کسانوں کے دھرنے سے نیشنل ہائیوے جام ہونے کا معاملہ !
کسانوںکے دھرنے کے سبب دہلی کی سرحدیں بند ہونے سے لوگوں کی آمد و رفت میں ہو رہی پریشانی کولیکر سپریم کورٹ نے ناراضگی ظاہر کی ہے جسٹس این جے کول کی سر براہی والی بنچ نے کہا کسان آندولن والوں کو مظاہرے کرنے کا حق ہے لیکن وہ سڑکوں کی آمد و رفت بے میعاد تک بند نہیں کر سکتے مسئلے کے حل کے لئے مرکزی حکومت کو کچھ کر نا چاہئے ۔ بنچ نے مرکز ی حکومت پر متعلقہ ریاستی حکومتوں کو اس مسئلے کے حل کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا ہے نوئیڈا کی خاتون مونیکا اگروال کی عرضی پر بڑی عدالت نے یہ رائے زنی کی ہے عرضی گزار کا کہنا تھا کسان احتجاجیوں نے دہلی کی سرحدوں کو بند کر رکھا ہے اس وجہ سے اسے نوئیڈا سے دہلی آنے کے لئے جہاں پہلے 20منٹ لگتے تھے اب دو گھنٹے لگتے ہیں یہ مسئلہ دیگر لوگوں کے لئے بھی ہے پریشانی کے سبب بہت سے لوگوں کو نوکری چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے حالانکہ عرضی گزار کے موجود نہ رہنے کے سبب پیر کو سماعت 20ستمبر تک ٹال دی گئی ہے سپریم کورٹ نے ماضی گزشتہ میں بھی کئی فیصلے دیئے ہیں ان میں کسی بھی واقع کو طول دینے کے سبب اس طرح سے سڑک بند نہیں کی جا سکتی ایسے ہی شاہین باغ مظاہرہ معاملے میں کورٹ نے کہا تھا مظاہرین کو مظاہر ہ کرنے کا حق ہے مگر وہ سڑک کو لاک نہیں کر سکتے پھر بھی سڑکیں بند ہیں ؟سماعت کے دوران اتر پردیش سرکار نے دلیل دی ہے کہ کسانوں کو سمجھایا جا رہا ہے اور کچھ وقت دیا جائے اس پر جسٹس کول نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کا حلف نامہ پڑھا ہے آپ کو بہت وقت دیا جا چکا ہے کسان آندولن کاریوں کے سرکار کی پالیسی منظور نہیں ہے تو وہ اس وجہ سے سڑکوں پر آمدورفت بند کرکے لوگوں کو نقصان نہیں پہونچا سکتے مرکزی سرکار نے بھی اس مسئلے کے حل کے لئے تھوڑا وقت مانگا ہے اس پر عدالت نے مرکز ، یوپی ، ہریانہ سرکار کو دو ہفتے کا وقت دے دیا ہے چاہے سیاسی طور سے یا عدالتی طور سے مسئلے کو سلجھائیں لیکن سڑکوں کو کسی بھی صورت میں بند نہیں کیا جانا چاہئے جنتا کو سڑک بند ہونے کے سبب آنے جانے کی پریشانی ہو رہی ہے کسان پچھلے 8-9مہینوں سے سڑکوں پر ڈٹے ہوئے ہیں اور مسئلوں کو کوئی حل نہیں نکل رہا ہے اس سے پہلے نئے سرے سے کوشش کرنی ہوگی تاکہ کوئی بیچ کا راستہ نکل سکے اور زور زبردستی سے کسانوں کو ہٹانا صحیح نہیں ہوگا وہاں زیادہ تر بزرگ کسان ہیں کوئی سیاسی راستہ نکالیں تاکہ کسان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں