحریکوں کے ذریعے ممتا بنرجی وزیر اعلی کی کرسی تک پہنچ گئیں۔ چناؤ جیت جانے کے بعد ممتا بنرجی کیلئے سنگور میں بس اتنا ہی کام باقی رہ گیا تھا کہ وہ کسانوں کو ان سے لی گئی زمینیں واپس دلوائیں اور باقی سب بھول جائیں۔ ان

راشد علوی جیسے دوست ہوں تو دشمنوں کی ضرورت نہیں

کانگریس ترجمان راشد علوی جیسے دوست ہوں تو کانگریس کو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ مراد آباد کی ایک چناوی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے راشد علوی نے کہا کہ ملائم سنگھ یادو بھاجپا کے ایجنٹ ہیں۔ یہ بات میں بہت پہلے سے کہتا آرہا ہوں ۔ میں پچھلے 10 برسوں سے بول رہا ہوں کہ اس دیش میں اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کا کوئی سب سے بڑا یجنٹ ہے تو وہ ملائم سنگھ یادو ہیں۔ اگر اس دیش میں بھاجپا کے اشارے پر کوئی ناچتا ہے تو وہ ملائم سنگھ یادو ہیں۔ سپا کا اس بیان سے ناراض ہونا فطری ہی تھا کیونکہ سپا جنرل سکریٹری رام گوپال یادو نے رد عمل کے طور پر کہا کہ علوی کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ پگلا گئے ہیں۔ پارٹی کے پردیش پردھان راجندر چودھری نے کہا کہ کانگریس اپنے ایم پی کو سبق سکھائے اور کانگریس کو سوچنا چاہئے کہ اسے علوی جیسے بددماغ اور بڑ بولے نیتاؤں کا علاج کیسے کرنا ہے۔راشد علوی کا بیان ان کی سیاسی غیر سنجیدگی اور بیمار ذہنیت کا عکاس ہے۔ وہ اتنے نادان ہیں کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ملائم سنگھ یادو کی لیڈر شپ میں سپا نے اگر فرقہ پرست بھاجپا کے خلاف مورچہ نہیں جمایا ہوتا تو مرکز میں یوپی اے سرکار نہیں ب

یہ صدارتی چناؤ کئی معنوں میں تاریخ رہے گا

راشٹرپتی بھون جانے کی دوڑ میں وزیر خزانہ اور یوپی اے کے امیدوار پرنب مکھرجی کا پلڑا بھاری ہے لیکن اس بار چناؤ کئی معنوں میں تاریخی ہونے جارہا ہے۔ نمبروں کا حساب کتاب پرنب دادا کے حق میں نظر آرہا ہے۔ ووٹوں کی کل تعداد 10.98 لاکھ ہے۔ پرنب مکھرجی کو 6.29 لاکھ ووٹ ملنے کی امید ہے اور پی اے سنگما کو3.10 لاکھ ووٹ مل سکتے ہیں۔ ان ووٹوں میں جنتا دل (یو) اور شیو سینا کے ووٹ پرنب دا کے حق میں شامل ہیں۔ ترنمول کانگریس نے ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ سنگما کو این ڈی اے (جنتا دل (یو) شیو سینا کے بغیر)243000 ،انا ڈی ایم کے اور بیجو جنتا دل 67000 ووٹ مل سکتے ہیں۔ حساب کتاب کے نکتہ نظر سے یوپی اے امیدوار کا جیتنا تقریباً طے ہے۔ اس چناؤ کو لیکر جہاں این ڈی اے تار تار ہوگیا ہے وہیں لیفٹ فرنٹ بھی بٹ گیا ہے۔ فارورڈ بلاک نے پرنب مکھرجی کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری اتحادی جماعت مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی اور آر ایس پی اے پولنگ سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی نے بھی پولنگ سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔بحث جاری ہے کہ پرنب مکھرجی کے نام پر مہر لگانے والی لابی نے زمین آسمان ایک کردیا ہے۔ بنگال ک